ہوم << بھیک کے کشکول کو تھوڑی غیرت درکار ہے - فارینہ الماس

بھیک کے کشکول کو تھوڑی غیرت درکار ہے - فارینہ الماس

وہ اُدھیڑ عمر کا شخص گو کہ ایک عدد رکشہ کا مالک تھا اور بیچ بازار اپنے رکشے کو گھسیٹ کر کبھی سڑک کے دائیں طرف تو کبھی بائیں طرف کھڑا کر لیتا تھا۔ اس کی آنکھیں شاید کسی سواری کی متلاشی نہ تھیں، بلکہ اس کی نگاہ کا مرکز سڑک کے دونوں طرف کھڑی گاڑیوں کے مالکان تھے۔ نجانے وہ ان سے کیا دریافت کر رہا تھا۔ جیسے ہی اس کا رخ ہماری گاڑی کی طرف ہوا تو میں کچھ پریشان سی ہوگئی۔ نجانے اسے کیا دریافت کرنا تھا۔ اگلے ہی لمحے نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ وہ بھیک مانگ رہا تھا۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر امداد کا طلب گار تھا۔ شاید اسے اپنے زور بازو پر بھروسہ نہ تھا۔
بھرے بازار میں وہ تنہا لڑکی۔ چہرے پر خوب رنگ برنگ غازہ ملے، بالوں کی خاص آرائش کے ساتھ ، جدید طرز کا لباس زیب تن کیے بار بار مختلف دکانوں میں داخل ہوتی اور باہر نکل آتی۔ اس کے منظور نظر دکاندار نہیں بلکہ خریداری کے بعد اشیاءکی رقم ادا کرنے کو اپنا پرس کھولتی خواتین تھیں۔ ایک تازہ دم اور ہشاش بشاش لڑکی انہیں اپنی دکھ بھری کہانی سنا کر مالی امداد کرنے پر اکساتی۔ اس دوران اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبالب بھر آتیں۔ اسے کسی قسم کی جسمانی معذوری کا سامنا لاحق نہ تھا، بظاہر وہ کسی دائمی روگ کا شکار بھی نہ دکھتی، لیکن پھر بھی وہ سوالی تھی۔
مجھے ایک اور ایسے ہی حیران کن واقعے کا بھی اتفاق ہو چکا ہے۔ ایک معمر شخص جو نسبتاً ایک مصروف چوک پر گزشتہ کچھ سالوں سے لگاتار بھیک مانگتا ہوا دکھائی دیتا تھا، ایک دن مجھے ایک سپر سٹور پر نظر آیا۔ اس وقت وہ انتہائی صاف ستھرے بلکہ مہنگے لباس میں ملبوس تھا لیکن میری نظر بالکل بھی دھوکہ نہیں کھا رہی تھی، وہ یقیناً وہی چوک والا بھکاری تھا۔ کچھ ہی لمحوں کی تفتیش کے بعد حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ یہ سٹور جس میں ہر طرح کا گھریلو سامان موجود تھا اور جس کی مالیت لاکھوں کی تھی، وہ اسی نے اپنی کمائی سے اپنے بیٹے کو بنوا کر دیا تھا۔
میرا خیال ہے آپ کو کچھ خاص حیرت کا سامنا نہ ہوا ہوگا۔ ایسے کئی واقعات آپ کو پہلے سے ہی ورطہءحیرت میں ڈال چکے ہوں گے۔ یہ ایک بہت تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں خصوصاً بڑے شہروں میں گداگری کا رحجان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ لاہور ہی کی بات کریں تو اب ایسا نہیں کہ بھیک مانگنے والوں سے آپ کا واسطہ محض بازاروں، پارکوں، مزاروں، ہسپتالوں، قبرستانوں یا ٹرینوں میں ہی پڑے۔ اب تو کسی بھی شاہراہ پر نکل پڑیں تو ہر موڑ پر سوال کرتے مرد، نوجوان لڑکے، لڑکیاں، بچے، بوڑھے دکھائی پڑیں گے۔ بعض نقاب پوش بیبیاں ہاتھوں میں امداد کے لکھے خطوط پکڑے نظر آئیں گی تو کچھ لوگ معمولی مالیت کی مسواکیں، کھلونے، جھاڑن، بچوں کی کتابیں، اور دوسرا ڈھیروں سامان لیے پھرتے نظر آئیں گے۔ ان میں سے بہت کم ہی ایسے ہوں گے جو حقیقتاً اس سامان کو فروخت کر کے معاوضہ طلب کرتے ہیں۔ اکثریت کا انداز کسی محنت کش کی طرح اپنا سامان بیچ کر عزت سے چار پیسے کمانے والوں کا سا نہیں ہو گا بلکہ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ سامان بھی نہ جائے اور پیسے بھی مل جائیں۔ اسی لیے وہ سامان خریدنے کی التجا کے بجائے مدد کا دکھ بھرا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ اور ہم چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی مدد کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
کچھ یہی کہانی رات کے اندھیرے میں جا بجا پھرتیں ان کمسن بچیوں کی بھی ہے جو جب اپنے معصوم ہاتھوں میں کہانیوں کی کتابیں یا بسکٹ و چاکلیٹ تھامے، گاہکوں کی منت سماجت کرتی نظر آتی ہیں۔ اور لوگ خواہ ان سے کچھ خریدتے بھی ہوں یا نہیں لیکن ان کی ہتھیلی پر ترس کھا کر کچھ روپے رکھ کر جان خلاصی کروا لیتے ہیں۔گویا یہ بھی بھیک مانگنے کا اک طریقہ بن چکا ہے۔ لیکن ان معصوم بچیوں کو یوں ہاتھ جوڑ کر مدد کی طلبگار کیفیت میں دیکھتے ہوئے دل کٹ ساجاتا ہے۔ اور ایک انجان سا دھڑکا دل کو گھیر لیتا ہے کہ کہیں کسی درندہ صفت شخص کی آنکھ میں میل آ گیا تو اس معصوم تنہا لڑکی کا کیا ہوگا؟ کیا والدین اپنی بچیوں کو بھرے بازاروں میں یوں چھوڑ کر مطمئن رہ پاتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ وہ ان کے آس پاس ہی ان کی نگرانی بھی کرتے ہوں، پھر بھی اگر کسی اوباش کی نگاہ میلی ہوئی تو وہ بھلا کس طور بچ پاتی ہوں گی۔
گو کہ گداگری اس دنیا کے لیے کوئی نئی اصطلاح نہیں۔ اس کا تصور انسان کی طرح ہی اچھا خاصا قدیم ہے۔ لیکن اوائل زمانہ میں اس کا تصور قدرے محدود تھا۔ قدیم روم کی ہی تاریخ کا مطالعہ کیجیے، وہاں گداگری کا تصور ایسا تھا کہ محض اپاہج اور وہ اشخاص ہی بھیک مانگا کرتے جنہیں بادشاہ سزا کے طور پر اپاہج کروا کے شہر سے باہر پھینکوا دیتا۔ پھر ان کے پاس سوائے مانگ کر گزر اوقات کرنے کے کوئی راستہ نہ بچتا۔ وہ شہر کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے اور ہر آتے جاتے سے مدد مانگا کرتے۔ جبکہ یتیموں، بزرگوں اور بوڑھوں کی کفالت خود بادشاہ کے ذمے ہوتی۔ اور اگر کوئی بادشاہ سے وظیفہ پانے کے باوجود بھی بھیک مانگتا تو اسے بہت معیوب اور قابل تعزیر جرم سمجھا جاتا۔
حضرت عیسیٰؑ جب اپنی تعلیمات لے کر آئے تو یروشلم کے رہنے والے بھیک کے لفظ سے بھی نابلد تھے۔ اس دور میں گداگری کو ایک لعنت سمجھا جاتا تھا۔ اگر کسی شخص کو معاشرے میں ذلیل و خوار کرنا مقصود ہوتا تو اسے بھیک مانگنے پر مجبور کیا جاتا۔ ایسا نہیں کہ یہودی بھیک نہیں مانگا کرتے تھے۔ وہ بیت المقدس کے دروازے پر بیٹھ کر، بیت المقدس کی زیارت کو ہر آتے جاتے شخص سے بھیک مانگا کرتے تھے، لیکن پھر یہودیوں نے صدقہ و خیرات کا ایسا نظام منظم کیا کہ بھکاریوں نے بھیک مانگنا چھوڑ دیا۔
طلوع اسلام کے وقت بھی ایک طرف طبقہ امراء تھا تو دوسری طرف کسمپرسی میں زندگی بسر کرتا پست طبقہ۔ لیکن اسلام کی آمد کے بعد اس تفریق کو ختم کرنے کے لیے آپﷺ نے ایک متوازن معاشرہ کی طرح ڈالی۔ ایک طرف تو طبقہ امرا کو پیسہ اکٹھا کرنے کے رحجان سے ہٹایا، دوسرا افراد معاشرہ کو زیادہ سے زیادہ امداد اور زکوۃ کی طرف مائل کیا تاکہ پیسہ گردش میں رہے۔ اس طرح گداگری کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ لیکن جیسے ہی اسلامی اقدار کی گرفت کم ہو گئی ایک بار پھر سے سرمایہ دارانہ نظام نے افراد معاشرہ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
