ہوم << سوتیلے شہید - احسان کوہاٹی

سوتیلے شہید - احسان کوہاٹی

کاش کسی بازار میں شرم اور غیرت بھی آلو پیاز کی طرح مل سکتی۔
کاش کچلاک میں انار کے باغوں کے ساتھ ساتھ اسکے بھی کہیں باغ ہوتے۔
کاش یہ بھی ایرانی تیل پٹرول کی طرح سرحد پار سے اسمگل ہو سکتی۔
کاش یہ بھی کچے کے علاقے میں کسی بااثر وڈیرے کی شکار گاہ میں شکار ہو سکتی۔
کاش ایس آئی یوٹی کے آپریشن روم میں ادیب رضوی بےشرم اور بےضمیر وجودوں کے سینے چیر کر پاؤ پاؤ بھر غیرت شرم رکھ سکتا۔
کاش کوئی راحیل شریف بےضمیری، بےحسی اور بے غیرتی کے خلاف بھی آپریشن ضرب عضب کر تا۔
افسوس ہی نہیں تف ہے بلوچستان کے ان سرداروں، سیاست دانوں اور وزیروں پر جو کڑک سلیوٹ نہ ملنے پر اسمبلی میں آ کر پھٹ پڑتے ہیں اور تحریک استحقاق جمع کروا کر کمر پر ہاتھ رکھے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ پہلے ہماری سنو، ہماری عزت پر حرف آیا ہے، یہ ہماری انا کا مسئلہ ہے، ہمارا استحقاق مجروح ہوا ہے. سیلانی کو اندازہ نہیں تھا کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی پرجونک کی طرح لپٹے ہوئے ان چھوٹے ظرف کے لوگوں کی نظر اتنی کمزور ہوگی کہ انہیں قومی پرچم میں لپٹے ساڑھے چھ چھ فٹ کے تابوت دکھائی نہیں دیں گے اور یہ اتنے ڈھیٹ ہو ں گے کہ سوال کرنے پر جوتوں سمیت آنکھوں میں گھس آئیں گے۔
بلوچستان حکومت کی بےشرمی، بےضمیری اور بےحسی کا ثبوت سیلانی ہی نہیں دنیا کے سامنے ہے. اخبارات میں شائع اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی وہ تصاویر کس نے نہیں دیکھی ہوں گی۔ مسافر بردار ویگنوں کی چھتوں پر رسیوں سے باندھے گئے قومی پرچموں میں لپٹے تابوتوں میں ایڈز زدہ جسم نہیں تھے نہ انہوں نے خودکشیاں کی تھیں، یہ وہ نوجوان تھے جنہوں نے پاکستان کے لیے تن من دھن قربان کرنے کا حلف لیا تھا، اور یہ بلوچستان پولیس کے وہ جوان تھے جن سے انہی وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج نے کڑک سلیوٹ وصولنے تھے، جنہیں اپنی بلٹ پروف لینڈ کروزروں کے پیچھے ڈبل کیبن میں ڈال کر کہیں دھاک بٹھانی تھی اور کہیں اپنے دبدبے کا سائز بڑھانا تھا۔
سیلانی نے یہ تصویر سوشل میڈیا پر اس طرح سے دیکھی کہ چند مسافر بردار ویگنوں پر قومی پرچم میں لپٹے تابوت رکھے ہیں اورساتھ ہی دوسری تصویر میں پاک فوج کے سپاہی اپنے شہید افسر کپتان روح اللہ کا تابوت عزت واحترام سے ایمبولینس میں رکھ رہے تھے، ان دونوں تصویروں پر کسی نے معنی خیز انداز میں ’’سگے اورسوتیلے شہید‘‘ کی سرخی جمائی تھی تو کسی نے ’’تمہارے اور ہمارے شہید‘‘ کا طنز لکھ رکھا تھا۔
