”میرے محبوب میں کتنا آپ سے محبت کرتا ہوں۔ میری کتنی آرزو تھی کہ میں آپ کو دیکھوں، آپ کو بوسہ دوں، آپ کے قدموں میں جبین نیاز جھکاؤں، آپ کی مٹی کو چوموں، آپ کے پاس آکر نماز پڑھوں۔ لیکن کیا کروں آپ کے پاس ظلم ہی ظلم برپا ہے۔ آپ کے اردگرد ظالم ہی ظالم ہیں۔ جتنا شوق مجھے آپ کے پاس آنے کا ہے، شاید ہی اتنا کسی اور کا ہو۔ جتنی محبت میں آپ سے کرتا ہوں، شاید ہی کوئی اور کرتا ہو۔ ظالموں کے ظلم و جبر قید و بند کی مشقتوں کے باوجود میری محبت میں کبھی کمی نہیں آئی بلکہ ان مظالم کے باوجود میری محبت آپ کے لیے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ آپ کی محبت میں انہوں نے مجھے چارہ ماہ جیل کی سزا سنائی، میں کہتا ہوں بخدا یہ بہت کم سزا ہے، میری ساری زندگی اور میرا سارا مال آپ پر قربان، اگرچہ میں آپ تک پہنچ نہیں سکتا، لیکن میری روح، میرادل، میری آنکھیں کبھی آپ سے جدا ہوئیں، نہ ہوں گی، میں کبھی آپ کوبھولاہوں، نہ بھلاپاؤں گا، میری محبت اور میرا دائمی عشق موت تک آپ کے ساتھ رہے گا۔ اقصیٰ کے محافظو! میرا محبوب تمہارے پاس امانت ہے، اسے کبھی تنہا نہ چھوڑنا۔“
یہ محبت بھرے جذبات مسجد اقصیٰ کی محبت میں جان دینے والے 40 سالہ فلسطینی بہادر مصباح ابوصبیح کے ہیں جسے بیت المقدس کے مسلمان اسد الاقصى (اقصی کے شیر) کا لقب دے کر خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ مصباح ابوصبیح فلسطین میں مغربی پٹی کا رہائشی تھا، قبلہ اول سے محبت اس کا ایمان تھا، ظالم یہودیوں کے قبضے سے اس کا دل روتا تھا، بیت المقدس کی آزادی اس کی زندگی کا مقصد تھا، لیکن وہ تنہا کیسے اپنے مقصد کو حاصل کرسکتاتھا؟ 2013ء میں اسرائیلی عدالت نے بیت المقدس کے قریب اسرائیلی فوجیوں پر حملے کے الزام میں اسے جیل بھیجا لیکن پھر رہا کردیا گیا۔ 2015ء میں ایک بار پھر اسے 4 ماہ کی جیل کی سزا سنائی گئی، جس کے مطابق رواں ماہ یعنی اکتوبر کے مہینے از خود مصباح ابوصبیح کو اسرائیلی پولیس کے حوالے کرنا تھا۔ لیکن مصباح ابوصبیح نے بار بار کی اذیت اور ذلت کے خلاف آزادی اور بہادری کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ 9 اکتوبر 2016ء اتوار کی صبح اقصی کے شیر نے غاصب اسرائیلی فوج کے ایک قافلے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں دو اسرائیلی فوجی واصل جہنم ہوئے اور 6 یہودی آبادکار شدید زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج کی جوابی کاروائی میں مصباح ابوصبیح شہید ہوگئے۔ یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب یہودی اپنے عیدوں کے تہوار منانے کے لیے بھرپور سیکورٹی انتظامات کر رہے ہیں۔
