ہوم << احمد جاوید صاحب کے انٹرویو کا ایک جائزہ - شہیر شجاع

احمد جاوید صاحب کے انٹرویو کا ایک جائزہ - شہیر شجاع

احمد جاوید صاحب وہ علمی شخصیت ہیں جن کو سننا اور پڑھنا ایک طالبعلم کے لیے خواب سی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کا ہر جملہ اس قدر لطیف، جمیل، جامع و معنویت سے بھرپور ہوتا ہے کہ قاری کے لیے آگے بڑھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ الفاظ کا چناؤ، جملے کا اختصار اور پھر اس میں جامعیت پیدا کرنا اس کے ساتھ معنویت کا سمندر بہا دینا، ہر چند ان کے علمی قد کاٹھ کی نشانی ہے۔ زبان و بیان، دین و ادب سے محبت کرنے والا ذہن اس کی چاشنی میں بھیگ جاتا ہے، مگن ہوجاتا ہے، معنوی سمندر کی لہروں میں اپنے وجود کو بےخطر چھوڑ دیتا ہے، اور ادراک کے مختلف خزانوں تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ جس کے اثر میں مختلف پر بہار کیفیات اس کی روح کو سرشار کرتی جاتی ہیں۔ لفظ و جملے میں بسا جمال سرسراتے ہوئے، وجود کو تازگی کی اک خاص لہر سے متعارف کراتا ہے۔ اور ادب کی تعریف بےاختیار عیاں ہوجاتی ہے۔
آج ہم اپنے اطراف میں نگاہ دوڑائیں تو بےشمار نامور علماء ہمیں نظر آئیں گے۔ ان میں چند ایک ہی ایسے ہوں گے جن میں علم اپنے اسباب و علل، تحلیل و تاثر کے ساتھ موجود ہے۔ جو ان کی شخصیت میں تواضع، انکسار و ایثار پیدا کرتا ہے۔ یہی اخلاقی تربیت وہ عام کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل پر ان کی نگاہیں مرکوز رہتی ہیں اور اس کے حل کے لیے ہمہ وقت برسر پیکار رہتے ہیں۔ ان چنیدہ افراد میں ایک چمکتا ستارہ بلا شک و شبہ احمد جاوید صاحب ہیں جن کا حال ہی میں دنیا نیوز کے سنڈے میگزین میں انٹرویو شایع ہوا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے شعور کو بنا کسی بنیاد فراہم کیے بھٹکنے پر مجبور کردیا ہے اور اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دیتے رہتے ہیں کہ معاشرہ روبہ زوال ہے اس میں ہمارا کیا قصور؟ اسی نکتے پر احمد جاوید صاحب تصور علم اور تصور اخلاق کو بنیاد بناتے ہوئےگفتگو فرما رہے ہیں اور مسلم و مغربی معاشرے کے تصور اخلاق کی تفریق کو واضح کر رہے ہیں۔ آخر میں ادب پر بھی سیر حاصل گفتگو فرمائی گئی ہے جو کہ ادب کے طلبہ کے لیے نادر و مفید خیالات پر مبنی بنیاد ہونے کے قابل ہے۔
احمد جاوید صاحب انسان کو کائنات سے تشبیہ دیتے ہوئے علم اور اخلاق کو قطبین کا درجہ دیتے ہیں جو کہ انسان کے لیے اعتدال کے ساتھ اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں ناگزیر ہیں۔ فرماتے ہیں ”علم نام ہے کسی بات کی سیاق و سباق میں درست معنویت کا“۔ ایک مختصر جملے میں ”تصور علم“ کو کس قدر خوش اسلوبی کے ساتھ سمو رہے ہیں۔ اس کی تشریح بھی حضرت کی ہی زبان میں بیان کی جائے جیسے ”شعور کا شے پر غالب آجانا، ذہن کا شے پر متصرف ہوجانا“، یعنی ذہن کا شے پر مکمل دسترس حاصل کرلینا جیسے کہ آقا کا غلام پر مکمل اختیار وغیرہ۔ اور تصور اخلاق کی تعریف فرماتے ہیں ”اخلاق، تعلق کے شعور اور احساس کا نام ہے، اور مسلم اخلاقیات تعلق باللہ کے مرکز سے پھوٹتی ہیں“۔ یعنی اللہ سے تعلق سے آگاہی اور ذوق جب احساسات میں شامل ہوجائے اور وجود اس عمل پیرا ہوجائے تو یہ اخلاق ہے۔ چونکہ مسلم عقیدہ بندگی رب ذوالجلال ہے لہذا یہ مرکزیت اللہ جل شانہ کی جانب ہی ہوگی۔
مزید حضرت کے اقوال سے ہم کیا معانی اخذ کرتے ہیں اس کی تفصیل کچھ یوں ہوگی۔ معاشرے میں ظاہری بود و باش سے اثر لینے کا رواج ہو چلا ہے اور اس حد تک اپنی جڑیں مضبوط کرچکا ہے کہ باطن کی جانب توجہ نہیں رہی۔ محض ظاہری طور پر دیندار لباس، خدو خال اور عام حالات میں مذہبی زندگی گزارتے ہوئے افراد کو دیکھ کر ہمارا ذہن راسخ ہوجاتا ہے کہ فلاں افراد مذہبی ہیں، جبکہ مغربی ثقافتی بود و باش کے حاملین کو اس تصور سے باہر کردیتے ہیں۔ چونکہ ہمارا معاشرہ علمی سطح پر دو مختلف طبقات میں تقسیم ہوچکا ہے اور علمی انحطاط کے ساتھ ساتھ اخلاقی زوال کا بھی شکار ہے، معاشرے نے مذہبی و عصری علوم کو دو مختلف علوم تک محدود کردیا ہے، چہ جائیکہ ہر شعبہ علم اختصاصی ہوتا ہے۔ ہر شعبے کا عالم اپنے آپ میں جید ہونا ضروری ہے مگر اس افتراق نے عصری علوم کو مجموعی طور پر علیحدہ مقام پر لا کھڑا کیا اور دینی علوم کو علیحدہ۔ اس سے یہ ہوا کہ دونوں طبقات نے اپنے اپنے مقام پر اجارہ داری قائم کرلی۔ مذہبی علوم کے ماہرین کو اہل مذہب قرار دے دیا گیا اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کو اہل عصر، جو کہ کسی بھی طور پر معاشرے کی بقا کے بہتر نتائج کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ اہل مذہب نے معاشرے پر اپنی دھاک بٹھانے کی جانب توجہ دی اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنے آپ کو ناگزیر گردانتا ہے۔ اس نکتے پر حضرت ایک نہایت ہی بہترین فلسفہ بیان کرتے ہیں ۔
فرماتے ہیں:
”عقیدے کو شعور کا وہ مرکز نہیں بنایا جا سکا، جس سے وابستہ رہ کر شعور اپنے تخیلات، نظریات، افکار وغیرہ کا نظام چلاتا ہے، یعنی عقیدہ ایک مجموعی تناظر کی طرح ہوتا ہے جس کی روشنی میں شعور عارضی یا مستقل فیصلے کرتا ہے اور ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہوا کہ عقیدہ اور شعور کے درمیان اس ناگزیر تعلق کی نوعیت اور اہمیت کو نہیں سمجھا گیا۔“
یہاں شعور کی بنیاد کو تعلق باللہ سے جوڑتے ہوئے وحی کی حقیقت و اہمیت پر زور ہے۔ عقیدہ کیا ہے؟ یوں کہہ لیں حاکمیت اعلی کا تصور یا دنیا میں وجود پذیر ہونے والا ہر عنصر ہر عمل بنا مشیت ایزدی کے انجام پذیر نہیں ہوتا۔ جب اس عقیدے کو شعور کے لیے مرکزیت دی جائے گی تو ہر مسئلہ بصری، نظری، عللی وغیرہ کو پرکھنے اور اس کا صحیح ادار ک حاصل کرنے کے لیے جب شعور اپنا میکینزم شروع کرے گا تو وہ اس بنیادی پراسس سے گزرتے ہوئے تصویر تخلیق کرے گا۔ اب ہوا کیا؟ ہمارے تمام علمی ذرائع، اسباب و علل، ماخذ و محلات میں کہیں اس بنیادی ضرورت پر زور نہیں دیا گیا۔ جس بنا پر معاشرہ شعوری انحطاط کا شکار ہو کر علمیت کی ادنی سطح سے بھی باہر ہوگیا۔ جہل نے اپنا مقام مستقل کرلیا اور اس پر معاشرہ مصر بھی ہوگیا۔ اسی بات کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”آج کے آدمی کی علمی نشونما اور اخلاقی ترقی کے بےشمار مراحل میں کوئی ایک مرحلہ بھی دکھایا نہیں جا سکتا جو مذہبی رہنمائی میں طے کیا گیا ہو یا جہاں سرے سے مذہب کی کوئی ضرورت ہو۔ یہ ایک ایسی ہولناک صورتحال ہے کہ انسان کو عالمگیر سطح پر اپنی ذہنی، اخلاقی، نفسیاتی اور جمالیاتی تکمیل کے لیے مذہب کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔“
اور سیکولرازم و لبرل ازم وغیرہ کی ضرورت معاشرہ محسوس کرنے لگا، اس پر مستزاد یہ کہ نعرے بھی جدید تعلیم یافتہ طبقے کی جانب سے اٹھے۔ ساتھ ساتھ اہل مذہب کے نمائندگان کی صفوں سے بھی اس قسم کا شور معاشرے نے سنا۔ پھر اس کا نوحہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
”ہمارا مذہبی ذہن علم کیا ہے؟ کا جواب فراہم کرنے کے معاملے میں بے بس اور پس ماندہ ہوکر رہ گیا۔“
مذہبی ذہن سے کیا مراد ہے؟ ہرمسلمان کا ذہن اپنی بنیاد میں مذہبی ہے۔ اور معاشرت، طرز زندگی، غرض تمام تر نظریات کی تخلیق کا پراسس اسی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ خواہ اس حقیقت کا ادراک ہو یا نہ ہو۔
فرماتے ہیں:
”انسان اپنی انفرادی بناوٹ میں کیا ہے اور اجتماعی ساخت میں کیا ہے؟ ان دونوں سوالوں کا جو جواب دیتا ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ایک سچے مسلم معاشرے میں اسلام انفرادیت کو ذوق عبادت اور اجتماعیت کو بے لوثی، انکسار اور ایثار پر استوار کرتا ہے۔“
ذوق عبادت کیا ہے؟ حقوق اللہ و حقوق العباد۔ کیا وہ اللہ جل شانہ کی جانب سے پابند کیےگئے افعال و اعمال پر متوجہ ہے؟ اور اپنے متعلقین و غیر متعلقین کے ساتھ اس کے معاملات کیسے ہیں؟ الغرض زندگی کے ہر پیش آنے والے امور میں اس کا رویہ کیا ہے؟ وغیرہ۔ اور پھر یہی مفردات جب اجتماعی شکل اختیار کرلیتے ہیں، تعلق باللہ کو بنیاد بناتے ہوئے تو پھر منظم و مثالی معاشرہ تخلیق پاتا ہے، جو بےلوثی و انکساری، ایثار و محبت، بھائی چارگی اور خلوص وغیرہ کا مرقع ہوتا ہے۔
اسی بات پر ایک جملہ حضرت فرماتے ہیں:
”دین اگر باطن کا انقلاب نہ بنے تو باہر کی دنیا میں شور شرابے سے زیادہ کچھ پیدا نہیں کرسکتا.“