مسافر بردار گاڑیوں کی چھتوں پر تابوت دیکھ کر سچی بات ہے، پہلے تو سیلانی کو یقین ہی نہیں آیا، وہ سمجھا کہ یہ بھی ان فنکار دوستوں کی کارستانی ہے جو فوج اور عوام میں فاصلہ بڑھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، ہوسکتا ہے یہ تصویر بھی ایڈٹ کی گئی ہو، کسی فنکار نے پکچر ایڈیٹر سوفٹ وئیر کی مدد سے نماز جنازہ کے لیے رکھے گئے تابوت اٹھا کر لاری اڈے پر کھڑی ویگنوں کی چھتوں پر رکھ دیے ہوں لیکن کوئٹہ میں موجود سیلانی کے دوست صحافیوں نے سیلانی کا یہ خیال غلط قرار دے دیا. ان کا کہنا تھا کہ واقعہ ایسا ہی ہے، تربت اور گوادر کے شہداء کی میتیں ائیرفورس کے طیارے کے ذریعے روانہ کی گئیں جبکہ قرب و جوار کے جوانوں کی میتیں اسی ’’عزت و وقار‘‘ کے ساتھ روانہ کر کے ہاتھ جھاڑ لیے گئے۔
ایک صحافی دوست نے تو سیلانی کو یہ بتا کر ششدر کردیا کہ وزیر اعلی ہاؤس میں ہونے والی نیوز کانفرنس میں بلوچستان حکومت کے ترجمان انور کاکڑ اور وزیر صحت نے تو سرے سے ہی ان تصویروں کو جھٹلا دیا، وہ بتانے لگا ’’وہ الٹا ہم پر ناراض ہونے لگے کہ آپ لوگ بلوچستان حکومت کو بدنام کر رہے ہیں، ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ہے، سیلانی بھائی اس ڈھٹائی کے بعد ہم ان سے کیا بات کرتے.‘‘
’’یار کیا واقعی ایسا ہوا ہوگا؟‘‘
یہ سننے کے بعد بھی سیلانی نے اک موہوم سی’’ امید‘‘ پر اپنے دوست سے پوچھا کہ اس کے بیان میں کوئی جھول نکال کر وہ’’ سگے اور سوتیلے شہید‘‘ کے پروپیگنڈے پر کچھ لکھ سکے لیکن اس بار اس نے جو کچھ سنا، اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا ’’ایک منٹ، ایک منٹ، ایک منٹ۔‘‘سیلانی نے اپنے دوست کو ٹوکا
’’آپ یہی کہہ رہے ہو جو میں نے سنا؟‘‘
’’جی جی سیلانی بھائی میرے پاس ریکارڈنگ موجود ہے اور میں یہی کہہ رہا ہوں جو آپ نے سنا، پولیس ٹریننگ سینٹر کے سو سے زائد لگ بھگ ایک سو اٹھارہ زخمی اس وقت کوئٹہ کے اسپتالوں میں ہیں، یہ وہ ہیں جنہیں اس حال میں لایا گیا تھا کہ ان کے بدن پر خون میں لتھڑے کپڑے کے سوا کچھ نہ تھا، ان کاسارا سامان کپڑے وہاں خودکش حملے میں جل چکے تھے، اب انہیں اسپتال تو پہنچا دیا گیا، ڈریسنگ بھی ہو گئی لیکن اسپتال میں ان کے لیے کپڑے نہیں تھے، وہاں اسٹاف نے چندہ جمع کرکے ان کے لیے چادریں کمبل وغیرہ خریدے ہیں.‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو یار، ایسا کیسا ہوسکتا ہے؟‘‘
میری وہاں ڈاکٹروں سے بات چیت ہوئی ہے، پیرا میڈیکل اسٹاف سے ملا ہوں، آپ چاہو تو کسی اور سے پوچھ لوں؟‘‘سیلانی کے دوست نے قدرے ناراضگی سے کہا.
’میرا مطلب یہ نہیں ہے، دراصل مجھے یقین نہیں آرہا کہ اس سطح کی بھی بےحسی ہو سکتی ہے.‘‘
’’جناب! یہاں ایسا ہی ہے یہ بلوچستان ہے.‘‘
’’اللہ رحم کرے‘‘سیلانی نے اپنے دوست کو الوداع کہا اور کوئٹہ ہی کے ایک ہم پیشہ دوست عبدالرشید بلوچ کا سیل نمبر ڈائل کرنے لگا. وہ تو شہداء کے جنازوں کی بےتوقیری کو رو رہا تھا یہاں تو سرکاری اسپتالوں میں پڑے زخمیوں کے لیے کپڑے تک نہ تھے، اسٹاف چندہ جمع کرکر کے چادریں اور کمبل لا رہا تھا.
