ہوم << گدھے کی دریافت : تاج رحیم

گدھے کی دریافت : تاج رحیم

جس تعداد اور اقسام کے گدھے ملکِ پاکستان میں ملتے ہیں تو ہم پورے اعتماد کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ باوا گدھا اسی سر زمیں پر پیدا ہوا یا اسے بھی جنت یا دوزخ سے باوا آدم کے ہمراہ ہجرت پر مجبور کیا گیا۔اور گدھے کو باوا آدم نے اسی سرزمینِ پاک پر دریافت کیا ۔ یا یوں کہہ لیتے ہیں کہ دونوں کی ملاقات ہوئی ۔ کرشن چندر کی تحریر“ گدھے کی سرگزشت ”سے بھی یہحقیقت عیاں ہے کہ گدھا اسی سرزمیں اور خصوصاً پنجاب کا پُت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں اس کے تین بڑے اور مشہور خاندانی سلسلے اور ان کے بے شمار ذیلی سلسلے پھیلے ہوے ہیں ۔ ایک ہے سیاسی گدھوں کا خاندانی سلسلہ اور دوسرا مذہبی خاندان کا سلسلہ اور تیسرا اصلی باوا گدھے کی اولاد۔سیاسی اور مذہبی سلسلوں کے ذیلی سلسلے تو اتنے ہیں کہ ذکر کرنے کیلئے تو پوری ڈکشنری درکار ہے ۔
اسلئے اس مختصر تحریر میں ان کا ذکر نا نامکمل ہوگااور مفت میں ان کی ناراضگی مول لینا پڑے گی ۔ آپ ماشااللہ خود بھی سمجھ دار ہیں اپنے ارد گرد ، اپنے محلے گلی کوچے۔شہر شہر، گاؤں گاؤں ، سڑکوں پر، دھرنوں میں، سرکاری دفتروں میں، اور حکومت کے ایوانوں میں اگر مل نہیں سکتے تو دیکھ ضرور سکتے ہیں ۔اور پہچاننے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
اس مختصر تحریر کو ہم چار ٹانگوں والے باوا گدھے کی اولاد تک محدود رکھنا چاہتے ہیں لیکن چونکہ یہ دو ٹانگوں والے گدھے کی دریافت ہے تو اسے اس تحریر سے نکال تو نہیں سکتے کیونکہ دونوں لازم و ملزوم ہیں جو بھی معنی آپ سمجھ لیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ زیادہ توجہ اصلی خاندانی گدھے کے ذکر پر ہو ۔ تو اللہ آپ کا بھلا کرے کہانی یوں شروع ہوتی ہے کہ ایک دن ایک پختون سائنسدان پہاڑ پر سردیوں کیلئے لکڑیاں کاٹنے گیا تھا ۔ سائنسدان پختون ہی ہو سکتا ہے کیونکہ پنجابی ، سندھی یا مہاجر کو سیاست سے فرصت نہیں۔ وہ سیاست دان بننا ہی پسند کرتے ہیں اور کچھ نہیں۔ تو خان صاحب نے بہت ساری خشک لکڑیاں اکٹھی کیں او ر جب گھٹا باندھ کر اٹھانے کی کوشش کی تو اسے احساس ہوا کہ وہ
کوئی گنوار پختون نہیں ایک سائنسدان ہے ۔ جسمانی طاقت کم اور دماغی طاقت زیادہ رکھتا ہے اور دماغی طاقت کو استعمال میں لانے کی فکر میں ایک چٹان پر بیٹھ گیا ۔ جو سوچتا ہے قدرت اس کی مدد کرتی ہے تو اللہ کا کرنا یوں ہوا کہ اس کے سوچنے کے دوران ایک خوبصورت چار ٹانگوں والا طاقتور جانور کہیں سے نمودار ہوا اور اسی چٹان کے پاس آکر کھڑا ہو گیا ۔ جس پر بیٹھ کر سائنسدان تخلیقی سوچ میں گم تھا ۔جونہی اس جانور پر نظر پڑی تو اس کے ذہن میں دریافت کی لہر بجلی کی سرعت کے ساتھ چمکی اور اس نے اس جانور کے استعمال کا گر بھی ایک چٹکی میں ایجاد کر لیا چٹان سے چلانگ لگائی اور گدھے کو کان سے پکڑ کر لکڑیوں کا گھٹا اس کی پیٹھ پر لاد دیا ۔ یوں گدھا بھی دریافت ہو گیا اور
اس کے استعمال کا طریقہ بھی ایجاد ہو گیا ۔ اور پختون اور گدھے کا آپس میں ایسا گہرا اور لازوال رشتہ قائم ہوگیا جو صدیوں سے اب تک چلا آرہا ہے ۔گدھے کی دریافت نے انسانی ترقی کی راہیں کھول دیں ۔ کابل سے لے کر ممبئ اور بنگال تک سڑکیں شیرشاہ سوری نے نہیں بنائیں بلکہ گدھے کی محنت نے ہی ان سڑکوں کو عملی جامہ پہنایا۔ اور ریل کی پٹڑی،
اونچی اونچی عمارتیں ، دریاؤں پر لمبے لمبے پل، پانی کی نہریں سب گدھے کی ان تھک محنت اور بلا معاوضہ مزدوری کا نتیجہ ہے ۔یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ انسان کی غاصبانہ فطرت نے بھی یہاں سے جنم لیا کہ اس نے گدھے کی مزدوری کا معاوضہ ہڑپ کرناشروع کیا ۔
گدھے کی دریافت کے بعد ہی تمام ایجادات کا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ یہ بھی گدھے کی دور اندیشی تھی کہ خچر وجود میں آیا ۔گدھے کی سامان ٹرانسپورٹ کرنے کی ایجاد کے بعد ہی دوسرے بڑے بڑے ذرائع ٹرانسپورٹ ایجاد ہوے ۔ پہلے گدھا گاڑی کی ایجاد ہوئی تو اس کی مشینی شکلوں میں سوزوکی ڈبہ، لمبے لمبے ٹرک، ریل کی لمبی لمبی مال گاڑیاں ، بحری جہاز، اور سامان ٹرانسپورٹ کرنے والے ۷۴۷ ہوائی جہاز ایجاد ہوے ۔ پختون کو تو ٹرک کے ایجاد سے پیدائشی لگاؤ ہے کہ کابل سے کراچی تک ٹرک ڈرائیور پختون ہی ملے گا ۔ کیا کسی مہاجر نے بھی ٹرک ڈرائیور بننے کی کوشش کی ہے؟ اگر پختون سائینسدان گدھے کو دریافت نہ کرتا تو آج با با آدم کی اولاد پتھر کے زمانے میں سانس لے رہی ہوتی ۔نہ کمپیوٹر ہوتا نہ سیل فون ۔ نہ ہی بل گیٹ کو ونڈو کا خیال آتا ۔ نہ ہی آئن سٹائن پیدا ہوتا اگر پیدا ہو گیا تھا تو کوئی اضافت قسم کی تھیوری نہ بناتا ۔
1960—2016
1960 تک پنجاب کے لوگوں کی زندگی بڑی سادگی کے ساتھ گزر رہی تھی ۔ دال کے ساتھ روٹی کھاتے اور لسی پیتے تھے ۔ سرسوں کا ساگ مہمانوں کے لئے پکتا۔ چادر سر یا کندھے پر رکھنے کی بجائے اس سے دھوتی باندھتے تھے ۔لوگ اتنے سادہ تھے کہ ان کو یہ علم نہیں تھا کہ ان کے شمال میں رہنے والے ہم وطن دال کی جگہ گوشت کھاتے ہیں اور لسی کی جگہ گرم گرم چائے پیتے ہیں ۔ اور مہمانوں کی تواضع مرغ مُسلم سے کرتے ہیں ۔ اور چادر کی دھوتی نہیں بناتے اسے سر پریا کندھے پر رکھ کر چلتے ہیں اور بیٹھنا ہو تو بچھا تے نہیں بلکہ پگ بنا کر اس پر بیٹھتے ہیں ان ساری باتوں کا انکشاف ان پر اس وقت ہوا جب پنجاب کی خواتین نے افغانستان سے سمگل کپڑوں اور دوسری سمگل چیزوں کی مارکیٹ کو قبائلی پختونوں کے ایک پہاڑی قصبے لنڈی کوتل میں دریافت کرلیا ۔
