ہوم << لاشوں کا مرثیہ، آخر کب تک ؟ سید عدنان کریمی

لاشوں کا مرثیہ، آخر کب تک ؟ سید عدنان کریمی

سید عدنان کریمی ذرا ہمت کیجیے! کراچی کے علاقے سعید آباد میں قائم پولیس ٹریننگ سینٹر کے باہر کھڑے ہوکر عام شہری کی نگاہوں سے اطراف کا جائزہ لیجیے، دیوار، باڑ، واچ ٹاور، اور سیکورٹی پر مامور اہلکاروں کا مشاہدہ کرنے کے بعد یقینا پے در پے سوالات ذہن کے نہاں خانوں میں کلبلانے لگیں گے، تاہم جواب مانگنا گناہ اور سوال کرنا ہمارے ہاں جرم ٹھہرتا ہے کیونکہ سوال کی چوٹ سے ہماری دیواریں گر جایا کرتی ہیں۔
گزشتہ مہینہ مویشی منڈی سے واپسی پر دوڑتی ہائی روف کے شیشے سے رزاق آباد ٹریننگ سینٹر کے اطراف پر اچٹتی نگاہ پڑی، آرمی پبلک اسکول، سانحہ بڈھ بیر، سانحہ باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردوں کے طریقہ واردات اور ٹریننگ سینٹر کی چھوٹی چھوٹی دیواروں اور ”حفاظتی حصار“ نے ایک انجانے خلش میں مبتلا کردیا۔ خیالات کے تسلسل کا گلا گھونٹ کر موبائل نکالا اور کسی دوسرے کام میں نہ چاہتے ہوئے بھی مشغول ہوگیا۔
رات کے اس پہر سرفراز بگٹی اور آئی جی ایف سی شیر افگن صاحب کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر میں ”کامیاب“ آپریشن کا احوال بتارہے تھے، چہرے کے تاثرات اور طرز تکلم سے محسوس ہورہا تھا کہ وزیر داخلہ صاحب رٹا رٹایا سبق سنارہے ہیں، بگٹی قبائل کا روایتی جوش وجذبہ چلتن، زرغون اور مہردار کے پہاڑوں میں کہیں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔ صحافی برادری کے ہاں سوال کیے بنا مہمان کو جانے دینا توہین اکبر سمجھا جاتا ہے، ایک درویش نے سوال داغ دیا ”سر! متعدد مرتبہ متاثرہ سینٹر دہشت گردی کا نشانہ بن چکا ہے، آپ چلیں میں آپ کو عقبی حصے میں قائم چھوٹی چھوٹی دیواریں اور اس پر نام کے حفاظتی باڑ دکھاتا ہوں جو دہشت گردوں کے لیے ہمہ وقت تر لقمہ کے مترادف ہے، آپ نے خاطر خواہ انتظامات کیوں نہیں کیے۔“ بگٹی صاحب کھسیانے تو ہوئے مگر نوچنے کو کھمبا قریب نہ تھا، بولے میں نہیں سمجھتا کہ یہ چیزیں سیکورٹی خطرات میں شمار ہوتی ہیں۔
جب قوم کے راہنما غلطی کو غلط نہ سمجھیں تو اس نوعیت کے سانحات کا ہر دوسرے ہفتہ وقوع پذیر ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ کوئٹہ کو اب شرفاء کی نہیں بلکہ محمود غزنوی، شیرشاہ سوری اور شہنشاہ اکبر کی ضرورت ہے۔
اب صبح بیدار ہوکر ناشتہ کی میز پر ٹی وی اسکرین یا اخبار کی سرخی شال کوٹ (کوئٹہ) کو خونی لال کوٹ پہنانے کا نوحہ پڑھ رہی ہوگی، پھر تعزیت، بیانات، ہنگامی دورے، فوٹو سیشن، لواحقین کو امداد اور پھر ٹاک شوز میں منجن کی دکان کے بعد اگلے سانحہ کا انتظار۔ خمیدہ کمر والا دشمن فالج زدہ جسم کے ساتھ ”ترقی“ کے منازل طے کرتے پاکستان پر پھر کوئی کاری وار کرجائے گا۔ قوم کو بتائیے نا کلبھوشن نے کیا انکشافات کیے اور اس کی روشنی میں ہم اندھوں کی اسٹریٹیجی کیا ہے؟ جب تک حکمران قوم سے سچ چھپاتے پھریں گے، تب تک ہم یوں ہی لاشوں پر مرثیے پڑھتے رہیں گے۔ اس لیے ابھی سے اشلوک کے نئے بول اگلے سانحہ کے لیے یاد کرنا شروع ہوجائیے۔

Comments

Click here to post a comment