Tag: کراچی

  • کراچی بدترین ٹریفک حادثات اور ان کے سد باب کے لیے اقدامات  – خادم حسین

    کراچی بدترین ٹریفک حادثات اور ان کے سد باب کے لیے اقدامات – خادم حسین

    شہر کراچی یوں تو متعدد وجوہات اور مسئلے مسائل کی وجہ سے سرخیوں میں رہتا ہے ۔ اس شہر کی آبادی ہوش ربا حد تک بڑھ رہی ہے اس کی روک تھام نئے جنم لینے والے مسائل اور جرائم کے بے لگام جن کو روکنے کے لیے فی الحال سرکار بےبس اور لاچار نظر آتی ہے ۔

    کس کس مسئلے پر بات کی جائے سٹریٹ کرائمز ، چوری چکاری جیسے جرائم اور غیر قانونی پارکنگ جیسے سنگین مسائل شہریوں کا منہ چڑانے کے لیے ہر وقت آن موجود ہوتے ہیں ۔ اب تو غیر قانونی پارکنگ ایک منفت بخش کاروبار بن گیا ہے ۔ اس مافیا کو کون ہے جو روک کر دیکھائے اور عوام کو لوٹ کھسوٹ سے نجات دلائے ۔ عوام کی مشکلات میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ اب ایک منظم کمانے کا دھندہ اختیار کر کے لوگوں کی جیبیں خالی کرنے کا موثر زریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ سرکار کی کہیں بھی اس مافیا کے خلاف رٹ دیکھائی نہیں دیتی اب تو یہی تاثر قوی ہوتا ہے کہ ان کو اوپر سے آشیرباد اور تائد حاصل ہے اس کے بغیر یہ ممکن کیسے ہوتا ہے سوالیہ نشان ہے ۔

    ایک عرصے سے کراچی شہر سڑک پہ آنے والے مسافروں کے لیے موت کا کنوں بنا ہوا ہے آئے روز ٹریفک اور شہری اموات ، ٹینکرز کی ٹکر سے شہریوں کے جاں نبحق ہونے کے واقعات نے راہگیروں کو سڑک پر نکلنے سے خوف زدہ کردیا ہے نہ جانے کدھر کوئی ٹینکر والا ٹکر ماردے ۔ لیکن ان موت بانٹنے والے ڈرائیورز کو مکمل چھوٹ ملی ہوئی ہے اسی لیے تو بے احتیاطی اور غلفت کی حدیں پار کی جاتیں ہیں ۔ اکثر و بیشتر ٹینکر چلانے ڈرائیورز بنیادی ٹریفک قوانین سے ہی نا بلد نکلتے ہیں نہ ان کا لائنسس ہوتا ہے مطلب اناڑی اور برابر کے بے استادے اس پہ مستزاد نشی اور لاپرواہی نیز ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا جنون اپنی جگہ ستم ڈھاتا ہے ۔

    اس سارے قضیے میں ٹینکر ایسویشن بھی قصور وار ہے اتنے مسلسل ہولناک حادثات کے باوجود ان کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی ، ایک طرح سے شہریوں کی ہلاکتوں پر ان کو کوئی پشیمانی اور افسوس نہیں اگر کچھ بھی احساس نامی شے ہوتی تو ضرور بالضرور حالیہ ہونی والی شہری اموات پہ کاروائی کرتے اور ان بے لگام ڈرائیورز کے خلاف عملا کچھ اقدام کرتے ۔ اب جبکہ سندھ حکومت نے کچھ انگڑائی لی اور شہریوں کو کچلنے والوں کے خلاف کچھ اقدامات کی طرف بڑھ رہی ہے تو ٹینکر ایسویشن نے مزاحمت کرنے اور احتجاج کا اندیہ دے دیا ۔

    بھئی پہلے یہ کہاں چھپے تھے جبکہ شہری آئے روز کچلے جارہے تھے ٹینکرز کے نشی ڈرائیورز کے ہاتھوں ، ہنوز یہ ہولناک سلسلہ جاری ہے مگر وہاں پہ چپ سادھ لی اور گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو خموشی سے کام چلاتے رہے اور کسی طرف بھی ان حادثات کے انسداد کے لیے آگے نہیں بڑھے ۔ تاہم اب حکومت نے تھوڑا بہت سختی کرنے اور کچھ اہم فیصلے لینے کا اشارہ دے دیا ۔ اس سے شہری امید ہے سکھ کا سانس لیں گے جب بھی سڑک پر نکلیں ۔ حکومت سندھ نے تمام ڈرائیورز کا میڈیکل چیک اب کرانے نیز لائنسس کی جانچ پڑتا کا حکم دیا ہے اس کے علاوہ رفتار فی گھنٹہ تیس کلو میٹر مقرر کی ہے اس کی خلاف ورزی پر سخت ایکشن ہوگا ۔

