ہوم << پاکستان: ریاست، تنازعات اور سی پیک - وقار علی، فن لینڈ

پاکستان: ریاست، تنازعات اور سی پیک - وقار علی، فن لینڈ

بدقسمتی سے پاکستان کچھ عرصے سے پیس اینڈ کانفلیکٹ سٹڈیز کے سکالرز اور طالب علموں کے لیے ایک پُرکشش موضوع بن گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ انسانی معاشرے سے متعلق شاید ہی کوئی تنازع ہو جس کی بہترین مثال پاکستان میں موجود نہ ہو بلکہ ہر مثال اپنی گہرائی، تنوع، لمبی تاریخ، پیچیدگی اور ہمہ جہت مثالیت کے ساتھ موجود ہے۔
عام طور پر ملک کے شمال مغربی علاقوں (فاٹا اور خیبر پختونخوا) میں جاری تنازعے کو مذہبی، وسط مغربی (بلوچستان) اور جنوبی (کراچی) علاقوں میں جاری شورش اور ابتری کو نسلی و لسانی جبکہ وسطی (پنجاب) علاقے میں جاری بدامنی کو فرقہ وارانہ تنازع سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ درآں حالیکہ یہ سب تنازعات کسی نہ کسی طور پر ایک دوسرے سے پیوستہ و منسلک ہیں۔
بعینہٖ ان تنازعات کے لیے جتنے بھی حل اب تک تجویز کیے گئے ہیں وہ تین موضوعات یعنی جیوپولیٹیکل، مذہب اور ریاست سے متعلق ہیں۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ ان میں بیشتر تنازعات کا حل ریاست کی خارجہ پالیسی کی درستگی اور توازن میں مضمر ہے۔ یعنی ریاست پاکستان کے خاص طو ر پر اپنے پڑوسیوں اور بین الاقوامی مراکز طاقت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے حوالے سے پالیسی میں اگر تبدیلی کی جائے تو یہ مسائل بتدریج حل ہوسکتے ہیں۔
دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ مذہب (یا اس کی ایک مخصوص تعبیر) ان مسائل یا تنازعات میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے مذہب (یا اس مخصوص تعبیر) کی اصلاح سے ان تنازعات (خصوصاً شمال مغربی اور وسطی علاقوں میں موجود مسائل) کا دیرپا حل ممکن ہوسکتا ہے۔ جبکہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ریاست کو اپنے اندرونی بنیادی پالیسیوں کی اصلاح پر توجہ دینی ہوگی جس میں سماجی اور سیاسی اصلاحات، جمہوری عمل کا تسلسل، عسکری تسلط کا خاتمہ، علاقائی خودمختاری اور ملک کے تمام طبقات اور اقوام میں اعتماد کی بتدریج بحالی جیسے اہم امور شامل ہیں۔
تاہم سب سے ضروری نکتہ جس کو کسی بھی حل میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، وہ حل کی عملیت ہے۔ اس حوالے سے جب ہم جیوپولیٹیکل حل یعنی خارجہ پالیسی کی تبدیلی کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حل کے پیش کرنے والے پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک طرح سے علاقائی اور بین الاقوامی مراکز طاقت کے سامنے سرنگوں ہوجائے۔ ظاہر ہے ریاست کے لیے یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ ایک ریاست پولیٹیکل گیم میں خود کو آسانی سے ملوث کرسکتی ہے اور خود اس کے شروعات میں کردار بھی ادا کرسکتی ہے لیکن بعد میں ایسے کسی تنازعے سے خود کو یک طرفہ طور پر نکال لینا یا اس کا خاتمہ اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ممکن بھی ہو تو اس کے لیے عوام میں مضبوط جڑیں رکھنی والی اور طاقتور اعصاب کی مالک قیادت ایک بنیادی ضرورت ہے۔ پاکستان میں جاری قیادت کے فقدان کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب اس کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ مزید براں اس خطے (خصوصاً افغانستان) میں جاری پراکسی وار کچھ زیادہ ہی پیچیدہ اور کثیرالجہت ہوگیا ہے اور فی الوقت اس کا خاتمہ ممکن نہیں کیونکہ اس میں علاقائی اور بین الاقوامی کھلاڑی شامل ہوچکے ہیں اور سب اپنے مفادات کو انفرادی سطح پر محفوظ تر بنانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ کھیل میں شامل سب کھلاڑیوں کے مفادات ایک دوسرے سے متضاد ہیں ۔
اسی طرح مذہب (یا اس مخصوص روایتی تعبیر) کی اصلاح سننے میں تو ایک دلپذیر خیال اور دلکش عنوان ہوسکتا ہے لیکن شاید ہی کسی کو اس کے ناممکن ہونے میں کلام ہو۔ یعنی ایں خیال است و محال است و جنوں! اس خیال کے موکلین ہزاروں میں ہوسکتے ہیں اور اس کے حامی لاکھوں میں لیکن پاکستان میں آپ کو 20 کروڑ مختلف النوع انسانوں سے سابقہ ہے جن کی زبانیں مختلف ، مسالک مختلف ، تاریخ اور جغرافیہ مختلف، سماج، سوچ اور کلچر مختلف ہے۔ اس لیے جتنا یہ خیال دلکش و دلپذیر ہے اتنا ہی غیر عملی بھی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اس خیال کے پیش کرنے والے شاید پاکستان کے سب سے زیادہ جمہوری سوچ رکھنے والے ہیں اور وہ کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کی تعبیر دین عوام پر کسی بھی طریقے سے تھوپی جائے۔
اس لیے سب سے زیادہ عملی اور بہترین ممکن راستہ یہی ہے کہ ریاست اپنے اندرونی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ ان تنازعات میں تمام ریاست مخالف دھڑوں کے درمیان بُعد المشرقین ہے لیکن سب ایک نکتے پر متفق ہیں اور وہ یہ ان کا ایک ہی مشترکہ دشمن ہے جس کا نام ”اسٹبلشمنٹ“ ہے ۔ اس لیے ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ریاست کے اندرونی سطح کے اصلاحات میں اس بات کو کلیدی اہمیت حاصل ہو کہ اس نام نہاد اسٹبلشمنٹ کی شکل و ہئیت کو بالکل بدل کر رکھ دیا جائے۔ اسٹبلشمنٹ کی نوآبادیاتی دور کے تصور کو ختم کیا جائے اور اس کے ظہورپذیر ہونے کے تمام راستوں کو بند کرکے ریاست اور ملک میں جدید دنیا کے تصور اسٹبلشمنٹ سے ہم آہنگ تصور کو فروع دیا جائے۔ دیگر اصلاحات میں پاکستان کے تمام طبقات اور اقوام اور ان کی علاقائی شناخت کو حقیقی طور پر تسلیم کرنا، انتظامی یونٹس کی ازسرنو تشکیل یعنی تمام اقوام کی حقیقی نمایندہ یونٹس کا قیام، فیڈریشن کی جانب پیش قدمی، مقامی ذرائع آمدن پر مقامی حقوق کو یقینی بنانا، وسیع تر قومی معاشرے میں ہم آہنگی اور اعتماد کو فروغ دینے کے لیے مطلوبہ اقدامات، ہر سطح پر جمہوری کلچر اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینا، جاگیرداری کا مکمل خاتمہ اور زمین سے متعلقہ اصلاحات، ہتھیاروں کی بجائے علم اور تعلیم پر مرتکز پالیسی، ریاستی اور حکومتی امور میں عسکری تسلط اور غلبے کا خاتمہ اور تمام شہریوں کے (بلاتفریق مذہب ، مسلک ، قومیت ، زبان ، نسل اور جنس) بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا بنیادی امور ہیں ۔
