ہوم << آپریشن تھیٹر سے براہِ راست - قاری حنیف ڈار

آپریشن تھیٹر سے براہِ راست - قاری حنیف ڈار

مثل قران دینی کتاب لانے یا اس کی جیسی سورت اور آیت لانے کے چیلنج کاحقیقی معنی ومفہوم اور غلطی ہائے مضمون کا تفصیلی جائزہ .....
ایک بہت بڑا علمی فریب اور مغالطہ سادہ لوح لوگوں کے سامنے یہود و نصاریٰ کے جھوٹے چمچے یہ دیتے ہیں کہ قران نے اپنے جیسا قران لکھنے یا سورت بنانے یا اس کے مثل آیت لانے کا جو چیلنج کیا ہے وہ چیلنج کئی بار پورا کردیا گیا ہے۔
پھر نمونے کے طور پر کچھ ایسی مزاحیہ عربی جملے والی آیات منظر عام پرلائی جاتی ہیں جو ہو بہو قران کی اندھی تقلید (blind following) ہوتی ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جاسکتا ہے کہ قراآنی الفاظ کی تقلید تو کرلی لیکن اس کی تاثیر کو جواب ديتے وقت موثر ودندان شکن جواب نا دے سکے اور علمی محفل میں غیر جانب دار محققین ماہرین لسانیات عرب کی نظروں میں خود کو نمونہ بناکر رہ گئے کیونکہ اس قسم کی لچر تحریروں پر قراآنی عربی سے آشنا اہل علم و اہل زبان ہنس ہی سکتے ہیں-
اس معاملے کا سب سے پر لطف پہلو یہ ہے کہ فیس بک پر کچھ نو وارد دہرئے تو كبھی کبھار اس قدر مشتعل و جذباتی ہوکر پوچھ بیٹھتے ہیں کہ چلو میں قران جیسی کتاب تحریر کردوں لیکن یہ فیصلہ کون کرے گا کہ میری کتاب افضل ہے یا قران؟؟؟
ان کے جواب میں ہم ان سے ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ ” برادر من“ قران کے مثل کتاب لکھ کكر تنقید وتبصرہ، اور موازنہ کی خاطر پیش کردو باقی فیصلہ دنیا کے غیر جانب دار عربی آشنا اہل علم وقلم عوام کو خود کرلینے دو اور اس کتاب کو مارکیٹ میں آجانے کےبعد لوگوں کو اس کے اوپر ایمان لانے دو اور اس كتاب كو اپنااسوہ حیات بنانے دو۔ تاکہ پتا چلے کہ آپ کی اس ”تصنیف لطیف“ کی مقبولیت کی معراج کیا ہے اور کتنی صدیوں تک لوگوں کے ذہن پر یہ حاوی رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟؟؟؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ قران کریم نے اہل عرب کو جو چیلنج دیا تھا کہ اس کے مثل یا اس کے جیسی ایک سورت یا ایک آیت لائی جائے تو وہ اتنے بیوقوف نا تھے کہ اس چیلنج کی گہرائی اور حساسيت کو نہیں سمجھتے تھے اور محمد کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے عربی کی 500 صفحات کی محاورات اور لسانی وثقافتی وسماجی ومعاشی ادبیات پر کتاب لکھ نہيں سکتے تھے - لیکن انہوں نے قراآن کو سنا سمجھا اور اس کے بعد ان سابقہ کافروں پر اس قرآن کا اثر دیکھا جو کسی وقت گناہوں میں لت پت تھے لیکن قرآن نے انہیں کیا سے کیا بنادیا تھا-
اس لیے ہمارے ننھے منے دہریوں کے لیے اس قرآنی چیلنج کو قرآن سے ہی سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ قران کے مثل قرآن لانے کا چیلنج آخر ہے کیا۔ کیا وہ انسان جس نے قرآن کو اول تا آخر پڑھا ہی نا ہو اس پر تدبر نا کیا ہو؟ وہ قرآن کے مثل یا اس جیسی کتاب یا سورت یا ایک آیت پیش کرسکے گا؟ قرآن کا مقابلہ کرنا ہو توکم ازکم مد مقابل بندے کو اتنا پتا ہونا چاہیے کہ
