اخلاق و مروت سے انسانی حکمت ودانش کا بھی تعین ہوتا ہے، جن لوگوں نے جاہلی عربیوں کی تاریخ کا معمولی مطالعہ بھی کیا ہوگا انہیں عربوں میں حکمت و دانش کی معراج کا اندازہ ہوگا، بہت سے دیسی عمر رسیدہ حضرات زندگی کی تلخیاں برت کر حکمتوں بھری باتوں سے نوازتے رہتے ہیں، اور ہمارے نیم خواندہ اسے عبرت نامہ یا رہنمائے حیات سمجھ کر ساری زندگی سینہ سے لگائے صبح روشن کی جستجو کرتے رہتے ہیں ، حالانکہ یہ مایوس نامہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو برباد کرنے کا پورا سامان کررہا ہوتا ہے۔
کردار سازی یا شخصیت سازی کا سارا مدار فتوحات ذہنی کی کڑیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ جیسے ہر کامیابی ایک نئی کامیابی کی نوید ہے، ویسے ہی ہر ناکامی کا اگلا قدم ایک اور مایوسی کی جانب اٹھتا ہے۔ یہاں تفریق کی شدید ضرورت ہے، ورنہ بصورت دیگر اخلاق و مروت یا تو تکلف کا مظہر رہ جائیں گے یا پھر حسرت جاں فقط۔
یہ سچ ہے کہ تکلف کی آمد سادگی کو رخصت کردیتی ہے اور تکلف کی نشونما مروت و سلیقہ مندی کے چشمہ سے ہوتی ہے، لیکن یہ بجائے خود کوئی ذریعہ نہیں، تصنع و تکلف ہمیشہ احساس محرومی سے پیدا ہوتے ہیں، احساس محرورمی جدید دور کا ایک وبائی اور عام مرض ہے جو انسان کو اندر ہی اندر گھائل کررہا ہے، اس تناظر میں محرومی کے بنیاد اسباب سیاسی اور معاشی برتری کی لالچ ہے، لہذا تکلف و تصنع کی روایت بھی انہی سرچشمہ سے پھوٹ کر اثرانداز ہورہی ہیں ۔ اورعقل، سوچ، صلاحیت، قابلیت الغرض تمام انسانی خصوصیات کا رشتہ اقدار سے توڑ کر غیر فطری اصولوں سے وابستہ کرچکی ہے، چنانچہ آج کے دور میں Civilized ہونے کا مطلب ہوگا، جو معاشی یا سیاسی برتری حاصل کرچکا ہو، اس زاویہ نگاہ سے جب دینی اقدار کے پیکر میں کسی "شخصیت" کی رونمائی ہوتی ہے تو اسے قبول کرنے میں ایک نامحسوس حجاب سامنے آجاتا ہے، اور واقعاتی تناظر میں ایک دھندلی یادداشت بن کر رہ جاتا ہے۔
شخصیت و کردار - عمر خالد

تبصرہ لکھیے