ہوم << میاں بیوی، دو رویے دو کردار - ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

میاں بیوی، دو رویے دو کردار - ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

رضی الاسلام ندوی (1) نکاح کے بعد میاں بیوی میں موافقت نہ ہوسکی. شوہر گھر سے چلاگیا، پھر اس نے پلٹ کر بیوی کی خبر نہ لی. وہ ایک ثقافتی تنظیم کا ممبر بن گیا، پھر اس نے سیاست میں دلچسپی لینی شروع کردی. وہ ایک بڑا نیتا بڑا سیاستدان بن گیا. آہستہ آہستہ وہ اقتدار کے مراکز پر قابض ہوگیا، اس کے نام کا ڈنکا بجنے لگا. اُدھر بیوی نے ایک اسکول جوائن کرلیا. دن گزرتے رہے، یہاں تک کہ اسکول سے اس کا ریٹائرمنٹ بھی ہوگیا. اس نے پوری زندگی شوہر کا انتظار کرتے اور اس کی آس لگائے ہوئے گزار دی، لیکن شوہر کو اب اس میں کوئی دلچسپی باقی نہ بچی تھی.
(2) نکاح کے بعد میاں بیوی میں موافقت نہ ہوسکی. شوہر کو غصہ آگیا، اس نے تین طلاق دے دی، بے وقوف تھا، ایک طلاق سے کام چل سکتا تھا، بلاوجہ اور بلاضرورت اس نے تین طلاق دے دی. بہ ہر حال دونوں کے راستے جدا جدا ہوگئے. لڑکے نے دوسری لڑکی سے نکاح کرلیا اور پُر مسرت ازدواجی زندگی گزارنے لگا. لڑکی کا نکاح دوسرے لڑکے سے ہوگیا اور وہ بھی ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگی.
دونوں رویّوں میں سے کون سا رویّہ درست ہے؟
بیوی کو لٹکا کر رکھنا، تاکہ وہ گھٹ گھٹ کر پوری زندگی کاٹ دے؟
یا اسے آزاد کردینا، تاکہ وہ دوسرا رشتہ کرکے نئی زندگی کا آغاز کرے؟
میں حیرت زدہ ہوں کہ ملک کے دانشور، ترقی پسند، آزاد خیال، سیاست داں، سماجی کارکنان، قانون داں، عدل و انصاف کے اداروں سے وابستہ لوگ اور میڈیا، سب دوسرے رویے کو ظالمانہ، دہشت گردانہ اور مجرمانہ قرار دے رہے ہیں. گویا وہ زبانِ حال سے اوّل الذکر رویّے کے حامی ہیں.
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے