ہوم << آزادی کی قیمت۔۔۔ برہان وانی اور ہم - مبشر ایاز

آزادی کی قیمت۔۔۔ برہان وانی اور ہم - مبشر ایاز

انسانوں کی انفرادی یا اجتماعی زندگی میں آزادی کی کیا حیثیت ہے، اس کا جواب افریقہ کے نسل در نسل پیدائشی غلاموں سے پوچھیں یا عراق و شام، افغانستان میں سنگلاخ پہاڑوں پر حق آزادی کے لیے بے سروساماں ان سرفروشوں سے معلوم کریں۔
لیکن آزاد فضائوں میں سانسیں لینے والے قوم کے ان ٹھیکیداروں کو کیا معلوم کہ ہمارےبڑوں نے اس آزادی کی خاطر 10 لاکھ لوگوں کی گردنیں اتروائیں۔ لاکھوں مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں تار تار ہوئیں۔۔۔ ہائے افسوس! یہ کیا جانیں شہدا کی قدر، انہیں کیا پتا جنگ آزادی کیا ہوتی ہے۔۔۔ یہ بزعم خود دانشور انہیں دہشت گرد کہہ کر سورج پر تھوکنے کی کوشش میں دراصل اپنا ہی منہ گند سے بھرتے ہیں۔۔۔
دین اسلام آزاد اور اپنے ماننے والوں کو آزادی کے حصول کے لیے ہی اکساتا ہے، یہی وجہ ہے مسلمان نامی یہ اُمت کبھی بھی غلامی کی زندگی گزارنے پر آمادہ نہ ہوئی، بلکہ ہمیشہ اپنی ہمت و استطاعت کے مطابق غاصب دشمنوں کے خلاف قلم زبان اور ہتھیار سے جہاد کا علم بلند کیے رکھا۔۔۔
دین اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں یا کسی مظلوم قوم کی آزادی کے لیے لڑتے ہوئے جو بھی مارا گیا، اسے اس دین میں شہید کے شاندار لقب سے نوازا گیا اور اسے زندہ کہا گیا۔۔۔
آج کی جدید دنیا میں بھی یہ کوئی ظلم یا زیادتی نہیں، بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں کسی علاقہ کے مکینوں پر کسی دوسری قوم کی طرف سے ناجائز غاصبانہ قبضہ کے خلاف کی جانے والی لڑائی کو جدوجہد آزادی اوراس بنیادی انسانی حق کے حصول کے لیے اجازت دی گئی ہے۔۔۔ مگر قربان جائیں ان عقل سے عاری دانشوروں پر جو سیاہ وسفید میں فرق نہیں کرسکتے۔ یہ تعصب میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ دنیا میں کوئی مسلمان اپنے بنیادی حق کی خاطر مارا جائے تو ان کے نزدیک دہشت گرد ٹھہرتا ہے اور لاکھوں انسانوں کے قاتل کو نوبل پرائز دینے پر عش عش کررہے ہوتے ہیں۔۔۔
تحریک آزادی کشمیر گزشتہ 69 سال سے جاری ہے، جس میں ہزاروں مجاہدین حق خودارادیت کے حصول کے لیے اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ شہدا کے خون سے لبریز اس متبرک تحریک میں ایک شاندار اضافہ ستمبر 1994ء میں پلوامہ کے علاقے ترال کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولنے والے برہان وانی جو 15 سال کی عمر میں اس وقت شامل ہوا جب راستے میں جاتے اس کے بھائی مظفر وانی کو غاصب بھارتی فوجیوں نے شدید زخمی کردیا۔۔۔
برہانی وانی جدید ٹیکنالوجی کے حامل ایسےمجاہد جو عسکری کاروائیوں میں اپنے جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر اپنی شاندار مدلل گفتگو اور دلکش تصاویر کے لحاظ سے کشمیری نوجوانوں میں بہت مقبولیت حاصل کرچکے تھے۔ وانی کے اسی میڈیا ورک کا نتیجہ تھا کہ ہزاروں کشمیری نوجوان غاصب بھارتی فوجیوں کے خلاف کشمیر کے برفانی پہاڑوں کا رخ کرچکے ہیں، اس لہر سے تنگ بھارتی فوج نے برہان وانی کے سر کی قیمت 10 لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی، جو گزشتہ دنوں ہندو فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔۔۔
برھان وانی کی شہادت کی خبرمقبوضہ وادی کشمیرمیں آگ کی سی تیزی سے پھیلی۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر اس عظیم مجاہد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔۔۔ برہان وانی کی شہادت نے کشمیری عوام کے اندر جزبہ شہادت اور حصول آزادی کی تحریک کے لیے نئی روح پھونک دی اور کشمیریوں کے اندر اپنے پاؤں پہ کھڑے ہوکر غاصب قوت کو للکارنے کی جرات پیدا کردی۔۔۔
کشمیری نوجوان ایک بار پھر ہزاروں کی تعداد میں غلامی کا شکنجہ توڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے جدوجہد آزادی کشمیر کے اندر ایک نئی تیزی اور ولولہ دیکھنے کو ملا ہے۔۔۔ لیکن افسوس کہ پاکستانی میڈیا اور حکمرانوں کی طرف سے اس پر وہ ردِعمل سامنے نہیں آیا جس کا یہ ایشو حق دار تھا۔
اس کے باوجود مقبوضہ وادی کشمیر کے عوام جدوجہد آزادی کے لیے مکمل پُرعزم ہیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ پاکستانی عوام ان کی جدوجہد آزادی کی اخلاقی اور سفارتی حمایت تو جاری رکھے ہیں، لیکن بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں ان محاذوں پر شاید اب تعاون کبھی ممکن نہ ہوسکے۔ اب جو کچھ کرنا ہے، کشمیری عوام کو کسی بیرونی امداد کی توقع کے بغیر ازخود ہی کرنا ہے۔

Comments

Click here to post a comment