1-قران کے اندر ایسے کون سے نمایاں مضامین و موضوعات ہیں جس كا تکرار واعادہ کیا گیا ہے۔
2-اور سماجی پہلو سے کیا کیا تعلیمات ہیں؟ مادی حوالے سے کیا رہنمائیاں ہیں؟
3-آخرت کے حوالے سے کیا انسٹرکشن ہیں؟
4-اور مختلف ادیان کا علمی رد کس طرح کیا گیا ہے؟
5- اور خود قران نے قران کے اندر اپنا تعارف کیسے کرایا ہے؟
5-اپنی تاثیر کیا گنوائی ہیں جو بقیہ کتابوں میں نہیں پائی جاتیں؟
مثلاً اس حوالے سے تو سب سے پہلے خود قران نے ہی اپنے اہم اوصاف کے متعلق خبر دی ہے۔ مثلاً:-
1- اگر یہ قرآن کریم پہاڑ پر نازل ہوتا تو قران کی ہیبت وجلال سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ (الحشر 21)
2-اس قرآن کو سننے کے بعد ان لوگوں کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ پڑتے ہیں جو اس پر ایمان و یقین نہیں رکھتے۔ (نساء 83)
3- اس قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے یا اس کی آیت سننے کے بعد اہل ایمان کے دل کانپ جاتے ہیں۔ (حج 34/35)
4-اگر اس کے اندر کچھ سختی ہو تو ان آیات کی برکت سے ان کے دل موم ہوجاتے ہیں۔ (الزمر 23)
4-اہل ایمان کے ایمان میں زیادتی اور دل میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے۔ (الانفال 2)
4- اس قرآن کو سننے کے بعد غور وفکر کے نتیجے میں لوگ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ (بنی اسرائیل 109-107
قرآن دنیا کی واحد آسمانی کتاب ہے جو اپنے متعلق صاف طور پر صد فی صد اعتماد سے یہ بتلاتی ہےکہ
5- کیوں اور کس لیے نازل ہوئی؟
6-اس سے فائدہ اٹھانے والےحقیقی لوگ کون ہیں؟
7-وہ کس پر نازل ہوئی؟
8-وہ کب نازل ہوئی اور کس رات نازل ہوئی؟
9-کس زبان میں نازل ہوئی؟
10-کہاں سے نازل ہوئی؟
11-کس کے ذریعے نازل ہوئی؟
12-دنیا کی سب سے پہلی دینی کتاب ہے جو کہتی ہے کہ اس کی حفاظت کی ضمانت اس کے مصنف ومنزل کی ہے
اس خاص زاوئے سے غور کیجیے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہندو اور عیسائیت اور یہودیت اور دیگر ادیان باطلہ کی کتابیں اپنے متعلق ان سوالوں کا قابل اطمینان جواب نہیں فراہم کرتیں۔۔۔
قصہ مختصر یاد رہے کہ تاریخ میں ہمیں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ دشمنان اسلام نے قرآن پاک کے ہی الفاظ لے کر چند آیات ترتیب کرنے کی کوششیں کیں ۔ خير کیا اس طرح قران کا چیلنج ٹوٹ گیا؟؟
جواباً عرض ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے دس یا پندرہ فقرات ترتیب دے لینا، کسی عربی یا عجمی عالم کے لیے نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مشکل تھا نہ آج ہے۔
قرآن میں جو چیلنج ہے وہ یہ ہے کہ اگر سمجھتے ہو کہ قرآن دراصل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جیسے بشر رسول کی طبع زاد ایسی تصنیف ہے جس کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، دل کانپ اٹھتے ہیں اور آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں اور سوچ و فکر میں عظیم انقلاب برپا ہوتا ہے جسے صبح شام تلاوت کرنا لوگ باعث ثواب سمجھتے ہیں، اور جس کی