مسئلہ یہ ہے کہ ہم جب کبھی دین کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارا تصور اہل مذہب کی جانب رخ اختیار کرلیتا ہے۔ اور اہل عصر کو اس سے معاف سمجھتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اہل عصر کا دین کیا کوئی جدا دین ہے؟ آج کے معاشرتی اخلاقی زوال پر آپ اسی نکتے پر زور دیتے ہوئے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو سب سے زیادہ قصور وار گردانتے ہیں، اور اخلاقی و علمی پسماندگی کا سب سے اہم موجب جدید تعلیم یافتہ طبقے کو قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو مغربی تصورات کے ماتحت کرلیا اور دین سے محض اس حد تک ناطہ رکھا کہ وہ مسلمان کہلائیں، اور کلمہ شہادت یاد رکھیں۔ بس اتنے میں ہی ان کی اخلاقی و دینی ذمہ داری مکمل ہوجاتی ہو۔
فرماتے ہیں:
”تہذیبوں میں تبدیلی کا یہ اصول ہے کہ تبدیلی نظری نہیں اخلاقی ہوتی ہے۔“
کیا شاندار تشخیص فرمارہے ہیں۔ معاشرہ مسلسل نظریاتی بنیادوں پر بحث و مباحثے کے ذریعے تبدیلی کا خواہاں ہے۔ اور اخلاقی پہلو یکسر نظر انداز ہے۔ اخلاقی پہلو کیا ہے؟
اس پر دونوں عملی طبقات پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”احیائے دین کا کوئی امکان اخلاق اور معاشرتی تناظر سے باہر نہیں۔ ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے اس انتہائی بڑے مقصد کو ضرورت سے زیادہ سیاسی بنا دیا اور اس کی نفسیاتی، ذہنی اور تہذیبی ساخت پر کوئی توجہ نہیں دی۔“
اور اہل مذہب پر انفرادی نقد یوں کرتے ہیں:
”علماء سے اصل کوتاہی اخلاقی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنے عمل سے اپنی شخصیت سے دین کو پر کشش اور بدلتے ہوئے حالات میں مؤثر نہ بنا سکے۔“
یعنی انسان ہمیشہ اپنی فطری کشش کی جانب کھنچا چلا جاتا ہے۔ اور جہاں اس کے فطری تقاضے باہم ٹکرائیں، وہ متنفر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان نہایت ہی باریک لکیر ہے جس کا اندازہ اصحاب علوم و اصلاح کو یقینا ہونا چاہیے۔ اسی نکتے کو بیان کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ اگر علماء دین کو معاشرے کے عام فرد کے لیے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں پر کشش بناتے تو آج کے حالات یکسر مختلف ہوتے۔ انہوں نے اس جانب توجہ نہیں دی اور اپنے اذہان کو مشقت میں ڈالنا پسند نہیں کیا۔
فرماتے ہیں:
”اس صورتحال کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ہم دین اور اخلاق کے باہمی ربط اور اس کے نتائج کو سمجھنے اور پیدا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں۔ اِس وقت مذہبی اخلاق، معروف اخلاق سے بہت کم تر، ان گھڑ محسوس ہوتی ہے۔“
یہاں مذہبی اخلاق سے مراد اہل مذہب نہیں بلکہ معروف اخلاق سے مذہبی اخلاق کی تفریق کی گئی ہے۔ معروف اخلاق وہ ہیں جو انسان میں فطرتا پائے جاتے ہیں جیسے سچ بولنا، کسی کو ایذا نہ پہنچانا وغیرہ۔ اور مذہبی اخلاق میں وہ تمام امور جن میں جوابدہی کی بنیاد انسانی ضمیر یا معاشرہ نہیں بلکہ اللہ جل شانہ ہے۔ اس ضمن میں کوتاہی ہر طبقے میں موجود ہے اور اس قدر ہے کہ حضرت اسے ان گھڑ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ خواہ وہ اہل مذہب ہوں یا اہل عصر۔ دونوں جانب ظاہری و ذاتی و جذباتی رجحانات نے زور پکڑ رکھا ہے جن کے درمیان معاشرہ پستا جا رہا ہے، اذہان تباہ ہورہے ہیں اور شعور کی سطح پست ہوتی جارہی ہے۔
