ہوم << اسلام اور پاکستان، ساتھ ساتھ ہیں - احمد عثمان

اسلام اور پاکستان، ساتھ ساتھ ہیں - احمد عثمان

وطنِ عزیز کو آج ستر سال ہونے کو آئے ہیں لیکن سترہ دِن کا قلیل سفر معلوم ہوتا ہے. نظریاتی حوالے سے دیکھیں تو یہ ”لا الہ الااللہ“ کی بُنیاد پر دنیا کے نقشے پر جَما. اِس ملک کو بنانے والے ہمارے آباؤ اجداد نے یہ خواب دیکھا تھا کہ اسلام کے نام پر بننے والی اِس ریاست میں ہم امن کا سانس لیں گے. ہماری جان، مال، عزت و آبرو محفوظ رہے گی، اِسی وجہ سے تو وہ یہ ساری جہد مسلسل کر رہے تھے ورنہ انہیں کیا پڑی تھی کہ اپنے دن کا سکون اور شب کا چین خراب کرتے؟
زمانہ طالبِ علمی میں اُستاد صاحب مطالعہ پاکستان پڑھایا کرتے تھے، بچو! یہ دیس ہم نے ایک نظریے، ایک سوچ اور اک فکر کی بُنیاد پر حاصل کیا ہے. تحریکِ آزادی پاکستان کا ایک مشہور نعرہ بار بار پڑھنے اور سُننے کو ملتا اور کانوں سے ٹکرا کر فضا میں اپنی لہریں بکھیر دیتا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ. گویا کہ ہم نے یہ سرزمین اپنے رب سے یہ عہد کر کے حاصل کی تھی کہ اے میرے اللہ! ہمیں اپنی اِس اتنی بڑی وسیع عریض دھرتی پر زمین کا ایک ایسا ٹکڑا عطا فرمائیو جہاں ہم تیرے رسول ﷺ کے دیے ہوئے نظام کا عملی نفاذ کر سکیں. ایک ایسا دیس کہ جس کے باشندے تیرے دیے ہوئے نظام کے مطابق بآسانی ایامِ زیست گزار سکیں، جس کے معاشی نظام کی بُنیاد سود نہیں بلکہ زکوۃ و عشر ہو، جس کا عدالتی نظام کسی انگریز کی کتاب نہیں بلکہ قرآن ہو، جس کے ایوانوں اور اسمبلیوں میں قرآن سے محض تلاوت کی حد تک استفادہ نہ کیا جائے بلکہ اُس کی تعلیمات پر بھی نظرِکرم کی جاوے.
بدقسمتی سے ہم آج تک اپنے رب سے کیے ہوئے اِس عہد کو نہ نِبھا سکے ہیں اور نہ ہی قریب قریب اِس کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے. ہمارے رویے اور ہمارا طرزِ فکر مکمل طور پر تبدیل ہو چُکا ہے بلکہ اب تو یہاں تک نوبت آ گئی ہے کہ بعض احباب کا کہنا ہے کہ قائداعظم تو دھوکہ دے رہے تھے اور وہ ایک اسلامی ریاست چاہتے ہی نہیں تھے؟
اگر ہزار چودہ سو سال پُرانی بات ہوتی تو شاید اِس موضوع پر مکالمہ کیا جا سکتا تھا. بہت ممکن تھا کہ مناظرے ہوجاتے، مذہبی رہنما چودہ سو سال پُرانی تاریخ کے ساتھ یہی نہیں کر رہے؟ ابھی تو ساٹھ ستَر سال بِیتے ہیں، اُن حضرات کے لیے میں یہاں پر قائد اعظم کے ایک دو ارشادات رکھنا چاہوں گا۔
1945ء میں قائد اعظم نے اپنے پیغام عید میں فرمایا: ’’اس حقیقت سے سوائے جہلا کے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوں کا بنیادی ضابطہ زندگی ہے۔ جو معاشرت، دین، تجارت، عدالت، عسکری امور، دیوانی اور فوجداری ضوابط کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ مذہبی رسومات سے لے کر روز مرہ زندگی کے معاملات تک، روح کی نجات کا سوال ہو یا صحتِ جسم کا، اخلاقیات سے لے کر جرائم تک ،دنیاوی سزاؤں سے لے کر آخرت کے مواخذے تک تمام ضوابط قرآن میں موجود ہیں، اسی لیے نبی کریمؐ نے حکم دیا تھا کہ ہر مسلمان قرآن حکیم کا نسخہ اپنے پاس رکھے اور اس طرح خود اپنا مذہبی پیشوا بن جائے‘‘۔
سیکولر نظام کا ڈھنڈورا پِیٹنے والے حضرات یہ ڈھولچی پِیٹتے پھرتے ہیں کہ آپ کون سا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں؟ پاکستان میں اس کی آبادی سے زیادہ تو اسلام کے فرقے بَن چُکے ہیں؟ اگر کسی ایک گروہ کی حکومت آ جاتی ہے تو دوسرے کو روند ڈالے گا، عورتوں پر زبردستی کی جاوے گی اور ہر آدمی سے لُوٹا اُٹھوا کے نماز کے لیے کہا جاوے گا۔ ان حضرات کی اِس سوچ پر اگر آپ ماتم کرنا چاہیں تو کریں، میں تو قُربان ہونا چاہوں گا۔ صاحبُو! آپ کو یہ کہاں سے اور کب سے ایک کے بجائے کئی اسلام نظر آنے لگ پڑے۔ اگر فُرصت ہو اور دِل کرے تو کبھی پاکیزگی حاصل کر کے قرآن کو کھول کر تو دیکھو، جانو تو سہی کہ اصل اختلاف کیا ہے تمام مکتبِ فکر کے لوگوں میں؟
بُنیادی اُصولوں پر تقریباً تمام اہلِ ایمان کا اتفاق ہے، اختلاف ہے تو محض بعض فروعی معاملات میں، جو کسی ریاست کے قوانین و ضوابط میں کوئی عمل دخل نہیں کرتے۔ رہا سوال عورتوں پر جبری پردہ اور لُوٹے اٹھوانے کا تو اُس پر میں یہی کہوں گا کہ اللہ آپ کو الطاف بھائی جیسا بیٹا دے۔ خدا کے بندو! یہ آپ کو گمان بھی کیسے گزرا کہ اسلام شدت پسندی کا قائل ہے یا اسلامی حکومت شدت پسندی سے پردے اور نماز پر قائل کرے گی۔ یہ تو اپنی ماؤں اور بیٹیوں کو اُسی طرح پردے میں دے گی جس طرح تم نے انہیں میڈیا اور حکومت کے بَل بُوتے پر اِن کی چادر سے باہر نکالا ہے۔
آپ کئی سچے پِکے اور کھرے کھرے سے لیڈر لیں، ایک سے بڑھ کر ایک نظام لیں آئیں، لیکن اِس ملک کا مستقبل اسلامی نظام سے وابسطہ ہے۔ اِس کے بغیر اگر آپ کسی اور نظام سے اپنے آپ کو ڈھانپنے کی کوشش کریں گے تو بہت ممکن ہے آپ ایک سائیڈ پر کچھ وقت کے لیے بہت ترقی کر جائیں اور آگے نکل جائیں لیکن آپ کی دُوسری سائیڈ ننگی ہو جائے گی۔ کہنے کا مطلب ہے نیم برہنہ یا برہنہ عورتوں سے اشتہار دلوا کر آپ پیسے تو شاید تھوڑے زیادہ بٹُور لیں لیکن آپ کا خاندانی نظام مسمار ہو کر رہ جاوے گا۔

Comments

Click here to post a comment