ہوم << جنت ارضی کشمیر کا بیانیہ - ارشد محمود ملک

جنت ارضی کشمیر کا بیانیہ - ارشد محمود ملک

کشمیر کو کرہ ارض پر جنت قرار دیا گیا ہے. یہ مشاہدہ جس نے بھی بیان کیا وہ فطرت کی حنا بندی کا فن خوب جانتا ہو گا. مگر المیہ یہ ہے کہ انسانوں کی غالب اکثریت فطرت سے زیادہ مادیت پر یقین رکھتی ہے. کشمیر کا جغرافیہ موسم اور قدرتی حسن اپنی مثال آپ ہے. یہاں بہتے دریا خوبصورت جھیلیں سرسبز و شاداب پہاڑ میٹھے پانی کے چشمے کنول کے پھول اور زعفران کے کھیت جہاں بے پناہ کشش رکھتے ہیں وہیں خوبصورت و شاداب چہرے اچھی قد قامت اور اچھے اخلاق کے حامل مرد و زن اضافی خوبی ہیں. لیکن کیا خوشگوار زندگی کے لیے یہی کافی ہے؟ یقیناً نہیں انسانی زندگی کے نکھار اور اسے دیگر معاشروں سے مقابلہ کرنے کے لیے بہت سے دیگر عوامل کی ضرورت ہوتی ہے. جیسے حقیقی جنت میں جانا آسان نہیں ہے ویسے ہی اس تصور کی گئی جنت میں بھی داخلہ آسان نہیں. کشمیر کا ذکر آتے ہی بھارتی مظالم بارود کی بدبو خون کی ندیاں خواتین کی عصمت دری کے واقعات آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی صورت شعور کے پردے پر نمایاں ہو جاتے ہیں. کیا واقعی کشمیر کو اسی مسئلے کا سامنا ہے؟ میرے خیال میں یہ ایک بڑا اور سب سے حل طلب مسئلہ ہے. لیکن یہ واحد مسئلہ ہر گز نہیں ہے. کشمیر کے مسئلے کو از سر نو سمجھنے کی ضرورت ہے. اس پر حد سے زیادہ حساسیت پیدا کر لی گئی ہے. جس سے بحث محدود ہو گئی ہے. کشمیر محض متنازعہ علاقہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور پر انسانی مسئلہ ہے. سب سے بھیانک بات کشمیریوں کی عدم شناخت ہے. تین نسلیں بغیر شناخت کے درگور ہو گئی ہیں اور آگے بھی آثار نظر نہیں آ رہے جس سے مایوسی اور بد دلی کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے.
بھارت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ابھی بہت کچھ لکھا جانا ہے اس ذیل میں بہت یکسانیت پائی جاتی ہے لہٰذا آج کے مضمون میں اس پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے ازادکشمیر کے مسائل اور یہاں پر بسنے والے افراد کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل میں عدم دلچسپی کو موضوع بحث بنایا جائے گا. کشمیر کا جہاں بھی ذکر آتا ہے اس میں کشمیریوں پر بات کم اور جغرافیہ پر بات زیادہ ہوتی ہے. بالخصوص آزاد کشمیر کے باسی تو اس ذیل میں کہیں نظر ہی نہیں آتے ہیں. اس کی وجوہات مختلف لوگوں کی نظر میں مختلف ہوں گی. میرا مشاہدہ عمومی نوعیت کا ہے اور اسے عمومی انداز میں ہی پیش کروں گا. میں کوشش کروں گا کہ کہ ان مسائل کی جانب توجہ مبذول کراؤں جن کی بنیاد پر ہم لوگ اپنے اولین مسئلہ سے پہلو تہی کرتے ہیں. سیاسی پس منظر، معاشی مسائل، نظام تعلیم اور عدم تسلسل وہ بنیادی عوامل ہیں جنہوں نے لوگوں سے غور فکر کا ہتھیار چھین لیا ہے. اب فرداً فرداً ان امور کا اجمالی جائزہ پیش کرتا ہوں.
سیاسی پس منظر ریاست کے ابتدائی ماہ و سال میں شرح خواندگی خوف ناک حد تک کم تھی اس لیے ایک بڑی اکثریت اپنے نفع و نقصان سے نابلد تھی. یہ جہاں ایک بہت بڑی کمزوری تھی وہیں اگر اسے درست انداز میں استعمال کیا جاتا تو یہ بہت بڑی طاقت بن سکتی تھی. نظریاتی وحدت کے لیے اس سے سازگار کیفیت کوئی نہیں ہو سکتی کہ آپ کے مخاطب افراد آپ کو پوری یکسوئی کے ساتھ سنتے ہوں اور آپ کی ہر بات پر یقین کرتے ہوں. لیکن بدقسمتی سے اس کمزوری کو کشمیریوں کی بیوقوفی سے تعبیر کیا گیا. قدرت اللہ شہاب مشتاق گورمانی کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک کتابچہ لہراتے ہوئے لوگوں کو کہا کہ یہ قرآن ہے اور ہم کشمیر کو وہ تجربہ گاہ بناتے ہیں جہاں رب کی دھرتی رب کا نظام ہو گا. لوگ انتہائی جذباتی ہو کر یہ سب سن رہے تھے اور زیادہ تر آبدیدہ تھے. واپسی