ہوم << پاناما لیکس یا پاجامہ! - ظفر عمران

پاناما لیکس یا پاجامہ! - ظفر عمران

zafar imranمحترم عامر ہاشم خاکوانی فرماتے ہیں کہ 'در اصل فوج کے حوالے سے آپ ایک خاص موقف طے کرچکے ہیں، تو اس سے ہٹ کر آپ کو کوئی بھی بات نا گوار لگتی ہے۔' میں نے ان کی بات کو تسلیم کرتے کہا کہ فوجی بھی اتنا ہی بد عنوان ہوسکتا ہے، جتنا کہ سیاست دان۔ یہ مضمون اسی بحث کی کڑی ہے۔
آج کل پاناما لِیکس کا شوروغوغا ہے۔ سیاست دانوں بالخصوص شریف فیملی کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ کوئی بات نہیں، یہ جمہوریت کا حسن ہے، کہ کوئی آپ سے سوال کرے، آپ تسلی بھرا جواب دیں؛ لیکن یہ نہ کیجیے، کہ سوال کرنے والے کو 'مِسنگ پرسن' بناکر رکھ دیا جاے۔ پاناما لِیکس میں جو الزامات لگاے گئے، ان کی تحقیق ہو، کوئی مجرم ثابت ہو جاے، تو سزا دی جاے۔ ماضی دیکھیے، اسی ملک میں ایک منتخب وزیر اعظم پہ قتل 'ثابت' ہوا، انھیں پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ دوسرے منتخب وزیر اعظم طیارہ اغوا کرتے 'رنگے ہاتھوں' دھر لیے گئے؛ ملک بدر کیے گئے۔ تیسرے وزیر اعظم توہین عدالت کے مرتکب ہوے، عہدے سے برخاست کیے گئے۔
کسی سیاست دان میں اتنا دم خم ہی نہیں، کہ کسی فوجی کا احتساب کر سکے؛ جب کہ سیاست دانوں کا احتساب ہر فوجی آمر نے کیا، نتیجہ یہی نکلا کہ کچھ پاک ہو کر فوجی اقتدار کا حصہ بنے؛ کچھ کے خلاف عدالت میں ثبوت ہی نہ فراہم کیے جاسکے؛ چند لمحوں کے لیے مان لیتے ہیں، کہ جن کے خلاف ثبوت میسر نہ ہوے، وہ گھاگ تھے۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کہ ایسے سیاست دان عدالتوں سے بے گناہی کا فیصلہ لیتے دس سال جیل میں گزار دیتے ہیں۔
اب آتے ہیں، اس کیس کی طرف جو سولہ سال فیصلے کا منتظر رہا؛ اصغر خان کیس۔ ملاحظہ ہوں اس فیصلے کی جھلکیاں۔
'چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں، جسٹس جواد ایس خواجہ اور عارف حسین خلجی پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 1990ءکے انتخابات میں آئی جےآئی بنانے سےمتعلق سولہ سال پرانے اصغر خان کے مقدمے کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے، کہ نوے کے انتخابات میں اِسٹیبلش منٹ کے بناے گئےسیاسی سیل کے ذریعے دھاندلی ہوئی۔ سپریم کورٹ نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے، اور عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ جو سیاست دان اس سے مستفید ہوئے ان کی تحقیقات کی جائیں۔ اس کے علاوہ فیصلے میں سب سے اہم حکم کہ اگر ایوان صدر میں سیاسی سیل موجود ہے تو ختم کیا جاے، صدر حلف وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔'
آخر کیا وجہ ہے، کہ ان ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی؟ کچھ نہیں، تو فوج ان افسران کو بہ حال کر کے ناراضی کی سزا ہی سنا دے! اب آپ کوئی یہ کہے، کہ میں نے پاناما لِیکس کے 'مجرموں' کو بچانے کے لیے آئیں بائیں شائیں شروع کر دی ہے، تو ان کے لیے مقدمے کے فیصلے سے یہ حوالہ پیش کرتا ہوں۔
'ایف آئی اے کی سپریم کورٹ میں پیش کی گئی انکوائری رپورٹ کہتی ہے کہ یونس حبیب نے الیکشن میں دھاندلی وغیرہ کے لیے آئی ایس آئی کے ذریعے دیئے گئے پینتیس لاکھ روپے کے علاوہ نواز شریف کو بیس کروڑ روپے کی رشوت دی تھی۔'
لیجیے جناب، حاکم وقت جناب میاں نواز شریف کا نام بھی شامل ہے، گنہ گاروں میں۔۔۔ میری راے ہے، کہ کسی نئی تحقیق میں پڑنے سے بہ تر ہے، پہلے سے ہوے عدالتی فیصلوں کا احترام کیا جاے؛ سولہ سال لٹکنے والے اس مقدمے پہ قوم کا کتنا پیسا ضائع ہوا، اس کا حساب تو ہو۔۔۔ سنیے! ایسا ہوگا نہیں۔۔۔ فوج کے خلاف چاہے جتنے فیصلے آ جائیں وہ ردی کی ٹوکری کے لیے ہیں؛ واقع یہ ہے، کہ سیاست دان کم زور مقدموں میں بھی جیل کی ہوا کھاتے آے۔
جناب خاکوانی، کیا آپ سمجھتے ہیں، کہ پاناما لِیکس، اور پاجامہ لِیکس کی اصطلاحیں کوئی معنی رکھتی ہیں؟

Comments

Click here to post a comment