    شہریوں کے لیے ٹرپل سواری پر پابندی اور ہیلمٹ لازمی پہنے کا کہا گیا ہے ۔ متعدد حاداثات تیز رفتاری اور اندھا دھن چلانے سے رونما ہوتے ہیں اس میں ایک طبقہ وہ بھی ہے جو کم عمری اور ناتجربہ کاری کے سبب حادثے سے دوچار ہوتے ہیں ان کو ظاہر ہے اپنے تئیں یہ احتیاط کرنی چاہیے تاکہ حادثات سے بچا جاسکے ۔ ساتھ میں تمام گاڑیوں میں ٹریکر اور کیم کیمرا بھی نصب ہوگا جس سے ہونے والے حادثے میں غلطی کرنے والے غفلت اور اورر سپیٹ وغیرہ کا تعین آسان ہوگا ۔ یہ بھی صائب اقدام ہیں چلیں دیر آئے درست آئے ۔

    ہمارے ہاں اکثر یا تو بالکل چھکڑا قسم کی گاڑیاں سڑکوں پر رواں ہیں یا جن کی مین ٹیننس بالکل خستہ حال ہوچکی ہو اب ایسی گاڑی یا ٹینکر کا حادثہ ہونا تعجب کی بات نہیں جب اتنے بڑے شہر میں بنا کسی مناسب فٹنس کے بغیر گاڑیاں دوڑائی جائیں گی تو کہیں نہ کہیں مسئلہ کھڑا ہوتا ہے بالخصوص بڑی گاڑیاں اور ٹینکرز جن میں ٹنوں کا مال اور ریت وغیرہ لاد کر سڑک پہ ٹریفک کے بیچوں بیچ چلاتے ہیں تو شہری زندگیاں خطرے میں ضرور ہوں گی ۔ حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ جن گاڑیوں کےفٹنس سرٹیفکیٹ منسوخ ہوگئے ہیں انہیں ضبط کیا جائے گا. ڈرائیورز کے لیے ڈرگ ٹیسٹ لازمی قرار دینا بھی ان حادثات کی روک تھام میں معاون ثابت ہوگا ۔

    اس کے علاوہ غیر قانونی نمبر پلیٹس، کالے شیشے، سائرن اور لائٹس کے خلاف کریک ڈاؤن ہوگا۔ ضروری ہے ان امور پر سختی سے عمل ہو اور خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف فی الفور کاروائی کی جائے تاکہ شہری محفوظ سفر کر سکیں اور شہر میں ٹریفک کی مخدوش صورت حال بہتری کی جانب بڑھ سکے ۔

  • ہم “نئے کراچی” کے باسی ہیں –  رفیع عباسی

    ہم “نئے کراچی” کے باسی ہیں – رفیع عباسی

    سابق وزیر اعظم عمران خان ” نیا پاکستان ” کا نعرہ “پولیٹیکل سلوگن ” کے طور پر لگاتے رہے. لیکن وہ شاید یہ بات بھول گئے کہ آج سے 52 سال پہلے بھی اس دور کی عوامی حکومت نے “نیا پاکستان” بنایا تھا،جو سقوط پاکستان اور پاک، بھارت جنگ کے نتیجے میں تباہ حال پاکستان کے ملبے پر بنا تھا۔

    1971 کے اختتام سے چند روز قبل جنرل یحیی خان کے استعفے کے بعد صدر اور سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے کا حلف اٹھانے والے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے جنگ سے معاشی اور دفاعی طور سے تباہ حال پاکستان کو نیا پاکستان بنانے کا نعرہ لگایا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں اسے خوش حال اور دفاعی لحاظ سے مضبوط پاکستان بنادیا۔ بھٹو شہید نے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر قدیر خان کو بیرون ملک سے پاکستان بلوایا اور انہیں ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا ٹاسک دیا۔ ان کی اقتدار سے معزولی اور شہادت کے بعد بھی ایٹمی پروگرام جاری رہا اور 1999 میں پاکستان دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت بن گیا۔

    یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کراچی کے شہری اس بات سے بے خبر ہیں کہ صدیوں پرانے شہر “کولاچی ” کی کوکھ سے جنم لینے والے کراچی کے شکم سے چند سال بعد نئی کراچی اور نارتھ کراچی (جسے نئی آبادی بھی کہتے ہیں) کی پیدائش ہوئی تھی۔ آج بڑھاپے کی حدود میں داخل ہونے کے بعد دونوں بستیوں کا چہرہ حوادث زمانہ کے ہاتھوں داغدار ہوچکا ہے، لیکن آج بھی اسے “نواں کراچی” ہی پکارا جاتا ہے۔ نیوکراچی یا نیا کراچی جس کا غربی حصہ نارتھ کراچی یا نئی آبادی کہلاتا ہے، نام سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے نیا نویلا، جدید سہولتوں سے آراستہ شہر ہو لیکن یہ ہماری خوش فہمی ہوتی ہے کیونکہ جیسے ہی ہم یوپی موڑ کے بعد نیو کراچی کی حدود میں قدم رکھتے ہیں تو ہمارا واسطہ موئن جو دڑو جیسے کھنڈرات سے پڑتا ہے۔ ناگن چورنگی جہاں قدیم روایات کے مطابق ایک ناگن کا بسیرا تھا۔

    اسی لئے یہ علاقہ ناگن چورنگی کے نام سے معروف ہوا۔ ناگن کے مرنے کے بعد یہ چورنگی آج بھی آں جہانی ناگن سے موسوم ہے۔لیکن یہ صرف من گھڑت کہانی ہے، کیوں کہ نیو کراچی آباد ہونے کے بعد ناظم آباد سے روٹ نمبر 4، 4-,اے، 4- کے، کی بسیں سخی حسن سے گزرتی ہوئی نیوکراچی کی جانب جاتی تھیں۔ ہم 1966 میں ناظم آباد میں حسینی اسکول میں زیر تعلیم تھے اور لیاقت آباد میں رہتے تھے۔ ہمارے چند دوست نیو کراچی کے رہائشی تھے۔ کبھی کبھار ہم ان کے ساتھ 4-اے بس میں بیٹھ کر نیوکراچی جاتے تھے۔ شام کو وہاں سے 4 ایچ یا کے آر ٹی سی کی ڈبل ڈیکر بس میں بیٹھ کر لالوکھیت اپنے گھر جاتے تھے۔ اس دور میں سخی حسن کا علاقہ آباد ہونا شروع ہوا تھا۔ بس کی کھڑکی سے سخی حسن کا مزار نظر آتا تھا۔ وہاں اس وقت تک عالیشان اور بلند و بالا بنگلے نہیں بنے تھے۔

    اس سے آگے بفر زون کے علاقے میں مکانات، فلیٹوں کے جھنڈ اور تجارتی مراکز کا نام و نشان نہیں تھا۔ مزار کے بعد کیکر کی جھاڑیاں اور ببول کا جنگل تھا جس کے درمیان بل کھاتی ہوئی باریک سی کچی سڑک تھی جو میلوں دور تک چلی گئی تھی۔ ناگن چورنگی پر یہ اتنی خم دار ہوجاتی تھی کہ بالکل ناگن کی مانند لگتی تھی اور گولائی میں گھوم جاتی تھی۔ اسے دیکھ کر بس کے ایک مسافر نے رائے دی کہ اس جگہ کا نام تو ” ناگن چورنگی،” ہونا چاہئے۔ بس کے مسافروں کو یہ تجویز بہت معقول لگی جب کہ کنڈیکٹر کو یہ نام اتنا پسند آیا کہ اس نے اس اسٹاپ کو ناگن چورنگی کے نام سے پکارنا شروع کردیا۔

    رفتہ رفتہ دوسرے کنڈیکٹر بھی اس جگہ پہنچ کر “ناگن چورنگی، ناگن چورنگی” کی آوازیں لگانے لگے، جس کے بعد یہ علاقہ ناگن چورنگی کے نام سے معروف ہوتا گیا۔ چورنگی تو دس سال قبل ختم ہوچکی ہے، اس کی جگہ اوپر تلے دو فلائی اوورز اور گرین بس کا اسٹیشن بن گیا ہے۔ فلائی اوورز میں سے ایک پر ناظم آباد کی جانب سے آنے والی گاڑیاں، پل کی بلندی سے راشد منہاس روڈ پر اتر کر سہراب گوٹھ، گلشن اقبال اور شارع فیصل کا رخ کرتی ہیں جبکہ دوسری بالائی گزرگاہ پر سے لیاقت آباد ،گلشن اقبال، ملیر لانڈھی سے نارتھ کراچی جانے والی بسیں، کوچز، سکس سیٹر گزر کر جاتے ہیں جب کہ اسی پل پر سے بائیں ہاتھ پر ایک سڑک انڈا موڑ کی طرف جاتی ہے۔ راشد منہاس روڈ پر شفیق موڑ تک بڑے بڑے گڑھے ہیں۔ ٹریفک بے ہنگم ہے۔ شفیق موڑ سے بائیں ہاتھ پر نیو کراچی کی جانب راستہ جاتا ہے۔

