ہوم << سجدے کی قیمت - جنید اعوان

سجدے کی قیمت - جنید اعوان

جنید اعوان ہزاروں سال پہلے کی بات ہے۔ اردن میں دقیانوس نامی بادشاہ کی حکومت تھی جو خودبھی بتوں کی پوجا کرتا اور عوام بھی بتوں کی پرستش کرتے۔ شرک کا راج اور رواج تھا۔ اللہ کوماننے والےکہیں پائے ہی نہ جاتے۔کوئی سلیم الفطرت اگر عیسیٰ ؑ کی تعلیم کوتسلیم کرکے اللہ پر ایمان لے آتا تو اس کو مار دیا جاتا۔ان حالات میں کون اللہ کی عبادت کرکے اپنی دنیا برباد کرتا اور اپنی جا ن خطرے میں ڈالتا۔؟؟
لیکن پھر اس قوم میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ طبقہ اشرافیہ کے کچھ نوجوان ۔۔ شاید تین یا پانچ نوجوان ۔۔ شاید چھ یا سات نوجوان۔۔ان کے دل ودماغ میں سودائے جنوں سمایا اور انھوں نے بتوں کی پوجا کرنے سے انکار کردیا۔ واصرار کرنے لگے کہ زمین و آسمان کا خالق و مالک اللہ ہے ، اس کی عبادت کرنی چاہیے اور وہی لائق اطاعت ہے۔ پہلے پہل تو والدین نے ان کو سمجھایا کہ ان "گمراہ" خیالات کو ترک کردو۔ پرانی روش پر واپس آجاؤ۔لیکن نوجوان تھے ، گرم خون تھا ، جوش و جذبات تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایمان کی حقیقت سے آشنا بھی ہو چکے تھے ، وہ بازنہ آئے۔پیار سے سمجھانے والے والدین دھونس پر اتر آئے ، ڈراوے اور دھمکیاں دیں لیکن سب بے سود۔ برادری کے دیگر لوگ بھی سمجھا بجھا کر بالآخر تھک گئے۔
ایلیٹ کلاس کے نوجوانوں کا پنے دین سے پھرجانا ایک بڑا واقعہ تھا۔ آج کی دور کی طرح جھوٹی سچی خبریں نشر کرنے والا میڈیا تو موجود نہیں تھا لیکن پھر بھی خبر پھیل گئی۔ عوام میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ہوتے ہوتے بات دقیانوس بادشاہ تک جا پہنچی۔بادشاہ اس پر بہت برہم ہوا۔ اس نے اپنے ان مصاحبین کو طلب کر لیا جن کے گھرانوں کے بچے "باغی" ہو چکے تھے۔ ان مصاحبین نے بادشاہ کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کیا کہ ہمارے ہی بچے ہمارے قابو میں نہیں رہے۔بادشاہ کے لیے یہ ایک ناقابل برداشت بات تھی کہ اس کی مملکت میں کوئی اس کے دین سے پھر جائے لیکن پھر کچھ سوچ کر اس نے ان نوجوانوں کو خود سمجھانے کافیصلہ کیا۔
بادشاہ نے ان نوجوانوں کو اپنے دربار میں طلب کرلیا۔ وقت مقررہ پر نوجوان دربار میں موجود تھے۔ دقیانوس نے ان کو دوبارہ بت پرستی اختیار کرنے پر مجبور کرنا چاہا لیکن نوجوانوں نے اس کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ بادشاہ غضبناک ہوگیا اور ان کو مہلت دیتے ہوئے کہا کہ وقت مقرردہ تک اپنا دین ترک کرکے پرانے دھرم پر نہ لوٹے تو قتل کر دیے جاؤگے۔
نوجوان بادشاہ کے دربار سے نکلے اور سوچنےلگے کہ اب کیا کیا جائے ؟؟؟ دین سے پھرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، گھر واپس جائیں گے تو بھی مصیبت ، شہر میں رہیں گے تو بادشاہ کے سپاہی مہلت ختم ہوتے ہی بادشاہ کے پاس لے جائیں گے ۔ اللہ کی زمین میں کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں وہ اللہ کی بندگی بجا لاسکیں۔بتوں کے آگے ماتھا ٹیکنے کی تو پوری آزادی تھی بلکہ عیش و عشرت ، آسائش و دلت سب قدموں میں ڈھیر تھالیکن اللہ کے حضور سجدے کی قیمت جان کی قربانی تھی۔
ان نوجوانوں نے شہر سے دور ایک غار میں جانے کا فیصلہ کیا۔ غار میں ڈر کے مارے نہیں گئے تھے بلکہ مطلوب اللہ کی عبادت تھی ، مقصوداپنی عاجزی کا اظہارتھا ، اپنی بے بسی کا اعتراف تھا اور بادشاہ کی دھمکی سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دینا تھی۔
ان نوجوانوں کی ادائے استقامت اللہ کوا تنی پسند آئی کہ انھیں اپنی رحمت کی آغوش میں لے کر سلا دیا۔ اللہ کو ان کی بندگی اتنی اچھی لگی کہ تین سو سال سلانے کے بعد دوبارہ زندگی عطا کی۔ ان اصحاب کہف کی توحید اتنی خالص تھی کہ اللہ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں اپنے ان گمنام محبوب امتیوں کا ذکر کیا اور قیامت تک کے لیے انھیں امر کردیا۔
کیا نوجوان تھے، زندگی داؤ پر لگادی لیکن بندگی ترک نہ کی۔
عیش و آرام تج دیا لیکن دین سے بے وفائی نہ کی۔
گھر بار اور ملک و ملت کو چھوڑدیا لیکن عقیدے کو نہیں چھوڑا۔
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
آج کےنوجوان۔۔۔ مستقبل کے بارے میں فکر مند ، کیریر کے لیے پریشا ن ،سٹیٹس بڑھانے کےخواہاں ، آسائشوں کے خوگر،خواہشات کےاسیر ۔۔!!
کاش ۔۔!!سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھتےاور زیادہ سے زیادہ گریڈ لینے کی جستجو کرتےان نوجوانوں کو کوئی غٖار والے نوجوانوں کی داستان سنادے ، کوئی انھیں اصحاب کہف کا قصہ سنادے ، کوئی انھیں بندگی کی زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھادے۔ کوئی انھیں خدا رخ کردے ، کوئی انھیں توحید آشنا کردے۔۔۔!!
کا ش۔۔!!کوئی انھیں بندگی کے لطف سے آشنا کردے۔ کوئی انھیں بتادے آج اللہ کو سجدہ کرنا اتنا آسان ہے تو سربسجود ہوجاؤ۔
اس ایک سجدے کے لیے ماضی میں اہل ایمان نے اپنی جان کو داؤ پر لگادیا تھا اور مستقبل میں اگر تمھیں بھی اس سجدے کی قیمت ادا کرنی پڑی تو کیا کرو گے۔؟؟؟