ہوم << قیامت کو گزرے گیارہ سال ہوچکے - حمزہ صیاد

قیامت کو گزرے گیارہ سال ہوچکے - حمزہ صیاد

حمزہ صٰاد آج ایک قیامت کو گزرے گیارہ سال ہوچکے ہیں. گیارہ سال کے اس طویل عرصے کے گزر جانے کے باوجود یہ زخم ہے کہ مندمل ہو کے نہیں دے رہا. مجھے وہ صبح کبھی نہیں بھولے گی جب میں ایک کتاب اٹھائے کھیت کے کنارے ایک پتھر پہ بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ اچانک 8:52 منٹ پہ زمین نے قیامت کی کروٹ لی اور دیکھتے ہی دیکھتے باغ و بہار کشمیر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا .
میں نے اپنے گھر کی طرف دیکھا تو وہ زمین کی طرف آ رہا تھا. گھر میں والدہ تھیں، میں ان کو پکارنے لگا لیکن گرد و غبار اور شور کی وجہ سے مجھے وہ نظر آ رہی تھیں نہ میری آواز ان تک پہنچ رہی تھی. جب گرد چھٹی تو والدہ نظر آئیں جو مکان سے نکل چکی تھیں لیکن مکان کا کچھ ملبہ ان کے پاوں پر آ گرا تھا جس وجہ سے وہ وہاں پھنس گئی تھیں. ملبہ ہٹا کر انہیں نکالا. امی نے مجھے کہا کہ سیدھے سکول جائو، اور اپنے بہن بھائیوں کی خبر لو. سکول کی طرف دوڑ لگائی، راستے میں ہر طرف چیخ و پکار ہی سنائی دے رہی تھی. سکول پہنچا تو پتہ چلا کہ سکول میں سب محفوظ ہیں، اس وجہ سے کہ نچلی منزل میں کوئی نہیں تھا جو زمیں بوس ہوئی، جبکہ اوپری منزل جس میں بچے تھے وہ اپنی حالت پر قائم رہی. اپنے بھائیوں کو لے کر گھر آ رہا تھا کہ راستے میں والدہ بھی روتی ہوئی پہنچ گئیں. گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ پڑوس میں چار آدمی مکان کے نیچے آ چکے ہیں.
والدہ نے کہا کہ ننھیال کا پتہ کرو. ننھیال گیا تو وہاں قیامت کا منظر تھا. میرے نانا ستارہ جرأت صوبیدار یعقوب صاحب مکان کے نیچے دب کے فوت ہو چکے تھے. بڑے ماموں شہر جاتے ہوئے راستے میں پتھر لگنے سے فوت ہوئے اور ان کا اکلوتا بیٹا جو میرا بھائی اور اچھا دوست تھا، وہ باغ شہر میں اپنے خالہ کے گھر میں مکان تلے دب کر جاں بحق ہوا، اس کی لاش تین دن بعد نکلی جو اس کے گاؤں لے جانا مشکل تھی، چنانچہ ہمارے گھر کے قریب اس کو دفنا دیا گیا.
زلزلے کی رات زوردار بارش ہو رہی تھی، میں اس بارش میں بھی زمین پہ کپڑا بچھا کر اور اوپر ترپال تان کر سوگیا. صبح اٹھا تو پورا بدن کیچڑ آلود تھا. شروع میں بہت تنگی ہوئی خوراک اور کپڑوں کے حوالے سے لیکن پھر سب کچھ بہتر ہوتا چلا گیا. گھر والے اور ننھیالی رشتے دار جنھگ چلے گئے جہاں میرے نانا کو فوج کی طرف سے زمین عنایت کی گئی تھی اور میں اسلام آباد آ گیا. آج 11 سال بعد جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو اسلام آباد ہی میں ہوں. تھوڑی دیر میں کشمیر کی طرف روانگی ہے کہ
نالہ ہائے خانگی دل را تسلی بخش نیست
در بیاباں می تواں فریاد خاطر خواہ کرد

Comments

Click here to post a comment