ظالم کے ظلم کی مذمت اور مظلوم سے یکجہتی اللہ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہے جس سے فی زمانہ بہت سے لوگ محروم ہیں۔ استدلالی اور عقلی درماندگیاں ہمارے فکری افلاس اور تاریخ سے عدم واقفیت کی مختلف صورتیں ہی تو ہیں۔ جن معاملات میں سر ظفراللہ خان اور اے کے بروہی جیسے لوگ بھی رات رات بھر تیاری کرکے راۓ دیتے تھے، آج دانشوران فیس بک اس کے بارے میں حتمی فیصلے سنا رہے ہیں۔ جن کو یہ بھی معلوم نہیں کہ انت ناگ کو اسلام آباد کیوں کہتے ہیں وہ بھی ’’ماہرین امور کشمیر‘‘ بنے بیٹھے ہیں۔ ان کے منہ سے برہان وانی کے لیے تو ایک بھی حرف ہمدردی نہ نکلا، لیکن اتنا ضرور یاد رہا کہ ’’بھئی اگر طاقت نہیں ہے، تو لڑتے کیوں ہو؟ مار تو پڑے گی نا‘‘ گویا پہلے جارح کے برابر طاقت حاصل کی جاۓ اور جب طاقت اور عسکری صلاحیت میں جارح کے برابر ہو جائو تو پھر، اس سے لڑو۔ یعنی الجزائر کے لوگ انتظار کرتے اور جب طاقت میں فرانس کے برابر ہو جاتے تو، علم جہاد بلند کرتے۔ یا یہ کہ ویت نام کے لوگ پہلے سپر پاور بنتے، پھر امریکی بربریت کے خلاف صف آرا ہوتے۔ بھلا کبھی ظالم اور مظلوم بھی طاقت میں ہم پلہ ہوۓ ہیں؟ اگر مظلوم طاقت میں ظالم کی ہم سری کرنے لگ جاۓ تو پھر تو ظلم کا وجود ہی کیسا؟ بھلا کبھی جارح اور محکوم بھی طاقت کے ترازو میں برابر ہوۓ ہیں؟ اور کیا کبھی ظالم اپنے زیر تسلط ایسے مواقع پیدا ہونے دے گا، کہ مظلوم طاقت میں اس کے برابر ہو جاے؟ اگر ایسا ہوتا تو پھر اللہ، مظلوم سے نصرت کا وعدہ ہی کیوں کرتا؟ اللہ کی کتاب واضح حکم دیتی ہے:
[pullquote]أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ۔
[/pullquote]
’’ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان کی مدد پر بڑا قادر ہے‘‘۔
دوسری بات یہ کہ ان دانشوران فیس بک سے کس نے کہا کہ یہ جنگ کشمیریوں نے شروع کی ہے؟ جنگ شروع کرنا ایک شے ہے لیکن جنگ کا مسلط کیا جانا ایک بالکل دوسری۔ کیا یہی بات حضور نبی اکرمﷺ کے فرمودات سے ثابت نہیں؟ کس کی تعلیم ہے کہ جنگ کی تمنا مت کرو، نہ ہی اس کا آغاز کرو، لیکن اگر جنگ مسلط کر دی جاۓ تو پھر بہادری سے لڑو؟ یاد رکھیں، محض کسی آزاد ملک میں پیدا ہونا، اس بات کی گارنٹی نہیں ہے کہ ہماری فکر بھی آزاد ہوگی۔ غلامانہ ذہنیت غلامانہ ہی رہتی ہے۔ اور مردان حر، محکوم ملکوں میں پیدا ہو کر بھی، آزاد فطرت ہی ہوتے ہیں۔ اقبال نے ایسے ہی فطری محکوموں کے بارے میں کہا تھا:
محکوم ہے بیگانۂ اخلاص و مروت
ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک
تبصرہ لکھیے