ہوم << اِک خواہش ِدیرینہ کی تکمیل - تنویر احمد حسینی

اِک خواہش ِدیرینہ کی تکمیل - تنویر احمد حسینی

تنویر حسینی یوں تو بغرضِ روزگار و آوارگی وطنِ عزیز کے تقریباً سبھی شہروں کو دیکھنا اور ان میں رہنا نصیب ہوا۔ جہاں ہم شہر اربابِ اختیار صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ کی انفراسٹرکچر کی بدحالی نہیں بُھولے، وہاں سابق وزیراعظم (میر ظفر اللہ خان جمالی) کے ڈیرہ مراد جمالی کے اطراف صرف کلومیٹر میں نظر آئی پسماندگی اور غربت نے بھی بلوچستان کا نقشہ ہماری آنکھوں میں محفوظ کر دیا۔ اپنے پنجاب کے طول و عرض کے تو کہنے ہی کیا؟ جہاں ہم تقریباً دس سال غایتِ حُصول ِتعلیم بقول اربابِ اختیار کے ”پیرس“ اور با گواہ چشمِ دیدہ ”وینس“ (لاہور ) میں رہے، وہاں پنجاب کے پسماندہ صادق آباد سے لے کر KPK سے ملتی سرحد اٹک تک تقریباً ہر شہر میں رہے بھی، گھومے بھی اور تسکین آوارگی بھی کی۔ KPK تو ٹھہرا ہمارا اپنا گھر، اسے بچا لیا قدرتی حسن نے ورنہ زبوں حالی شہر کہاں کم تھی کسی سے۔
پشاور میں جہاں ہم پشتو نہ آنے پر نظروں سے کھا جانے والے مناظر اور جواباً ہماری بےچارگی نہیں بھلا سکتے وہاں سوات و بحرین، ناران و ایبٹ آبا دکے حسین و دلکش مناظر سب کچھ بُھلا دینے کے لیے کافی ہیں۔
زیرِ نظر تحریر میں جہاں ہم نے بغرضِ مزاح آوارگی کا تذکرہ کیا وہاں تسکین ِ قلب و روح کے لیے ہمیں مراکز انوار و تجلیات، مراکزِ اخوت و محبت، مراکزِ اتحاد ویگانگت، مزاراتِ اولیا پر بھی شرف حاضری نصیب ہوتا رہا۔ موجودہ حالات و رسومات جو مزارات پر سر انجام دیے جا رہے ہیں ان کو بین السطور بُرا بھلا کہنے سے بہتر ہے کہ ان کو بُرا سمجھ کے آگے بڑھا جائے۔ موجودہ حالات و رسومات سے قطع نظر صاحبانِ مزارات کے فیوض و برکات آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہیں جس طرح ان کے ظاہری زندگی میں تھیں۔ آج بھی اللہ کے پیاروں کے مزارِ پُر انور تسکینِ قلب و روح کے لیے واحد مرکز و محور ہیں۔
وہ دربارِ حضور داتا علی الحجو یری ؒہو کہ امامِ کلامِ عارفین بلیُ شاہ ؒ کی قبر انور، وہ دربار میاں میر سرکار ؒ ہو یا آج بھی اہلِ سمیع و بصیر (صفاتِ عطائی) کو سنائی دی جانے والی آواز ”ھُو“ کے خالق حضرت سخی سلطان باھُو ؒ کا در ، وہ بہاؤالدین زکریا ملتانی ؒ کا مزار پُرانوار ہو یا منبع رُشد و ہدایت سرکار موہڑوی ؒ المعروف باواجی کی چوکھٹ، وہ ویران جنگل میں ذکر الہیٰ سے اک شہر (پھلکوٹ ) آباد کرنے والی ہستی حضور دھنی پیر شہید ؒ کی عارضی آرام گاہ ہو یا بابُ الاسلام سندھ میں شمع ِاسلام کے آج تک رکھوالے لال شہباز قلندر کا مزار، سب کی شانِ اپنی جگہ، سب کے کام و مقام اپنی جگہ، سب کو ہمارا سلام عقیدت و محبت لیکن جو ہمارا دلی لگاؤ اور کچھاؤ (بغیر بیعت اور بغیر کبھی سابقہ حاضری) حضور سیدی و سندی، فاتحِ ختم نبوت، علامہ دوراں، عارفِ زماں، حضرت سید پیر مہر علی شاہ ؒ قدُس سرہُ السامی کی ذات والا صفات سے ہے، وہ کہیں اور کم ہی ہو گا۔
حضور پیر صاحب کے مزار پرانوار پر پہلی حاضری اور خواہش دیرینہ کی تکمیل گزشتہ 3ستمبر 2016ء کو ہوئی۔ مزار پرُ انوار کا کیا نقشہ کھینچا جائے بلکہ پانی تنگی داماں کے پیش نظر یہی کہنا کافی ہوگا کہ کچھ چیزیں احاطہ تحریر کے بجائے صرف احساسات پر ہی رہیں تو اچھی لگتی ہیں۔ وہاں حاصل ہونے والے فیوُض و برکات اور تسکینِ قلب و روح کو احاطہ تحریر میں لانا ہمارے بس کی بات ہی نہیں۔ اور ہو بھی کیسے کہ در لخت ِجگرِ سیدئہ کائنات علیہ السلام ہو اور باعثِ تسکین ِ روح نہ ہو، ایسا بھی بھلا ممکن ہے؟
حضور سیدی مہر علی شاہ ؒ کے مناقب و فضائل نہ محتاج ِ تحریر ہیں اور نہ ہی اپنی اتنی اوقات اور نہ ہی قلم میں اتنی ہمت و سکت کہ کچھ لکھیں۔ انہی کے وارثِ علم ولایت، نصیر ملت، چراغِ گولڑہ پیر نصیر الدین نصیر ؔ گیلانی ہی کے کہنے پر بس اتفاق کرتے ہیں، چونکہ نصیرِ ملت اسی گھرانے کے ہیں اور گھر کی بات گھر والوں سے بہتر بھلا کون جانتا ہے۔
محرَومِ کُشادِ بابِ عالی نہ گیا
مایوس کبھی کوئی سوالی نہ گیا
کیا مہر علی ؒ کا در ہے اللہ اللہ
اس در پہ جو آ گیا وہ خالی نہ گیا
(رنگ ِ نظام )
دوران سفر ہمارے اور ہمارے ہمسفر (احمد خالد حسینی) کے ساتھ چند ہی لمحوں کا بڑا مزے دار واقع رونما ہوا۔ گولڑہ موڑ سے دربارِ گولڑہ تک جانے والی گاڑی کے ڈرائیور نے ہمیں راستوں کو حیرت زدہ نظروں سے دیکھنے اور ہمارے بار بار پوچھنے پر ہم ہی سے پوچھ لیا ”او بھائی پہلے کبھی پنڈی اسلام آباد نہیں آئے ہو کیا.“
ہمارے پاس سوائے اس کے اور سوائے سچائی کے کوئی اور جواب نہ تھا کہ
”وہ جی بس جب جب قادری صاحب (شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ) کا دھرنا ہوا، تبھی تبھی اس شہرِ اقتدار میں آنا نصیب ہوا۔“