ہوم << تلسی کا پتی اور کھویا اقتدار - سعید ارشاد

تلسی کا پتی اور کھویا اقتدار - سعید ارشاد

سعید ارشاد
کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں
ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا بتاؤں
والدہ صاحبہ نے کیا کیا خواب نہیں دیکھے تھے، کیا کیا سپنے نہیں سجائے تھے. لیکن ان ق لیگ والے احمقوں نے ساری امیدوں پر پانی ہی پھیر دیا. سوچا تھا فراغت کے بعد ایک سیاسی جماعت بنا کر شریفوں کے سینے پر ہی مونگ دلتا رہوں گا لیکن ”الٹی ہو گئیں سب تدبیریں“ والا معاملہ ہی درپیش رہا. کیا سہانے دن تھے، میرے اقتدار کا سورج سوا نیزے اور چاند اڑھائی نیزے پر تھا، بہار کی آمد آمد تھی مارکیٹ میں نیا نیا 3310 نیلے رنگ میں آیا تھا. میں سارا دن کمال رغبت سے چائے میں بسکٹ ڈبو ڈبو کر کھایا کرتا تھا اور رنگ برنگی رنگ ٹونز اور ون سونے میسجز سے محظوظ ہوا کرتا تھا. اپنے وڈے چوہدری صاحب سیاہ چشمے والے تو بذریعہ میسج ایسی درفنطنی چھوڑا کرتے تھے کہ میرا باقاعدہ ہاسا ( جی ہاں ہاسا ) نکل جایا کرتا تھا، چھوٹے چوہدری صاحب بھی کسی سے کم نہ تھے، جی ہاں وہی آئین وا قانون والے جو مجھے دس دفعہ وردی میں منتخب کروانے والی ٹرک کی بتی کے موجد تھے، ہر دفعہ میسج کے نیچے 10 کا ہندسہ لکھ دیتے تھے اور میرا دل بانسوں اچھلنے لگ جایا کرتا تھا. ایک دفعہ تو حد ہی ہوگئی میں نے فرط مسرت سے نکے چوہدری صاحب کا منہ چوم لیا. گو کہ ان دنوں میسج پورے پانچ روپے کا ہوا کرتا تھا مگر یہ دونوں بھائی تو میرے عاشق نامراد بنے ہوئے تھے. انہی جیسا پنڈی کا ایک شیخ تھا جسے آنکھوں کے آگے کھڑی ہوئی بھینس تو نہیں دکھتی تھی لیکن پیشین گوئیاں وہ اگلے پانچ سو سال تک کی کر سکتا تھا. میرے ساتھ اس کی یکطرفہ محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ زبردستی میرے ہاتھ سے موبائل چھین کر دیوانہ وار بھاگتا ہوا راجہ بازار کی امپیریل مارکیٹ میں گیا اور حامد علی خان کا گانا ”مینوں تیرے جیا سوہنڑاں ہور لبھدا نا“ بطور رنگ ٹون سیٹ کروا کر لے آیا، بہرحال میں اسے زیادہ لفٹ نہیں کروایا کرتا تھا لیکن لگتا تھا کہ میرا سچا عاشق وہی ہے.
سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا، راوی، ستلج، چناب سبھی چین ہی چین لکھ رہے تھے، میڈیا کی بھی میں ہی بلا شرکت غیرے اکلوتی ڈارلنگ ہوا کرتا تھا، میری وہ مشہور زمانہ (جو کہ اب بدنام زمانہ بن چکی ہے) سر پر گلاس رکھ کر ناچنے والی پرفارمنس اتنی ہٹ ہوئی تھی کہ میں بے اختیار خود کو کسی تامل فلم کی ہیروئین تصور کرنے لگ گیا تھا، ہر طرف میرے ہی چرچے تھے، رانی مکھر جی سے لے کر عتیقہ اوڈھو اور عتیقہ اوڈھو سے لے رانی مکھر جی تک سب کی زبان پر اس ناچیز کمانڈو کا ہی نام تھا، لیکن پھر میں نے اوکھلی میں سر دے دیا، چوہدری صاحب اسلام آباد والے جو انتہائی معصوم نظر آتے تھے نے میری ایسی بینڈ بجائی کہ مجھے ناچ گانا اور گلاس وغیرہ سب بھول گئے، وہی جو مجھے روزانہ عشقیہ پیغامات میرے 3310 پر بھیجا کرتے تھے، میری مسڈ کالز کو بھی ایزی لینے لگے، ایک دفعہ میسج کا جواب نہ ملنے پر میں نے وڈے چوہدری صاحب کو باقاعدہ کال ہی کڈ ماری، لیکن انھوں نے میرا نمبر سی ایل آئی پر دیکھنے کے فون صوفی کو پکڑا دیا، صوفی نے مجھے ایسی جدید گالیاں دیں کہ میرا جی چاہا کہ نہر والی حویلی کی زمین پھٹے اور میں اس میں دفن ہو جاؤں. خیر چھوڑیں، مٹی پائیں، اب ہر کوئی عتیقہ اوڈھو جیسا تو نہیں ہوتا کہ دوستی نبھاتا رہے، خدا بھلا کرے، ہر عید شب برات پر مجھے مشروب مغرب کا تحفہ دینا نہیں بھولتی، اب تو صہبا بھی اعتراض نہیں کرتی، اسے بھی معلوم ہے کمانڈو صاحب مسڈ کال ہی دے سکتے ہیں، بیلنس تو کب کا مکا بیٹھے.
تو صاحبو، اقتدار بہت ہی ”کتی“ چیز ہے جب یہ چھن جاتا ہے تو اپنے بھی جگت بازی پر اتر آتے ہیں، ابھی پرسوں کی بات ہے، ساتھ والے ڈیوڈ صاحب کا بیٹا ہنری اپنے وڈے تائے ولیم کے ساتھ آیا اور اپنی سالانا خاندانی گدھوں کی ریس کا دعوت نامہ دے گیا، چونکہ فراغت کے دن تھے میں نے بھی حامی بھر لی عین ریس سے آدھا گھنٹہ قبل میں نے صہبا سے کہا کہ کوئی ولایتی قسم کی پتلون استری کر دو فرنگیوں کے ہاں دعوت پر جانا ہے، یہ سنتے ہی تنک کر بولی... رہنے ہی دیں چلا تو جاتا نہیں ریس کیا خاک لگائیں گے، کم بخت سارا شہر ہی خواجہ سیالکوٹی بن چکا ہے.
ایک نجی تقریب میں دو چار سٹیپ کیا کر لیے، بریکنگ نیوز ہی بن گئی، اتنے تواتر سے لوگ ڈاکٹر کی تجویز کی ہوئی صبح دوپہر شام کی دوائی نہیں لیتے جس باقاعدگی سے ہر چینل پر میرے کلپ چلنے لگے، وہ تو شکر ہے اس کا غیرت سے کوئی خاص لینا دینا نہیں ورنہ میرا کوئی بھائی مجھے بھی ”پھڑکا“ چکا ہوتا.. ویسے میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں،
کچھ گلہ مجھے سوشل میڈیا سے بھی ہے، ایک فرضی کردار جینا پر ہی ٹرینڈز بناتے رہے، کمبخت کے اس کے ماں باپ نہیں ہیں، اپنا یہ معصوم کمانڈو جو پاکستانی جیلوں میں سڑتا رہا ان کو نظر نہ آیا.
بس اس ساری گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ مرنے کے بعد تلسی کا پتی تو لوٹ سکتا ہے لیکن کسی کا کھویا ہوا اقتدار کبھی واپس نہیں آتا.

Comments

Click here to post a comment