ہوم << ڈاکٹر ذاکر نائک پر پابندی اور اندلس کا سبق - ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

ڈاکٹر ذاکر نائک پر پابندی اور اندلس کا سبق - ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

بیس برس پہلے کی بات ہے، کانپور (انڈیا) میں منتخب نوجوانوں کا ایک اجتماع تھا. اس موقع پر مجھ سے کہا گیا کہ میں اس میں ' اندلس میں مسلم عہد حکمرانی کی تاریخ اور اس سے حاصل ہونے والے دروس' پر اظہار خیال کروں. اندلس کی تاریخ کے تفصیلی مطالعہ کے بعد میں نے نوجوانوں کے سامنے بہت شرح و بسط کے ساتھ اپنا حاصل مطالعہ پیش کیا. اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود اجتماع کا منظر میری نگاہوں میں ہے اور جو باتیں میں نے وہاں رکھی تھیں وہ بھی ذہن میں تازہ ہیں.
میں نے اس موقع پر کہا تھا کہ اندلس کی تاریخ کو ہم بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ایک عروج کی تاریخ ہے اور دوسرے زوال کی تاریخ.
اموی خلافت کا خاتمہ ہوا اور عباسی خلافت قائم ہوئی تو ایک اموی شہزادہ (عبد الرحمٰن) بھاگ کر اندلس پہنچا، اس نے ایک فوج تیار کی اور حکومت پر قبضہ کر لیا۔ اس نے شہر قرطبہ کو دار الحکومت بنایا اور وہاں ایک شان دار مسجد قائم کی، جو 'مسجد قرطبہ' کے نام سے موسوم ہے۔ یہ حکومت 284 سال قایم رہی. یہ اندلس کی تاریخ کا شان دار دور تھا. مسلمانوں کو اس زمانے میں جو عروج حاصل ہوا وہ پھر کبھی ان کے نصیب میں نہیں آیا.
اس کے بعد مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی. ان کی خودمختار حکومتیں قائم ہوئیں جو آپس میں لڑتی بھڑتی رہتی تھیں. دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک مسلم حکومت دوسری مسلم حکومت کے خلاف پڑوس کی عیسائی حکومتوں سے مدد حاصل کرتی تھیں. اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی آہستہ آہستہ مسلم علاقوں پر قبضہ کرتے گئے اور قرطبہ، طلیطلہ، اشبیلیہ ، بلنسیہ جیسے بڑے بڑے شہر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلتے گئے. مرابطین اور موحدین کی حکومتوں نے کچھ سنبھالا دینے کی کوشش کی، لیکن پھر ان کے درمیان بھی جنگیں شروع ہو گئیں. بالآخر تیرہویں صدی کے وسط تک اندلس کے بڑے حصے پر عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا اور مسلمانوں کا اقتدار اندلس کے جنوب مشرق میں ایک چھوٹے سے حصے پر رہ گیا، جس کا صدر مقام غرناطہ تھا. یہاں تقریباً 250 سال تک بنواحمر کی حکومت رہی، لیکن پھر شاہی خاندان کے لوگ آپس میں لڑنے بھڑنے لگے، جس کے نتیجے میں ان کی قوت کمزور ہوتی گئی اور عیسائیوں کے حوصلے بلند ہوتے گئے. بالآخر قشتالہ کی عیسائی حکومت نے غرناطہ کا محاصرہ کرکے 1492 میں اندلس میں مسلم حکمرانی کا خاتمہ کر دیا.
اندلس پر قبضہ کرنے کے بعد عیسائیوں نے مسلمانوں پر بڑے مظالم ڈھائے. عربی پڑھنا اور بولنا جرم قرار دیا گیا. مسلمانوں کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا. ہزاروں مسلمانوں کو، جنھوں نے عیسائیت قبول نہیں کی، قتل کر دیا گیا یا زندہ جلا دیا گیا۔ کئی لاکھ مسلمان ملک سے نکال دیے گئے یا وہ خود ہجرت کر گئے. اندازاً جلاوطن ہونے والے مسلمانوں کی تعداد 30 لاکھ تھی. باقی آبادی نے جان کے خوف سے بظاہر عیسائیت قبول کر لی. اس طرح اندلس میں، جہاں مسلمانوں نے تقریباً 800 سال حکومت کی تھی،ایک بھی مسلمان باقی نہ بچا. جناب ثروت صولت نے اپنی کتاب 'ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ' میں اندلس میں مسلم عہد حکمرانی کی تاریخ بیان کرنے کے بعد بہت درد بھرے انداز میں لکھا ہے کہ "اندلس میں مسلمانوں کی داستان بڑی درد ناک ہے۔ اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔" (۱/۳۵۰)
