ہوم << وہ کیوں رحم کریں - احسان کوہاٹی

وہ کیوں رحم کریں - احسان کوہاٹی

بدلتی رت میں وہ رات کچھ زیادہ ہی مہیب اور سیاہ تھی، سناٹا ایسا تھا کہ اعصاب چٹخنے کو تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کچھ ہونے کو ہے، اس خامشی میں تھکے ہارے وجود دن بھر کی مشقت کے بعد سنہرے خوابوں کی تلاش میں آنکھیں موندے ہوئے تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جن کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی، وہ کھلی آنکھوں سے صبح ہونے کا انتظار کر رہے تھے کہ صبح ہو تو شاید انہیں واپسی کی اجازت دے دی جائے اور وہ چھوٹے موٹے تحفے لے کر گھروں کی طرف روآنہ ہو جائیں جہاں کسی کی بیمار بوڑھی ماں منتظر تھی، جسے کراچی کے بڑے اسپتال لے کر جانا تھا، کسی نے بوڑھے محنت کش باپ کے سینے سے لگ کر اس کے ہاتھ سے کدال لے کرتسبیح دینی تھی، کسی کی چھوٹی بہن منتظر تھی اور کسی کے لیے سہرے کے پھول منتظر تھے۔
یہ سب بلوچستان پولیس کے جوان تھے جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے ہی تربیت مکمل کر کے وطن پر جان قربان کرنے کا حلف لیا تھا، یہ سب کوئٹہ ٹریننگ سینٹر کے ہال میں تھکن اوڑھے موت کے قدموں کی چاپ سے بے خبر سو رہے تھے۔ دوسری جانب موت ٹریننگ سینٹر کی پانچ فٹ کی عقبی دیوار پھلانگ کر ان کی جانب بڑھنے لگی اور پھر دہشت گردوں نے کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینتر پر دھاوا بول دیا اور ایک بار کوئٹہ لہو لہو ہوگیا۔ کتنی ہی ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں، کتنے ہی ضعیف باپ سینے پر ہاتھ رکھے بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے، کتنی ہی بہنیں بین کرتی رہ گئیں، کتنوں ہی کے سہرے کے پھول زمین پر بکھر گئے، کتنی ہی آنکھوں کو خوابوں کی کرچیوں نے کبھی نہ بھرنے والے زخم دے دیے، کوئٹہ ایک بار پھر لہولہان ہو گیا۔ سیلانی کا دل جیسے کسی آسیب نے مٹھی میں لے لیا ہو، سانحات کے تسلسل کے باوجود ابھی بھی آنکھوں سے گرنے والے اشک کم ہوئے ہیں نہ دل کی دھڑکنوں نے یکساں رفتار سے رہنا سیکھا ہے، اب بھی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور دھڑکنیں بے ترتیب، اور پھر یہاں تو باسٹھ جوانوں کے لاشے تھے۔
صبح گھر کے دروازے میں اڑسے ہوئے’’امت ‘‘ نے دل اور مسوس ڈالا، قومی پرچموں سے ڈھکے تابوتوں کی تصویر دیکھنے کے لیے پہاڑوں کا سا حوصلہ چاہیے تھا اور یہ حوصلہ کم از کم سیلانی کے پاس تو نہیں۔ وہ مانتا ہے کہ وہ کراچی پولیس کے ان ڈی آئی جی افسروں اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر صاحب کی طرح حوصلے والا نہیں جو کوئٹہ میں اکسٹھ لاشوں کے ہوتے ہوئے کراچی کے امریکی قونصلیٹ میں محفل موسیقی سے محظوظ ہونے پہنچ جاتے ہیں۔