    گبول ٹائون کے چوراہے تک اس کے دونوں اطراف ملز اور فیکٹریاں ہیں۔ اس چوک پر ٹمبر مارکیٹ سے صبا سینما سے آگے تک نیوکراچی انڈسٹریل زون ہے جس میں تقریباً ڈھائی ہزار چھوٹی بڑی فیکٹریاں اور ملز ہیں۔ اس انڈسٹریل اسٹیٹ سے حکومت کو مختلف اقسام کے محصولات کی مد میں کھربوں روپے سالانہ آمدنی ہوتی ہے۔صبا سینما سے دائیں ہاتھ پر ایک راستہ ندی پر بنے پل سے ہوتا ہوا سپر ہائی وے کی طرف جاتا ہے۔ اس پر سے گزرتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔ یہ انتہائی مخدوش حالت میں ہے، پل کے درمیان سڑک کے ٹکڑے ٹوٹ کر ندی میں گرتے رہتے ہیں۔ علاقہ مکینوں کے مطابق یہ پل کسی بھی وقت گر سکتا ہے جس کے بعد سپر ہائی وے کی کچی بستیوں کا رابطہ نیو کراچی سمیت ضلع وسطی کے دیگر علاقوں سے منقطع ہوجائے گا۔

    شفیق موڑ کے چوراہے سے دو طرفہ سڑک میں گہرے گڑھے پڑے ہوئے ہیں، جن سے نیو کراچی میں اس پانچ کلومیٹر طویل شاہراہ کے آخری سرے اللہ والی تک جگہ جگہ کھڈ، گندے پانی کے جوہڑ ملیں گے۔چند سال قبل تک اس شاہراہ پر 4 ایچ بس، کوچز اور ویگنیں چلتی تھیں لیکن اب صرف ،W-11 ویگن اور چنگچی رکشہ چلتے ہیں۔ اس شاہراہ سے تین مختلف سڑکیں ناگن چورنگی، یوپی سوسائٹی، پانچ نمبر بس اسٹاپ سے پاور ہائوس چورنگی، سندھی ہوٹل سے نازیہ اسکوائر اور ڈی کا موڑ سے دو منٹ چورنگی جاتی ہیں۔ ان تمام سڑکوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ سرکاری ریکارڈز میں تو ان کا وجود طویل شاہراہوں کے طور پر درج ہے لیکن یہ دو عشرے قبل قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔

    ان کی مرمت، استرکاری کی مد میں آج بھی ٹائون آفس سے مبینہ طور پر باقاعدگی سے ٹینڈر منظور ہوتے ہیں جس کے بعد فنڈ بھی مختص ہوتے ہیں جو اعلیٰ افسران کا بینک بیلنس بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ یوپی موڑ پر تقریباً پچاس ایکڑ رقبے پر محیط ایک بڑا پارک ہے۔ تین عشرے قبل تک اس کا شمار نیوکراچی کی خوبصورت تفریح گاہ کے طور پر ہوتا تھا۔ اس میں گھاس کے قطعات کے درمیان ایک تالاب بنا ہوا تھا، بچوں کے لئے جھولے جبکہ خواتین اور مردوں کے بیٹھنے کے لئے بنچیں، سبزہ زار اور ہرے بھرے درخت لگے ہوئے تھے۔ لوگ شام کے اوقات میں یا عام تعطیل کے دنوں میں پکنک منانے آتے تھے۔ پارک کا تو وجود مٹ چکا ہے۔

