ہوم << علامہ اقبال اور تضاد - ابو فہد

علامہ اقبال اور تضاد - ابو فہد

ابوفہد ’’سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو
شرابِ کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
کئی پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں کہ اقبال کے یہاں تضاد ہے، بلکہ کئی تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ تضاد ہی اقبال کی پہچان ہے اور یہی چیز اقبال کو بڑا بناتی ہے۔
کیا درج بالا اشعار اقبال کے یہاں تضاد کی واضح مثال ہیں؟‘‘
..............................................................
نوٹ: گزشتہ دنوں جب میں نے اپنے فیس بک پیج پر یہ پوسٹ لگائی (جس میں مذکورہ تینوں اشعار اسی ترتیب اور اسی کیپشن کے ساتھ رکھےگئے تھے )تو اس پوسٹ کے تعلق سے کئی اہل علم نے مختلف خیالات اظہار کیا۔ کسی نے اس کو کھلا تضاد بتایا اور کہا کہ جب انسانی زندگی میں تضاد ہے تو ادب اس سے کیسے مبرا ہوسکتا ہے؟ ادب زندگی کا ترجمان ہی تو ہے۔ اور کسی نے اس کے بالکل برعکس، اسے ’ارتقاء ‘سے تعبیر کیا۔ کسی نے ’تنوع ‘بتا یا اور کچھ بس حیرانی کا اظہار کرکے رہ گئے ۔ میں نے درج ذیل مختصر سے مضمون میں اسی موضوع کو لے کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یہاں تضاد کی بات گرچہ اقبال کے حوالے سےکی گئی ہے مگر بالکلیہ ایسا نہیں ہے کہ ’تضاد‘ کا موضوع فکرِ اقبال کے ساتھ ہمیشہ کے لیے منسلک کیا ہوا ہے۔ اور ہم جب بھی تضاد پر بات کریں گے تو لازماً اقبال پر ہی یا اقبال کے حوالے سے ہی بات کریں گے۔
......................................................
یہ تنوع نہیں ہوسکتا کیونکہ تنوع تو کسی مثبت خیال،حکم یا عمل کی مختلف النوع اور مختلف الجہت صورتوں میں ہوسکتا ہے نہ کہ ایک ہی خیال، حکم یا عمل کی مثبت ومنفی صورتوں میں۔پانی لاؤ/اچھا مت لاؤ۔ یہاں ایک حکم کی دو صورتیں پائی گئیں، مثبت اور منفی، یہاں تنوع کہاں ہوا۔تنوع تو تب ہوتا جب پانی لانے کے حکم میں کئی نوعیتوں کا پانی اور پانی لانے کے عمل میں کئی طرح کے طریق کار شامل ہوتے۔
اسی طرح یہ ارتقاء یا تطور بھی نہیں ہے ۔ یہ بھی کسی مثبت حکم کی ایسی دو یا کئی مختلف صورتوں میں ہوسکتا ہے جن کے درمیان اعلیٰ وادنیٰ مدارج روا رکھے جاسکیں۔ اور ادنیٰ درجے کے بجائے اعلیٰ درجے والی شےکا حکم دیا جائے۔جیسے آپ کسی کو چائے کی دعوت دیں اور پھر بعد میں اسے کھانے کی دعوت سے تبدیل کردیں۔البتہ مثبت اور منفی کے درمیان ارتقاء یا تطور کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ بعد والا حکم خواہ وہ مثبت ہو یا منفی پہلے والے حکم سے بہتر ہو یا کم از کم اس کے مثل ہو، کمتر تو کسی بھی طرح نہ ہو۔ اگر کمتر ہوگا تو یہ تنزلی ہوجائے گی ،یہ ترفع ہر گز نہیں ہوگا۔جیسے آپ پارٹی کا اعلان کریں اور پھر اسے کینسل کردیں اور یہ کینسل کرنا پارٹی کرنے سے بہتر ہو۔ قرآن میں ہے: [pullquote]ما ننسخ من آیۃ او ننسہا نات بخیر منہا اور مثلہا۔[/pullquote] اللہ اپنے ایک حکم کو واپس لے لیتا ہے اور اس کے مثل یا اس سے بہتر حکم صادر فرما دیتا ہے ۔ اور ایسا اس لیے تھا کہ انسانوں کے مزاج اور نفسیات کے اعتبارسے یہی بہتر تھا۔
اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ اشعار اپنے باطن میں تضاد بھی نہیں رکھتے تو اس چیز کو سمجھنے کے لیے ذرا تفصیل میں جانا پڑے گا۔
خیال رہے کہ تضاد کئی بار محض ایک واہمہ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا یا پھر محض فکری التباسات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ قریب المخرج اور قریب المعنیٰ الفاظ اور بہت زیادہ مماثلتیں رکھنے والی چیزوں اور چہروں کو پہچاننے میں انسان دھوکہ کھاجاتا ہے۔ اور وہ آسانی سے درست نتائج تک نہیں پہونچ پاتا۔ اور کئی بار وہ اسے بھی تضادات کی فہرست میں شامل کرجاتا ہے جو دراصل تضاد ہوتا ہی نہیں ہے۔
اُس زمانے میں جب فقہ اسلامی کی تدوین ہورہی تھی ،اہل علم بال کی کھال نکالنے میں انتہاؤں تک چلے جاتے تھے اور اس چیز کو اپنے لیے فخر اور شان کی بات سمجھتے تھے ، اس وقت قرآن کے حوالے سے ناسخ ومنسوخ کی بحث بہت طول پکڑ گئی تھی بلکہ یوں کہیں کہ یہ بحث اپنی استدلالی بنیادوں پر شدت اختیار کرگئی تھی۔اس وقت کے کئی طالع آزماؤں نے کم وبیش ربع قرآن کو منسوخ قرار دے ڈالاتھا۔انہیں تقریبا ہر چوتھی یا پانچویں و چھٹی آیت اور حکم میں تضاد نظر آتا تھا۔ اور ان کے نزدیک اس کا بس ایک ہی حل تھا اوروہ یہ کہ دو متضاد آیتوں میں نزولی اعتبار سے جو مقدم ہے اسے منسوخ اور جو مؤخر ہے اسے ناسخ قرار دیدیا جائے۔
اس ضمن میں قارئین کو یہ جان کو حیرت ہوگی کہ اس انتہا پسندانہ رحجان کی زدمیں سو پچاس نہیں بلکہ پوری پانچ سو آیتیں آگئی تھیں، یعنی تقریبا چار پانچ پارے اور کل قرآن کا پندرہ فیصد۔سورۂ بقرہ ڈھائی پاروں پر مشتمل ہے اور اس میں کل دو سو چھیاسی آیات ہیں ۔ اس حساب سے پانچ سو آیتیں کم وبیش چار پانچ پاروں پر مشتمل ہوں گی۔
بعد میں علامہ سیوطی نے فرمایا کہ صرف اکیس آیتیں منسوخ ہیں، ڈاکٹر صبحی صالح نے کہا کہ صرف دس آیتیں ہی منسوخ ہیں۔یہاں تک شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے خلاصہ کیا کہ صرف پانچ آیتوں میں نسخ واقع ہوا ہے۔ اور اہل علم نے ان کی تصویب بھی کی۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا مناسب ہوگا کہ تضاد کئی بار محض واہمہ اور فکری التباسات کا نتیجہ ہوتا ہے۔چنانچہ کئی لوگوں کو سورۂ بقرہ کی درج ذیل دوآیتوں میں تضاد نظر آتا ہےاور وہ ان سے متعلق سوالات کرتے رہتے ہیں۔[pullquote] تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ﴿٢٥۳﴾ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِہ ۚ ﴿٢٨٥﴾[/pullquote] جبکہ اہل علم جانتے ہیں کہ ان دونوں آیتوں میں سرے سے کوئی تضاد ہےہی نہیں ۔