امت اخبار پر سرسری سی نظر ڈالنے کے بعد سیلانی نے مزید حقائق جاننے کے لیے کوئٹہ میں اپنے دوست عبدالرشید بلوچ کو فون کیا۔ رشید بھائی کے دونوں نمبربند تھے۔ اخبار میں اطلاعات نے بہت سے سوال اٹھا دیے تھے، انٹیلی جنس اداروں نے واقعے سے کئی گھنٹے پہلے ہی دہشت گردوں کے کوئٹہ میں داخل ہونے کی اطلاع دے دی تھی، پھر انتظامات اتنے ناقص کیوں رہے؟
ٹریننگ سینٹر میں تربیت مکمل کرکے جانے والے سپاہیوں کو دوبارہ کیوں طلب کیا گیا؟
چھ ستمبر کو ان ہی سپاہیوں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں آئی جی بلوچستان نے ٹریننگ سینٹر کی مخدوش چار دیواری کا نوٹس لیا لیکن ہوا کیا؟
سیلانی اخبار ہاتھ میں الٹ پلٹ رہا تھا کہ اسلام آباد سے ایک باخبردوست کی خلاف توقع آنے والی کال نے توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔
’’السلام علیکم ‘‘
’’وعلیکم السلام، کیا ہو رہا ہے سیلانی صاحب۔‘‘
’’قومی پرچم میں لپٹے تابوت دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’واقعی بڑا افسوس ناک واقعہ ہے جس کی بڑی ذمہ داری ہماری نالائق حکمران اور انتظامیہ پر ہے۔‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’کوئٹہ بہت بڑا شہر نہیں ہے، آپ اسے بڑ اقصبہ کہہ لیں، حساس اداروں نے انہیں متنبہ کر دیا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے، الرٹ ہو جاؤ، ان سے پوچھا جائے کہ انہوں نے کیا تیاری کی؟ یہ تو ہماری صوبائی حکومت، پولیس اور وہ کیا کہتے ہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی ہے، پھر ایک بات جو بہت ضروری ہے کہ ہم افغانستان حکومت سے دوٹوک بات کیوں نہیں کرتے؟ عالمی سطح پر اس مسئلے کو کیوں نہیں اٹھاتے؟ کابل کے حکمرانوں کو شرم دلانا تو فضول ہے لیکن دو اور دو چار والی بات کرنے کا وقت نہیں آگیا۔ کرزئی کے بعد اشرف غنی نے کابل کو انڈیا کا شہر بنا دیا ہے، پشاور اور کوئٹہ میں جو بھی دہشت گردی ہوتی ہے، اس کے سارے کھرے افغانستان لے کر جاتے ہیں، اے پی ایس پشاور میں گھسنے والے دہشت گرد افغانستان سے ہینڈل ہو رہے تھے اور کوئٹہ میں بھی یہی ہوا، ڈی جی فرنٹیئر کانسٹیبلری نے بھی یہی کہا کہ دہشت گردوں کو افغانستان سے گائیڈ کیا جا رہا تھا۔ ایک وقت تھا جب روس کے خلاف جنگ میں پاکستان بیس کیمپ تھا اور آج پاکستان کے خلاف بھارت امریکہ نے کابل کو بیس کیمپ بنایا ہوا ہے۔ وہ کبھی بھی پاکستان کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔ اشرف غنی اپنے اقتدار کے لیے امریکہ کو جانے نہیں دینا چاہتا، اس کے لیے سازشیں کر رہا ہے، اطلاعات تو یہاں تک ہیں کہ افغان انٹیلی جنس، طالبان کی صفوں میں شامل اپنے لوگوں سے اپنے ہی ٹھکانوں اور نیٹوکی مخبریاں کراتی ہے۔ پکی اطلاعات ہیں کہ مقابلوں میں افغان فوجی جان بوجھ کر اپنا اسلحہ تک چھوڑ دیتے ہیں تاکہ طالبان کمزور نہ ہوں، حملے کرتے رہیں اور وہ اسے جواز بنا کر نیٹو اور امریکہ کو روکے رکھیں۔‘‘