مصباح ابوصبیح کی اس بہادرانہ کاروائی کا چرچا پوری دنیا میں سنا گیا۔ عرب میڈیا بالخصوص فلسطینی میڈیا نے اقصیٰ کے اس شیر کو خراج عقیدت پیش کیا۔ شہادت کے کچھ دیر بعد شہید کے گھر فلسطینیوں کا تانتا بندھ گیا جو شہید کی والدہ اور دیگر عزیز و اقارب کو شہادت کی مبارک باد دے رہے تھے۔ شہید کی بیٹی اور بیٹے نے ہنستے ہوئے اپنے والد کی شہادت کا تذکرہ کرکے خدا کا شکر ادا کیا۔ ان کے بیٹے کا کہنا تھا کہ میرے والد ہمیشہ سے کوشش کرتے کہ مسجد اقصیٰ جاکر نماز پڑھوں، وہاں بیٹھوں، لیکن غاصب یہودی والد کو نہ جانے دیتے۔ لیکن شہادت سے قبل انہوں نے آخری بار اقصی میں فجر کی نماز پڑھی۔ شہید کی والدہ اور بہن بھی اقصیٰ کے شیر کی شہادت پر فخر کر رہی تھیں۔ دوسری طرف فلسطینی مظلوموں کی جماعت حماس نے بھی شہید کو خراج تحسین پیش کیا۔ سوشل میڈیا پر پورے دن اقصیٰ کے اس بہادر شیر کوخراج عقید ت پیش کیا جاتارہا۔ فیس بک پر اپنی آخری وصیت میں شہید کا کہنا تھا کہ
”مسجد اقصی کو کبھی تنہا نہ چھوڑنا، وہاں نمازیں پڑھنے جانا، اس کی حفاظت میں کبھی پیچھے نہ رہنا، یہ ہمارا دینی فریضہ ہے، قیامت میں رب کے ہاں اس کاسوال ہوگا، ان شاءاللہ ہم ضرور اقصیٰ میں سرخرو ہو کر لوٹیں گے۔“
آزادی اظہار رائے کے جھوٹے علمبرداروں کی منافقت کا انداز ہ لگائیے کہ مصباح ابوصبیح کے اس پیغام کے بعد ان کا فیس بک اکاؤنٹ فیس بک انتظامیہ نے بند کردیا۔
ایک طرف اقصیٰ کے اس شیر کی شہادت پر لوگوں کا خراج تحسین ہے، دوسری طرف اسرائیل کے قصائی شمعون پیرز کی وفات ہے۔ شمعون پیرز فلسطین میں ظلم وجبر کی ابتدا کرنے والوں میں سے تھا، جس نے فلسطین میں غاصب اسرائیلی ریاست کی بنیاد ڈالوائی اور اپنے تین مرتبہ وزارت عظمی کے دور میں فلسطینیوں پر ظلم و جبر کی انتہا کردی۔ اگرچہ 1994ء میں شمعون ایسے سفاک اور ظالم کو نوبل کا امن ایوارڈ دیا گیا لیکن فلسطینی آج بھی اسے اس صدی کا فرعون کہتے ہیں، نہ صرف فلسطینی بلکہ دنیا بھی اس کے سفاکانہ کارناموں سے باخبر ہے۔ اگر اسے”اسرائیل کا قصائی“ کہا جائے تو ہرگز برا نہیں۔ چند دن پہلے اسرائیل کے اس قصائی سے فلسطین کی زمین پاک ہوئی۔ جس پر فلسطین میں خوشی منائی گئی، جبکہ فلسطین کے کٹھ پتلی صدر محمود عباس تعزیت کرنے ان کے گھر گئے اور فلسطینیوں کے اس سفاک قاتل کے جنازے میں بھی شریک ہوئے، جس پر نہ صرف فلسطینیوں نے مذمت کی بلکہ پوری دنیا سے مسلمانوں نے محمود عباس کے اس عمل پر برا بھلا کہا۔ محمود عباس بظاہر فلسطینیوں کے صدر ہیں اور خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں، مگر مسلمان کیا، دنیا کا کوئی عقل مند اپنے بھائیوں، ماؤں بہنوں کے قاتل سے اس قدر دلی ہمدردی نہیں کرسکتا، جتنی محمود عباس نے جنازے میں شریک ہوکر جتلائی۔ شاید یہودیوں کو راضی کرنے کے لیے محمود عباس نے یہ کام کیا لیکن اللہ نے قرآن میں یہودیوں کی فطرت بتائی کہ ”یہ مسلمانوں سے اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک مسلمان ا ن کے دین کو نہ اپنالیں“ (البقرۃ)۔ فلسطینیوں کے قاتل کے جنازے میں شرکت کرنے سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ یہ بس نام کے مسلمان اور محض دعوے میں فلسطینیوں کے صدر ہیں۔ خدا کے بقول یہودی ملعون اور مغضوب علیہم ہیں، جوان سے دوستی کرتا ہے اس پر بھی خدا کا قہر نازل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند دن پہلے جان کیری سے ملاقات کے دوران جب محمودعباس مصافحے کرنے لگے تو جان کیری نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا، دو دفعہ کی کوشش کے باوجود جان کیری نے ان سے مصافحہ نہیں کیا، اس سے بڑی رسوائی کی اور کیا بات ہوگی؟۔