آج کے دور کا مشاہدہ کریں تو یوں تو ہمیں گداگر تقریباً پوری دنیا میں ہی نظر آئیں گے لیکن مغرب نے کسی حد تک اس معاشرتی برائی پر قابو پا رکھا ہے۔گداگری خاص طور پر ایشیا کے مزاج اور کلچر کا حصہ بن چکی ہے۔ انڈیا میں کل آبادی کے چار لاکھ لوگ بھیک مانگ کر گزر اوقات کرنے پر مجبور ہیں اور مانگنے والوں میں ہر چوتھا بھکاری مسلمان ہے۔ یعنی چار لاکھ افراد کا 25 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مسلمان ممالک کی غربت اور ہجرت انہیں مانگ کر گزر بسر کرنے پر اکسائے ہوئے ہے۔ حال ہی میں شام کی خانہ جنگی کا شکار مسلمان بھی اپنے ملک میں اور دوسرے ملکوں میں پناہ ملنے کے بعد بھیک مانگ کر ہی گزارہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
سویڈش الجیرین جرنلسٹ یحییٰ ابو زکریا کا کہنا ہے کہ ”یورپ میں 50 ملین مسلمانوں کا 80 فیصد حصہ بھکاری ہے کیونکہ وہ بےروزگار ہے اور ویسٹرن ویلفئیر ایڈ پر پلتا ہے۔مساجد کو ریاست کی طرف سے فنڈز دیے جا تے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے لئے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان فنڈز کو مساجد کے مینیجرز کھا جاتے ہیں اور مساجد کو مانگ تانگ کر گزارہ کرنا پڑتا ہے“ بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ملک میں زکوۃ خود زکوۃ بانٹنے والے کھا جاتے ہیں ۔
یونائیٹڈ نیشنز کے مطابق پاکستان میں 49 فیصد لوگ غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کی ماہانہ آمدنی چار ہزار سے بھی کم ہے۔ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق پاکستان میں تقریباً 1.2 ملین بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملک میں گداگری کا رحجان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور اب تو یہ ایک خاص پیشے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کے تیزی سے سرایت کرنے کی بڑی وجہ ہمارے معاشرے کا مذہبی اور صوفیانہ رحجان ہے۔ وقت کے ساتھ جیسے جیسے مسلم معاشروں میں تصوف کا رحجان بڑھا،گداگری کے پیشے میں بھی خاصی برکت آئی۔ درویشوں کی جماعت مانگنے کو معیوب نہیں سمجھتی تھی بلکہ مانگ کر گزارہ کرنا بھی ان کی ریاضتوں کا ایک وصف سمجھا جاتا۔ ہر درویش کے ہاتھ میں سدا سے ہی ایک کشکول ہوتا اور وہ محض اتنی ہی بھیک کا طلب گار ہوتا جس سے دو وقت کی روٹی کا انتظام ہوسکے۔ اور ان کی عبادت کی راہ میں معاش رکاوٹ نہ بنے۔ ایسے درویش سوالی کی بددعا سے بچنے کے لیے ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق اس کی مدد کرتا اور اسے بھلائی کا نام بھی دیا جاتا تھا۔ آج بھی ہمارامعاشرہ اسی سوچ پر پنپ رہا ہے کہ سوالی کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا جائے۔ ہم خیرات کو اپنا مذہبی فریضہ جان کر ادا کرتے ہیں۔ اس سے ہمیں ذہنی اور روحانی سکون ملتا ہے گویا یہ ہماری معاشرتی اقدار کی ایک ایسی قدر ہے جو ہمارے لیے تسکین قلب کا باعث ہے۔ شاید اسی معاشرتی رحجان کی وجہ ہے کہ مانگنے والوں کے حوصلوں کو دن بہ دن بڑھاوا مل رہا ہے۔ ہم نے مانگنے والوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کر لی ہے جو بھیک کو بڑے فخر سے اور اپنا حق سمجھ کر مانگتی ہے۔ اور ان کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو مستحقین نہیں بلکہ پروفیشنل ہیں ۔
