ہوم << ہندستانی گانوں پر رقص غیر اسلامی ہے - ظفر عمران

ہندستانی گانوں پر رقص غیر اسلامی ہے - ظفر عمران

ظفر عمران کسی زمانے میں یہ بحث سنا کرتے تھے، کہ رقص غیر اسلامی ہے، یا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے، یا نہیں۔ اسی طرح موسیقی کی حرمت کے بارے میں بھی مکالمے سے مناظرے تک سنے، پڑھے۔ اس دوران کبھی یہ موضوع سامنے نہیں آیا، کہ کچھ مخصوص گانوں پر جھومنا اسلامی، یا غیر اسلامی ہوسکتا ہے۔ بھلا ہو اس ذاتی حیثیت کا، کہ ہمارے علم میں آیا، ہندُستانی گانوں ”بیڑی لگئی لے“، ”منی بدنام ہوئی“، جیسے گانوں پہ تھرکنا غیر اسلامی ہے۔
بی بی سی نے رپورٹ کیا ہے، کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے رکنِ صوبائی اسمبلی خرم شیر زمان نے کچھ عرصہ قبل وزیر تعلیم کو ایک خط لکھا تھا، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا، کہ چند نجی تعلیمی اداروں میں رقص کی تعلیم دی جاتی ہے، جو ان کے خیال میں مذہبِ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے، اس لیے اسے روکا جائے۔ خرم شیر زمان یاتو تحریک انصاف کے جلسوں میں شریک نہیں ہوتے، یا جھومنے کے وقت گھومنے نکل جاتے ہوں گے۔ خیر دل چسپ بات یہ ہے، کہ اس معاملے پر جب شہر کے کئی حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی کی گئی تو تحریکِ انصاف نے بحیثیتِ سیاسی جماعت خود کو اس معاملے سے یہ کَہ کر علاحدہ کرلیا، کہ 'یہ عمل خرم شیر زمان نے اپنی ذاتی حیثیت میں اٹھایا ہے، اور یہ تحریکِ انصاف کی پالیسی نہیں ہے۔' یہ تو بچہ بچہ جانتا ہے، کہ تحریک انصاف کی پالیسی میں سے ناچ گانا نکال دیا جائے، تو باقی بیمہ بھی نہیں بچتا۔
تاہم تحریک انصاف نے یہ نہیں بتایا، کہ خرم شیر زمان کی اس ذاتی حیثیت کی کیا حیثیت ہے۔ کیا جماعت نے جناب خرم شیر زمان کی ذاتی حیثیت میں پارٹی کا تاثر برباد کرنے پر کوئی نوٹس لیا، یا بس اپنی طرف سے ایک بیان جاری کرنا ہی کافی سمجھا۔ دوسری جانب تحریکِ انصاف کے رکنِ سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں اس عمل سے اس لیے مایوسی ہوئی ہے، کہ یہ سارا معاملہ پہلے ہی بہت پے چیدہ بنا دیا گیا تھا۔ ادھر سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے سندھ کے تعلیمی اداروں میں رقص و موسیقی کی تعلیم پر پابندی کی خبروں کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے، کہ یہ پابندی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ چند انتہا پسند عناصر کے ہاتھوں وہ اپنے آزاد اور ترقی پسند منشور کو کسی قیمت پر یرغمال نہیں بننےدیں گے۔ میں یہ سمجھا ہوں، کہ اگر ترقی پسندی رقص کرنا ہے، تو وزیرِ اعلا کا یوں کہنا بہ جا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'موسیقی اور رقص کسی بھی آزاد معاشرے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اور وہ ایسی سرگرمیوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔' وزیرِ اعلا سندھ نے کا کہنا ہے تھا کہ اسکولوں میں رقص پرپابندی سے متعلق جاری ہونے والے اعلامیے کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے۔
خرم شیر زمان نے کہا کہ ’'میرے پاس بہت سے بچوں کے والدین شکایت لے کر آئے تھے، اور میں نے ان کی شکایات وزیرِ تعلیم کو بھجوا دی تھیں۔' خرم شیر زمان یہ نہیں سمجھے کہ یہ شکایات تحریک انصاف کے جلسوں میں ناچ گانے کے خلاف تھیں۔ الٹا انھوں نے وزیر تعلیم سندھ کو خط لکھ دیا۔ انھوں نے واضح کیا، کہ اس کام کے لیے انھوں نے اپنا ذاتی لیٹر ہیڈ استعمال کیا تھا، نہ کہ تحریکِ انصاف کا۔ ایک رکن صوبائی اسمبلی کی ذاتی حیثیت کیا ہے، یہ کیسے واضح ہو؟ بھئی آپ اپنی جماعت، اپنے حلقے کے عوام کی نمایندگی کرتے ہیں، اور اگر کوئی شکایت لے کر آیا، تو اپنے نمایندے کے پاس۔ پھر یہ ذاتی حیثیت کیا ہے؟ رکنِ سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے اس کے بعد جو وضاحت پیش کی وہ تو کمال ہے۔ کہتے ہیں، 'وہ اس ڈانس کے خلاف ہیں جو اسکولوں میں انڈین اور انگلش گانوں پر سکھایا جاتا ہے۔ ثقافتی رقص کے وہ خلاف نہیں ہیں، اور ان کا مقصد صرف شیلا کی جوانی جیسے گانوں پر ہونے والے ڈانس کو روکنا تھا۔' ہم عمران خان صاحب سے گزارش کرتے ہیں، کہ وہ اپنے جلسوں میں 'شیلا کی جوانی' پہ رقص مت کروائیں۔ یہ 'نچ پنجابن نچ' جیسے گانوں، اور اس کے گلوکار کی توہین ہے۔
سید مراد علی جو بھی کہیں،انھی کے کابینہ سے وزیرِ تعلیم جام مہتاب ڈہر سے منسوب ایک بیان مقامی میڈیا میں شائع ہوا تھا، جس میں انھوں نے بعض نجی تعلیمی اداروں میں رقص و موسیقی کی تعلیم پر پابندی کی حمایت کی تھی۔ اس سے پیش تر نجی تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹر جنرل منسوب حسین صدیقی نے جمعہ کو ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں تمام نجی تعلیمی اداروں سے کہا گیا تھا، کہ کچھ اسکولوں نے رقص سکھانے کے نام پر استاد بھرتی کیے ہیں، اور وہ بچوں کو 'فحش رقص' کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اس اعلامیے میں ایسے تمام اسکولوں کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔
اس ساری کہانی میں سمجھنے کی بات یہ ہے، کہ ہم میں سے کئی مذہب کی تشریح اپنی ذاتی حیثیت میں کرتے ہیں۔ کاش خرم شیر زمان اپنے دین کو اپنی 'ذاتی حیثیت' تک رہنے دیتے، اور دوسروں کی ذاتی حیثیت میں مداخلت سے پرہیز کرتے۔ یا کاش عوام ان 'ذاتی حیثیت' والوں کے چنگل سے نکل کر، اجتماعی حیثیت والوں کو رہ نما کریں۔ جب تک کسی سیاسی جماعت کے لیٹر ہیڈ کو استعمال میں نہیں لایا جاتا، عوام کو اپنے اپنے رہ نما کے پیچھے رقص کی کھلی آزادی ہے، اور میری'ذاتی حیثیت' میں یہ رائے ہے، کہ اپنے اپنے قائد کے نعروں پہ جھومنا، عین اسلامی ہے۔ تو آئیے رقص کریں۔ جب کہ دھرنے کی آمد آمد ہے۔ بھلا بنا رقص کے بھی کوئی دھرنا، دھرنا ہے!

Comments

Click here to post a comment