ہوم << "اسلام بیزاروں کا نیا وار" : شہزاداسلم مرزا

"اسلام بیزاروں کا نیا وار" : شہزاداسلم مرزا

اول و آخر سب کچھ اسلام کو ماننے کے آفاقی تصور پر بار بار حملے جاری ہیں کہ
کسی طرح عام مسلمان اسلام کے علاوہ بھی کسی نظام کی جانب متوجہ ہو۔ آج کل ایک
نئی سوچ کو خوشنما بنا کر اس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے خدانخواستہ
کسی نئے مذہب کا ظہور ہوا ہے۔ "انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے" اس فقرے میں ہی
تمام مذاہب سے بغاوت موجود ہے کہ جیسے تمام مذاہب انسانیت کو خدانخواستہ کچھ
نہیں دے سکے اس لئے اب سب سے کنارہ کشی اختیار کرکے انسانیت کو ہی مذہب مان
لیا جائے۔ یہ تناظر خود چغلی کھا رہا ہے کہ یہ کسی ملحد کے ذہن کی پیداوار ہے۔
ایدھی صاحب اسکالر یا تعلیم یافتہ نہیں تھے اور نہ کوئی مذہبی شخصیت تھے بس
ایک عام سادہ سا درویش بندہ تھا جس نے مظلوم عوام کی خدمت کو ہی اوڑنا بچھونا
بنا لیا، ان سے جب نماز، روزہ یا حج وغیرہ جیسی عبادات کی پابندی کے متعلق بار
بار سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کسی لمحے کہہ دیا کہ میرا سب کچھ انسانیت ہی
ہے بس اتنا کہنا تھا کہ خصوصا اسلام بیزاروں کو جیسے نئی زندگی مل گئی ہو
انہوں نے اس فقرے کو فورا اچک لیا اور انسانیت انسانیت کی گردان شروع کر
دی۔حالانکہ اس طبقے کا اپنا عمل کسی بھی لحاظ سے مہذب انسانی معیارات کے مطابق
نہین ہوتا۔ شراب پینا انسان کو انسانیت کے مقام سے گراتا ہے، زنا کرنا انسانیت
کے شرف کے خلاف ہے، بوڑھے والدین کو اولڈہاؤسز چھوڑ دینا انسانیت کی توہین ہے،
اخلاقی و معاشرتی حدود کی پامالی انسانوں کو حیوان بناتی ہیں اور سب سے بڑھ کر
انسانیت کو تمام نعمتوں سے مالامال کرنے والے رب کا انکار یا اس کے نظام کو رد
کرنا انسانوں کو بےحس بنا دیتا ہے۔
ویسے تو تمام مذاہب کی بنیاد ہی انسانیت کی بہتری پر ہے پر اسلام کا تو سارا
دعوی ہی یہی ہے کہ جب انسانیت اپنی پستی کی انتہاء پر تھی تو اس کے مقابل
اسلام کا ظہور ہوا۔ جب بیٹیوں کو زندہ جلایا جاتا تھا، عورتوں کے کوئی حقوق
نہیں تھے، انسانوں کی خرید و فروخت جانوروں سے سستے داموں ہوتی تھی اور سب سے
بڑھ کر محکوم انسانوں کی زندگی کو کوئی تحفظ حاصل نہ تھا تب اسلام نے اس
جاہلانہ طرز زندگی کے مقابل عادلانہ اور باعزت نظام متعارف کروایا۔ والدین کے
حقوق، بہن بھائیوں، بیوی شوہر کے حقوق، بچوں کے حقوق کے علاوہ ہمسائے اور
ملازمین کے حقوق تک کون باعزت مقام سے محروم رہ گیا۔
انسانیت کو جتنا تحفظ مذہب کے حصار میں ہے باہر ہرگز نہیں کیونکہ ثابت ہو چکا
کہ دنیا جیسے جیسے مذاہب کا دامن چھوڑتی جا رہی ہے انسان اتنا ہی غیر محفوظ
اور انسانیت تذلیل زدہ ہوتی جا رہی ہے۔ اس لئے دنیا کو امن و سلامتی چاہئے تو
اسے مذہب کی طرف لوٹنا ہو گا ورنہ اس سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام نے تو
انسان کو دو وقت کے کھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔
ایدھی صاحب کی وفات کے بعد انہیں مذہب کے حوالے سے متنازع بنانے والے ایدھی
صاحب کے دوست تو یقینا نہیں مگر اس آڑ میں ان کا اصل ہدف اسلام ہے اور ان
سازشوں سے ہمارے نوجوان کو ہردم آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔

Comments

Click here to post a comment