کوئٹہ میں رہائش پذیرعبدالرشید بلوچ ایک نیوز چینل سے وابستہ ہے، اس نے یہ سارا واقعہ شروع سے آخر تک رپورٹ کیا ہے، اور یہ ان صحافیوں میں سے ہے جو سارے معاملے سے اچھی طرح باخبر ہیں۔ عبدالرشید بلوچ نے سیلانی کی کال وصول کی اور ساری بات سننے کے بعد کہنے لگا ’’ایک ایک لفظ درست ہے، میں بھی وزیر اعلی ہاؤس میں ہونے والی نیوز کانفرنس میں موجود تھا۔ ترجمان صاحب کا کہنا تھا کہ ہم مغل بادشاہ نہیں ہیں کہ پیسے ہماری جیب میں پڑے ہوں، سرکاری کاموں میں وقت لگتا ہے۔‘‘
’’واہ، واہ کیا عذر تراشا ہے جناب نے۔‘‘
’’سیلانی بھائی یہاں اسی طرح کی بے حسی ہے۔‘‘
’’اچھا انہوں نے زخمیوں، شہداء کے لواحقین کے لیے کوئی کچھ اعلان بھی کیا کہ نہیں۔‘‘
’’زخمیوں کودس دس ہزار روپے دیے ہیں۔ اور شہداء کے گھر والوں کے لیے ابھی تک تو کچھ نہیں کہا، البتہ آرمی چیف نے فوج کی طرف سے جنازوں کے ساتھ پانچ پانچ لاکھ روپے کا چیک بھیجا تھا‘‘
’’اناللہ وانا علیہ راجعون۔‘‘
ٹریننگ سینٹر کے زخمیوں کے لیے دس دس ہزار روپے کے صدقے کو سرکار بلوچستان کی طرف سے سنگین ہی نہیں بیہودہ مذاق کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ بلوچستان کا خزانہ خالی ہے لیکن اس کے وزیر اعلی کی اتنی مالی حیثیت ہے کہ وہ دس منٹ میں اپنی جیب سے دس دس لاکھ روپے بھی دے سکتے ہیں لیکن وہ ایسا کیوں کریں؟ بلوچستان پولیس کے یہ کیڈٹس تو ایندھن تھے، ان کا کام ہی جلنا تھا، سو جل گئے، عبدالرشید بلوچ نے بتایا کہ وزیر اعلی نے ٹریننگ سینٹر کے کمانڈنٹ اور ڈپٹی کمانڈنٹ کو معطل کر دیا ہے۔ واہ بڑا قدم اٹھایا صاحب بہادر نے، انہیں اپنے اس بھاری پیر کو ذرا اور اٹھاتے ہوئے وزیر داخلہ کی تشریف تلے بھی کرسی کھینچ لینی چاہیے تھی کہ کچھ ذمہ داری تو ان کی بھی تھی۔ صاحب بہادر ذرا سا قدم اور کھسکا کر کسی آئینے کے سامنے آجاتے تو آئینے میں دکھائی دینے والے شخص کو بھی برطرف کر دیتے کہ بلوچستان کے سیاہ و سفید کا مالک ہے یہی وہ شخص ہے جس نے چھ ستمبر کو کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ سینٹر میں تربیت مکمل کرنے والوں سے سلیوٹ لے کر مونچھوں کو تاؤ دیا تھا اور یہی شخص شہداء کے جنازوں کی بے توقیری کا اصل ذمہ دار بھی ہے۔ اگر انتظامیہ کے پاس ایمبولینسیں نہیں تھیں تو اسے وزیروں مشیروں کی جھنڈے والی گاڑیاں شہداء کے جنازوں کے لیے روانہ کرنی چاہیے تھیں۔ اسی شخص کی وجہ سے کوئٹہ کے سرکاری اسپتالوں میں زخمی کیڈٹس کے لیے چندہ جمع کیا جارہا ہے۔ اسی شخص کی غفلت کی سبب یہ سانحہ ہوا۔ جناب وزیراعلی صاحب! جنوبی کوریامیں جہاز سمندر میں ڈوبتا ہے اور وزیراعظم خشکی پر سرجھکاتے ہوئے قوم سے معافی مانگ کر کرسی چھوڑ دیتا ہے، یونان میں ائیرایمبولینس حادثے کا شکار ہوتی ہے، زخمی ایمرجنسی نمبر ڈائل کرکے مدد مانگتے ہیں اور صرف اس بات پر وزیر اپنا دفتر چھوڑ دیتا ہے کہ زخمیوں تک مدد کیوں دیر سے پہنچی۔
زہری صاحب! یہاں تو 62 کیڈٹس اپنے ٹریننگ سینٹر میں مارے گئے ہیں، 62 جوان جنازے اٹھے ہیں، آپ ٹیم کے کپتان ہیں، میچ جیتنے پر ٹرافی کپتان ہی کے ہاتھوں میں آتی ہے تو شکست کی بازپرس بھی کپتان ہی سے ہوتی ہے۔ آپ بتائیں کہ کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر کے حفاظتی انتظامات ناقص کیوں تھے؟ بتائیں کہ سینٹر کی چاردیواری کیوں نہیں بنائی گئی؟ بتائیں کہ یہ پولیس کے جوان تھے یا آپ کے غلام، انہیں کس کی ہدایت پر حکم دے کر سینٹر میں ٹھہرایا گیا اور ان سے کیا کام لینا تھا؟ جواب دیں کہ شہداء کے جنازوں کی بےتوقیری کیوں ہوئی؟ ایمبولینسیں نہیں تھیں تو آپ اپنے وزیروں مشیروں کی جھنڈے والی ڈبل کیبنوں اور لینڈکروزروں میں جنازے بھجواتے، اپنے نمائندے ان کے ساتھ روانہ کرتے۔بتائیں کہ اسپتالوں میں زخمیوں کے لیے چندہ کرکے کپڑوں چادریں خریدنے کی نوبت کیوں آئی؟ اور یہ بھی جواب دیں کہ دس ہزار روپوں کی ’’خطیر‘‘ رقم اسپتال میں پڑے زخمیوں کے کتنے دن کام آئے گی؟ سیلانی یہ سوچتا ہوا چشم تصور میں کوئٹہ کے اسپتال میں زخمی کیڈٹس کے لیے ڈاکٹروں، پیرامیڈیکل اسٹاف کو چندہ کرتے دیکھنے لگا اور افسردگی و شرمندگی سے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

Comments

Click here to post a comment