ایدھی صاحب کے رخصت ہونے سے دل پر گہرا اثر پڑا۔ پچھلے دو دن سے لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں، مگر خیالات منتشررہے۔دنیا میں آنے والے ہر شخص نے جانا ہے، استثنا کسی کوحاصل نہیں، بعض لوگ مگر ایسے ہوتے ہیںکہ ہم ان کے مرنے کا تصور تک نہیں کر پاتے ۔ ہمیں لگتا ہے کہ جیسے زمانے بیت جائیں گے، مگر یہ روشن کردار ایسے ہی دنیا میں جگمگاتے رہیں گے۔ عبدالستار ایدھی بھی ایسے ہی ایک شخص تھے۔ ایثار اور قربانی کا پیکر، عزم وہمت کا استعارہ ۔ پچھلے کچھ برسوں سے وہ علیل تھے، چند ماہ پہلے کسی نے ایدھی صاحب کی عیادت کی تو اگلے روزتصاویر شائع ہوئیں۔ دیکھ کر دھچکا سا لگا۔ ایدھی صاحب بہت کمزور ہوچکے تھے۔ دھان پان تو وہ شروع سے تھے، مگر علالت کے باعث وزن زیادہ کم ہوگیا اور ان تصویروں میں ڈھانچا سا لگ رہے تھے، ان کے چہرے کا سپاٹ تاثر دیکھ کر مزید دکھ ہوا۔ اس وقت اندازہ ہوگیا کہ اب مہلت زیادہ نہیں رہی۔ لاشعوری طور پر ہم تمام لوگ شائد اس خبر کے لئے تیار تھے، مگر اس کے باوجود ایدھی صاحب کے دنیا سے چلے جانے کا سوچنا بھی محال لگتا تھا۔
قس بن ساعدہ دور جہالیت کا مشہور عرب شاعر اور سحر طراز مقرر گزرا ہے۔اس کی فصاحت وبلاغت اور زبان پر قدرت کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ قس بن ساعدہ کا ایک مشہور مرثیہ ہے، جو اس نے اپنے دو بھائیوں کے مرنے پر ان کی قبروں پر کھڑے ہوکر پڑھا، کہتا ہے:
” گزشتہ بھولی بسری صدیوں میں ہمارے لئے آنکھیں کھولنے والی باتیں پوشیدہ ہیں
جب میں نے دیکھا کہ موت کی طرف جانے کا راستہ تو ہے ،لیکن لوٹنے کا راستہ نہیں
اور یہ کہ میری قوم کا ہر چھوٹا بڑا اس کی طرف ضرور جاتا ہے
جو یہاں سے چلا جاتا ہے، وہ لوٹ کر واپس میرے پاس نہیں آتا ، جور ہ گئے، انہیں دوام نہیں
میں نے یقین کر لیا کہ میرا بھی ضرور وہی انجام ہونا ہے، جو ان سب کا ہوا۔“
عبدالستار ایدھی بھی ہم میں نہ رہے۔ یہ افسوسناک ، تلخ حقیقت ہم سب کو ماننا ہی پڑی۔ان کے انتقال کی رات پورے ملک پر گویا سناٹا سا چھا گیا۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر واضح محسوس ہور ہاتھا کہ پورا ملک اچانک ہی یوں سوگوار ہوگیا، جیسے ان کا اپنا بہت پیارا، قریبی عزیز دنیا چھوڑ گیا ہو۔ وہ ایک منفرد انسان تھے، منفرد ماضی، حال اور مستقبل کے مالک۔ یقین واثق ہے کہ باری تعالیٰ اپنے اس نیک بندے کو منفرد مقام سے نوازے گا۔جس نے اپنی تمام زندگی خالق کائنات کے بندوں کی خدمت میں گزار دی ، اس کا صلہ بھی اس کام کے شایان شان ہوگا، ان شاءاللہ۔
