ہوم << دل کا حال کیسے معلوم ہوتا ہے؟ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

دل کا حال کیسے معلوم ہوتا ہے؟ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

محمد مشتاق قانون کے طالب علم جانتے ہیں کہ عام طور پر جرم کے تین ارکان بیان کیے جاتے ہیں :
مجرمانہ فعل (actus reus)؛
مجرمانہ ذہن ( mens rea)؛
اور ان دونوں کے درمیان رابطہ سببیہ (causal link)،
یعنی یہ ثابت کیا جائے کہ یہ مجرمانہ ذہن ہی اس مجرمانہ فعل کے وجود میں آنے کا سبب بنا ہے۔
مثال کے طور پر ”ازالۂ حیثیتِ عرفی“ (defamation) کا جرم لے لیجیے۔ زید نے بکر پر کوئی الزام لگایا۔ اب الزام تو ہوا مجرمانہ فعل؛ لیکن کیا اس نے یہ الزام بدنیتی سے (malafide) لگایا؟ یا کیا اسے علم تھا کہ اس کی اس بات سے بکر کی حیثیتِ عرفی کو نقصان پہنچے گا (وہ بدنام ہوگا )؟ اگر زید نے ثابت کیا کہ اس نے جو کہا، یا لکھا، وہ بدنیتی پر مبنی نہیں تھا، یا اسے علم نہیں تھا کہ اس کا کہا یا لکھا بکر کی بدنامی کا باعث بنے گا ، بہ الفاظ ِ دیگر اس نے یہ نیک نیتی سے (in good faith)کیا تھا، تو اسے مجرم نہیں کہا جاسکتا۔ (اسی وجہ سے اخبارات اور میڈیا والے لوگوں پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور بچ جاتے ہیں!)
بعض اوقات کسی فعل کو اتنا سنگین سمجھا جاتا ہے کہ محض اس فعل کا ارتکاب ہی کافی قرار دیا جاتا ہے اور اس کے لیے guilty mind یا mens rea کے ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، جیسے اسلامی قانون میں زنا کا الزام ہے۔ جس نے کسی شخص پر زنا کا الزام لگایا، وہ لازماً اپنے دعوے کے ثبوت میں چار گواہ پیش کرے گا، ورنہ اسے قذف کی سزا (اسی کوڑے) دی جائے گی۔ (اس سے استثنا صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور اس کے پاس چار گواہ نہ ہوں تو وہ لعان کا طریقہ اختیار کرے گا اور اگر الزام کے بعد لعان کرنے سے انکار کرے تو اسے قید کیا جائے گا۔)
پھر بعض حالات میں ایک ہی فعل کی سزا مختلف ہوجاتی ہے اگر نیت مختلف ہو۔ مثال کے طور پر اگر زید کا ارادہ بکر کو قتل کرنے کا تھا اور اس ارادے کے ساتھ اس نے بکر کو قتل کیا تو یہ قتل عمد ہے جس کی سزا قصاص ہے؛ تاہم اگر اس کا ارادہ صرف بکر کو چوٹ لگانے کا تھا لیکن اس چوٹ سے بکر کی موت واقع ہوئی تو اسے شبہ عمد کہا جاتا ہے، جس کی سزا دیتِ مغلظہ ہے؛ اور اگر اس کا ارادہ ہرن پر گولی چلانے کا تھا لیکن گولی بکر کو لگی، یا جسے اس نے ہرن سمجھ کر گولی چلائی وہ بکر نکلا (جو پتہ نہیں کیوں چوپایوں کی طرح چل رہا تھا) ، تو ان دونوں صورتوں میں یہ قتل خطا ہے اور اس کی سزا دیتِ مخففہ ہے۔
قتل کی ان تینوں صورتوں میں بکر کا قتل زید کے ہاتھوں ہوا ہے لیکن ارادے کے اختلاف سے سزا میں فرق آیا۔
یہ ارادہ کیسے معلوم کیا جاتا ہے؟ یہ تو دل کی بات ہوتی ہے۔ دل میں عدالت کیسے جھانک لیتی ہے؟ کیا عدالت پر وحی کا نزول ہوتا ہے؟
نہیں، یہ سوالات صرف اسی صورت میں اٹھائے جاتے ہیں جب ہم کسی ہندو، مسیحی یا یہودی کو کافر کہیں!

Comments

Click here to post a comment