یہ دریافت پنجاب کے لوگوں کیلئے ایسی ہی تھی جیسے کولمبس نے امریکہ دریافت کر لیا تھا ۔ سارا پنجاب ہی سمگل چیزوں سے فیضیاب ہونے لنڈی کوتل پر ٹوٹ پڑا ۔ بھوک کا نشہ ٹوٹنے لگا تو لنڈی کوتل کے تکے کباب اور چرغے پنجابیوں کے دال اور ساگ کے ذوق پر چھا گئے ۔اس نئے ذوق طعام کی تسکین کیلئے یار لوگوں نے لاہور کے گلی کوچوں اور بازاروں کو تکے کباب اور چرغوں کے نعمت کدوں سے سجا دیا ۔ تاکہ کھانے کے شوقین لوگوں کو لنڈی کوتل نہ جانا پڑے ۔ اور پھر بڑی سرعت کے ساتھ پنجاب کے ہر شہر میں تکے کباب اور چرغوں نے دال اور ساگ کی جگہ لے لی ۔ اور چائے لسی پر چھا گئی ۔ معاملہ صرف خوراک تک نہیں رہا بلکہ بہت ساری تہذیبی تبدیلیاں بھی آ گئیں ۔ مثلاً دھوتی پر شلوار نے قبضہ جما لیا ۔ بس پختون تہذیب کا ایک مشہور جز نسوار پنجاب کو فتح کرنے میں ناکام رہا. کیونکہ دہلی کا پان پہلے ہی یہ جگہ لے چکا تھا ۔لنڈی کوتل کی جس تہذیب نے پنجاب کے لوگوں کو بہت زیادہ متا ثر کیا وہ گوشت کا استعمال تھا ۔ ہر گھر کی ہانڈی میں گوشت نہ ہو تو سمجھو وہ ہانڈی نہ ہوئی جیسے روکھی روٹی کھائی ۔ گوشت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ مثلاً مرغی گوشت چھوٹا گوشت بڑا گوشت ۔ دال بھی بغیرگوشت کے نہ گلتی ۔ گوشت کھانے پر تو لوگ آگئے ۔ مرغی گوشت اور چھوٹا گوشت تو پیٹ نے قبول کرلیا مگر بڑا یا موٹا گوشت ہضم کرنے میں پنجاب کے لوگ اپنے پختون بھائیوں کا مقابلہ نہیں کرسکے ۔ تو ہاضمےکی توانائی جانوروں کی اقتصادی تقسیم پر یوں اثر انداز ہوئی کہ شمال کے پہاڑوں میں بھیڑ بکریوں کی افزائش ہوتی اور پنجاب ایکسپورٹ ہونے لگی ۔ پنجاب میں جو ڈھگے یعنی بیل ہل جوت جوت کے بوڑھے ہو کر ریٹائیر ہو جاتے وہ ان کو اپنے شمال میں رہنے والے پختون بھائیوں کے ذوق طبع کے لئے ٹرک بھر بھر کر روانہ کرتے ۔مرغیوں کا کاروبار پنجاب میں بڑا کامیاب رہا ۔ زندہ مردہ مرغیاں سب دھڑا دڑھ بکنے لگیں ۔ کہنے کا مطلب ہے کہ پنجاب اس میدان میں خود کفیل ہو گیا ۔
2016-2031
اب آئن سٹائین کی اضافت کی تھیوری نے پنجاب کی آبادی پر اپنا رنگ دکھایا ۔گوشت خوری سے پنجاب کی آبادی دوگنی چوگنی سے بھی کہیں آگے چلی گئی ۔اتنی بڑی آبادی جو کبھی سارے پاکستان کی بھی نہیں تھی ان کو گوشت کہاں سے پورا کیا جاتا ۔ مردہ مرغیوں کی فارمنگ یہ کمی کسی حد تک چرغہ خوری کے شوق کو تو پورا کر نے کیلئے کافی تھی ۔ مگر چھوٹے گوشت کا جو بحران پیدا ہوا تو اس نے قصائی برادری کو پریشان کردیا ۔ ان کی نیندیں حرام ہوگئیں ۔ اب یہ ان کی ذمہ داری تھی حکومت کی تو نہیں تھی ۔ قصائی برادری کے بزرگوں نے بڑی سوچ بچار اور تحقیق کے بعد حل نکال ہی لیا کہ
چھوٹے گوشت سے ذرا بڑا سہی لیکن بڑے گوشت سےچھوٹا گوشت گدھے کا ہی ہوسکتا ہے ۔ اور یہ جانور جو صدیوں سے اس سرزمینِ پاک پر ، ان کی چھری سے آزاد دندناتا پھر رہا ہے ۔ آخر کب تک اسے یہ خصوصی آزادی ملتی رہے گی ۔
رفتہ رفتہ پنجاب کے قصائی اپنے اس نئے دریافت میں کامیاب رہے ۔ لوگ اس صحت مند چھوٹے گوشت کے عادی ہوگئے ۔ لیکن پھر مشکل یہ آن پڑی کہ لوگ یہ گوشت کھانے کے عادی تو ہو گئے لیکن کسی معقول اور اقتصادی بنیاد پر گدھے کی افزائش کا انتظام نہیں ہوا جو اس وطن پاک کے لوگوں اور نظام کی خصوصیت ہے ۔ بھیڑ بکری کا تو پہلے ہی قحط آچکا تھا اب گدھے کا بھی قحط آگیا ۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے ۔ حکومت کے خلاف دھرنے شروع ہوگئے ۔ نئے نئے
نعرے بن گئے ۔ فوج بھی حرکت میں آگئی کہ پڑوسی ملک کے ساتھ اس خیال سے جنگ کے لئے تیاری شروع ہو گئی کہ مال غنیمت میں گدھے ہی ہاتھ آ جائینگے ۔ ورنہ جنگ میں اپنی آبادی کچھ تو کم ہو جائیگی۔
اس دوران CPEC کا مسئلہ بھی حل ہو چکا تھا ۔ مشرقی اور مغربی دونوں کوریڈور مکمل ہو چکے تھے ۔ اور چین میں گدھوں کی ڈیمانڈ بہت بڑھ گئی تھی اور سپلائی کم ۔ چین نے دنیا بھر سےگدھوں کی امپورٹ شروع کردی تھی ۔ اور سپلائی کے نئے ذرائع کی تلاش تھی ۔ جن میں پختونخوا میں گدھوں کی افزائش پر تحقیق شامل تھی ۔اس تحقیقی رپورٹ کی بنیاد پر چین نے پختونخوا حکومت کوگدھوں کی افزائش اور فارمنگ کیلئے بہت بڑی سرمایہ کاری کی پیشکش کی مگر حکومت کے ارکان اس سوچ میں پڑگئے کہ ان کا ذاتی حصہ اس میں کتنا ہوگا اور کیسے وصول ہوگا ۔ کہ یہ خبر بھیڑ بکریاں پالنے والے اجڑ گوجروں کے کان تک پہنچ گئی ۔ حکمرانوں سے زیادہ یہ لوگ عقل مند ہیں ۔ انہوں نے راتوں رات اپنی بھیڑ بکریاں
پنجاب پارسل کرکے کیش وصول کیا اور اس پیسے سے گدھا فارمنگ شروع کردی ۔ چند سال میں پختون خوا کے پہاڑ گدھوں سے بھر گئے ۔ ان کے دیکھا دیکھی ہر پختون نے گدھوں کے فارم کھول لئے ۔ یہاں تک کے بہت سارے سیاست دانوں اور وزیروں نے بھی سیاست کو الوداع کہہ کرگدھا فارمنگ شروع کردی ۔دیکھتے ہی دیکھتے گدھوں کی آبادی پختونوں سے کئی گنا زیادہ ہوگئی ۔ کہ اس صوبے کا سرکاری نام تو پختون خوا رہا لیکن لوگ اسے خَر خوا کے نام سے پکارنے لگے ۔ کہ انسان