اس وقت ہندوستان میں وہ طاقتیں جن کی اسلام دشمنی اور مسلم دشمنی جگ ظاہر ہے، بہت سرگرم ہیں. ایک طرف وہ دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں، کم زور طبقات، اقلیتیں اور خاص طور پر مسلمان ان کے مظالم کا شکار ہیں، لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ وہ الٹا مسلمانوں کو عالمی اور ملکی دونوں سطحوں پر بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی ہیں. ان پر طرح طرح کے جھوٹے الزامات لگارہی ہیں. انھیں شدت پسند، بے رحم، خون آشام، دہشت گرد اور طرح طرح کے القاب سے نواز رہی ہیں۔اس وقت مشہور داعی اسلام اور مبلّغ ڈاکٹر ذاکر نائک ان کے نشانے پر ہیں. ان کی شخصیت کو متّہم کیا جا رہا ہے، ان کے چینل پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، ان کےادارہ پر پابندی کے ارادے ظاہر کیے جا رہے ہیں، ان کے وسائل آمدنی کی تفتیش کی جا رہی ہے، ان کے خلاف مقدمے قائم کرنے اور ان کو داخل زنداں کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے بعض گروہ ان مسلم دشمن طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ وہ ان کو سپورٹ کر رہے ہیں اور ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرکے ان کو گرفتار کرنے اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کے ان گروہوں کو میں اندلس کا سبق یاد دلانا چاہتا ہوں. اندلس کا یہ پیغام نوشتہ دیوار ہے کہ جب تک مسلمان متحد رہیں گے، کوئی طاقت ان کا بال بیکا نہیں کر سکتی، لیکن جب ان کی صفوں میں دراڑ پڑ جائے گی تو دنیا کی کوئی طاقت انھیں عروج واستحکام نہیں بخش سکتی۔
اسی طرح اندلس کا یہ سبق بھی انھیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں کوئی فرق نہیں کرتے. ان کی نظر میں سب مسلمان برابر ہیں. جس طرح اندلس میں وہ مسلم حکومتیں فنا کے گھاٹ اتر گئیں جن کے خلاف دوسری مسلم حکومتوں نے عیسائی حکومتوں سے مدد لی تھی اسی طرح خود وہ مسلم حکومتیں بھی زیادہ عرصہ تک باقی نہ رہ سکیں جنھوں نے ان کے خلاف عیسائیوں سے مدد چاہی تھی۔
مسلم دشمن طاقتوں کو معلوم ہے کہ اندلس سے کس طرح مسلمانوں کا صفایا کیا گیا تھا. وہ اسی حکمت عملی کو یہاں بھی بروئےکار لانا چاہتی ہیں اور اس پر عمل پیرا ہیں. بہتر ہے کہ ہم نوشتہ دیوار پڑھ لیں، اس سے پہلے کہ وقت نکل جائے، پھر کف افسوس ملنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا.
کوئی مسلم گروہ اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ موجودہ مسلم دشمن حکومت کی ہاں میں ہاں ملا کر کسی مسلم شخصیت یا گروہ کی سرکوبی کے بعد وہ محفوظ رہے گا اور اس کو پھلنے پھولنے کے زیادہ مواقع حاصل ہوجائیں گے، بلکہ اندلس کی تاریخ یاد دلاتی ہے کہ اس صورت میں اس کو بھی لازماً زیرِ عتاب آنا ہے، چاہے کچھ دنوں کے بعد ۔
بہت بے وقوف ہے وہ شخص یا گروہ جو اس نوشتہ دیوار کو نہ پڑھے اور تاریخ سے سبق حاصل نہ کرے۔

Comments

Click here to post a comment