ہوم << شیعہ سنی اختلاف اور اعتدال کی سیج - کعب اسامہ قاضی

شیعہ سنی اختلاف اور اعتدال کی سیج - کعب اسامہ قاضی

کعب اسامہ قاضی تاریخ کا طالبِعلم حیران و پریشان پڑھ رہا تھاـــ اور مؤرخ کچھ یوں لکھ رہا تھا۔
پریشانی یہ نہ تھی کہ اُمت تفرقوں میں بٹی، تو کیوں بٹی؟ بلکہ پریشانی تو یہ تھی کہ جو کام امت کے ”خواص“ کے کرنے کا تھا وہ ”عوام“ کے درمیان فٹبال بنا ہوا تھا۔ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا اس نازک مسئلہ کو موضوعِ سخن بنا کرسسکتی تڑپتی امت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا گویا اپنا فرض منصبی سمجھ بیٹھا تھا۔ اخوت و رواداری شاید کسی خودکش حملہ کی بھینٹ چڑھ چکی تھی، زمیں لہو لہو تھی اور آسمان بھی رو رہا تھا۔
جی ہاں ـــــــ یہ سب ایک المیہ کا شاخسانہ تھا، اور المیہ کیا تھا، آئیے سنیے اور سر دھنیے۔
المیہ یہ نھیں تھا کہ ”علم“ یا ”علم والوں“ کی کمی تھی، بلکہ المیہ تو یہ تھا کہ جنھیں قوم اپنا معلّم و مربّی سمجھ رہی تھی، ان میں سے اکثریت نے تعصب کی عینک چڑھا کرـــــــ ٹسل کا لبادہ اوڑھ کرـــــــ طنز کے نشتر چلا کر ـــــــ حقائق سے منہ موڑ کرـــــــ الحاد سے رشتہ جوڑ کرـــــــ اسلاف کا رستہ چھوڑکر ـــــــ قرآن سے ناطہ توڑ کرـــــــ اور تو اور یہاں تک کہ سب نے اجتماعی طور پر اپنے ضمیر کو آپ ہی چکمہ دے کر خواص کے خالص موضوع کی باریکیوں کو عوام میں کثرت سے اچھالنا اور نفرت کے بیج بونا اپنا وطیرہ بنا رکھا تھا۔
جی۔۔؟ کیا کہا۔۔؟ مؤرخ غلط تھا۔۔؟ ـــــــ نھیں نھیں مؤرخ یقیناً بر حق تھا۔
کیونکہ۔!
ایک طرف وہ متشدد اور اعتدال سے عاری واعظین تھے جن کو”آلِ رسولؐ“ پر بیتی خونچکاں داستانِ الم کو بیان کرتے تو شاید موت آ رہی تھی مگر وہ متفقہ طور پر ظلم کے محرّک ”یزید“ کو ڈھکے چھپے الفاظ میں فرشتہ ثابت کرنے کے واسطے چند ”اش اش“ کرنے والوں کے سامنے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر نواسۂ رسول کے کٹے سر سے کھیلنے والے کو فاتحِ قسطنطینہ بنا کر فرمانِ رسولؐ کی ٹھنڈی چھاؤں کا تحفظ فراہم کر کے پتا نہیں کون سا فرضِ منصبی ادا کر رہے تھے؟ ـــــــ حالانکہ ان کے اسلاف نے تو ان کو اس موضوع پر منہ بند رکھنے کا حکم دے رکھا تھا۔
جبکہ۔۔۔!!
دوسری طرف اُن سکہ بند ذاکرین کی فوج تھی جن کے پاس رات گئے سے لے کر صبحِ صادق تک کی لمبی چوڑی تقریروں میں اپنے مصاحب کے سامنے”خانوادۂ رسول“ پر ڈھائے گئے مصائب و آلام بیان کرنے کو تو صرف چند منٹ ہی میسر تھے لیکن ”تبریٰ“ کی شر انگیز داستانیں رقم کرنے کو چارچار گھنٹے بھی ناکافی تھے ـــــــ زمین اس بارسے پھٹنے کو تھی اور آسمان خون کے آنسو رو رہا تھا کہ اپنی ماں کے لیے ننھی سی گالی بھی برداشت کرنے سے انکاری یہ مربی اُمت کی ماں پر تبریٰ کے تیر برسا کرآخر کون سی جنت کے متلاشی تھے؟
ایسے میں طالبِ علم کا حال کچھ یوں تھا۔
کہ ایک طرف
آنکھیں اشک اشک تھیں اِن ”اش اش“ کرنے والوں پر
اور دوسری طرف
عقل بھی ماتم کر رہی تھی اُن ”ماتم“ کرنے والوں پر۔
مؤرخ کا قلم خاموش ہو چکا تھا، لیکن دو انتہاؤں کے بیچ پستا تاریخ کا طالبِ علم کافی دیر سے کسی گہری سوچ میں مستغرق تھا۔
بلآخر طالب علم فیصلہ کن انداز میں ایک نئے جذبے، ولولے اور سچی لگن کے ساتھ تلاشِ حق کی ایک نئی جستجو میں اٹھ کھڑا ہوا تھا کیونکہ اسے قرآن کا پیغام یاد آگیا تھا کہ خلۤاقِ دوعالم کی طرف سے دیا گیا اشارہ وَھَدَینٰہ النۤجدَینِ (البلد-۱۰) ہمیشہ سے کارگر رہا تھاـ
اُسے یقین ہو چلا تھا کہ منزل اب تشدد اور تعصب کی ”پگڈنڈیوں“ پر موجود افراط وتفریط کی خار دار جھاڑیوں سے کھیں دور بہت دور اعتدال کے ”موٹروے“ کنارے بسے اخلاص کے کسی آشیانے پر برداشت کی ٹھنڈی چھاؤں تلے ہی مل سکتی ہے ـــــــ اور ویسے بھی حق اپنے متلاشیوں پر عیاں ہو جایا کرتا ہے بشرطیکہ اندر میں ”طلبِ صادق“ موجود ہو.