زندگی خاصی طویل بھی ہے اور بہت پرپیچ بھی، مستزاد برآں یہ کہ آدمی کی صلاحیتیں ، فکرونظر اوراس کا علم کل کائنات کو اور کنہ کے تمام سروکاروں کو محیط نہیں، اس لیے اس کے خیلات وآراء میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں، آدمی ایک وقت میں ایک چیز کو صحیح سمجھتا ہے اور دوسرے وقت میں دوسری چیز کو۔ اور ہم اس تبدیلی کو جو کئی بار بہت واجب بھی ہوتی ہے تضاد سے تعبیر کرجاتے ہیں۔اقبال کے حوالے سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اقبال سوٹ بوٹ میں رہتے تھے، مغرب میں تعلیم حاصل کی اور نوبل پرائز پانے کی تمنا بھی پالی مگر دوسری طرف مغرب پر اور جمہوری طرز حکومت پرتنقید کرتے رہے اور مشرق کے گن گاتے رہے، یہاں تک کہ اپنی لے کو حجازی لے بھی قراردیا۔خاکِ مدینہ ونجف کو سرمہ سمجھ کر اپنی آنکھوں میں لگایا۔اور یہ تو کھلا تضاد ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسے تضاد کیوں سمجھا جائے۔مغرب اور مشرق میں جو کچھ اچھا تھا انہوں نے اسے اچھا کہا اور جو غلط تھا اسے غلط کہا۔اور سوٹ بوٹ کو فکر کے مقابل رکھنا شاید زیادتی ہوجائے گی۔
یہاں ایک اوربڑا مسئلہ تحفظاتِ ذہنی کا ہے جسے اصطلاح میں معہودِ ذہنی کہتے ہیں ، معہود ذہنی پر نظر نہ ہونے کی وجہ سے چیزوں کی حقیقت کئی بار نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ جیسے ایک شخص زمین کے کسی ٹکڑے کے بارے میں یہ دعویٰ کرے کہ یہ زمین اس کی ملکیت ہے ، اس پردوسرا آدمی یہ کہہ کر اس کے دعوے کی تردید کردے کہ تم غلط کہتےہو ،زمین تو ساری کی ساری اللہ کی ہے۔زمین کا مالک تو اللہ ہے ، تم اس کے مالک کیسے ہوسکتے ہو۔ایسا کہنے والے نے معہودِ ذہنی کو نہیں سمجھا، کیونکہ جو شخص زمین کی ملکیت کا دعویٰ کررہا ہے وہ اس زمین پر خدا کی ملکیت کا انکار نہیں کررہا ہے، اس کے ذہن میں یہ بات پہلے ہی سے موجود ہے کہ زمین کا حقیقی مالک تو اللہ ہی ہے، وہ تو صرف عارضی مالک ہے۔ اور اس کا دعویٰ اِسی عارضی ملکیت کے حوالے سے تھا۔اگر دوسرے شخص کو اِ س معہودِ ذہنی کا علم ہوتا تو اسے اشکال پیدا نہ ہوتا۔تو کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی لفظ یا حکم سے ایک شخص ابتدائی معنیٰ مراد لے لیتا ہے اور دوسرا انتہائی معنیٰ۔جبکہ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیک وقت دومختلف باتیں اپنے اپنے مخصوص دائرۂ کار میں درست ہوجاتی ہیں۔ ’’پیٹ بھرجاتا ہے‘‘ اور ’’پیٹ کبھی نہیں بھرتا‘‘۔ یہ دونوں باتیں اپنے اپنے مخصوص دائرۂ کار میں درست ہیں۔ کیونکہ د وتین روٹی کھالینے سے پیٹ عارضی طورپر بھرجاتا ہے، مگر دو تین گھنٹے بعد یہی پیٹ پھر سابقہ حالت پر لوٹ آتا ہے اور اس طرح یہ بات بھی درست ہوجاتی ہے کہ ’’پیٹ کبھی نہیں بھرتا‘‘۔ آخر اسی بالشت بھرپیٹ کو بھرا رکھنے کے لیے آدمی ساری عمر گردش میں رہتا ہے۔ یہ اس وقت ہے جبکہ پیٹ سے پیٹ ہی مراد لیا جائے نہ کہ خواہش۔
