ہوم << ایک لڑکی کی روح کی فریاد - نوشابہ عبدالواجد

ایک لڑکی کی روح کی فریاد - نوشابہ عبدالواجد

میں! آسمانوں میں قائم خداوندہ کریم کی بارگاہ میں روح کی شکل دے کر وجود میں لائی گئی ہوں اور مجھے اُس قطار میں کھڑا کیا گیا ہے، جو عنقریب اولاد بن کر دنیا میں جانے والی ہے۔ اُس دنیا میں جو ہمارے لیے ہی تخلیق کی گئی اور جس کا وجود ہم سے ہی ہے۔
اولاد کی قطار میں کھڑی، اللہ کے فرمان کا انتظار کرتے ہوئے، میں دنیا میں آنے والی زندگی کو اپنی آنکھوں کے پردے پر چلتا دیکھ رہی ہوں اور خوف ذدہ ہوں کہ اللہ کا فرمان میرے لیے کیا فیصلہ لے کر آ رہا ہے ۔ انسانی شکل حاصل کرنے کے لیے مجھے کسی نہ کسی ماں کے شکم کی ضرورت ہو گی ۔۔۔کون ہو گی میری ماں؟ مسلمان یا کسی اور عقیدے سے تعلق رکھنے والی؟ میں یہ جانتی ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور میرے تحتِ شعور میں دینِ اسلام محفوظ ہے، مگر مجھے کس عقیدے کو ماننا ہے اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ میرے ہونے والے والدین کس عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر میں مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی تو مجھے اپنی فطرت کے مطابق ماحول مل جائے گا، جہاں میں باآسانی اپنے تحتِ شعور میں محفوظ دینِ اسلام کو سمجھ پاؤں گی اور اگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا تو میرے لیے اپنی فطرت کے خلاف ساری زندگی گزارنا مشکل ہو گا اور اگر میں خود دینِ اسلام کی کھوج میں نہ نکلی تو ایک اضطرابی روح بن کر رہ جاؤں گی۔
انتظار کے لمحوں میں نِت نئے سوالات میرے ذہن میں آ رہے تھے کہ اُسی وقت ایک خواہش نے میرے اندر جنم لیا کہ کاش! اللہ تعالی مجھ سے پوچھے کہ کیا میں اولاد بن کر دنیا میں جانا چاہتی ہوں؟ اور پوچھے جانے پر میں جواب دوں۔ نہیں کبھی نہیں۔
اللہ تعالی میرا یہ جواب سُن کر مجھ سے ایک بار پھر پوچھے آخر کیوں؟ تب میں اپنا حالِ دل بیان کرتے ہوئے کہوں۔
اے اللہ! میں اس بات پر فخر کرتی ہوں کہ دنیا کا کوئی کونا ایسا نہیں ہے جہاں مجھے مانگا نہ جاتا ہومگر جب میں اپنے مانگے جانے کی وجوہات پر نظر ڈالتی ہوں تو دل برداشتہ ہو کر یہ خواہش کرتی ہوں کہ مجھے اولاد بن کر اِن مانگنے والوں کے گھروں میں نہیں جانا۔۔۔۔۔۔اللہ تعالی آپ نے مجھے ان مانگنے والوں کو دینے کے لیے ہی بنایا ہے، مگر یہ مجھے کیوں مانگ رہے ہیں؟؟؟
ذرا دیکھیں تو۔
کوئی مجھے اس لیے مانگ رہا ہے کہ اُن کو صاحبِ اولاد ہونے کا سرٹیفکیٹ چاہیے، تاکہ وہ دنیا میں اَکڑ کر چل سکیں۔ کوئی مجھے اس لیے مانگ رہا ہے کہ اُن کو اپنی نسل اور وراثت چلانی ہے۔ کوئی مجھے اس لیے مانگ رہا ہے کہ اُن کو اپنی ادھوری خواہشات کو پورا کرنا ہے، تو کوئی مجھ میں اپنے بڑھاپے کا سہارا دیکھ رہا ہے۔
اے میرے رب! ہر کوئی مجھ میں اپنا مفاد دیکھ رہا ہے ، کوئی بھی مجھے اُس مقصد کے لیے نہیں مانگ رہا جس کے لیے میری تخلیق ہوئی ہے۔ مرد اور عورت پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مجھے پیدا کرکے آپ کے آگے جھکنے والوں کی تعداد میں ایک اور عاجز بندے کا اضافہ کریں۔ معاشرے کو ایک مکمل انسان بنا کردیں تاکہ وہ دین اور انسانیت کے اُصولوں کو آگے لے کر چل سکے۔
یا اللہ! صرف یہ ہی وجہ نہیں ہے، جس نے میرے اندر دنیا میں جانے کی خواہش کو کم کر دیا ہے۔ ۔ ذرا میرے وجود کا آغاز دیکھیں، جب میں اپنی ماں کے شکم میں ہوتی ہوں تب بھی اپنی ماں کے رحم و کرم پر ہوتی ہوں، اگر ماں چاہے تو مجھے ایک صحت مند انسان بنا کردنیا میں لانے کا ذریعہ بن جائے اور اگر نہ چاہے تو میری بے بسی کا فائدہ اُٹھا لے۔
