ہوم << دوسری عورت، پرائی عورت اور گرل فرینڈ - ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

دوسری عورت، پرائی عورت اور گرل فرینڈ - ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

کون ہے یہ دوسری عورت؟ کہاں سے آتی ہے؟ کہاں پیدا ہوتی ہے؟ آخر کسی ماں کی جنی تو ہوتی ہے نا؟ یا کسی درخت پر اگتی ہے؟ پھر آخر یہ کیسے کسی کی زندگی میں ”دخل در نا معقولات“ کر سکتی ہے. کیا یہ اپنے والدین کے درمیان کسی عورت کا وجود برداشت کر سکتی ہے؟ اگر نہیں تو یہ کسی اور کے گھر میں نقب کیسے لگاتی ہے؟
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ یہ دوسری عورت بہت طاقتور ہوتی ہے. یہ مرد کی زندگی میں موجود پہلی عورت کے وجود کو عدم میں تبدیل کر دیتی ہے، اور پہلی عورت کا پہلا مرد اپنی زندگی میں آنے والی دوسری عورت کی خوشنودی کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے. بس ایک کام وہ اکثر نہیں کرتا. پہلی عورت کا پہلا مرد اپنے پہلے گھر کا سکون اس دوسری عورت کے لیے برباد کرنے سے ہر ممکن کوشش کر کے بچتا ہے. اس پہلے مرد کو دوسری عورت سکون، طلب، ہوس، خوشی یا ٹرافی کی طرح تو چاہیے لیکن اسے مستقل گلے کا ہار بنانے کا ارادہ وہ نہیں رکھتا، اور پھر جب یہ عورت ”available as per required“ ہے تو مستقل درد سر پالنے کی کیا ضرورت ہے.
بےشک مرد کو اللہ نے اجازت دی ہے، اور ہر مرد یہ جانتا ہے، لیکن ہر مرد کی آپشن دوسری شادی نہیں ہوتی. وقتی لذت آفرینی مرد پہلی بیوی کے ڈر سے نہیں کرتا بلکہ اپنی چوائس سے کرتا ہے کہ مفت کی ملے تو بری نہیں. جو عورت بھی دوسری عورت بنتی ہے، اگر وہ یہ سمجھتی ہے کہ اس نے میدان مار لیا تو میری اس بہن سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ اس خیال کو اپنے دل و دماغ سے کھرچ دے. اور اپنے حالات سے سمجھوتہ کر کے کسی نیک مرد کی پہلی عورت بن کر اپنا گھر بسائے اور اپنی گرہستی سنبھالے.
مرد کو دوسری شادی کی اجازت اسلام نے دی لیکن ہر مرد اس آپشن کو استعمال نہیں کرنا چاہتا. اور ایسا وہ پہلی بیوی کا غلام ہونے کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ دو کشتیوں کا سوار ہونے سے ڈرتا ہے، ہاں مفت ہاتھ آئے تو مضائقہ نہیں. ذمہ داری ہر مرد لینا نہیں چاہتا اور اس ذمہ داری سے فرار کو وہ پہلی بیوی کے کھاتے میں ڈال کر معصوم بن جاتا ہے کیونکہ ہر مرد دوسرا ڈھول گلے میں لٹکانا نہیں چاہتا.
جو کرنا چاہتا ہے اسے کون روک سکتا ہے؟ اگر کوئی ایسا کہتا ہے کہ میں تو دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن پہلی بیوی اور اس کے بھائیوں سے ڈرتا ہوں تو درحقیقت وہ شادی کے نام پر دوسری عورت کو استعمال کر رہا ہے. بڑے کہتے ہیں ”مرد میلے ٹھیلے کا انسان ہے“، سو اسے ہر میلے میں کوئی کھلونا پسند آ ہی جائے گا. لیکن شام ڈھلے گھر واپس بھی اس نے جانا ہی ہے.
ہر عورت ”اپنےگھر“ کا خواب لے کر ہی بچی سے بڑی ہوتی ہے. کچھ خواتین ایک غیر حقیقی آئیڈیل کے انتظار میں اپنا وقت تباہ کر بیٹھتی ہیں. ذہنی ہم آہنگی، آسائش، دولت، کار کوٹھی بنگلے اور عہدے والا established مرد کا سوچتے سوچتے وقت نکل جاتا ہے. اور جب ہوش آتا ہے تو پہلے مرد کی پہلی عورت بننے کا خواب ٹوٹ جاتا ہے. اب خواہشات اور خوب سے خوب تر کی تلاش نے وقت تو ہاتھ سے ریت کی مانند اڑا دیا ہوتا ہے، اس لیے اب پہلی عورت بننے کی خواہش پر نظرثانی کرتے ہوئے ایسی خواتین شکاری کی طرح تاک میں لگ جاتی ہیں کہ کب موقع ملے اور کسی کی بسی بسائی گرہستی میں سے ”اپنا“ حصہ بٹائیں.
ظاہر ہے کار کوٹھی والا اسٹیبلشڈ مرد عموما بیوی بچوں والا ہوتا ہے، لہذا یہ خواتین دوسری عورت بن کر آدھے کے لیے کوشش کرتی ہیں اور عموما منہ کی کھاتی ہیں. ہمارا معاشرہ پہلی بیوی اور بچوں کو تحفظ دیتا ہے اور معاشرے کے خوف سے عموما مرد دوسری عورت کو ”پال“ تو لیتے ہیں لیکن اپنا نام نہیں دیتے.
خواتین! میری بہنو! جذباتی لڑکیو! اپنے آپ کو ”جنس“ مت سمجھو، اپنی قدر پہچانو، کسی کی بسی بسائی گرہستی کو تباہ مت کرو. تم تو شاید اپنی کوشش کی ناکامی کے بعد اپنی راہ لے لو گی لیکن جس کا گھر تم جلتے تندور میں پھینک آؤ گی، اس کا وبال تمہیں تمہارے گھر میں بھی بےسکون ہی رکھے گا. یاد رکھو! تمہارے رب نے تمھیں جس آدم کی پسلی سے پیدا کیا یے، وہ آدم تمہیں ضرور ملے گا. اپنے رب پر بھروسہ رکھو اور اپنے نصیب کے رزق کا انتظار کرو. صبر شکر اور حوصلے کے ساتھ.
اپنا وقت اپنی تعلیمی استعداد اور ہنر کو بڑھانے کے لیے استعمال کرو تاکہ وقت کی باگ دوڑ تمہارے ہاتھ میں رہے اور تمہاری قسمت کی نکیل تمہارے مقسوم مرد کے ساتھ جڑی نہ ہو بلکہ تم اپنی زندگی کی مہار خود تھامو. ”تم آپ اپنا تعارف بن جاؤ.“

Comments

Click here to post a comment