مزیدفرماتے ہیں:
”قرآن کا فہم مخاطب قرآن کو جانے بغیر ممکن نہیں۔“
یہاں بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ انسان کی اہمیت اور اس کے فطری تقاضوں کی جانب توجہ دی جانی چاہیے تھی کہ ان عوامل پر اگر توجہ دی جاتی تو اسلام کا تصور نہایت پرکشش ہو سکتا تھا۔ اختصاصی طور پر تو افراد مذہب کی پناہ میں آجاتے ہیں مگر اس کے اسباب عام نہیں ہوتے۔ علماء کو عام اسباب و علل کی جانب توجہ دینے کی ضرورت تھی۔
اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے اجتہاد کے دروازے کھولنے کے سوال پر فرماتے ہیں:
”اہل مذہب کا مجموعی ذہنی، اخلاقی اور جمالیاتی رویہ انسان کی وجودی پیش رفت میں رکاوٹ بنتا محسوس ہو رہا ہے۔ آج کل کے حامیان اجتہاد، دین سے کوئی سنجیدہ تعلق نہیں رکھتے اور خود نفس دین میں تبدیلی کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہماری ذہنی اور تہذیبی سطح کو دیکھتے ہوئے اگر مجتہدوں کی کھیپ بھی پیدا ہوجائے تو اس کا نتیجہ انتشار کی صورت میں نکلے گا۔“
وجہ اس کی واضح ہے۔ معاشرہ طبقات و تفرقات کا مجموعہ ہو چکا ہے۔ مزید یہ کہ ماہرین علوم کی اکثر تعداد کا دین کے ساتھ کوئی خاص تعلق خاطر رہا نہیں۔ ذات و مفاد خواہ طبقاتی ہوں یا ذاتی، اس نے پہلی ترجیح کا درجہ حاصل کرلیا ہے جبکہ دوسری جانب صورتحال ایسی ہے کہ نفس دین ہی تبدیل کردیا جائے۔ اس مجموعی تناظر میں اگر اس باب کو کھولا بھی گیا تو ایک نئے انتشار نے جنم لینا ہے۔ مختلف آوازوں کے شور میں کہیں نفس دین کے رہے سہے شعلے بھی مدھم نہ ہوجائیں۔
مغربی اخلاقی اقدار کی تعریف پر بہت مدلل گفتگو فرماتے ہیں جس کے جملہ اجزا و نکات پر غور کیا جائے تو سیکولر و لبرل نظریات کی مکمل نفی ہوجاتی ہے۔ دل تو کرتا ہے کہ اسے مکمل یہاں نقل کردوں جبکہ کوشش یہی رہی ہے کہ اکثر احباب جو جناب احمد جاوید صاحب سے نامانوس ہیں یا کم از کم ان کا انٹرویو ان کی نظر سے نہ گزرا ہو یا اگر گزرا بھی ہو تو ان کی نگاہ سرسری ہی رہی ہو ایسے دوستوں کے لیے حضرت کی شخصیت اور ان کے اقوال و فکر کو پر کشش بنا کر پیش کروں اسی لیے کوشش یہی رہی کہ ان کے ذاتی جملوں کو نقل کیا جائے۔ چونکہ انٹرویو خاصا طویل ہے۔ اس کے دوحصے کیے جا سکتے ہیں پہلے حصے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں جبکہ دوسراحصہ ادب سے متعلق ہے، اس پر ہم آئندہ گفتگو کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ اس سوال کے جواب پر ہم اختتام کریں گے جو کہ اس مکمل انٹرویو کی روح کہا جا سکتا ہے، اور جس میں ابتداء میں کی گئی گفتگو کی مکمل تشریح ہمیں مل جائے گی۔
مختصرا عرض کروں گا۔ فرماتے ہیں:
فطرت میں موجود خیر کے فعال اجزاء کو اخلاق کہتے ہیں۔ یہ باہم مختلف تہذیبوں کے افراد میں یقینا مشترک بھی ہوسکتے ہیں۔ مگر انفرادی طور پر ان کی بنیاد اور قوانین جو انہیں اصولوں پر کاربند رہنے پر پابند کرتے ہیں وہ مختلف ہوتے ہیں، اور انہی اصولِ اخلاق میں ہمارا اور مغرب کا فرق تضاد کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔ ہمارا تصور اخلاق نیت اور خیال آخرت پر قائم ہے جبکہ ادھر نیت اور آخرت غیر متعلق تصورات ہیں۔ مغرب نے اس بات کا ادراک کیا کہ اجتماعی اخلاق کو پابند کیے بنا کامیاب معاشرے کی تخلیق ناگزیر ہے اور اس کا فائدہ بھی انہی کو حاصل ہونا ہے، لہذا انہوں نے اس جانب خصوصی توجہ دی اور ایک کامیاب معاشرہ تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جبکہ اگر غور کیا جائے تو وہاں فرد کا اخلاقی وجود ان کا مسئلہ نہیں رہا۔
مزید فرماتے ہیں:
اخلاق جوابدہی کے خوشگوار یقین سے پیدا ہوتا ہے یعنی جبر نہیں ہوتا۔ فرد کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ ریاست یا معاشرے کو جوابدہ ہے۔ یا کم از کم اپنے ضمیر کو جوابدہ ہے۔ یہاں خوشگوار جوابدہی بلاجبر کہنا ہی دراصل انسان کے ذاتی و فطری خدوخال کی جانب اشارہ ہے۔ مغرب نے اس جانب توجہ دیتے ہوئے قوانین وضع کیے ہیں، اس پر عملدرآمد یقینی بنانے پر توجہ دی ہے جبکہ ہمارا اخلاقی تصور تعلق باللہ کے گرد گھومتا ہے۔ ہماری جوابدہی اللہ جل شانہ کو ہے اور اس کا موقع آخرت ہے۔ اس بنیادی تصور کے ماتحت رہتے ہوئے انفرادی اخلاق کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہاں ہم جوابدہی کو خوشنودی کے معنی میں لیں تو بات مزید واضح ہوجاتی ہے۔ انسانی جبلت میں ایک بہت ہی اہم عنصر ریا ہے۔ وہ اپنے ہر کام کی توصیف چاہتا ہے۔ سو اگر تعلق باللہ کو بنیاد بنا کر وہ کسی بھی امر کو انجام دے گا تو توصیف اللہ جل شانہ سے چاہے گا۔ جبکہ سیکولر ذہن معاشرے سے توصیف کا متقاضی ہوگا۔
فرماتے ہیں:
”ہم دینی اخلاق اور سیکولر اخلاق میں اصولی فرق محسوس نہیں کرتے۔ سیکولر اخلاق میں خود پسندی کی گنجائش ہے لیکن دینی اخلاق کی بنیاد ہی اس بےنفسی پر ہے جو خود پسندی سے پاک کرتی ہے اور ایثار پر آمادہ کرتی ہے.“
اس بات سے جوابدہی کے معنی خوشنودی ہونا بالکل واضح ہورہے ہیں۔
ہم چونکہ دین کو دنیا پر مثبت تخلیقی و تحقیقی مفہوم پر غالب نہ رکھ سکے۔ جس کے سبب سے ہم زندگی کو بنانے، بگاڑنے اور دنیا کو بدلنے اور چلانے کی قوت سے محروم رہ گئے۔ اس محرومی نے ہمارا اخلاقی وجود نہایت پست کردیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری اخلاقی پسماندگی اس امر پر دال ہو کہ ہمارا اخلاقی ماخذ یا اخلاقی تصور ہی غلط ہیں۔ ہمیں اس جانب لوٹنے کی ضرورت ہے۔ جسے ہم ترک کرچکے اور اخلاقی زوال نے اس قدر مرعوبیت کی نچلی سطح پر پہنچا دیا کہ جیسے ہم کسی کنویں میں موجود ہوں اور کنویں کے ہول سے جتنی دنیا نظر آتی ہو اسی خوبصورتی کی کشش ہم پر غالب آگئی ہو۔
فرماتے ہیں:
”ہم مغربی بننے کی تگ و دو میں مکمل ناکامی کے بعد اس خواہش تک پہنچیں گے کہ ہمیں اپنے اصل کی طرف لوٹ جانا چاہیے۔“