ہوم << مسلمانوں پرامن ہوجاؤ - محمد زاہد صدیق مغل

مسلمانوں پرامن ہوجاؤ - محمد زاہد صدیق مغل

زاہد مغل ہمارے بعض مفکرین مسلمانوں کو پرامن رہنے اور عدم مداخلت کا سبق یوں دیتے ہیں گویا انیسویں و بیسویں صدی میں خلافت عثمانیہ و مغل سلطنت نے دنیا بھر میں استعمار برپا کر رکھا تھا اور پھر اپنی ترجیحات کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں ”قوموں“ کی جغرافیائی لکیریں انہوں نے ہی کھینچی تھیں، اکیسویں صدی کے مابعد استعماری دور میں دنیا بھر کے ممالک میں سیاسی و معاشی مداخلت کا سلسلہ مسلمانوں نے شروع کر رکھا ہو، پچھلی ایک صدی میں مسلمانوں نے سرخ و سفید (جمہوری) انقلابوں کے نام پر کروڑوں لوگ قتل کر دیے ہوں، اقوام عالم میں غیر مسلموں کی زمینوں پر قبضے کر کے انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کا الزام مسلمانوں کے خلاف چل رہا ہو، مسلمان دنیا بھر کے غیرمسلموں کو خود غیر مسلم ممالک میں شرعی حقوق پر عمل کرنے پر مجبور کر رہے ہوں اور جو ان کی خلاف ورزی کرے، ان پر میڈیا سے لے کر عسکری یلغار کررہے ہوں، اپنے مقاصد کے لیے یورپ و امریکہ کی ریاستوں کے خلاف بغاوتیں ایکسپورٹ کرنے میں پیش پیش ہوں۔
یعنی یہ بحثیں بھی خوب ذہنی عیاشی ہے کہ ایک طرف ”بالفعل“ مداخلت و جبر ہے جو حقوق سلب کر رہا ہے مگر اسے تو ہم موضوع سخن نہ بنائیں البتہ جو ”بالقوۃ“ ایک آفاقی نظریے کی بنا پر مداخلت و جبر کی بات کر رہا ہو اس کی باتوں کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے کہ ”کہیں ایسا تو نہیں ہوجائے گا کہ تم فلاں کا حق مار لو گے، اور چونکہ تم بدمعاش ہو اور یقینا مارو گے (دیکھو تمہارے دوست داعش والے ایسا کر رہے ہیں) لہذا تمہیں قوت جمع کرنے کا حق نہیں، اقوام عالم کے امن کو خطرہ تمہارے نظریات ہی سے ہے“۔
پھر یہ مفکرین مسلمانوں کو صلاح دیتے دکھائی دیں گے کہ ایسے اخلاقی اصول پر عمل پیرا ہونے کا اصول طے کرلینا چاہیے جو سب کے مابین متفقہ ہوں تاکہ کوئی کسی کے معاملے میں مداخلت نہ کرے۔ گویا مداخلت مسلمان کر رہے ہیں اور اس صلاح کی ضرورت مسلمانوں کو ہے! پھر یہ خواہش بھی محض ایک خوش فہمی ہے۔ ایسے فرضی اصول صرف کمزور کو طاقتور کا غلبہ قبول کیے رکھنے کے طریقے ہیں۔ ہر امن ”کسی نہ کسی رائے کے غلبے“ پر ہی ممکن ہوتا ہے، امن ایسے تھوڑی قائم ہوتا ہے کہ طاقتور اور کمزور حریف کسی گول میز کانفرنس میں بیٹھ کر متفقہ اخلاقیات طے کر کے پھر کہتے ہیں کہ آج سے ہم دوسرے کے معاملے میں مداخلت نہیں کریں گے۔ ایسا نہ ہوا ہے اور نہ ہوگا، پائیدار امن کسی ایک کی رائے کے غلبے سے ہوا کرتا ہے۔ ایسے خیالات رکھنے والے حضرات خود کو ”معروضیت“ کے ایک لامتصور مقام پر براجماں فرض کیے ہوتے ہیں۔
یہ جو مغرب (امریکہ اور اس کے حواری) والے امن کے بارے میں بہت رطب اللسان ہوتے ہیں اور بظاہر کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نظریات کے لیے جنگ نہیں کرنا چاہتے (اگرچہ کر رہے ہوتے ہیں) ذرا کسی جگہ ان کے سیاسی آئیڈئیلز کے خلاف کوئی ریاست قائم تو ہونے دیجیے، پھر دیکھیے گا کہ کیسے بھیڑیوں کی طرح لپکتے ہیں۔ اور اگر وہ طاقتور ہوئی تو اس کے خلاف سفارتی، سیاسی، معاشی ہر سطح پر محاذ کھول دیں گے۔ کیا تاریخ اس پر شاہد نہیں؟
آج کی دنیا کوئی قبائلی دنیا نہیں جہاں قبائل الگ تھلگ رہ سکتے تھے، آج ”عالمی نظام“ کی لڑائی ہے۔ یہاں عین ممکن ہے کہ کوئی ریاست کسی محدود سطح پر اس عالمی نظام کے خلاف محدود سی سطح پر کوئی الگ حیثیت قائم کرلے یا اسے برقرار رکھ سکے۔ مگر جونہی بات عالمی نظام کی آئے گی، تب معلوم ہوگا کہ کشمکش کی نوعیت کیا ہے۔

Comments

Click here to post a comment