میں یہ بات جانتی ہوں کہ میرے اور میرے والدین کے درمیان احسان کا رشتہ ہے کیونکہ جہاں بے بسی ہوتی ہے وہیں تو احسان ہوتا ہے۔ مگر کیا میرے ہونے والے والدین یہ جانتے ہیں کہ میرے اور ان کے درمیان کون سا رشتہ ہے؟
اے میرے مالک! میں اپنی ماں کہ شکم میں جتنی بےبس ہوں اُتنی ہی لاچار دنیا میں آنے کے بعد بھی ہوں گی۔ زبان، آنکھ، کان اور عقل سب ہونے کے باوجود کسی چیز پر میرا کوئی اختیار نہیں ہو گا، والدین کی آغوش میں ایسے سمٹی رہوں گی کہ کوئی یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ ایک دن اکیلے دنیا فتح کر سکتی ہوں۔
اللہ کون ہے؟ وہ دین جومیرے تحتِ شعور میں محفوظ ہے وہ کیا ہے؟ یہ بات جاننے اور سمجھنے سے پہلے میرے والدین ہی میرے لیے سب کچھ ہوتے ہیں، اندھادہند ان کے پیچھے چلنا شروع کر دیتی ہوں یہ بھی نہیں جانتی کہ وہ میرے ساتھ اچھائی کر رہے ہیں یا بُرائی۔ بس ایک اندھا یقین کہ وہ مجھے کامیاب بنا رہے ہیں۔۔۔
یااللہ! افسوس تو اس بات کا ہے کہ مجھے حاصل کرنے کے لیے والدین ہر حد سے گزر جاتے ہیں، مگر مجھے حاصل کرنے کے بعد وہ میری بھلائی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ میرا نام رکھنے سے لے کر زندگی کے بڑے بڑے فیصلوں میں اپنی پسند نا پسند کو ترجیحی دیتے ہیں۔ میرے لیے صحیح کیا ہے اور غلط کیا ، اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے۔
میرے مالک! ذرا سوچئیے،اِن مانگنے والے والدین کو پرورش اور تربیت میں فرق بھی نہیں پتہ۔ پرورش میں میری جسمانی نشوونما شامل ہے اور تربیت میں میرے عقائد، اخلاقیات، رسم ورواج اور نفسی شعور کا علم شامل ہے، مگر آج کل کے والدین پرورش کو تربیت کا نام دے کر تربیت کی اہم ذمہ داری میں کوتاہی کر رہے ہیں۔۔۔ بہترین کھانا کھلانے، اعلٰی اسکولوں میں تعلیم دلانے اور بہترین جگہ پر رکھ کر پرورش کرنے کو بہترین تربیت کا نام دیتے ہیں۔والدین کی یہ لاپرواہی اور لاعلمی دیکھ کرکس کا دل کرے گا کہ وہ اولاد بن کر اِن مانگنے والوں کی زندگیوں کا حصہ بنے ۔
اے میرے رب! آج کل کے والدین یہ بھول گئے ہیں کہ اُن کو یہ منصب اُن کی صلاحیتوں پر نہیں ملتا ہے بلکہ یہ آپ کا فضل ہے، آپ مانگنے والے کو وہ سب دیتے ہیں جو وہ مانگ رہے ہیں، کیونکہ ہرمانگی جانے والی چیز پر ہی تو مانگنے والے کا حساب لیا جائے گا ۔۔۔۔ میرا وجود تو والدین کا منصب حاصل کرنے والوں کے لیے کڑا امتحان لے کر آتا ہے۔ والدین کا امتحان میرے لیے بھی آزماش کا سبب بنتا ہے، کیونکہ وہ مجھے جو بنا کر دنیا کے حوالے کرتے ہیں وہاں ہرقدم پر میری جنگ خود سے ہوتی ہے۔ ٹھوکریں میرا مقدر بنتی ہیں اگر میری تربیت آپ کے بتائے اُصولوں پر نہ ہوئی ہو۔
یا اللہ! شکوہ تو یہ ہے کہ والدین یہ جانتے ہیں کہ ہر کام کو بہترین طریقے سے کرنے کے لیے اُس کے بارے میں علم حاصل کرنا ضروری ہے، اس لیے وہ ہر کام کو کرنے سے پہلے اُس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرتے ہیں، تاکہ وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ہوں اور اپنی ساری خواہشات کو پورا کر سکیں، مگرآج کے والدین اولاد کی تربیت کرنے کے لیے کوئی بھی علم حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھتے، مجھے اپنی تجربہ گاہ سمجھتے ہیں جہاں وہ صرف تجربے کرتے نظر آتے ہیں۔ والدین یہ نہیں جانتے کہ اُن کو میری تربیت کیسے کرنی ہے، اپنی زندگی سے جو سیکھا وہ سیکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ والدین یہ بھی نہیں جانتے کہ انھوں نے اپنی زندگی سے صحیح سیکھا ہے یا غلط ۔ جس چیز کا وہ علم رکھتے ہیں اُسے بھی سیکھانے میں کوتاہی کرتے ہیں کیونکہ انسان ایک ایسی ذات ہے جو عمل سے سیکھتی ہے بولے جانے والے لفظوں سے نہیں اور آج کے والدین عمل سے سیکھانے پر یقین نہیں رکھتے۔۔۔۔اے اللہ! میری کہی سب باتوں کا ملطب یہ نہیں ہے کہ میں والدین کی خالص محبت کو مانتی نہیں ہوں، مگر میں اس بات پر حیران و پرشان ہوں کہ والدین مجھے اچھی زندگی دینے کے لیے کسی کی بھی حق تعلفی کر سکتے ہیں، چوری ، ڈاکہ اور قتل جیسے سنگن جُرم کر سکتے ہیں، حرام ذریعے سے کما کر میری ضروریات پوری کر سکتے ہیں لیکن مجھے بااخلاق بنانے کے لیے اپنے اخلاق کو بلند نہیں کر سکتے، مجھے نمازی بنانے کے لیے خود نمازی پرہیزگار نہیں بن سکتے، مجھے خوش کلام بنانے کے لیے آپس کی گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑوں سے اجتناب نہیں کر سکتے ، ہر بُری عادت جو میرے لیے نقصان دہ بن سکتی ہے میری بھلائی کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔۔۔آج کل کے والدین کی محبت بھی اُن کی طرح گمراہ ہو گئی ہے۔۔۔۔ اولاد کی محبت میں والدین جو کچھ کر رہے ہیں اُس سے نہ اُن کی زندگی بن سکتی ہے اور نہ میری ۔
یا اللہ! میں یہ جانتی ہوں کہ بلوغت میری عمر کا وہ مرحلہ ہے جہاں مجھ میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت آ جائےگی، مگر چودہ سال والدین کی اندھی تقلید مجھے حقیقت سے اتنا دور کر دے گی کے میں اپنے ضمیر کی آواز، جو میرے تحتِ شعور میں محفوظ دینِ اسلام کی ترجمانی کرے گی، سننے سے قاصر ہوں گی ۔ میں چاہ کر بھی اس بات پر یقین نہیں کر پاؤں گی کہ میری زندگی میں آنے والی آزمائش اور ناکامیوں کی وجہ میرے والدین کی غلط تربیت اور غلط فیصلے ہیں ۔۔۔ ایک بار پھر میں ایسے دو راہے پر آ کر کھڑی ہو جاؤں گی جہاں خود کو ایک بار پھر بہت بے بس محسوس کروں گی ۔ میری پوری زندگی غلط تربیت اور غلط فیصلوں کی وجہ سے برباد ہو جائے گی۔ پتہ نہیں اُس لمحے میں خود کو سنبھال پاؤں گی بھی کے نہیں؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں پوری زندگی والدین کے بتائے ہوئے غلط راستوں پر بھٹکتے گزار دوں۔
رب العزت! والدین یہ سمجھتے ہیں کہ شعور آنے کے بعد اولاد اپنے صحیح اور غلط اقدامات کی خود ذمہ دار ہے ، کسی حد تک تو ہم اولاد کو ذمہ دار کہہ سکتے ہیں، کیونکہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر حق کا راستہ اپنانا خود بندے کی ذمہ داری ہے، مگر اولاد کی بربادی کے زیادہ ذمہ دار والدین ہوتے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو عیسائی، یہودی اور مُشرکین کی اولاد شعور کی عمر کو آتے ہی اللہ اور اُس کے رسول کے بتائے راستے پر چلنے لگتی اور اپنے والدین کا بتایا اور سیکھایا ہر سبق بھول جاتی ۔ والدین شاید یہ نہیں جانتے کہ غلط تربیت کے اثرات اتنے مہلک ہوتے ہیں کہ ان سے چھٹکارا حاصل کرتے کرتے کبھی ساری زندگی گزر جاتی ہے مگر چھٹکارا نہیں ملتا۔
اے میرے مالک! میں جب اپنے سے پہلے دنیا میں جانے والی اولاد کا بُرا حال دیکھتی ہوں تو خواہش کرتی ہوں کہ یا تو آپ مجھے صرف اُن والدین کو نوازیں جو میری تربیت کرنے کے قابل ہوں یا آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا میں اولاد بن کر دنیا میں جانا چاہتی ہوں اور میرا جواب وہی ہو ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ نہیں کبھی نہیں

Comments

Click here to post a comment