یہاں اس کائنات میں کوئی شئے اکہری معنویت کی حامل نہیں ، اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ یہاں ہر چیز ملٹی پرپز ہے۔ ہر چیز کے کئی پہلو ہیں بلکہ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں ہم ایک دوسرے کا متضاد سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایک بار ایک چیز کو اس کے بعض مثبت پہلؤں کے باعث قبول کرلیتے ہیں اور دوسری بار اسی چیز کو اس کے بعض منفی پہلؤں کے باعث رد کر دیتے ہیں۔بظاہر یہ عملی تضاد ہے مگر اسے تضادکیوں سمجھا جائے یہ تو انسانی فطرت میں اسی طرح واقع ہوتا ہے جس طرح کائنات میں دن اور رات اورانسانی فطرت میں خیر اور شر۔ تضاد کی ایک بڑی مثال تو شاید یہ ہے کہ ایک ہی فن پارے کو دس لوگ’ شاہکار‘ کہتے ہیں اور دوسرے دس محض ’بکواس‘۔اسی طرح اگر ایک ہی شخص کسی فن پارے کو ایک بار شاہکار کہے اور دوسری بار بکواس تو یہ بے شک تضاد ہوگا۔لیکن اگر وہ ایک بار بہتر اور دوسری بار بہت بہتر کہتا ہے تو یہ تضاد نہیں ہوا۔تضاد کی بڑی مثال تو یہ ہے کہ انسان نےاپنی حفاظت کے لیے ایٹم بم بنائے جبکہ یہی اس کی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔یسرالمرأ ما ذہب اللیالی ... وکان ذہابہن لہ ذہابا۔ رات گزرجاتی ہےتو آدمی خوش ہوتا ہے حالانکہ رات کا گزرناخود اس کی زندگی کے ایک حصے کے گزرنا ہے۔حالانکہ ہر آدمی زیادہ سے زیادہ جینا چاہتا ہے اور پھر بھی رات کے گزرنے یعنی زندگی کے ایک حصے کے گزرنے سے خوش ہوتا ہے۔
پوسٹ میں مذکور تینوں اشعار میں ہر شعر کا سیاق وسباق الگ ہے، دائرۂ کار الگ ہے اور معانی بھی الگ ہیں، پس منظر مختلف ہے اور پیش منظر بھی جد اہے۔ او ر جب ایسا ہے تو پھر ان تینوں کو ایک دوسرے کے مقابل کیوں رکھا جائے۔ان میں ایسی نسبتیں کیوں نہ تلاش کی جائیں جو انہیں جزوی طور پر ایک دوسرے سے الگ کرتی ہیں اورجزوی طور پر ایک دوسرے سے قریب اور منسلک کرتی ہیں۔
’’... جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹادو‘‘ یہ شعرظلم واستحصال پر مبنی نظام کے پس منظر میں لکھا گیا ہے اور اس سے مراد قدیم روایات وتہذیب کی باقیات الصالحات کو مٹانا ہرگز نہیں ہے، اس میں ’’نقشِ کہن ‘‘ کی صرف ایسی تصویر کو مٹانے کی بات ہے جو بدی کا محور بنی ہوئی ہے اور اللہ کی مخلوق کےلئے باعث زحمت ہے۔
’’شرابِ کہن پھر پلا ساقیا ...‘‘ اس میں ان قدیم روایات کی ان روشن قدروں اور اعمال کے اعادے کی بات ہے جن سے پچھلی دنیا روشن تھی اور جن سے آج کی چمچماتی ہوئی تاریک دنیا کو بھی روشن کیا اور رکھا جاسکتا ہے۔
’’آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا ...‘‘ اس میں انسان کی ایسی نفسیات سے بحث کی گئی ہے جو اکثروبیشتر انسان کو مخمصوں میں مبتلا رکھتی ہیں اور خیروشر میں خطِ امتیاز کھینچنے کی انسانی صلاحیت کو کند بنادیتی ہیں۔انسان کی افتادِ طبع کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ اسے کچھ خاص چیزوں، وقتوں اور حالات سے گہری انسیت اور محبت پیدا ہوجاتی ہے، لہذا جب اس کے مقابل کوئی دوسری چیز سامنے لائی جاتی ہے جس سے وہ غیر مانوس ہوتا ہے تو قطع نظر اس سے کہ یہ چیز اس کے لیے سود مند ہے یا سودمند نہیں ہے، اس کی طبیعت اس سے وحشت کھاتی ہے اور وہ اسے کم از کم پہلے مرحلے انگیز نہیں کرپاتا۔ جبکہ کئی لوگوں کا مزاج اس کے برعکس بھی ہوتا ہے وہ ہر چمکتی ہوئی چیز کی طرف لپکتے ہیں اور پہلے مرحلے میں ہی لپکتے ہیں، اب چاہے وہ سراب ہی کیوں نہ ہو۔اسی لیے اقبال نے کہا کہ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی، انہوں نے بلبل کوفقط آواز کہا اورطاؤس کوفقط رنگ۔اس سے بلبل اور طاؤس کی ہجو مقصود نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ آواز پر فریفتہ ہونے پہلے اور رنگ پر ریچھنے سے قبل آواز اور رنگ کے پس پردہ بھی دیکھ لینا چاہیے۔
یہ شعر ماقبل کے دونوں اشعار کے درمیان امتیاز پیداکرنے کی صفت کو اجاگر کرنے کے لیے ہے اور ’’آئینِ نو‘‘ اور ’’طرزِ کہن‘‘ کے ان مواجہتی لمحات میں انسان کو باخبر رکھنے کے لیے ہےجن میں انسان اکثر وبیشتر شتابی یا غیر آمادگی کا شکار رہتا ہے۔ یہ شعر بتا رہاہے کہ ’’نقشِ کہن ‘‘میں جو حرف غلط ہے اس کو مٹادینا چاہئے اور ’’شراب کہن‘‘ میں جو حرف محکم ہے اسے قائم رکھنا چاہئے۔یہ تو ایک طرح سے پہلے دونوں اشعار کی تشریح ہے۔
یہ بات بھی گرہ میں باندھ لینے کی ہے کہ اگر ہم تضادات کے پیچھے ہی پڑے رہیں گے تو کلامِ اقبال کا معتدبہ حصہ تضادات کی نذر ہوجائے گا۔اور اس کی مثال سابق میں گزر چکی ہے ، کلام اللہ کے ساتھ ایسا ہوبھی چکا ہے۔ اقبال ایک جگہ مذہبی قیادت پر ’’ملا‘‘ کی بھپتی کستے ہیں، مولویوں کو دورکعت کا امام بتاتے ہیں اور ان کی طرف نادانی کی نسبت کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اسی قیادت کے بارے میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسی دریا سے گاہے گاہے ایسی موج بھی اٹھتی ہے جس سے نہنگوں کے نشیمن تہہ وبالا ہوجاتے ہیں۔وہ اپنی یادداشت پر زور ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے قدسیوں سے سنا ہے کہ یہ شیر ایک بار پھر بیدار ہوگا۔ظاہر ہے کہ اس ’’شیر‘‘ سے مراد ملّا کا ہی کوئی اعلیٰ روپ ہے۔
صوفی کے لیے کہتے ہیں کہ یہ نرا صوفی رہ گیا ، اس سے روشن ضمیری رخصت ہوگئی،یہ عجم کے خیالات میں کھوگیا اور دوسری طرف اسی صوفی کے لیے کہتے ہیں کہ رومی جیت گیا اور رازی ہار گیا اور اپنی تمام تر خرمندیوں اور احساسِ فتح مندیوں کے باوجود بھی ہارگیا۔دوسری جگہ وہ ایک کلیم کولاکھ حکیموں کے مقابل کھڑا کرتے نظر آتے ہیں۔ لاکھ حکیم سر بجیب ... ایک کلیم سربکف ۔
یہ سب کیا ہے ؟یہ سب تضادنہیں ہے بلکہ کسی بھی قوم ، قیادت یا انسان کی روایات، تاریخ ، تہذیب، نفسیات، عقائدوخیالات اور اس کی عقلیات کے تاریخی تسلسل میں جو عروج و زوال ہوتے ہیں،ان کے درمیان جوفرق مراتب اور درجات ہوتے ہیں، مختلف حالتیں ہوتی ہیں۔ انسان کا کیا ہے ؟ اٹھے تو شہہ پرِ یزداں، گرے تو شیطاں۔ اس شہہ پرِ یزدانیت سے لے کر شیطانیت تک کی جو مختلف سطحیں ہیں، بظاہر مختلف نظرآنے والے اشعار میں انہی مختلف سطحوں، ذہنی اور وہبی صلاحیتوں کی مختلف حالتوں کا بیان اور اظہارہے۔