ہوم << خوف اور امید- قرۃ العین اشرف

خوف اور امید- قرۃ العین اشرف

اللہ پاک نے انسان کو تمام کمالات عطا کر کے پیدا فرمایا. زندگی کی زیبائش میں سب سے قرین وہ جلوہ ہے جسے پیدائش سے قبل ارواح کے بیچ تمام نگاہوں پر آشکار کیا گیا. زندگی کبھی اِس زندگی سے بالا تر اُس زندگی کے مشاہدات سامنے لاتی ہے جسے انسانی آنکھ دیکھے تو دنگ رہ جائے مگر اِس آنکھ میں اتنی طاقت نہیں ہوتی وہ جلوہ دل پر آشکار ہوتا ہے جو باطن کی آنکھ کو وا کر دیتا ہے.خوف غفلت سے ہے اور غفلت کا علاج ذِکر اللہ ہے، اللہ کی پناہ ہے۔
انسان دنیا میں آتا ہے، دنیا میں ظہور ہوتے ہی ایک خوف وارد آ جاتا ہے. کیا سانس مکمل لیا گیا؟کیا سانس ساکن تو نہ تھی؟زندگی حرکت میں ہو تو انسانی وجود اور موجود میں کوئی شے متحرک سے ساکن ہونے پر خوف دلاتی ہے ماسوا اسکے جسے اللہ نے ساکن رکھا ہو.پھر انسان دیکھتا ہے کہ ہر شے ایک وجد میں ہے.وجد کے کمال میں متحرک ہے. کچھ آ رہا ہے کچھ جا رہا ہے. کچھ کا نزول ہے کچھ کا صعُود ہے.اس تسلسل کو زندگی کا نام دے دیا گیا.زندگی خوف اور امید کے امتزاج میں گُھلتی رہی.

خوف کیا ہے؟یہ کسی بھی مادے کا اپنی ہیئت سے نکل جانے کا اندیشہ ہے. یہ وہ سانس ہے جو نہ سینے میں اٹکتا ہے نہ دل سے اُبلتا ہے. یہ وہ راکھ ہے جو جلتی ہے نہ بجھتی ہے. یہ وہ احساس ہے جو مکمل ہوتا ہے نہ ختم ہوتا ہے. یہ وقت کی وہ ساعت ہے جو زمانے کی دو حالتوں کے درمیان رہتی ہے، ماضی اور مستقبل.حال میں رہنے والا خوف سے آزاد ہے. لیکن حال بھی اصل حال نہیں ہے کیونکہ وہ بھی ماضی او مستقبل سے متصل خوف میں جکڑا ہوا ہے.

خوف وہ چنگاری ہے جو دل میں بھڑکتی ہے اور مدھم مدھم جلتی رہتی ہے.سوالات کا ایک طوفان انسان کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھتا ہے. کیا آنے والا کل میرے موافق ہو گا؟کیا جو گزر گیا اسکے اثرات آنے والے کل پر کم دبیز ہوں گے؟کیا اُمید کا دیہ اس جلتی ہوئی چنگاری سے زیادہ روشن ہو گا؟ خوف! کچھ چھن جانے کا خوف! جو آج ہے کل نہ ہوا تو پھر؟جو بیت گیا وہ پھر سے واپس آ گیا تو پھر؟جو کچھ آج تک نہیں ہوا وہ ہو گیا تو پھر؟ امتحان دیا ہے کامیابی نہ ملی تو پھر؟ وہ جن سے بچ رہے ہیں انکا سامنا ہو گیا تو پھر؟ غور کریں تو معلوم ہو گا خوف وہ سب ہے جو نہیں ہوا لیکن انسان اس وسوسے میں ہے کہ اگر ہو گیا تو. "اگر" مایوسی سمیت خوف کی تعریف ہے.