تاریخ کی کتب میں آتا ہے، ایک غزوہ کے لئے اسلامی لشکر روانہ ہوچکا تھا، حضرت ابوذر غفاریؓکچھ تاخیر سے روانہ ہوئے، ان کا اونٹ بھی کمزور تھا، اسی وجہ سے وہ پیچھے رہ گئے۔ آخر انہوں نے اونٹ کو اس کے حال پر چھوڑا ، اپنا سامان کمر پر لاد ا اور پیدل ہی چل پڑے۔ حضور اکرم ﷺ لشکر سے پوچھ چکے تھے کہ ابوذر غفاری کہاں ہیں؟ ان کا نہ ہونا سرکار ﷺکو شاق گزر رہا تھا۔ اتنے میں دور سے لگا کہ کوئی گرد وغبار میں اٹا ہوا پیدل چلتا آ رہا ہے۔ صحابہؓ پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ عالی مرتبتﷺ نے فرمایا،( جس کا مفہوم ہے)یہ ابوذر ہیں، یہ تنہا چلتے ہیں، تنہا مریں گے اور قیامت کے روز تنہا ہی اٹھائے جائیں گے۔ حضرت ابوذر ؓ بھی اتنی دیر میں قریب پہنچ گئے ، انہیں دیکھ کر سب صحابہ خوش ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ جب ان کاآخری وقت آیا تو وہ شہر سے دور ایک ایسی جگہ مقیم تھے، جہاں صرف ان کی بوڑھی اہلیہ ہمراہ تھیں، ایک بکری تھی،جس کے دودھ سے دونوں گزارا کر لیتے۔آخری وقت قریب آیا تواہلیہ نے کہا کہ میں کیسے آپ کے کفن دفن کا انتظام کروں گی، حاجیوں کے قافلے بھی اب جا چکے، کسی نے یہاں سے نہیں گزرنا۔ حضرت ابوذرؓنے دھیرے سے جواب دیا ، تم میری میت والی چارپائی راستے میںلٹا دینا، اللہ انتظام کرنے والا ہے ۔ انتقال کے بعد اہلیہ نے ویسا ہی کیا۔ وہ منتظر تھیں کہ کوئی غیبی مدد ملے۔ اتنے میں دور سے گردوغبار اٹھا اور ایک قافلہ نمودار ہوا۔ قافلے والوں کو بھی اس ویرانے میں کسی کے ملنے کی توقع نہیں تھی۔بمشکل اونٹوں کو روکا گیا۔بزرگ خاتون نے کہا ’یہ ابوذرؓ رسول اللہ ﷺ کے صحابی کا جنازہ ہے۔ قافلے میں صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بھی موجود تھے۔ آپ سامنے آئے، گریہ کیا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی ہر بات درست نکلی ہے۔ انہوں نے آپ ﷺ کے اس قول کو دہرایا کہ ابوزر تنہا مریں گے اور قیامت کے روز تنہا اٹھائے جائیں گے۔
مولانا عبدالستار ایدھی بھی اسی قافلے کے ایک سپاہی تھے، جنہوں نے ہمارے نبی اور صحابہ کے اسوہ کی پیروی کی۔ حضور ﷺ کی سیرت مبارکہ سے انہوں نے یہ سیکھا کہ بندگان خدا کی مشکلات کم کرنا، ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنا ، ان کے زخموں پر مرہم رکھنا افضل کام ہے۔ ایدھی خود کہتے تھے ” میں ایک سیدھا سادا مسلمان ہوں، مذہب کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا، مگر اتنا معلوم ہے کہ اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے اورمسلمان کا فرض ہے کہ انسانیت کے دکھ درددور کئے جائیں ، میں اسی میں لگا رہتا ہوں۔“رب تعالیٰ سے یہی امید رکھنی چاہیے، یہی دعا کرنی چاہیے کہ وہ اپنے حبیب ﷺ کے اس امتی کے ساتھ شاندار سلوک روا رکھے اور روز قیامت ان کو اپنے خاص ، پسندیدہ بندوں کی صف میں اٹھائے۔ آمین۔
ہمارے ہاں یہ عجب دستور ہے کہ کوئی روشن پیکر رہنے ہی نہیں دیتے،ہر اجلے چہرے پر کیچڑ اچھالتے اور پھر خود ملامتی کر کے خوش ہوتے ہیں۔بڑے عرصے کے بعد ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو ایدھی صاحب کے انتقال پر افسردہ دیکھا۔ ہر ایک ان کے لئے دعا گو تھا، ہر ایک زبان پر اپنی تمام زندگی خدمت خلق کے لئے وقف کرنے والے انسان کے لئے تحسین کے الفاظ تھے۔ ہمارے ہاں ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ہم نے تو اپنی زندگی میں پہلی ایسی مثال دیکھی۔ ایدھی صاحب کوزندگی میں بھی بے پناہ عزت ملی ۔ ہمارے معاشرے کو مردہ پرست کہا جاتا ہے، مگر ایدھی صاحب کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ انہیں وہ سب کچھ ملا جو ہمارے جیسا تیسری دنیا کا ملک یا معاشرہ دے سکتا ہے۔ زر کی تو ایدھی صاحب کے نزدیک اہمیت ہی نہیں تھی، نوٹوں کی بھری بوریاں وہ ردی کاغذ سمجھتے تھے ۔ محبت، عزت ، قدر بچتی ہے تو وہ پاکستانیوں نے ایدھی صاحب سے بے پناہ کی۔ بڑے سرکاری ایوارڈز سے لے کر نجی سطح پر بے شمار اعزازات دئیے گئے، سینکڑوں انٹرویوز ان کے ہوئے، دنیا بھر میں پزیرائی ملی۔
پاکستانیوں نے ایدھی کے نام کو ایسی کریڈیبلٹی دی کہ ان کی اپیل پر کروڑوں روپے جمع ہوجاتے۔ ہر ایک کو ان پر اعتماد تھا۔ ان کے مخالفین اور حاسدین بھی تھے، ان کی اڑائی کہانیاں، سازشیں، حاسدانہ حرکتیں سب بے کار اور فضول ثابت ہوئیں۔ انتقال کے بعد بھی ایدھی صاحب کا ان کے شایان شان رخصتی ملی۔آرمی چیف کا جنازے میں شامل ہوناا ور ملک وقوم کے اس محسن کو شاندار ٹریبیوٹ پیش کرنا ہر ایک کو اچھا لگا۔ قائداعظم کے بعدو ہ دوسرے سویلین ہیں جنہیں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایدھی صاحب اس کے مستحق تھے۔ ایک اور اچھی بات یہ بھی ہوئی کہ ایدھی صاحب نے اپنے کام کو اگلی نسل کے ہاتھ میں سونپ دیا تھا۔ فیصل ایدھی کے تیور بھی اپنے عظیم باپ عبدالستار ایدھی جیسے ہی ہیں۔سماجی ورکر اور گلوکار شہزاد رائے نے یہ درست کہا کہ اب ہمیں فیصل ایدھی کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ ایدھی کے عظیم مشن کا جھنڈا اب اس کے ہاتھ میں ہے۔ ایدھی صاحب کے نام کو زندہ رکھنے ، ان کی تکریم کے لئے وہ سب کچھ کرنا چاہیے، جس کا جدید دنیا میں دستور ہے۔ نو جولائی کو چیریٹی ڈے قرار دینے کی تجویز آئی ہے، کسی بڑے ائیر پورٹ ، تعلیمی ادارے اور مرکزی وصوبائی دارالحکومت کی ایک ایک سڑک کو ان کے نام سے منسوب کرنا چاہیے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ ایدھی صاحب کے جذبے ، خدمت خلق کے جھنڈے کو ہاتھ میں تھامنا چاہیے۔ اس راہ پر چلنے والوں کا دنیا وآخرت میں بڑا اجر ہے، صرف کمر باندھ کر نکلنے کی ضرورت ہے۔ اخوت، الخدمت، غزالی سکول ٹرسٹ، پی اوبی، ہیلپ لائن ، کاوش اور اس طرز کے اچھے سماجی اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے، یہ سب ایدھی صاحب کے کام کی ایکسٹینشن ہی ہیں۔ اسی چشمے سے انسپائریشن لے کر نجانے کتنے مزید چشمے پھوٹے ہیں، پھوٹتے رہیں گے۔ایدھی صاحب کا اس ملک اور قوم پر سب سے بڑا احسان یہی انسپائریشن دینا ہے۔ ان کے جانے کے بعد بھی یہ انسپائریشن باقی رہے گی۔
بہتی ندی کی سی روانی ،معصوم بچے کا سا سادہ ابلاغ ،پھر معتدل اور بولتی وسعت پذیر مثبت فکر .گویا سکوں کے کسی لا متناہی سمندر میں تیرتی پھرتی .. جزیرہ نجات کی طرف لے جاتی اک کالم کشتی ...یہ ہیں جناب خاکوانی صاحب کی نثر کے اجزائے ترکیبی.. اللہ انھیں دیا جلائے رکھنے کی توفیق دئیے چلا جائے .
شکریہ برادر