مانگنے والوں کے بےبس چہرے ہمارا دل پسیج دیتے ہیں لیکن ان کی مٹتی ہوئی غیرت کا کوئی دکھ ہمارے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑ پاتا۔ ہم نے خود انہیں بڑھاوا دے کر انہیں ایک مضبوط مافیا بنا دیا ہے جن کے پیچھے ملک کے بظاہر بہت معتبر، اثرو رسوخ والے اور معاشی طور پر مضبوط لوگ موجود ہیں۔ جو نہ صرف چوری چکاری اور سٹریٹ جرائم میں بھی ملوث ہیں بلکہ بچوں کو اغوا کر کے بھک منگے بنانے کا مکروہ دھندہ بھی کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ یہ بھی ہے کہ دہشت گرد بھی بھکاریوں کے بھیس میں خود کش حملوں میں ملوث پائے گئے۔ ایسا واقعہ راولپنڈی میں ہو چکا ہے۔
بھیک مانگنے کی بڑی وجہ غربت بھی ہے لیکن اس سے کہیں بڑھ کر کاہلی اور ہڈ حرامی ہے جس کی وجہ سے لوگ مانگ کر کھانے کو محنت سے کما کر کھانے سے زیادہ سہل سمجھتے ہیں۔ ورنہ ہمیں اپنے ہی معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی مثالیں بآسانی مل جاتی ہیں جو جسمانی معذوری کے باوجود محنت کر کے کماتے اور کھاتے ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ بڑھتے گداگر دنیا کے مہذب معاشرے تک ہمارے معاشرے کا کیا مجموعی تاثر پہنچا رہے ہیں؟ کیا ہم دنیا کو باور کرا رہے ہیں کہ مانگ کر گزارہ کرنا ہماری سرشت میں لکھا گیا ہے، اسی لیے ہماری حکومتیں بھی دنیا سے امداد کی طلب گار رہتی ہیں ۔اور افراد معاشرہ بھی؟ ہم یہ بھی ثابت کرنے پہ تلے ہیں کہ ہم غیرت اور خودداری کے کسی بھی سبق کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے قابل ہی نہیں؟
ہمیں اگر عالمی معاشرے میں اپنا باعزت مقام بنانا ہے تو اس لعنت سے معاشرے کو چھٹکارہ دلانا ہوگا۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں خود اپنی سوچ اور رویے کو بدلنا ہوگا۔گداگری کو ایک پروفیشن کے طور پر اپنانا پاکستان کے قانون کے مطابق جرم ہے جس کی سزا کم از کم تین سال کی قید ہے۔ ہمیں بھیک دے کر اس جرم کا شریک کار نہیں بننا چاہیے۔ ہم اپنی رقم غریب بچوں کی تعلیم پر بھی لگا سکتے ہیں یا ان اداروں تک پہنچا سکتے ہیں جو غریب لوگوں کی کفالت کرتے ہیں۔ اگر ہم درست طریقے اور ایمانداری سے زکوۃ کی ادائیگی بھی کرنے لگیں تو زکوۃ کا نظام بھی فعال ہو سکتا ہے۔ قانون پر عملدرآمد کروانے والے اداروں کو گداگروں کی حوصلہ شکنی کے لیے فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو نہ صرف غریب تک تعلیم پہنچانا ہوگی بلکہ ان کے لیے ہنر سکھانے کے مزید مفت ادارے بھی کھولنا ہوں گے تاکہ ہنر سیکھ کر باعزت طریقے سے کوئی روزگار اپنا سکیں۔ اس سلسلے میں چھوٹے قرضوں کی شفاف فراہمی کا بھی بندوبست ضروری ہے۔ یہ بندوبست معاشرے کے صاحب حیثیت لوگوں کو بھی زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے تاکہ بھیک دے کر اپنی قوم کی غیرت کو کشکول میں بدلنے کے بجائے انہیں اپنے قدموں پر باعزت طریقے سے کھڑا ہونا سکھایا جا سکے۔

Comments

Click here to post a comment