ہوم << مولانا سید ابو الاعلی مودودی ایک عہد ساز شخصیت. محمد وقاص خان

مولانا سید ابو الاعلی مودودی ایک عہد ساز شخصیت. محمد وقاص خان

سید مودودی کے بارے میں عالم اسلام کے بطل جلیل اور مصر کے مشہور عالم دین علامہ یوسف القرضاوی رقم طراز ہیں کہ
مولانا مودودی جیسا عظیم انسان ، جو مفکر بھی ہو مجدد بھی ایک اسلامی تحریک کا داعی بھی ہو اور اس کا خالص اپنا سوچنے کا انداز بھی ہو ، اپنا خاص مزاج بھی ہو اور اس نے اپنی فکر کسی سے ادھار بھی نہ لی ہو ایسے عظیم انسان کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے ناقدین اور مخالفین نہیں ہونگے۔( سید مودودی ، مفکر ، مجدد ، مصلح ص 99
واقعہ یہی ہے کہ سید کے مخالفین ہر دور میں رہے ہیں لیکن سید کی یہ مخالفت سید کے حق میں ہمیشہ اللہ تعالی کی رحمت ہی ثابت ہوتی رہی ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ سید کے ان مہربانوں کے ذریعے ہی سید کا تعارف دور دور تک پہنچا ۔
اس مخالفت نے لوگوں کے اندر تجسس کو جنم دیا اور جب لوگ سید کی کتب کا مطالعہ کرتے تو ان کی تحریر کے گرویدہ ہو جاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ تنگ آکر ان ناقدین نے اپنے پیرو کاروں کو سید کے لٹریچر کے قریب بھی پھٹکنے سے منع کر دیا
جماعت اسلامی ضلع ہری پور کے سابق امیر مولانا عبد الحق مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ زمانہ طالب علمی میں مجھے سید مودودی سے نفرت تھی اور میں ان کا شدید ناقد تھا ۔۔ وجہ یہ تھی کہ ہمارے اساتذہ مولانا کی کتب سے اقتباسات سنا سنا کر ہمیں بتایا کرتے تھے کہ دیکھو مودودی کتنا گستاخ ہے ۔۔۔ایک دن مولانا احمد علی لاہوری جو میرے استاد تھے کے ہاں میں گیا ۔۔جمعہ کا دن تھا اور میری ڈیوٹی لگی کہ جمعہ کا خطاب کروں میں نے ممبر پر بیٹھ کر سید پر تنقید کرنی شروع کی جب کہ سید مودودی صف میں بیٹھے یہ تنقید انتہائی شائستگی اور وقار سے سنتے رہے ۔۔۔۔ بعد میں مجھے اپنے رویے پر شرمندگی ہوئی اور میں نے ان کی کتب کا مطالعہ شروع کیا اور مولانا کے کردار کے بعد ان کی تحریر کے سحر میں گرفتار ہو گیا ۔
شاہ پور کے مولانا اسماعیل کہتے ہیں کہ مجھے قرآن کی تفاسیر پڑھنے کا ذوق تھا ، قدیم و جدید تفاسیر زیر مطالعہ تھیں لیکن کچھ مقامات پر الجھنوں کا شکار تھا ۔ کسی نے تفہیم القرآن دیکھنے کا مشورہ دیا لیکن کئی علماء نے منع کر دیا ۔۔ لیکن میں نے جب تفہیم کا مطالعہ کیا تو نہ صرف یہ کہ میری الجھنیں صاف ہوئیں بلکہ میں سید کا گرویدہ بن گیا اور جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کر لی ۔
مولانا مودودی نے جدید دور کے ذہن کو پڑھا ، اسے سمجھا اور ایک حاذق طبیب کی طرح اس ذہن کو لاحق بیماریوں کا علاج کیا ۔ قدرت نے سید کو ایک غیر مرعوب اور آزاد ذہن دیا وہ نا تو اسلاف کی فکری غلامی میں مبتلا تھے اور نہ ہی مغرب کی ظاہری چمک دمک ان کی نظر کو خیرہ کرسکی ۔۔۔ وہ قرآن و سنت کے چشمہ صافی سے براہ راست فیض یاب ہوئے اور نوجوان نسل کو بھی اسی چشمہ سے سیراب کرایا ۔ اسلام کی حقانیت ان کے دل و دماغ کے تمام گوشوں میں رچ بس گئی تھی اور ان کی شریانوں میں خون کی طرح دوڑ رہی تھی ۔۔ یہ بلا کا یقین تھا کہ جس سے سرشار ہوکر وہ اٹھے اور کفر و تشکیک کے اس دور میں یہ آوازہ بلند کیا کہ اسلام آج بھی اتنا ہی قابل عمل ہے جتنا آج سے چودہ صدی قبل تھا ۔
سید نے عقائد پے قلم اٹھایا تو کلامی موشگافیوں سے بچتے ہوئے ایسی صاف شفاف توحید بیان کی کہ شرک کے تمام پردے چاک کردئے۔۔الہ کا لفظ جو صرف معبود ، دیوی دیو تاوں اور مٹی اور پتھر کے خداوں تک محدود ہوگیا تھا ، رب جسے صرف پالنے والے کے معنوں میں استعمال کیا جانے لگا تھا ۔ دین جسے صرف مسجد اور محراب تک مقید کر دیا گیا تھا اور عبادت جسے صرف نماز روزہ تک محدود کر دیا گیا تھا ۔۔۔سید نے ان اصطلاحات کا حقیقی مفہوم اجاگر کیا اور بتایا کہ الہ صرف مٹی اور پتھر کے معبود نہیں بلکہ وہ زندہ خدائی کے دعوے دار ہیں جنہوں نے ہر دور میں فرعون ، نمرود اور شداد بن کر انسانیت کو اپنا غلام بنایا اور ان کی قسمتوں کے فیصلے کرنے لگے ۔۔جب کہ حقیقی الہ تو اللہ ہے جس کی ذات اس کی صفات اس کے اختیارات اور اس کی حکمرانی میں کوئی اس کا ہمسر اور شریک نہیں ہے ۔
جدید دور رسالت کے حوالے سے بھی فتنوں کا دور ہے ۔ ایک طرف منکرین حدیث نے سادہ لوح عوام کو گمراہ کیا تو دوسری طرف منکرین ختم نبوت نے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی ۔۔۔سید نے اپنے قوت استدلال سے کام لیتے ہوئے دونوں کا پردہ چاک کیا ۔۔۔۔مسئلہ قادیانیت لکھا اور اس کی پاداش میں پھانسی گھاٹ تک جا پہنچے
سنت کی آئینی حیثیت لکھی اور منکرین حدیث کے غبارے سے ہوا نکال دی ۔ میرے ایک فاضل دوست کہا کرتے ہیں مولانا کی کتاب سنت کی آئینی حیثیت ہی ان کی نجات کے لیے کافی ہے جس نے لاکھوں نوجوانوں کو ارتداد سے بچایا ۔
سید مودودی نے تقریبا نصف صدی تک خامہ و قرطاس کے ذریعے اسلام کی خدمت کی ۔۔اس دوران ان کے قلم سے جو شہ پارے تخلیق ہوئے ان میں سے ہر ایک کو اس سید ابن سید کی کرامت ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ 24 سال میں لکھی گئی الجھاد فی الاسلام کی بات کی جائے یا اسی عمر میں محض پندرہ دن میں لکھی جانے والی کتاب دینیات کی بات کی جائے جسے ایسی شرف قبولیت حاصل ہوئی کہ اس کا ترجمہ 35 زبانوں میں ہوا اور لاکھوں لوگوں کے دلوں میں اسلام کی شمع روشن کرنے کا باعث بنی۔ یا ان کی کتاب پردہ اور سود پر لکھی جانے والی معرکتہ آرا کتاب کا حوالہ دیا جائے ۔
سید کے لٹریچر کا ماسٹر پیس تو بہر حال تفہیم القرآن ہی ہے ۔۔ جسے 1941 میں لکھنا شروع کیا اور 1972 میں پایہ تکمیل تک پہنچی ان تیس سالوں میں سفر و حضر کے مراحل بھی پیش آئے اور قید و بند کی صعوبت بھی پیش آئی لیکن سید کا راہور قلم اپنی منزل کی جانب سر پٹ دوڑتا ہی رہا اس تصنیف کو بجا طور پر گذشتہ صدی کی عظیم تصنیف قرار دیا جاسکتا ہے ۔۔جو آج دینا میں قرآن کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تفسیر بن چکی ہے ۔
آج ایک بار بھی سید کے مخالفین یک جان ہیں اور ان کی معرکۃ الآرا کتاب خلافت و ملوکیت کی آڑ میں ان کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں ۔۔۔ ان کی خدمت میں صرف اتنا ہی عرض ہے کہ ناقدین کی تنقید اور مخالفین کی مخالفت پہلے بھی سید کے حق میں اللہ کی رحمت ہی ثابت ہوئی اور آج بھی یہ مخالفت اور تنقید سید کا پیغام قلوب و اذھان کی دنیا تک پہنچانے کا باعث بنے گی ۔۔لہذا اپنے مشن پر لگے رہیں اللہ آپ کا بھلا کرے ۔۔۔۔

Comments

Click here to post a comment