آپ نے کبھی حیرت کی انتہا کو محسوس کیا ہے؟
حیرت کی انتہا اگر مسرت آمیز ہو تو آدمی کو کبھی تو شادی مرگ ہو جاتا ہے اور کبھی ازروئے حدیث وہ پکار اٹھتا ہے:
’’اے اللہ تو میرا بندہ، میں تیرا رب …‘‘[pullquote](اللھم انت عبدی وانا ربک)[/pullquote]
اسی طرح حیرت کی انتہا اگر حسرت آمیز ہو تو آدمی اپنے ہی دانتوں سے اپنا پورا بدن چبا لیتا ہے اور اسے خبر بھی نہیں ہوتی!
تو کیا آپ آج حسرت و حیرت کی انتہا کے دو مناظر دیکھنا چاہتے ہیں؟
تو آئیے میرا ہاتھ تھامیے… ظاہر کی آنکھوں کو بند اور چشم ِتصور کو وا کیجیے… سوچ کے پرندے کو آزاد اور تخیل کو بلند کیجیے… اب ذرا دل کو تھام کر دھیان میں حشر کا دن تو لائیے!
٭
ایک بیکراں چٹیل میدان ننگ دھڑنگ چیختے چلاتے، دوڑتے بھاگتے مرد وزن…
وحشت، دہشت اور شدید گھبراہٹ کے ہولناک مناظر ایسے کہ آنکھیں پھٹ کر دیدوں سے باہر آ رہیں اور کلیجے منہ کو آ رہے … ہر طرف مچی ہاہا کار اور نفسا نفسی کی پکار…
خون کے رشتے اک پل میں انجانے ہوئے… اور جان سے پیارے، صور پھونکتے ہی بیگانے ہوئے…
دیکھنے والے نے دیکھا کہ ماں نے قریب آتی بیٹی کو وہ زور سے دھکا دیا… اور باپ نے بیٹے کو اٹھا کروہ دور پھینکا…
اس وحشت کے عالم میں مگر کچھ سیاہ رو بدبختوں کے گروہ ایسے بھی ہیں جوگرد و پیش سے بے نیاز دانتوں میں انگلی دبائے ایک جانب تک رہے ہیں… حیرت کی شدت سے ان کے بھیانک چہرے مزید کالے ہو کر بگڑ رہے ہیں اور حسرت و افسوس سے ان کے منہ سے بدبودار جھاگ نکل رہے ہیں…
ان کی نگاہوں کا تعاقب کیجیے تو دور ایک ایسی منور جگہ نگاہ ٹھٹک جائے گی…جہاں رنگ و نور کا سیلاب اورمسحورکن خوشبووں کی گویا برسات ہو رہی ہے …مشک و عنبر کے ٹیلوں پر جنتی قالین بچھے ہوئے… ان پر سونے چاندی کے لعل و یاقوت سے مزین، مرصع و مسجع حسین تخت رکھے ہوئے…اور ان پر خوشی سے دمکتے گلنار چہرے والے لوگ گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے آرام کر رہے تھے…
ان سب سے اوپر… سب سے شاندار ایک تخت شاہی پر… جسے لاکھوں فرشتوں نے باادب اٹھایا ہوا تھا… ختم نبوت کا زریں تاج سر مبارک پر سجائے آقائے دو جہاں، سرور کائنات حضورعلیہ الصلوۃ و السلام تشریف فرما تھے… اور آپ علیہ السلام کے دائیں طرف ایک باوقار، ذی شان صاحب کہ جن کے سر، صدیقیت کا جگمگاتا تاج اور معصوم چہرے پر صدق و راستی چاند کی طرح دمک رہی تھی، دوزانو بیٹھے تھے…
اوران کے ہاتھوں میں ہاتھ دیے، بالکل برابر میں ایک اور گلاب چہرہ صاحب تشریف فرما تھے کہ ان کے رخساروں سے دو نور نکل کر آفتاب کی مانند چمک رہے تھے اور فرط حیا سے جن کی حسین آنکھوں پر پلکوں کی چلمن جھکی جا رہی تھی…
یہ دونوں یار صدیق اکبر اور عثمان غنی ذوالنورین (رضی اللہ عنہما) تھے!
حضور علیہ السلام کے بائیں جانب بھی ایک روشن چہرہ صاحب ایسے کہ عدل ان کی پیشانی پر چمک رہا اور جلال ان کے چہرے سے برس رہا تھا، با ادب دو زانو بیٹھے ہوئے تھے…
اور ان کے بالکل برابر ایک صبیح پیشانی، گلگوں چہرے والے صاحب تشریف فرما ایسے کہ وجاہت ان پر ختم تھی اور شجاعت ان کے انگ انگ سے پھوٹی پڑ رہی تھی…
دونوں احباب کمال بے تکلفی سے ایک دوسرے کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ایسے جڑے بیٹھے تھے کہ گویا ایک جان دو قالب ہوں…
یہ دونوں یار عمر فاروق اور علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہما) تھے!
