ہوم << ہندوستانی اداکار پاکستان سےکتنی نفرت کرتے ہیں؟ روبینہ فیصل

ہندوستانی اداکار پاکستان سےکتنی نفرت کرتے ہیں؟ روبینہ فیصل

ایک پاکستانی کو وطن سے محبت ایک ہندوستانی سے سیکھنی چاہیے۔
پاکستان کی سیاسی اشرفیہ، بیوروکریسی، سفیر، دانشور، میڈیا اور ادیب، کوئی بھی پاکستانیوں کو پاکستانیت نہیں سکھا سکا۔ کیوں؟
کیوں کہ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ اس کا نمک کھانے والے سب کے سب نمک حرام ہیں۔ جس کو پاکستان نے جتنا نوازا، اس نے اتنی ہی احسان فراموشی کی۔ اعلی تنخواہیں اور مراعات لینے والے، دوسرے کی بے ایمانیوں پر لیکچر دیتے اورخود پارسا بن کر کہتے ہیں:
”اوہ! پاکستان ہے ہی بڑا گندا ملک۔“
اگر اتنا ہی گندا ہے تو اس کے بدن سے تعلیم، عہدے، نام اور تنخواہیں کیوں نوچتے رہے؟
جےگرے وال (کینیڈا میں بسنے والا ایک نوجوان سکھ لڑکا جو آزاد خالصتان کا خواب دیکھتا ہے) بڑی حیرت اور حسرت سے کہتا ہے:
”مجھے آپ کے پاکستانیوں پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر کی قدر نہیں کرتے اور اسے گالیاں دیتے ہیں۔ ہم سے پوچھیں کہ پوری دنیا میں اپنا گھر نہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اپنا گھر مٹی کا بھی ہو تو اپنا ہی ہوتا ہے۔ ہمیں جناح نے ٹھیک کہا تھا کہ یہ ہندو تمھیں اپنا غلام بنا لےگا، وہی ہوا ۔آج وہ کہتے ہیں سکھ ازم بھی ہندوازم ہی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ نہیں ہے مگر ہماری آواز کوئی نہیں سنتا، آپ اپنے جعلی دانشوروں سے کیوں نہیں کہتیں کہ یہاں بیٹھ کر انڈیا کی تعریفیں کرنے کے بجائے، جا کر بھارت میں رہ کر تو دیکھیں۔“
جے کو کیا پتہ دنیا داری کے حساب سے پاکستان سے محبت سراسر گھاٹے کا سودا ہے، جو مجھ جیسے چند سر پھرے، کسی معاوضے یاذاتی نمائش کی لالچ کے بغیر کیے جا رہے ہیں کیونکہ یہ محبت میری ہے، کسی پر احسان نہیں۔
کم ظرف عاشق محبوبہ سے پوچھتا ہے کہ میرے لیے کیا کیا، اعلی ظرف عاشق محبوبہ سے پوچھتا رہتا ہے بتاؤ تمھارے لیے کیا کروں؟
ہمارے کم ظرف لوگ پاکستان سے سوال پوچھتے ہیں ہمارے لیے کیا کیا؟ کھبی اپنے آپ سے یہ سوال نہیں پوچھتے کہ انہوں نے پاکستان کے لیے کیا کیا؟
ہمارے سیاسی، سرکاری، ادبی لیڈر اپنی نااہلی، احساس ِکمتری اور بدنیتی کی وجہ سے، پاکستان کی جو محبت لوگوں کے دلوں میں نہیں ڈال سکے، وہ شاید جے گرے وال کی حسرت سے یا بھارتی صحافیوں، دانشوروں، حکمرانوں، اور اداکاروں کی اپنے وطن سے محبت دیکھ کر ان کے دلوں میں بھی اتر آئے۔ آئیے دیکھیے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں:
راجیش اوم پرکاش: ”پاکستان گھس گھس کر حرکتیں کرتا ہے، دیش کو غصہ تو آئےگا، جب اُڑی کیمپ میں ہمارے لوگ جل بھن جائیں گے۔ امن کی بات خواب ہے۔ جب ملک حالت ِجنگ میں ہوتے ہیں تو فنکار علیحدہ نہیں رہ سکتے۔“
وارن دھوان: ”ہم اپنی حکومت کے ساتھ ہیں۔ وہ جو بھی کر یں ہم ساتھ ہیں۔“