تعلیمات پر عمل کرکے زندگی بسر کرنا باعث نجات سمجھتے ہیں تو بنا لاؤ ایسی ہی ایک کتاب جو عربی فصاحت وبلاغت کی سب سے آخری چوٹی پر فائز ہو اور اس قدر جوامع الکلم ہوں کہ عقل دنگ رہ جائے جسے پڑھ کر پتھر دل انسان موم ہوجائیں جو دل و دماغ میں انقلاب برپا کردے اور جسے سات تا دس سال کا بچہ حفظ کرکے فخر محسوس کرے جس کی دن رات مشرق تا مغرب شمال تا جنوب مسلسل تلاوت ہو اور جس پر عمل کرنے میں لوگ اپنی نجات سمجھیں، جسے ویسا قبول عام حاصل ہو جیسا قرآن پاک کو حاصل ہے ، جسے پڑھنے کے بعد عربوں کی طرح مختلف جاہل اور مفلوک الحال غير متمدن وناخواندہ افراد اوراجڈ لوگوں کی اصلاح ایسی ہو کہ قیصرو کسریٰ جیسی اپنے وقت کی سپر پاور کو ناکوں چنے چنے چبوادیں-جسے پڑھنے کے بعد لوگوں کی سماجی زندگی میں ایس انقلاب آجائے کہ چوری زناکاری اور لڑکیوں پر بہتان لگانا یا انہیں زندہ دفن کرنا بند کردیا جائے۔ دل ودماغ کی لت یعنی شراب پینی چھوڑ دی جائے۔ مساکین ویتیم کی پرورش کی جائے اور صدقات و خیرات و زکوت کے ذریعے دل سے مال کی محبت کم اور انسانيت نوازی زیادہ ہوجائے- (سوره بقره 24/25)
کس کافر نے آج تک ایسی روحانی و قلبی انقلاب پیداکردینے والی کتاب لکھی ہے جس کے اندر دنیا اور آخرت اور ماضی و حال اور مستقبل میں ہونے والے تمام حالات کے متعلق پیشین گوئی قصے اور خبریں تک لکھ دی گئی ہوں اور دنیا نے اختلاف نا کیا ہو بلکہ یہ کتاب (قرآن) ایک ایسے ماحول اور وقت میں یہ باتیں بیان کررہی ہو جب اس کا تصورکرنا بھی ممکن نا ہو-
یہ ہے وہ چیلنج جو قرآن مجید نے آج سے چودہ سو سال پہلے دیا تھا جسے قبول کرنے کی سعی نامراد ماضی میں بھی کی گئی اور آج بھی کفار نے یہی سعی لاحاصل کی ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے لیکن قیامت تک خائب و خاسر ہوں گے جو آیات قران کے جواب میں بعض مسیحی مشنریز یا عرب مرتدین و مدعیان نبوت کی طرف سے تصنیف ہوئیں انہیں کوئی پڑھنے والا تو کیا کوئي جاننے والا بھی نہیں ہے اورجواب تصنیف کی جارہی ہیں چند سال بعد ان کا حشر بھی يہی ہوگا ۔ بقول شاعر
نا ہوا پر نا ہوا میر کا سا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
قرآن نے صاف کہہ دیا ہے
ترجمہ، (قرآن پاک کو باطل نہ آگے سے حملہ آور ہو سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ نازل کردہ ہے اس ذات کی طرف سے جو دانا ہے اور اپنی ذات میں لا محدود ہے۔) (سورۃ حم السجدہ ۔ آیات 42)
پھر یہ کہ قرآن نے ہر معترض کو اس کے حال کے مطابق چیلنج کیا ہے۔
یہود نے جب قرآن پر سوال اٹھایا تو ان کو جواب میں چیلنج دیا تو کتاب کا دیا، سورت یا دس سورتوں کا نہیں دیا ۔
فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا لَوْلا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَى أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَى مِن قَبْلُ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ( القصص- 48)