حضور پرنور کے بالکل سامنے ہی دو چاند کو شرماتے حسین و جمیل نوجوان ایسے تشریف فرما تھے کہ ان کے سچے موتی جیسے شفاف دمکتے چہروں پر ابدی سعادت کی مہر لگی ہوئی تھی …محفل میں موجود بے شمارخادم فرشتے اور غلمان اپنی خوش قسمتی پر نازاں انہیں نظر بھر کر دیکھنے کی کوشش کرتے مگر ان کے نورانی چہروں پر نگاہ ٹھہرتی ہی نہ تھی… سو مشتاق نگاہیں ادب سے بے اختیار جھک جھک جاتیں…
سعادت مند نوجوانوں کے ساتھ ہی ایک اور ذی حشمت صاحب وقار تشریف فرما تھے، جو مسکراتے ہوئے ان دونوں حضرات سے کوئی رازو نیاز کی باتیں فرما رہے تھے… رب ذوالجلال کے چنے ہوئے ان ستاروں کے درمیاں شفاف شیشے کے جنتی برتن سجے ہوئے تھے، جن میں جنت کے میوے چنے ہوئے تھے…
یہ دونوں جوان جنت کے جوانوں کے سردار حسنین کریمین رضی اللہ عنہما تھے اور ان سے رازو نیاز کرتے وہ معززو مکرم صاحب، کاتب رسول حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے!
دونوں سعادت مند نوجوان گو اپنے بزرگوں کے سامنے انتہائی باادب تھے، مگر ساتھ ہی ناز کے ایک خاص مقام پر بھی تھے... اور کیوں نہ ہوتے کہ ناز کے سارے مقام کے آج وہی تو سب سے زیادہ حقدار تھے!
بھلا جن کے نانا سید البشر، امام الانبیاء اور محبوب خدا ہوں اور سامنے ہی مسند نشیں، دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ انہیں دیکھ رہے ہوں… اور دوسری طرف ان کے والد گرامی کرم اللہ وجہہ دونوں جہانوں کی شفقت اپنے جگر گوشوں پر لٹا رہے ہوں… اور صدیق اکبر، عثمان غنی اور عمر فاروق (رضی اللہ عنہم) جیسے عالم میں منتخب افضل البشر بعد از انبیاء’’ بڑے ابو‘‘ ان کے ناز اٹھا تے ہوئے ان کو اپنے مبارک ہاتھوں سے جنت کے پھل کھلا رہے ہوں… اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے چچا ان پر قربان ہو رہے ہوںتو کیوں نہ فاطمہ کے پھول اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہوں!؟
پیار و محبت، مودت و انسیت، ایثار و قربانی کے ان پیکروں کو رب ذوالجلال بھی بڑی محبت سے دیکھ رہے تھے… جو دنیا میں بھی ایک دوسرے پر جان قربان کرنے کے جذبے سے سرشار تھے اور آج فیصلے کے دن بھی ایک دوسرے سے راضی، باہم شیر وشکر تھے…
٭
اچانک حشر کے میدان میں ایک طرف سے سوروں کے رونے چلانے کی نحوست زدہ آوازیں گونجیں… ایک بڑا جھنڈ خنزیر جیسی منحوس اور بھیانک شکلوں والے انسانوں کا تھا …جسے فرشتوں کی ایک جماعت کوڑے مارتے ہوئے ادھر لے آئی تھی… ان میں دو شخص جو انتہائی مکروہ اور لعنتی شکل کے تھے،سب سے نمایاں تھے …گویا وہ اس جھنڈ کے سردار تھے… ان میں ایک عبداللہ بن سبا تھا… دوسرا ابولولو فیروز تھا اور یہ جھنڈ سبائی تبرائی رافضیوں کا تھا…
ان سب کی زبانیں کتوں کی طرح منہ سے لٹکی پڑ رہی تھیں… فرشتوں کی مار سے وہ تکلیف سے بلبلاتے ادھر آئے تھے …مگر اب لگتا تھا کہ مار سے زیادہ تکلیف انہیں یہ حیرت ناک منظر دیکھ کر ہو رہی تھی… وہ گنگ کھڑے تھے اور حیرت ان کی آنکھوں سے گویا ابل رہی تھی …جیسے ہی ان کی منحوس شکلوں پر حضرات صحابہ کی نگاہ پڑی تو مبارک چہروں پر ناگواری کے اثرات نمودار ہو گئے… خصوصاً حسنین کریمین اور ان کے والد گرامی کرم اللہ وجہہ نے انہیں نہایت غصے اور نفرت سے دیکھا تھا… حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے شعلہ بار نگاہوں کا وہ قہر تھا جو عذاب کا کوڑا بن کر ان سوروں پر گرا اور ان کی بدروحیں حسرت و یاس سے بھسم ہونے لگیں… سوروں کی شکل والے وہ لوگ گدھے کی آواز میں بین کرنے لگے… یہ تھی وہ حیرت کی انتہا، جس کی شدت سے ان کے چہرے مزید بگڑ کر جہنمی ہو گئے تھے…