سیف علی خان: ”ہم فنکار ہیں، ہمیں محبت کی بات کر نی چاہیے مگر حکومت فیصلہ کر ے گی۔“
اعجاز خان: ”پاکستان سے کوئی چیز نہیں لینی چاہیے، کیوں لینی چاہیے؟ کرن جوہر پاکستان سے لے آتا ہے، شاہ رخ خان سے یہی کہوں گا یہاں لڑکیاں مر گئی ہیں کیا جو پاکستان سے لے آتے ہو؟ ابھی جو فلمیں بنا گئے ہیں چلنے دو، ورنہ ہندوستان کا نقصان ہوگا۔“
جان ابراہام: ”ہم اپنے ملک، اپنے سپاہیوں، اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمیں انڈین آرمی پر فخر ہے۔“
سناکشی: ”ہم اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں اور فوج کے شکر گذار ہیں کہ انہوں نے سرجیکل اٹیک کیے ۔“
اکشے کمار: ”میں فنکار کی حیثیت سے نہیں، فوجی آفیسر کے بیٹے کی حیثیت سے بات کر رہا ہوں ۔ آپ لوگوں کو پاکستانی فنکاروں کے بین ہو نے پر سوال کی پڑی ہے، وہاں کسی جوان نے سرحد پر اپنی جان دے دی ہے۔ ہمارے ہزاروں فوجیوں کو ہمارے مستقبل کی چنتا ( پریشانی ) ہے۔ فوج نہیں تو ہم نہیں۔“
نانا پاٹیکر: ”ہمارے فوجی جوان سب کچھ ہیں۔ ہم نقلی لوگ ہیں۔ جو پٹر پٹر کرتے ہماری کوئی اوقات نہیں۔ پاکستانی آرٹسٹوں کو، سلمان خان نے کہا، حکومت نے ویزہ دیا، وہ دہشت گرد نہیں، ٹھیک ہے دیا مگر اب جب جنگ ہے تو ہمیں الگ ہو نا چاہیے، پہلے دیش پھر ہم، دیش کے سامنے ہم کھٹمل ہیں۔“
انوملک: ”میں ہندوستان کی مٹی سے بنا ہوں۔ ہندوستان ہے، تو انو ملک ہے۔ ہم وہی کر یں گے جو حکومت کہے گی۔“
نوازالدین: ”دیش سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ اُڑی حملے کے بعد ان پاکستانی فنکاروں کو ملک سے باہر نکل جا نا چاہیے۔“
اجے دیوگن: ”پاکستانی آتے ہیں، ہمیں مار جاتے ہیں، ہمیں تھپڑ مارتے ہیں، ہمیں پھر بھی مذاکرات کر نے چاہیں؟“
جیتندر: ”جو بھی دیش کے لیے فیصلے کر رہے ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں۔“
سونالی باندرے : ”پاکستانی ہمارے دوست نہیں ہیں۔ ہمیں ان کے ساتھ کوئی بزنس نہیں کر نا چاہیے۔ ہم اپنی حکومت کے ساتھ ہیں۔“
شیو سینا: ”سلمان خان کو سبق سکھائے جانے کی ضرروت ہے، وہ پاکستان چلے جائیں۔“
سنیل سیٹھی: ”حکومت صحیح فیصلہ کر تی ہے۔ جب تک حالات ٹھیک نہ ہوں، پاکستانی فنکاروں کو دور رہنا چاہیے۔“
راجو سری واستو:”لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ اوم پوری کے بیان کی وجہ سے ہم سب فنکاروں کا سر شرم سے جھک گیا۔ ان کی بجلی بھی کاٹ دینی چاہیے اور ان کا حقہ پانی بند کر دینا چاہیے، پٹرول، ڈیزل بند کر دینا چاہیے، کھاتے ہندوستان کا اور گاتے پاکستان کا، کوئی لوگ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان نہ ہو تا تو ہم دیش بھگت (محب ِوطن) نہ ہوتے، ارے! اگر ہم دیش بھگت ہوتے تو یہ پاکستان ہی نہ ہوتا۔ انڈین آرمی سے کہتا ہوں کہ سرجیکل سٹرائیک کریں۔ اور ہمیں بھارتی سینا (فوج) پر اعتبار کر نا چاہیے اور جو لوگ ان پر اعتبار نہیں کر تے، وہ غدار ہیں۔“
اوم پوری کا قصور بھی دیکھ لیتے ہیں..