زندگی کے محور میں جب خوف لاحق ہوتا ہے تو سانس اٹک کر رہ جاتی ہے.لگتا ہے سانس لے رہے ہیں مگر محسوس نہیں ہوتا.خوف کھانے والے سے بھوک اور ہنسنے والے سے مسکرانا بھی چھین لیتا ہے.آگہی والے کی سمجھ بوجھ کھو جاتی ہے. جانے آنے والا ذہنی پسماندگی کا شکار ہو جاتا ہے. دل کو کہیں اٹھا کر لے جائیں دل نہیں لگتا.انسان کہیں چلا جائے خوف اسکے ساتھ ہے پیچھا نہیں چھوڑتا.میں کشتی میں ہوں اگر ڈوب گیا تو. میں بلندی پر ہوں اگر گِر گیا تو. میں زندہ ہوں اگر مَر گیا تو.

اس "تو" کا جواب انسان کے اپنے پاس موجود ہے. کہ اس "تو" کے پار انسان کی منزل ہے. جو دنیا میں آیا ہے اسے جانا ہے. زندگی کا آخر موت ہے اور خوف سے آگے فنائیت ہے. خوف کو خوف ختم نہیں کر سکتا خوف کا دامن اُمید سے بندھا ہوا ہے. امید کے آنے سے خوف جاتا رہتا ہے اور امید کا رشتہ دعا سے منصوب ہے.

اُمید نویدِ بہار ہے.یہ کائنات میں سر سبز باغ کی طرح دکھائی دیتی ہے. اللہ والے جب اللہ کی راہ پر پہلا قدم رکھتے ہیں تو نفس اور شیطان اسے خوف دلانے کو منہ زور ہو جاتے ہیں. سالک کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اسکا تعاقب کر رہا ہے، جیسے کوئی ماورائے دنیا اسے گِرا دے گا. ایک مقام پر سالک سوچتا ہے اگر کوئی مجھے گِرا بھی دے تو کیا ہو گا؟ اللہ والے اللہ کی راہ پر قدم جما کر کھڑے ہوتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ دنیا و آخرت میں طاقت کا سرچشمہ صرف اللہ کی ذات ہے اور وہ اللہ کے حصار میں ہیں. جس کے ساتھ اللہ ہو کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا. اللہ والوں کو اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوتا.
"جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا."

دُعا خوف کی رات میں روشن دن کا پیغام ہے. یہ دل کی تسلی ہے، ذہن کا سکون ہے. یہ امید کی وادی میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے. دعا خوف کو مٹا کر انسان کو امید کی ناؤ میں سوار کر دیتی ہے. اللہ کا ذکر خیالات کا محافظ ہے. جس کے خیال میں اللہ ہے اسکے تصور میں کوئی اور نہیں آ سکتا. خوف محض خیال کی اڑان ہے جسے اللہ کے ذکر اور خیال سے موڑنا پڑتا ہے. نہ زندگی آگے سے پیچھے ہو سکتی ہے نہ کوئی آسمان کو زمین سے بدل سکتا ہے مگر جسے اللہ چاہے. یقین خوف کو ختم کر دیتا ہے. اللہ والے کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے تو اللہ کا اور تقویٰ ہے تو اللہ کا. حالات و واقعات سے زندگی نہیں بدلتی. زندگی اپنا رُخ اللہ کی جانب موڑ دینے سے بدلتی ہے. "غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے". نبی کریم ﷺ کی فکر نے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو ہر غم سے نکال دیا۔انسان کی بھلائی خود کو فکرِ نبیﷺ میں ڈھال دینے میں ہے۔

دم بدم جب تک سانس ہے تب تک موقع ہے۔انسان خوف کو توبہ سے دور کر سکتا ہے وگرنہ قبر میں لفظ کاش باقی رہ جائے گا۔اُس مٹی کے چہرے کو ڈھانپنے سے قبل خود کو اس خوف سے آزاد کرنا اللہ کے راستے پر چلنے سے ممکن ہوتا ہے۔"مرنے سے پہلے مر جاؤ" یہی فکرِ آخرت ہے۔دعا کہ اللہ پاک اپنے سوا ہر خوف سے نجات عطا فرما.ہمیں دین کا صحیح فہم اور سمجھ عطا فرما کر اپنے حبیب پاک ﷺ کے راستے پر چلا دے کہ یہی نجات اور فلاح کا راستہ ہے. اللہ پاک ہم سب کے حامی و ناصر ہوں. آمین!

Comments

Click here to post a comment