دنیا میں یا علی، یا حسین کے نعرے لگاتے حضرات صحابہ کرام پر تبرا کرتے، سینہ کوبی اور بین کرتے یہ بدبخترافضی آج اپنے مزعومہ اماموں کو شیخین پر نثار ہوتے دیکھ کر اگر بس میں ہوتا تو ایک بار پھر وہ سینہ کوبی کرتے کہ اپنے سینے فگار کر لیتے… گر موت ہوتی تو ان کے کلیجے یہ منظر دیکھ کر پھٹ جاتے… مگرآج وہ جہنمی بیڑیوں سے بندھے ہوئے بے بس جانور تھے، سو چند لمحوں کے بعد جہنم کی طرف ہنکار دیے گئے…
٭
ان کے بعد ایک اور نسبتاً چھوٹا ٹولہ سامنے لایا گیا… یہ ٹولہ بھی سیاہ چہرے والے بدبخت دریدہ دہن لوگوں کا تھا… ان کی بھی گستاخ زبانیں منہ سے باہر لٹک رہی تھیں… اپنے ہی پسینے میں غرق یہ لوگ بھی دانتوں میں انگلی دبائے حیرت سے آسمان پر قائم اس شاندار شاہی تخت کو دیکھ رہے تھے، جس میں جنت الفردوس کے سرداران تشریف فرما تھے…
ان کو دیکھ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور ان کے شہزادوں کے مبارک چہروں پر پل بھر کے لیے شکایت کے آثار نمودار ہوئے، پھر انہوں نے اپنے مبارک چہرے ان لوگوں سے پھیر لیے… اس بار حضرات شیخین ،حضرت عثمان غنی اور امیر معاویہ رضی اللہ نے انہیں نہایت غصے سے دیکھا… امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر تو شدید جلال کے اثرات نمایاں ہوئے جس کی تاب نہ لاتے ہوئے یہ بدبخت اپنی نگاہوں کو جھکانے پر مجبور ہو گئے… یہ ٹولہ خوارج کا تھا، جن کے پیچھے پیچھے ان کا دامن پکڑے وہ ناصبی بھی تھے… جودنیا میں تحقیق کے نام پر اہل بیت اور خصوصاً حضرت علی اور آل علی پر طنز کے نشتر برساتے تھے… اس گروہ کے نمایاں افراد میں ابن ملجم نمایاں تھا!
٭
ہاں یہ ہے خدا کی قسم! دونوں جہانوں کا سب سے حیرت انگیز منظر… جو ان بدبختوں کا مقدر ہے، جو دنیا میں صحابہ کرام کو بنو ہاشم اور بنو امیہ میں خود ساختہ تقسیم کر کے ایک کی محبت کے پردے میں دوسرے پر طعن و تشنیع اپنا ایمان سمجھتے رہے تھے …اور… ان دونوں انتہا ؤں کے درمیان خوش قسمت وہ سعادت مند روحیں تھیں… جن کے تخت آج مشک و عنبر کے ٹیلوں پر بچھائے گئے تھے اور ان کے دل تمام حضرات کو دیکھ کر مسرت سے لبریز ہو رہے تھے اور حضرات اہل بیت اور صحابہ کرام ان سے راضی اور خوش تھے… یہ خوش نصیب گروہ اہل سنت والجماعت کے لقب سے حشر میں پکارے جا رہے تھے… اللھم اجعلنا منھم!
اے اللہ! ہمیں انہی اہل سنت میں زندہ رکھ اور انہی کے عقیدے پر موت دے … تیرے اور تیرے نبی علیہ السلام کے نزدیک جس کا جو مقام فضیلت ہے… ہمیں ایک نقطہ برابر بھی اس سے گھٹانے بڑھانے کی جرات سے محفوظ فرما اور ہمارے دلوں کو ان سب کی محبت سے بھر دے… اور قیامت والے دن اہل بیت اور صحابہ کے ساتھ حشر فرما۔ آمین
تبصرہ لکھیے