اگرچہ یہ اقدامات اور اصلاحات پاکستان کو غیریقینی کیفیت سے نکال لینے اور اس کے مستقبل کی ضمانت کے لیے ناگزیر ہیں لیکن بدقسمتی سے ریاست اور حکومت اس کے مخالف سمت میں برابر لگی ہوئی ہے اور مجھے ان پالیسیوں کے ناکامی اور ریاست پاکستان پر اس کے دوررس اور انتہائی منفی اثرات کے مرتب ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ اس حوالے سے سی پیک کا منصوبہ ایک نہایت اہم، واضح اور اہمیت کا حامل ٹیسٹ کیس ثابت ہوگا۔ اپنے افادیت کے لحاظ سے یہ نہ صرف پاکستان کی معاشی حالت کے سدھار بلکہ ریاست پاکستان کے حدود کے اندر ایک قوم کی تشکیل کے لیے ایک گراں قدر موقع ہے ۔ تاہم اس کے روٹ میں بنیادی تبدیلی (جس کا تقریباً فیصلہ ہوچکا ہے) اس کو پاکستان میں انتشار اور تقسیم کے لیے ایک عمل انگیز ثابت کرسکتی ہے۔
لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد کےاذہان کبیر نے شاید درست سوچا کہ مغربی روٹ کو علاقے میں بدامنی اور ریاست مخالف انتشار کی وجہ سے اپنایا نہیں جاسکتا حالانکہ یہی تو ریاست کے لیے اصل اور کڑا امتحان ہے کیونکہ اسی امتحان سے گزر کر ریاست اپنے شہریوں کو یہ باور کراسکتی ہے کہ ان کا آنے والا کل روشن اور محفوظ ہے ۔ روٹ تبدیل کرنے کا مطلب ریاست مخالف عناصر کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہے؛ اپنی بے بسی کا اظہار ہے اور یہ پیغام دینا ہے کہ ریاست کو چند علاقوں اور چند قومیتوں کے علاوہ باقی علاقوں اور قومیتوں میں زیادہ دلچسپی نہیں۔ پاکستان کے شمال مغربی اور وسط مغربی علاقوں میں ریاست اور ریاست کے اندر اپنے مستقبل کے حوالے سے متعلق شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ ریاست پاکستان عام طور پر ان شکوک کو ”ملک دشمنی“ اور ”غداری“ کے لیبلز چسپاں کرکے دبانا چاہتی ہے جبکہ یہ شکوک ریاست مخالف گروہوں میں نہیں بلکہ پاکستان کے لیے محبت رکھنے والے لوگوں میں پیدا ہورہے ہیں اور میرے اندازے کے مطابق نوجوان نسل میں اس طرح کے جذبات عام ہیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس طرح کے شکوک کا اظہار عام نہیں؛ بالکل تسلیم لیکن وجوہ سب کے علم میں ہیں کہ ایسے شکوک کا کھلے عام اظہار کیوں نہیں کیا جاتا؟
حال ہی میں القاعدہ اور طالبان کی قید سے رہائی پانے والے حیدر گیلانی نے بھی بہت بروقت ریاست کو اس پر متنبہ کیا ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ تحریک طالبان اپنا بیانیہ مذہب سے ہٹاکر قومیت کے بنیاد پر پیش کرنے کی طرف جارہی ہے۔ یعنی ان کے دلائل میں اب واضح تبدیلی نظر آتی ہے جہاں مذہب کی بجائے قومیت اور قومی حقوق یا محرومی کا ذکر غالب آرہا ہے ۔ سی پیک روٹ کی تبدیلی ان حالات میں نہ صرف طالبان بلکہ تمام ریاست مخالف گروہوں کو ایک مضبوط ، دیرپا اور مستحکم دلیل فراہم کرسکتا ہے ۔
حکومت کی طرف سے روٹ کی مبینہ تبدیلی کے بعد ایک خاص قومیت سے تعلق رکھنے والے نام نہاد دانشوروں نے بھی ایک خاموش اور بلاواسطہ پروپگنڈہ مہم شروع کردی ہے جو مغربی روٹ کی خرابیاں اور مشرقی روٹ کی اچھائیاں ”اجاگر“ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مخالف قوتوں کو منفی تنقید کا نشانہ بنارہی ہے۔ یہ سب کچھ ایک غیرمحسوس طریقہ کیا جارہا ہے ۔ اس طرح کی حرکات پاکستان کے مختلف النوع قومیتوں کے درمیان دراڑ کو مزید مضبوط اور گہرا کرسکتی ہیں ۔

Comments

Click here to post a comment