ایک بادشاہ نے اپنے بہنوئی کی سفارش پر ایک شخص کو وزیر موسمیات لگا دیا. ایک روز بادشاہ شکار پر جانے لگا تو روانگی سے قبل اپنے وزیر موسمیات سے موسم کا حال پوچھا. وزیر نے کہا موسم بہت اچھا ہے اور اگلے کئی روز تک ایسا ہی رہےگا. بارش کا قطعا کوئی امکان نہیں ہے. بادشاہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ شکار پر روانہ ہو گیا. راستے میں بادشاہ کو ایک کمہار ملا. اس نے کہا حضور! آپ کا اقبال بلند ہو، آپ اس موسم میں کدھر جا رہے ہیں؟ بادشاہ نے کہا شکار پر. کمہار کہنے لگا حضور! موسم کچھ ہی دیر میں خراب ہونے اور بارش کے امکانات بہت زیادہ ہیں. بادشاہ نے کہا ابے او برتن بنا کر گدھے پر لادنے والے، تم کیا جانو موسم کیا ہے؟ میرے وزیر نے بتایا ہے کہ موسم نہایت خوشگوار ہے اور شکار کے لیے بہترین اور تم کہہ رہے ہو کہ بارش ہونے والی ہے؟ بادشاہ نے ایک مصاحب سے کہا کہ اس بے پر کی چھوڑنے والے کمہار کو دو جوتے لگائے جائیں. حکم کی تعمیل ہو گئی.
بادشاہ شکار کے لیے جنگل میں داخل ہو گیا. ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ گھٹا ٹوپ بادل چھا گئے. ایک آدھ گھنٹے بعد گرج چمک شروع ہوئی اور پھر بارش. بارش بھی ایسی کہ خدا کی پناہ. طوفان باد و باراں. ہر طرف کیچڑ اور دلدل بن گئی. بادشاہ اور ساتھیوں کو سارا شکار بھول گیا. جنگل پانی سے جل تھل ہو گیا. ایسے میں خاک شکار ہوتا. بادشاہ نے واپسی کا سفر شروع کیا اور برے حالوں سے محل واپس پہنچا. واپس آکر دو کام کیے. پہلا یہ کہ وزیر موسمیات کو برطرف کیا اور دوسرا یہ کہ کمہار کو دربار طلب کیا. اسے خلعت فاخرہ عطا کی اور وزیر موسمیات بننے کی پیشکش کی. کمہار ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا، حضور! میں ان پڑھ جاہل اور کہاں سلطنت کی وزارت. مجھے تو صرف برتن بنا کر بھٹی میں پکانے اور گدھے پر لاد کر بازار میں فروخت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا. مجھے تو موسم کا رتی برابر پتہ نہیں. ہاں البتہ جب میرا گدھا جب اپنے کان ڈھیلے کر کے نیچے لٹکائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ بارش ضرور ہوگی. یہ میرا تجربہ ہے اور کبھی میرے گدھے کی یہ پیش گوئی غلط ثابت نہیں ہوئی. بادشاہ نے کمہار کے گدھے کو اپنا وزیر موسمیات مقرر کر دیا. سنا ہے گدھوں کو وزیر بنانے کی ابتدا تب سے ہوئی.
کہانی بیان کرنے کا مقصد کسی وزیر موصوف کی توہین نہیں بلکہ اس رویے پر احتجاج ہے جو اس وقت کچھ وزراء نے اپنا رکھا ہے. بھارت کی طرف سے بڑھتی ہوئی جارحیت اور دھمکیوں کے پیش نظر حکومت کی یہ اولین ترجیح ہونی چاہیے تھی کہ ملک کے اندر تناؤ اور کشیدگی کو ہر صورت ختم کر کے مشترکہ قومی لائحہ عمل اپنایا جاتا. عمران خان کی ترشی کا جواب ترشی سے دینے کے بجائے احتجاج کی آگ کو ٹھنڈا کیا جاتا. لیکن اس کے بجائے حکومتی وزراء پورس کے ہاتھی بن کر میدان میں موجود ہیں اور عمران خان کے ہر ضروری اور غیر ضروری بیان کا جواب دے کر ملک کے سیاسی درجہ حرارت کو بڑھا رہے ہیں. کشمیر کا معاملہ جس طرح بین الاقوامی طور پر توجہ حاصل کر رہا ہے ایسے میں حکومت پاکستان کو جس طرح کا سیاسی اتحاد ملک میں پیدا کرنا چاہیے تھا کہ ساری قوم متحد ہو کر دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر کی حساسیت بیان کرتی، حکومت اس حکمت عملی کو استوار کرنے میں بالکل ناکام رہی ہے.
پانامہ لیکس پر کمیشن بنانے کا وعدہ وزیر اعظم صاحب نے پوری قوم کے سامنے کیا تھا. اب اس میں جتنی بھی لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے، اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں. دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو اسے کرپشن کا اقرار بھی کہا جا سکتا ہے.
جہاں تک عمران خان کی بات ہے وہ اس وقت ملک میں پیدا ہونے والی ہر بے چینی اور انتشار کو اپنی سیاسی کامیابی تصور کر رہے ہیں. اسے اقتدار کی تڑپ کہہ لیں یا غیر ذمہ دارانہ رویہ بہرحال عمران خان اپنی بے ترتیب کوششوں کو کوئی مثبت اخلاقی جواز نہیں دے سکتے. کبھی لاہور منجمد کرنے کا اعلان، کبھی اسلام آباد بلاک کرنے کی خواہش. اسلام آباد کا سو دن سے زیادہ چلنے والا دھرنا اور دھاندلی کا واویلا اور پھر اچانک دھرنا ختم، اب پانامہ لیکس کے ایشو کیساتھ ٹارزن کی پھر اسلام آباد واپسی ہو رہی ہے. بالفرض محال اگر پانامہ لیکس منظر عام پر نہ آتیں تو عمران خان پھر کس بات پر دھرنے دیتے.؟
مختصر یہ کہ حکومت وقت اور تحریک انصاف نے مجموعی طور پر عوام کو مایوس کیا ہے اور دونوں کے جارحانہ انداز پتا دیتے ہیں کہ دونوں طرف کے وزیر ”موسمیات“ کے وزیر کی طرح ہیں.
تبصرہ لکھیے