ایک انتہائی شدت پسند میزبان، جو انہیں سلمان خان کے اس بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”پاکستانی فنکاروں کو حکومت کی اجازت سے بلایا جاتا ہے اور فنکار دہشت گرد نہیں ہو تے۔“ کی حمایت کرنے پر انتہائی بدتمیزی سے پوچھ رہا تھا کہ ایسا کیوں کیا؟
اوم پوری نے جواب دیا:
”کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اسرائیل اور فلسطین بن جائیں، تو اپنی سرکار سے کہیں ان کا ویزہ کینسل کریں۔ کیوں پاکستانی کلاکاروں کو ویزہ دیتے ہیں؟ انڈیا میں بائیس کروڑ مسلمان بھائی رہتے ہیں، کیوں ان کو بھڑکا رہے ہو؟ انڈیا جھوٹی فلمیں بنا کے پاکستان پر تھوپتا رہا ہے.“
اس پروگرام میں میزبان سمیت جتنے لوگ تھے، اوم پوری پر پِل پڑے، کہا گیا کہ آپ ایک گندے آدمی ہیں، آپ نے ہمارے دیش کی گردن جھکا دی، ہم آپ کو سنجیدہ سمجھتے تھے، آپ کو دیش کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اتنا ہنگامہ شروع ہوگیا کہ اوم پوری کی آواز دب گئی، انہوں نے کہا کہ نوجوان نہ جائیں پھر فوج میں۔ کہنے کا مقصد تھا کہ فوج میں ہیں، لڑائی ہوگی تو شہید ہوں گے، مگر اس بات کو دیکھتے ہی دیکھتے اتنا غلط رنگ دے دیا گیا کہ اگلے ہی دن اوم پوری نے آن ائیر آکرفوج، ہلاک ہونے والے فوجی کے گھر والوں سے، پوری قوم سے کہا:
”میں اس جرم کی معافی نہیں مانگ رہا بلکہ اپنے آپ کو مجرم قرار دے کر سزا مانگ رہا ہوں، میرا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔ آرمی مجھ سے جوتے پالش کر وائے، کھانا لگوائے۔“
دوسری طرف عاطف اسلم سے ایک ہندوستانی رپوٹر پوچھتا ہے: ”ہم اپنی فلموں میں پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں۔ آپ لوگ انھی فلموں میں کام کر کے پیسے لیتے ہو، کیسا لگتا ہے اپنے دشمن دیش کے ساتھ بیٹھ کے اپنے دیش کو گالی کھاتے دیکھنا؟“
عاطف: فنکار کی کوئی سیما نہیں ہوتی، کوئی مذہب نہیں ہوتا، کوئی زبان نہیں ہوتی۔“
فواد خان کاایک ڈرامے کا ڈائلاگ ہے: ”وہ لاکھ دفعہ ناراض ہوتی، میں لاکھ دفعہ مناتا رہتا، مگر یہ جو اس نے اپنی دولت سے میری عزتِ نفس کا سودا کرنے کی کوشش کی ہے، اسے معاف نہیں کر سکتا.“
کاش فواد خان اور دوسرے پاکستانی اداکاروں کی یہ عزت ِنفس حقیقی زندگی میں بھی زندہ ہوتی، جو انڈیا کی محبت میں دفنا دی گئی ہے۔