دوست کی بات سن کر سیلانی کہنے لگا’’سوال یہ نہیں کہ کابل حکومت کیا کر رہی ہے، سوال یہ ہے کہ ہم کیوں نہیں کچھ کر رہے؟‘‘
’’ہم نے فوج کو ہر مسئلے کا حل سمجھ رکھا ہے ہر جگہ فوج کو گھسا دیتے ہیں، ہمارے صوبے کوئی خصوصی فورس کیوں نہیں بناتے اور کب تک نہیں بنائیں گے۔۔۔‘‘
باخبر دوست کی کال کے دوران ہی کوئٹہ سے رشید بلوچ کی کال بھی آگئی، سیلانی نے اپنے دوست سے معذرت چاہی اور رشید بلوچ سے بات کرنے لگا۔ رشید بلوچ ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں اور کوئٹہ کے اچھے صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں، وہ بتانے لگے کہ انہوں نے ہی اپنے نیوز چینل سے سارا واقعہ رپورٹ کیا ہے، وہ جائے وقوعہ پہنچے، سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور رپورٹ کیا۔ عبدالرشید کا کہنا تھا کہ ٹریننگ سینٹر کی عقبی دیوار کئی جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہے اور پھر بمشکل چار پانچ فٹ کی ہے، پھر سیکیورٹی کا حال یہ تھا کہ پورے ٹریننگ سینٹر کے لیے بمشکل پندرہ بندے بھی نہ تھے، دہشت گرد عقبی دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے اور اپنا کام کر گئے‘‘۔
’’رشید بھائی!سنا ہے کہ صوبائی حکومت کو حساس اداروں نے خبردار کر دیا تھا، پھر انہوں نے کیوں کچھ نہیں کیا، یہ لوگ کیا چاہتے ہیں آخر۔‘‘
’’سیلانی بھائی!آپ یہاں آ تو چکے ہیں، حکومت کا حال تو سامنے ہی ہے، یہ صرف جھنڈے والی لینڈکروزور چاہتے ہیں، ان کے نزدیک سکیورٹی صرف اپنے گھروں کوٹھیوں بنگلوں کا نام ہے۔ یہاں حال تو یہ ہے کہ فوج، ایف سی نے اپنی تنصیبات کو تو سکیورٹی دے رکھی ہے، ہماری کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ سچی بات ہے ہم صبح گھر سے نکلتے ہیں تو نہیں پتہ ہوتا واپسی بھی ہوگی کہ نہیں۔ کوئٹہ پریس کلب کو تین بار دھمکیاں مل چکی ہیں، جس کے جواب میں دو چرسی پولیس والے دیے گئے ہیں جو آنے والے کو روکتے ہیں نہ کچھ پوچھتے ہیں، ہم نے تو اب اپنے طور پر طے کیا ہے کہ کلب میں تین سے زیادہ دوست اکھٹے نہیں بیٹھیں گے، اگرخدانخواستہ اگر کچھ ہوتا ہے تو کم سے کم جانی نقصان ہو‘‘۔
رشید بلوچ نے یہ بات کہہ کر گویا بات ہی ختم کر دی اور یہ بھی بتا دیا کہ کوئٹہ کے لوگوں کو اپنی حکومت کے سیکیورٹی اقدامات پر کتنا اعتماد ہے۔ چومکھی کی لڑائی میں نااہل صوبائی حکومتوں اور سول اداروں کا یہ حال ہو تو دہشت گرد تابوتوں پر قومی پرچم بچھانے کا موقع کیوں جانے دیں، وہ کیوں نہ سانحات کی فہرست میں اضافہ کریں، خوف و دہشت کے زرد رنگ سے پاکستانیوں کے چہرے رنگیں۔ سیلانی یہ سوچتے ہوئے سامنے رکھے اخبار میں قومی پرچموں میں لپٹے تابوتوں کی تصویر چھلنی دل لیے افسردہ نظروں سے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