ہوم << برہان وانی میری ڈسپلے پکچر پر کیوں؟ - ارمغان احمد

برہان وانی میری ڈسپلے پکچر پر کیوں؟ - ارمغان احمد

میں آج کل یورپ میں رہ رہا ہوں اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں کی حکومتیں دہشت گردی کے بارے میں کس قدر حساس ہیں۔ بھارت کی بھی پوری کوشش ہے کہ آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے دیا جائے۔ اس کے باوجود میرے ضمیر نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ میں اس نوجوان شہید کے ساتھ اظہار یکجہتی نا کروں۔ باقی پھر جو اللہ کو منظور۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ میرا فرض ہے کہ میں اس سلسلے میں کچھ چیزوں کی وضاحت کروں۔ شکوک و شبہات دور کروں تا کہ میں لوگوں کو غلط سمت میں ڈالنے کا سبب نا بنوں۔
سب سے پہلے یہ واضح کر دیں کہ جہاد اور دہشت گردی میں فرق ہے۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ کوئی دہشت گرد جہاد کرنے کا دعویٰ کر رہا ہو اور آپ کو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے کہ وہ درست کہہ رہا ہے یا غلط۔ اسی طرح جب میں ٹی ٹی پی اور داعش وغیرہ کو جہنمی کتا کہتا ہوں مگر کشمیر کے جدوجہد کرنے والوں کو مجاہد کہتا ہوں تو ضرور کچھ لوگوں کو یہ بات دوغلی یا دو عملی لگتی ہوگی۔ اب ان تمام شکوک و شبہات کا جواب پڑھیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ سویلینز پر حملہ چاہے کشمیر میں ہو، چاہے بھارت میں چاہے پاکستان میں، وہ دہشت گرد ہے اور قابل مذمت ہے۔
دوسری بات یہ کہ بین الاقوامی طور متنازع علاقے میں اگر آپ پر ظلم کیا جا رہا ہو تو پھر چاہے وہ آئرلینڈ ہو، کشمیر ہو، سکاٹ لینڈ ہو یا فلسطین، وہاں ریاستی جبر کے خلاف جدوجہد دہشت گرد نہیں ہے جب تک کہ سویلینز کو نشانہ نا بنایا جائے۔ آزادی کی جدوجہد اور دہشت گرد میں فرق کرنا ضروری ہے۔
مجھے معلوم ہے بہت سے دوست دوسرے نکتے کے بین السطور پیغام کو فراموش کر دیں گے۔ اس لیے مزید واضح لکھتا ہوں۔ بلوچستان قانونی اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ کوئی ایسا حل طلب مسئلہ نہیں کہ جس کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادیں تک موجود ہوں۔ اسی طرح پاکستان میں فاٹا وغیرہ میں کوئی ایسا متنازع علاقہ نہیں کہ ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کا فوج کے خلاف بھی کوئی جواز بنتا ہو۔ اور داعش کی تو بات ہی کیا کرنی۔ ان کا تو کوئی بھی کام اسلامی فکر سے مطابقت نہیں رکھتا۔
جہاں بھی کسی ملک پر غیر ملکی حملہ کیا جائے، اس پر قبضہ کیا جائے غیر قانونی طور پر اور وہاں کی آبادی پر ظلم کیا جائے تو اقوام متحدہ اور دنیا کا ہر قانون ان کو آزادی کی جدوجہد کی اجازت دیتا ہے۔ اور وہ سو فیصد جائز سمجھی جائے گی پھر وہ چاہے عراق ہو، افغانستان ہو، کشمیر ہو یا فلسطین۔
جی مجھے پتا ہے اس نکتے پر کچھ لوگوں کے ذہن میں کیا مکالمہ آ رہا ہو گا، آئیں اس کا جواب بھی سن لیں۔
پہلے مکالمہ سن لیں: ”چونکہ پاکستان افغانستان پر حملے کے دوران امریکا کا اتحادی تھا، اس لئے اس کے خلاف ٹی ٹی پی کا لڑنا جائز ہوا نا پھر“
اب اس کا جواب سن لیں۔ ہرگز جائز نہیں ہوا، بودی دلیل ہے۔ کیسے؟ افغانستان پر جب حملہ ہوا تو وہاں کون حکمران تھا؟ افغان طالبان۔ کیا پاکستانی طالبان وہاں حکمران تھے؟ جواب ہے نہیں۔ تو پاکستانی ریاست پر اصل غصہ کس کو ہونا چاہیے تھا؟ افغان طالبان کو یا پاکستانی طالبان کو؟ ظاہر ہے افغان طالبان کو۔ مگر کیا انہوں نے غصہ کیا؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ پتا ہے کیا کیا؟ اس کا جواب آپ کو میں نہیں دوں گا بلکہ سترہ جنوری 2014 کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے افغان طالبان کی طرف سے جاری کیا گیا خط دے گا۔ یہ خط ساتھ دیا جا رہا ہے۔ اس تاریخ کے جنگ اخبار سے اس کی تصدیق بھی کی جا سکتی ہے۔ پھر بھی بات سمجھ نا آئے تو ”آپریشن ایول نائٹ ایئر لفٹ“ گوگل کر کے پڑھ لیجیے گا، پھر بھی سمجھ نا آئے تو جنرل مشرف پر امریکی انتظامیہ کے ڈبل گیم کے الزامات پڑھ لیجیے گا، پھر بھی سمجھ نا آئے تو افغان مسلے کی اصل پارٹی افغان طالبان اور ملا عمر کی طرف سے ریاست پاکستان یا پاک فوج کے خلاف زیادہ نہیں محض ایک، صرف ایک جی ہاں میں دہرا رہا ہوں صرف ایک بیان پیش کر دیں تو ہم جھوٹے اور ٹی ٹی پی سچی۔
اس تمام گفتگو کی روشنی میں یہ بات نہایت واضح ہو جاتی ہے کہ برہان وانی ایک شہید ہے، ایک ہیرو ہے اور ہمارے احترام کا مستحق ہے۔ ہاں اگر اس نے ایک بھی سویلین پر حملہ کر کے دہشت گرد کی ہے تو میں اسے اپنا ہیرو نہیں مانوں گا۔ یہ تھیں کچھ معروضات ایک "عام پاکستانی مسلمان" کی طرف سے۔
اور اب اس مضمون کا حاصل کلام۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ اس مضمون کے موضوع کے مطابق ایک ”عام پاکستانی مسلمان“، ”ایک مذہبی شدت پسند“ اور ”ایک سیکولر و لبرل شدت پسند“ میں کیا فرق ہے؟
مذہبی شدت پسند کہے گا: افغان طالبان، ٹی ٹی پی، کشمیری فلسطینی، داعش سب مجاہد ہیں
سیکولر و لبرل شدت پسند کہے گا: یہ سب دہشت گرد ہیں
جب کہ عام پاکستانی مسلمان کہے گا: محض افغان، کشمیری اور فلسطینی مجاہد ہیں تب تک جب تک کہ وہ جنگ کے اسلامی احکامات و آداب کا خیال رکھیں گے، سویلینز پر حملے نہیں کریں گے، دہشت گرد نہیں کریں گے۔ باقی تمام گروہ دہشت گرد ہیں ہر لحاظ سے۔
اللہ ہمیں اعتدال اور خلوص کے ساتھ سچ سوچنے، سمجھنے اور کہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

Comments

Click here to post a comment