جب حق ان ”یہود“" کے پاس آیا تو کہنے لگے کہ اس کو ویسے معجزے کیوں نہ ملے جیسے کہ موسیٰ کو ملے تھے؟ کیا یہ اس کا کفر نہیں کر بیٹھے تھے جو کچھ موسیٰ کو دیا گیا تھا؟ گویا معجزات جس نے بھی طلب کیے کبھی مسلمان نہ ہوا اور جو مسلمان ہوا وہ دلیل سے مسلمان ہوا۔ معجزات کی وجہ سے نہیں ہوا ۔ اس کے لیے دلیل ہی بڑا معجزہ ہوتی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے معجزات دیکھنے والوں نے بھی یہی کہا تھا کہ دونوں جادوگر ہیں۔ جو غلبہ چاہتے ہیں اور کہنے لگے کہ ہم ان سب کا انکار کرتے ہیں۔
(( قل فأتوا بكتاب من عند الله هو أهدى منهما أتبعه إن كنتم صادقين)) (القصص- 49 )
آپ کہہ دیجئے کہ لاؤ اللہ کے یہاں سے ایسی کتاب جو زیادہ ہدایت یافتہ ہو ان دونوں کتابوں (تورات و قرآن) سے تا کہ میں اس کی پیروی کروں اگر تم سچے ہو۔
پھر ساتھ دوسرا چیلنج بھی دے دیا کہ اگر یہ ایسا نہ کر پائیں تو جان لیجئے کہ یہ لوگ دلیل کے بجائے بس خواہشِ نفس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ورنہ ان کے ہر سوال کا مدلل جواب کتاب اللہ میں موجود ہے، اور خواہش نفس کا اتباع کرنے والے سے زیادہ بے انصاف کوئی نہیں ہوتا۔
یہ یہود کے لیے چیلنج ہے کہ تورات پہ تمہارے آباء و اجداد ایمان نہ لائے اور موسیٰ و ھارون علیہما السلام کو جادوگر کہہ دیا۔ اب قرآن پر تم بھی ایمان نہیں لا رہے تو اس کا حل تو یہ ہے کہ اللہ کے یہاں سے تم ان دونوں سے زیادہ ہدایت یافتہ کتاب لے آؤ کیونکہ بہرحال ہر زمانے میں اللہ کی کتاب ہی متبع رہی ہے نہ کہ انسانوں کی لکھی ھوئی کتابیں۔ لامحالہ انسانیت کو کتاب اللہ اور کلام اللہ کی ضرورت ہے، قیامت تک اور وہی ہدایت کا ذریعہ بھی ہے اور ہدایت کی سند بھی، نہ کہ ہر زمانے کے دانشوروں کی اوٹ پٹانگ باتیں قابل اتباع ہیں۔
فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ( القصص- 50 )
اہلِ کتاب کو کتاب لانے کا چیلنج دیا تو مکے والوں کو پہلے دس اور پھر ایک سورت لانے کا چیلنج دیا نہ کہ آیات،، ہر سورت ایک خطبہ ہے جس کا ایک موضوع یا عمود ہوتا ہے۔ ساری آیات اس سے متعلق ہوتی ہیں۔ مثالیں اس سے متعلق ہوتی ہیں۔ اس کی ابتدا ہوتی ہے، بیانیہ ہوتا ہے، اور انجام یا منتہا ہوتا ہے، اگرچہ وہ سورہ الکوثر جیسی چھوٹی سورت ہو۔ مکے والے اہل زبان اور پڑھے لکھے تھے، جو ہستی قرآن سنا رہی تھی وہ ان میں ان پڑھ مشہورتھی،، جو پڑھے لکھوں کو چیلنج کر رہی تھی کہ بس ایک سورت جیسی سورت لے آؤ ، وہ قتل کرنے پہ تو تل گئے، سورۃ الکوثر جیسی سورت تک نہ بناکر لا سکے، وجہ کیا تھی؟ وہ قرآن کی حقیقت کو بھی سمجھتے تھے اور چیلنج کے زور کو بھی سمجھتے تھے۔ عربی کے چند جملے بناکر کہنا کہ ہم سورہ الحاد بنا کر لے آئے ہیں، اپنا مذاق خود اڑانے کے قابل ہے۔ اس سورہ الحاد سے زیادہ فصیح و بلیغ اور ذو معنی و با مقصد تو ام کلثوم کے گانے ہیں، مگر اس نے دعویٰ نہیں کیا کہ چونکہ یہ عربی میں ہیں لہٰذا قرآن ہیں، روزانہ اخبارات میں عربی شاعری اور نہایت فصیح مضامین شائع ھوتے ہوتے ہیں، کبھی کسی نے دعویٰ نہیں کیا کہ یہ قرآن ہے، کیونکہ عربی میں ہے۔
آپریشن فہم و ارتقاء ترمیم شدہ اضافے کے ساتھ۔

Comments

Click here to post a comment