کم اور ہر طرف گدھے ہی گدھے ۔ اور ان گدھوں کی برکت سے لوگ مالی طور پر بہت خوشحال ہوگئے ۔ پاکستان کے دوسرے علاقوں سے لوگ محنت مزدوری کیلئے یہاں آنے لگے ۔
مشرقی اور مغربی دونوں کوریڈور مکمل ہو چکے ہیں ۔ چین سے جو لمبے لمبے ٹرک مال کے بھرے گوادر جاتے ہیں تو واپسی پر خر خوا سے ، اوہ معاف کرنا ، پختون خوا سے گدھوں سے بھر کر چین جاتے ہیں یقین کیجئے چین سے مال لے کر اتنے آتے نہیں جتنے گدھوں سے بھر کرچین جاتے ہیں ۔ ٹرکوں کا دوسرا قافلہ مشرقی روٹ سے پنجاب جاتا ہے ۔ اور یہ ٹرک بھی گدھوں سے بھرے ہوتے ہیں پھر بھی پنجاب میں گدھوں کی سپلائی پوری نہیں ہو پاتی ۔ پنجاب اپنی تمام
زمینوں پر اب گندم اور دوسری فصلوں کی بجائے گدھوں کا چارہ اگاتا ہے کیونکہ یہاں کے کسانوں کیلئے یہ بہتریں کیش کراپ ہے ۔ اور یہ ٹرک واپسی پر چارے بھرے جاتے ہیں ۔ پختون خوا کے تقریباً تمام میڈیکل کالج ڈنکی ہسبنڈری کالجوں میں
تبدیل ہو چکے ہیں اور ان میں داخلہ بھی ہر ایرے غیرے کو نہیں ملتا ۔ بڑی بڑی سفارش کے علاوہ ہر امیدوار کا بیک گراؤنڈ چیک کیا جاتا ہے کہ اس کے بزرگوں نے گدھوں کے معاملے میں کیا خدمات سرانجام دی ہیں ۔ اور کالجوں کی فیسیں بھی لاکھوں میں پہلے پختون خوا کے لوگ پنجاب سے شاکی تھے اور علیحدگی کی تحریکیں بھی تھیں ۔
اب تو حال بالکل الٹا ہے ۔ پنجاب کے لوگ گدھوں میں اپناحصہ مانگتے ہیں اور برابری کا تقاضا کرتے ہیں مگر گدھے کو پختونخوا کی آب و ہوا ایسی راس آئی ھے کہ پنجاب اس کوالٹی کے گدھے پیدا ہی نہیں کرسکتا ۔ اور سنا ہے کہ پنجاب کےگدھوں کاگوشت ذائقے میں پھیکا پھیکا سا ہوتا ہے اور یہاں کے لوگوں کے ذوق ذائقہ کو تسکین نہیں ملتا ۔ پنجاب کے گدھوں کاگوشت سستا ہوتا ہے اس لئےغریب لوگ اسی پر صبر شکر کر لیتے ہیں ۔ کہ کھانے کوگوشت تو مل جاتا ہے پنجاب کے سیاسی گدھے ، پنجاب میں گدھا فارمنگ کے سخت خلاف ہیں اور اسمبلی میں گدھا فارمنگ کو غیر قانونی قرار دیا ہے ۔ ان کو ڈر ہے کہ یہ نہ ہو کہ پختون خوا کی طرح سیاسی گدھوں کی اہمیت نہ رہے اور وہ حکومت کا کاروبار چھوڑ کر گدھا فارمنگ کے کاروبار میں ملوث ہو جائیں ۔ ہاں البتہ پختون خوا سے گدھے امپورٹ کرنے والوں کو خصوصی مالی امداد دی جا رہی ہے ۔ کہ عوام کو گوشت کی سپلائی میں کمی کی شکائت نہ ہو ۔ صحتِ عامہ پر منفی اثر نہ پڑے اور امن و امان بھی برقرار رہے ۔

Comments

Click here to post a comment