پر جب انہوں نے گورمانی سے دریافت کیا کہ کیا یہ واقعی قرآن تھا تو مسکرانے لگے. ان لوگوں کو سازش کے ذریعے اپنا گرویدہ بنانے کی کوشش کی گئی جو بدگمانی کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے. اس کے بعد ایک مسلسل سلسلہ شروع ہو گیا اور جو اختلاف کی جسارت کرنے کی کوشش کرتا وہ غدار سمجھا جانے لگا. تحریک آزادی کشمیر کے کئی ہیرو گمنام ہو گئے. یہاں تک کہ شیخ عبداللہ جیسا فرد بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا سرکاری مہمان ہو گیا. اور کشمیری عملاً بھارت نواز اور پاکستان نواز میں تقسیم ہو گئے اور یہ تقسیم ہنوز برقرار ہے. اس کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا وہ دونوں جانب کے کشمیریوں کے درمیان رابطوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ دونوں جانب مقیم لوگ ایک دوسرے کے لیے غیر ہو گئے.
بعد ازاں جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن تسلیم کر لیا گیا اور رہتی امیدیں بھی دم توڑ گئیں. اس کے بعد ایکٹ انیس سو چوہتر کے نفاذ نے ریاست کو باقاعدہ کالونی بنا دیا گیا اور چیف سیکریٹری اور وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کو وائسرائے کی حیثیت حاصل ہو گئی. کشمیریوں کی نمائندگی ان کے ہاتھوں سے نکل گئی. موجودہ نظام اسی انتظام کے زیر سایہ پھل پھول رہا ہے.
معیشت اگر جغرافیہ کے تابع ہو تو وہ فطری انداز میں آگے بڑھتی ہے جس طرح پنجاب اور سندھ میں زراعت نے ایک بڑی اکثریت کو خوشحالی بہم پہنچائی ہے. ساحلی علاقوں میں صنعت نے ترقی کی ہے. سرحدی علاقوں میں تجارت نے فروغ پایا ہے ویسا کوئی انتظام کشمیر میں نظر نہیں آتا. ہم نے اگر جغرافیائی اہمیت کو استعمال نہیں کیا ہے تو ساتھ ہی ثقافت کو پس پشت ڈال کر جو تھوڑی بہت معاشی سرگرمیاں تھیں انہیں بھی مسدود کر دیا ہے. فی الحال کشمیر کا معاشی نظام کسی طفیلی معاشرے جیسا ہے. محکمہ تعلیم، برقیات پولیس اور کسی حد تک سول سروس میں نوکری اختیار کرنے کے علاوہ ذرائع آمدنی کے بہت ہی محدود ہیں. ریاست کے زیادہ تر لوگ بیرون ملک روزی کماتے ہیں. صنعتوں کی عدم موجودگی میں بہتر ہنر مند پیدا نہیں ہو رہے. پولی ٹیکنیک اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹر کی تعداد بھی آبادی کے تناسب سے مطابقت نہیں رکھتی جس کی وجہ سے لوگ انتہائی نچلے درجے کی ملازمت اختیار کرتے ہیں. اس لیے عموماً لوگ فیصلہ سازی کے عمل میں دلچسپی نہیں رکھتے.
نظام تعلیم کو اگر شرح خواندگی کے تناظر میں دیکھیں تو اس کو پاکستان کے دیگر حصوں سے بہتر قرار دیا جا سکتا ہے. لیکن اگر فکری تناظر میں دیکھا جائے تو یہاں بھی حالت الحفیظ و الامان والی ہے. دس دس کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد طلباء و طالبات کو بنیادی تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے. اساتذہ کی غالب اکثریت سیاسی جماعتوں کے دم چھلوں کی صورت اختیار کر گئی ہے. نصاب تعلیم کے حوالے سے صورتحال مزید ابتر ہی کہلائی جا سکتی ہے. پہلی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک کی ساری کتابیں حفظ بھی کر لی جائیں تو مجھے یقین ہے کہ ہمارا طالب علم کشمیر کی تاریخ اور جغرافیہ پر ایک مضمون لکھنے کے قابل بھی نہیں ہو گا. ہمیں اس میدان میں توجہ کی اشد ضرورت ہے.
عدم تسلسل ہمارا سب سے بھیانک معاشرتی رویہ ہے. جنگ آزادی کشمیر سے لے کر آج تک ہر میدان میں ادھورے کام ہمارے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں. تکمیل پاکستان کی منزل اگر مقصود ہے تو ہمیں انسانی وسائل کو بروئے کار لانے کی محنت کرنا ہوگی. جب تک ہم اپنے نوجوانوں کی فکری تربیت کا بندوبست نہیں کریں گے آپیں تپسی تے ٹھس کر سی والی جگہ پر کھڑے رہیں گے.

Comments

Click here to post a comment