بہرحال حقیقت یہ ہے کہ مصباح ابوصبیح نے اپنے جرت مندانہ اور دلیرانہ اقدام سے ہر مسلمان کو یہ پیغام دیا کہ اللہ کی راہ میں جان دینا ہی امت مسلمہ کے غلبے کی اصل بنیاد ہے، دنیا اور دنیا وی زندگی سے محبت ذلت اور رسوائی کا باعث ہے۔ بالکل یہی پیغام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ آپ کا فرمان ہے کہ"قریب ہے کہ دوسری (غیرمسلم) قومیں تم سے لڑنے اور تمہیں مٹانے کے لیے اس طرح ایک دوسرے کو بلائیں کہ جیسے کھانا کھانے والے دوسرے (بھوکے) لوگوں کو دسترخوان پر بلاتے ہیں، یہ سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے کسی نے پوچھا کہ کیا وہ لوگ ہم پر اس لیے غلبہ حاصل کرلیں گے کہ اس وقت ہم تعداد میں کم ہوںگے؟۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ بلکہ تم اُن دنوں بہت زیادہ تعداد میں ہوگے، لیکن ایسے جیسے کہ دریا یا نالوں کے کنارے پانی کے جھا گ ہوتے ہیں (یعنی تم نہایت کمزور اور ضعیف ہوگے) تمہارا رعب اور ہیبت دشمنوں کے دل سے نکل جائےگی اور تمہارے دلوں میں وھن کی بیماری پیدا ہوجائے گی کسی نے عرض کیا، اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ”وھن“ (ضغف وسستی) کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا ”حب الدنیا وکراھیۃ الموت“ یعنی دنیا کی محبت اور موت سے نفرت (ابوداؤد وبیہقی)۔
آج مسلمان اپنی اصل پہچان اور شناخت سے بہت دور ہوگئے، مادیت اور دنیا کی چکا چوند کرنوں نے مسلمانوں کوزندگی کے اصلی مقصد یعنی اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے بھرپور جدوجہد سے غافل کردیا، تبھی ان کا رعب جاتارہا اور وہ مغلوب ہوگئے۔ اللہ کے محبوب نے فرمایا تھا کہ میری خصوصیات میں ایک خاصیت رعب بھی ہے کہ اس کے ذریعے اللہ نے میری مدد کی (بخاری)۔ مسلمانوں کے مغلوب ہونے کی بڑی وجہ بےجا اختلافات اور تنازعات بھی ہیں جس کی طرف اللہ نے توجہ دلائی (کہ تم آپس میں جھگڑا نہ کرو،ورنہ کمزور پڑجاؤگے اور تمہارا رعب اور دبدبہ جاتا رہے گا، سورہ انفال)۔ غلبے کے لیے اللہ نے ایک بنیادی اصول بھی بتایا کہ اگر تم صحیح مؤمن رہے تو تم ہی غالب رہو گے (انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین:آل عمران)۔ اس لیے بحثیت مسلمان یہ ہرکسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مقصدِ حیات (اعلائے کلمۃ اللہ)کے لیے جدوجہد کرے، مظلوموں کی مدد کے لیے بھرپور کوشش کرے، اسلام اور امت مسلمہ کے غلبے کے لیے باہمی اتحاد کو فروغ دے اور جہاد کو محض باتوں یا کتابوں تک محدود نہ رکھے، بلکہ دنیا کی محبت کو ٹھکرا کر عملا ”اقصیٰ کے شیر“ کی طرح جان دینے کا جذبہ پیدا کرے!
تبصرہ لکھیے