ہوم << گھمن گھمیریاں اور صراطِ مستقیم - عاطف الیاس

گھمن گھمیریاں اور صراطِ مستقیم - عاطف الیاس

عاطف الیاس آج کل سوشل میڈیا گھمن گھمیریوں کی زد میں ہے اور ہم سب ان گھمن گھمیریوں میں کہیں صراطِ مستقیم کھو چکے ہیں۔ الزامات قیامت کے ہیں لیکن، شاید قیامت ابھی دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بارے سن سن کر کان پک گئے لیکن نتیجہ وہی نکلا جو ایان علی، مشرف، جتوئی اور ریمنڈ ڈیوس کیس کا نکلا تھا۔ وہی سرخرو ہو کر نکلنا، وِی کا نشان بنانا، ”آوے ای آوے“ کے نعروں کے جواب میں مسکرانا، ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے پرجوش اندھے مقلدوں پر ہنسنا۔ سو ان گھمن گھمیریوں کا بھی یہی نتیجہ نکلے گا یا کچھ اور، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ وہی ادائے بے نیازی ہے جو دل لے کر کہتی ہے کہ کسی کام کا نہیں۔ اگر یقین نہیں ہو تو پرانے اخبارات نکال کر صرف ایان علی کی آنیاں جانیاں دیکھ لیں۔ ہم تو پہلے ہی بہت کچھ دیکھ چکے ہیں۔
ان گھمن گھمیریوں سے یاد آیا کہ کچھ دن پہلے دلیل پر ایک بہن کی تحریر بھی بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کے حوالے سے شائع ہوئی تھی۔ چند تحریریں پہلے بھی شائع ہوچکی ہیں۔ ایک سال پہلے مجھے انڈیا میں کام کرنے والی ایک این جی او کی بنائی ہوئی اینمیٹیڈ ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس کا موضوع بھی یہی تھا یعنی انفرادی طور پر بچوں کو جنسی استحصال سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر سکھانا۔ مثلا: ماں باپ بچوں کو تربیت دیں، انھیں کسی سے بھی حد سے زیادہ گھلنے ملنے نہ دیں، وہ کسی سے تحفے نہ لیں، کسی کی دھونس میں نہ آئیں، ماں باپ یا اساتذہ کو کسی غیر معمولی واقعے کی خبر دیں وغیرہ وغیرہ۔
لیکن معذرت کے ساتھ یہ سب گھمن گھمیریاں ہیں۔ ہم سب ان سے خود کو شدید قسم کا دھوکہ دے رہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک حد تک اس طرح کی تربیت دے کر شاید بچانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ چڑھتے دریاؤں کے آگے چھوٹے چھوٹے بند زیادہ دیر نہیں ٹکا کرتے۔ ان کے لیے خصوصی انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم کسی مسئلے کو بنیاد سے سمجھ سکیں اور پھر اسے حل کرنے کی کوشش کریں۔
اب دیکھیے کہ اسی طرح کی بہت سی کوششیں مغربی ممالک بھی میں بھی کی جارہی ہیں لیکن لاحاصل ہیں، کیونکہ وہ اس مسئلے کو بنیاد سے سمجھنے میں قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ انٹرنیٹ پر ”جنسی استحصال کے حوالے سے دس سرفہرست ممالک“ لکھ کر گوگل کیجیے تو آپ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آئے گا، کیونکہ اس فہرست میں سب سے اوپر وہ ممالک ہیں جنھیں ہم دن رات آئیڈیل بناتے نہیں تھکتے، اپنے نصاب اور میڈیا بارے ان سے ہدایات لیتے نہیں تھکتے۔ ان میں امریکہ، انڈیا، برطانیہ، سویڈن، ڈنمارک، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ساؤتھ افریقہ، زمبابوے وغیرہ شامل ہیں۔ چند افریقی ممالک بھی اس فہرست میں نظر آجائیں گے لیکن ترقی یافتہ ممالک میں یہ مسئلہ بہت زیادہ ہے۔
ان ممالک میں اوسطا ہر تین میں سے دو لڑکیاں اور چار میں سے ایک لڑکا بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے پہلے جنسی استحصال کا نشانہ بنتا ہے۔ یاد رہے اس میں زنا بالرضا شامل نہیں کیونکہ ان کے ہاں یہ بہت پہلے جرم یا حرام کے دائرے سے باہر نکل چکا ہے۔ انڈیا کا دارالحکومت دلی ”ریپ سٹی“ کہلاتا ہے، جہاں سب سے زیادہ خواتین کے خلاف ریپ کے واقعات ہوتے ہیں۔ بچوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے بھی انڈیا سرفہرست ہے۔ اسی طرح برطانیہ، سویڈن، افریقی ممالک میں یہ شرح بہت زیادہ ہے۔
اگرچہ مغربی ممالک میں اس حوالے سے اچھی خاصی رائے عامہ بھی پائی جاتی ہے، بچوں کو تربیت بھی دی جاتی ہے (تربیت کے انداز میں اختلاف ہوسکتا ہے)، پھر ڈنمارک میں تو ریپ کے واقعات کو کم کرنے کے لیے خواتین کے لیے علیحدہ سے ٹرین سروس بھی شروع کی جاچکی ہے لیکن نتیجہ صفر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مغربی سیکولر عقیدے کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومتیں اس مسئلے کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔
آخرمسئلہ ہے کیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم ایک ایسے سرمایہ دارانہ دور میں جی رہے ہیں جہاں سیکولرازم ایک عقیدے کے طور پر موجود ہے۔ سیکولر عقیدہ انسان کے قانون سازی کے اختیار کو یقینی بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے سو سالوں میں بہت سی چیزیں خود مغرب میں حرام کے دائرے سے نکل کر حلال بن چکی ہیں۔ سیکولر عقیدہ، اپنی جمہوری روایات کے اشتراک سے یہ یقینی بناتا ہے کہ ہر مرد اور عورت اپنی پسند، مرضی اور طریقے کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے۔ اسے جنسی آزادی اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زنا، بے حیائی، ہم جنس پرستی، جانوروں سے بدفعلی، محرم رشتوں کے درمیان جنسی تعلقات آہستہ آہستہ انفرادی فعل کے دائرے سے نکل کر قانونی بنتے جارہے ہیں۔
پھر مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ ان تمام خرافات کے ساتھ ساتھ انھیں فلمانے، ڈرامانے اور پھر انھیں اخبارات، انٹرنیٹ، ٹی وی اور سینما میں دکھانے کی آزادی بھی میسر ہے۔ سو جب ایک آدمی ٹی وی دیکھتا ہے، انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے، اخبار پڑھتا ہے یا سینما جاتا ہے، تو ہر جگہ اسے ایسے جنسی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جو اس کی جنسی جبلت کو برانگیختہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پھر یہ جبلت تسکین بھی چاہتی ہے، آزادی پہلے ہی میسر ہے لہذا پھر اس کا نتیجہ زنا، ہم جنس پرستی، جانوروں سے بدفعلی کی صورت ہی میں نکلتا ہے۔ اور پھر جہاں بس نہیں چلتا وہاں یہ گھٹن اور اشتعال بچوں اور عورتوں کے جنسی استحصال کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
تو گویا ایک ایسی دنیا جہاں بےحیائی اور جنسی لذت انگیزی ایک صنعت (industry) کی حیثیت رکھتی ہو۔ جہاں جنسی مناظر اتنی بے باکی سے فلمائے جاتے ہوں کہ اچھا بھلا انسان بھی بہک جائے، کجا کم عمر نوجوانوں سے پاکیزگی کا امید رکھی جائے۔ اور جب ایک انسان جنسی اشتعال کے ہاتھوں اندھا ہوکر کچھ کر بیٹھے تو اس گناہ کو میڈیا کی دکان چلانے کے لیے مرچ مسالے کے ساتھ پیش کیا جائے۔ پھر اگر مجرم پکڑ میں آجائے تو پیچیدہ عدالتی نظام اور آسان سزاؤں کی بدولت وہ بہت جلد رہائی ملتے ہی دوبارہ معاشرے کو گندا کرنے کے لیے اپنی ناپاک کوششیں شروع کردے۔
ذرا سوچیے کہ پھر ایسے دور میں کمزور بچوں اور عورتوں کو جنسی استحصال سے بچانے کے لیے تدابیر سکھانا، فلمیں بنانا اور پروجیکٹ چلانا سورج کو چراغ دکھانا نہیں تو اور کیا ہے؟
اس کے برعکس اسلام معاشرے کو زنا، ہم جنس پرستی اور جنسی استحصال جیسے گھناؤنے افعال سے بچانے کے لیے ایک چہار طرفہ لائحہ عمل تجویز کرتا ہے۔ اور یہ لائحہ عمل معاشرے، انسان اور اس کی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، وہ بہترین راستہ اور صراط مستقیم ہے، جس پر ہمیں اور کل انسانیت کو چلنے کی ضرورت ہے۔
اول تو ایک اسلامی ریاست اپنے شہریوں کی اخلاقی تربیت کا بندوبست تعلیم اور میڈیا کے ذریعے کرتی ہے۔ دوم، کسی ایسی چیز کو پبلک کرنے کی اجازت ہی نہیں ہوتی جو معاشرے میں بےحیائی یا جنسی اشتعال دلانے کا باعث ہو۔ جو انسان کی جنسی جبلت کو متحرک (Trigger) کرسکے، جس کا نتیجہ زنا یا جنسی استحصال کی صورت میں نکل سکے۔ سوم، اسلامی معاشرے میں میڈیا کو چار پیسے کمانے کے لیے برائی کی تشہیر کی اجازت ہی نہیں ہوتی کہ وہ ان واقعات کو اس انداز میں پیش کرسکے کہ برے لوگوں کو برائی کی ترغیب مل سکے بلکہ الٹا میڈیا سزا کی تشہیر کا پابند ہوتا ہے۔ چہارم، اسلام میں سزاؤں کا نظام ایسا زبردست اور عبرت انگیز ہے کہ ان کا تصور بھی بہت حد تک انسان کو برائی سے روکنے میں معاون ہوتا ہے۔
یہ ہے اسلام کا چہار طرفہ پروگرام جس کے بعد معاشرہ ان برائیوں سے حتی الامکان حد تک محفوظ ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے نفاذ کے لیے ایک ایسی اسلامی ریاست کی ضرورت ہے جو اسلام کو من و عن اور مکمل طور پر نافذ کرسکے اور اس پروگرام کے ذریعے ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کرسکے۔ تو میری ذاتی رائے میں صراط مستقیم ایک ایسی ریاست کی تشکیل ہے جو ہمیں ان گھمن گھمیریوں سے نکال کر ایک صالح معاشرے کی طرف لے جا سکے۔ رہا انفرادی کوششوں کا معاملہ تو فقط دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔

Comments

Click here to post a comment