ہوم << پیغام شہادت امام حسین ؓ - نازش اسلام

پیغام شہادت امام حسین ؓ - نازش اسلام

نازش اسلام شہادت حسین ؓ کو چودہ صدیاں بیت چکی ہیں، لیکن امام حسین ؓ کے پیغام کی گونج آج بھی تازہ ہے اور قیامت تک اس کی تاثیر محسوس ہوتی رہے گی۔ جس طرح سورج کی کرنیں، دریاؤں کا پانی، بارش کے قطرے، بلا تفریق رنگ و نسل کے پوری دنیا کے انسانوں کو فیض یاب کر رہے ہیں، اسی طرح میدان کربلا میں حق و باطل کے عظیم الشان مقابلے نے بھی ہر خطہ، ہر ملک، ہر عہد اور ہر تہذیب کے لوگوں کو اپنے مقصدیت سے مستفید کیا۔ شہادت حسین ؓ اور اس سے حاصل ہونے والا سبق ہر دور میں انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ چاہے کوئی اپنا ہو بیگانہ، حسین ؓ سب ہی کے لیے ہمت و حوصلے کی پہچان ہیں۔ جب بھی دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی مظلوم کسی جابر کے سامنے کلمہ حق بلند کرے گا، وہ دراصل کلمہ حسین ؓ کو زندہ کرے گا۔ ظلم، جبر، ناانصافی، برائی، لادینیت، پست کرداری، عہد شکنی کے مقابلے میں شہادت حسین ؓ آزادی وحریت، سچائی، عزم و ہمت، صبر و استقامت، عدل و انصاف، مساوات، جرات و بہادری، عظمت و کردار اور مظلومین کی فتح اور سرفرازی کا استعارہ بن کر سامنے آتی ہے۔
10 محرم الحرام 61 ہجری کو پیش آنے والے دلخراش واقعے نے جہاں امت کو تا قیامت ایک گہرے رنج میں مبتلا کردیا، وہیں امام حسین ؓ نے بشریت کو آبرو و حرمت بخشی۔کربلا جو دراصل اہل بیت کے لیے کرب و بلا کا مقام تھا، آپ ؓ وہاں رہبر و راہنما کہلائے، جن کے نانا جناب ہادی سرور ﷺپوری دنیا کے انسانوں کے لیے شفاعت بن کر آئے، وہیں ان کی آل ؓ پر کائنات کے ہر ذرے نے اپنی نوعیت کے انوکھے مناظر دیکھے، ظالم کے بےانتہا ظلم کے آگے بھی آپ ؓ میدان کربلا میں ایک انگوٹھی میں نگینے کی مانند چمک رہے تھے۔ آپ ؓ کا خاندان دنیاکی بدترین قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا تھا، موت کسی اژدھے کی طرح سامنے منہ کھولے کھڑی تھی، ان حالات میں بھی آپ نے جھکنے کے بجائے مقابلہ کرنا حق جانا، اور فولاد ی پہاڑ سے بھی زیادہ سخت، ٹھوس اور مضبوط عزم کے ساتھ سرزمین عراق کے سورج کی جلا دینی والی شعاعوں کے نیچے ایستادہ ہوئے اور نہایت ہی دلیرانہ انداز میں لشکر یزید کو مخاطب کرکے کہا کہ ’خدا کی قسم، میں اپنا ہاتھ تمہارے سامنے نہیں لاؤں گا اور غلامان کی طرح کوئی راہ فرار اختیار نہیں کروں گا، دشمن نے مجھے دوراہے پر کھڑا کیا، دین حق کی لیے جان دینا یا ذلت و خواری قبول کرنا، میں پہلی شق قبول کرتا ہوں۔ ذلت کے ساتھ خود کو تمہارے حوالے نہیں کروں گا ۔ ذلت و رسوائی قبول کرنا؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔‘
یہی وہ با ضمیر روح، اور وہ بلند، خوددار اور باکردار نفس ہوتا ہے جو انسانی معاشرے میں آزادی و حریت اور جرات و بہادری کی بنیاد رکھتا ہے۔ امام حسین ؓ کی عظیم شہادت نے قانونِ آزادی بشر پر اپنے جاں نثاروں اور جگر گوشوں کے پاک لہو سے دستخط ثبت کیے اور اسے بعنوان درس جاوداں مجاہدین عالم کے سامنے پیش کردیا۔ اسی دن سے جبر اور راہ حق کے درمیاں حضرت امام حسین ؓ ایک غیر مرئی آہنی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اور نامِ حسین ؓ ایک اصطلاح بن گیا، مظلومیت کا، سچ گوئی کا اور شجاعت کا۔ اور آ ج چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود بھی جہاں کہیں کوئی شخص کسی ناجائز حکومت کے جبری تسلط کاجواں مردی کے ساتھ مقابلہ کر رہا ہے، وہ گویا حسینیت پر عمل پیرا ہے اور جہاں کہیں کوئی غاصب کسی کمزور کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو یزید یت کا پیرو کارہے۔ اس وقت کا طاقتور بادشاہ حکومت ہو تے ہوئے بھی، آج ذلیل و خوار ہے اور حسین ؓ زمیں چھن جانے اور پیاس سے تڑپا کر شہید کر دیے جانے کے باوجود عظیم الشان مرتبے پر فائز ہیں۔
شہادت حسین ؓ نے دین اسلام کوروحانیت، نورانیت اور ایک معنویت سے نوازا۔ وہ معنویت جو عالم اسلام کے دستور سے مٹائی جارہی تھی۔ انقلاب حسینی، عظیم ترین انقلابات کا منبع اور سرچشمہ بن گیا، اور اس کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ یقینا یہ حسین ؓ کا ہی وصیت کیا ہوا حوصلہ ہے جو فلسطین اور کشمیر کے عوام نسلوں سے آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور ہار ماننا اپنی آباء کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، مگر افسوس صد افسوس کربلا میں ایک یزید تھا، یہاں کئی یزید ہیں اور اب امام ؓ کے ماننے والوں کو بیک وقت ظلم اور زبان پر تالے ڈالے ہوئی امہ، دونوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ حضرت جناب زین العابدین کا فرمان ہے کہ کوفہ ایک شہر کا نام نہیں بلکہ ایک خاموش امت کا نام ہے، جہاں پر بھی ظلم ہو اور امت خاموش رہے، وہ جگہ کوفہ اور لوگ کوفی ہیں۔ اےاللہ! تمام محمدیوں کو کوفیوں کے شر سے محفوظ فرما۔ آمین