    اب اس کی قیمتی آراضی پر سرکاری و نیم سرکاری عمارتیں تعمیر ہوگئی ہیں جب کہ پارک کی شمالی و جنوبی دیواروں کے ساتھ کی جگہ چائنا کٹنگ کی نذر ہوچکی ہے جس میں درجنوں مکانات اور تجارتی مراکز بن چکے ہیں۔ یوپی کے پارک سے نالا اسٹاپ پر جانے والی سڑک پر کچھی برادری کا کمیونٹی سینٹر ہے اس کے عقبی علاقے میں جگہ جگہ کچرا گھر اور گندے پانی کے جوہڑ ہیں۔یہ صورت حال الیون ڈی میں پانچ نمبر کی سڑک تک ہے۔ اس علاقے میں پارک بھی ہیں لیکن دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ان کا وجود مٹ گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے نیوکراچی بساتے وقت الیون ایف، الیون ڈی، فائیو ای، الیون جی فور ایچ بس اسٹاپ کے قریب نصف درجن سے زائد پختہ مارکیٹیں تعمیر کرائیں لیکن وہ بے مصرف رہی ۔

    ان میں خرید وفروخت کے کاروبار کی بجائے لوگوں نے قبضہ کرکے یا تو رہائش گاہیں بنالی ہیں یا لوہار اور خراد مشین کے کارنامے بنا لئے ہیں جب کہ ان میں گھوڑے، گدھے سمیت دیگر مویشی بھی باندھے جاتے ہیں۔ نیوکراچی پانچ نمبر کی سڑک پر جب ہم پاور ہائوس چورنگی کی جانب چلیں گے تو دائیں جانب سیکٹر 5ای کا علاقہ ہے۔ یہاں کافی بڑا میدان ہے جس میں بلند و بالا مینار والی مسجد اسلامیہ ہے جس کے اطراف دور دور تک گند آب کا دریا بہہ رہا ہے۔ اس سے آگے جھونپڑیاں تجاوزات کی صورت میں موجود ہیں۔ یوپی سوسائٹی گورنمنٹ اسپتال سے مرکزی سڑک، کالا اسکول تک جاتی ہے۔

    اس سڑک پر نیوکراچی تھانے اور ایس پی آفس کے سامنے ہر اتوار کو مین شاہراہ کے دونوں ٹریکس پر ہمہ اقسام کی کاریں اور دوسری گاڑیاں فروخت کے لئے کھڑی ہوتی ہیں جب کہ پارک کے تقریباً پچاس ایکڑ کے وسیع و عریض رقبے میں اتوار کار بازار لگتا ہے۔ اس سڑک پر سے گزرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔کار بازار سے جب کالے اسکول کی جانب چلیں گے تو ایک وسیع و عریض پارک کی تقریباً سو ایکڑ اراضی میں سے بیشتر رقبہ محکمہ پارکس نے قانونی یا غیر قانونی طور پر قبضہ مافیا کے حوالے کردیا ہے۔ تقریباً پانچ ایکڑ اراضی پر “اربن ” نام کے پرائیوٹ اسکول کی عظیم الشان عمارت بن چکی ہے۔ اسکول کے مرکزی گیٹ سے اصل عمارت تک پچاس گز کا فاصلہ ہے جہاں جانے کے لئے پختہ روش بنی ہوئی ہے، اس کے ساتھ وسیع و عریض کار پارکنگ ہے۔

    اسکول سے ذرا ہٹ کر موٹر مکینکس کے گیراج ہیں۔ اسی پارک کی حدود میں بلال کالونی پولیس اسٹیشن، کراٹے سینٹر و جمنازیم اور ہیلتھ کلب بنے ہوئے ہیں جب کہ تقریباً ایک ایکڑ سے زیادہ قطعہ اراضی پر پاکستان آرٹس کونسل ضلع وسطی کی عمارت بن گئی ہے۔ اب ہم نارتھ کراچی یا نئی آبادی کی سمت چلتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ 65 سال قبل نارتھ کراچی کا علاقہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بسایا گیا تھا۔ سخی حسن کے چوراہے سے سرجانی یا 4 کے چورنگی تک انتہائی کشادہ اور شفاف سڑک تعمیر ہوئی تھی، جس کے دونوں ٹریکس کے درمیان سایہ دار درخت لگائے گئے تھے۔ اس کے بارے میں محکمہ پی ڈبلیو ڈی کے حکام کا کہنا ہے کہ جب کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا تو اس وقت سرکاری اہل کاروں اور افسران کے لئے پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹرز میں دو کمروں کے مکانات بنائے گئے تھے۔

    جن میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کی معروف شخصیات اور اعلیٰ سرکاری افسران رہائش پذیر تھے۔ دو منٹ کی چورنگی پر سرکاری افسران و اہل کاروں کی نئی رہائش گاہیں تعمیر کرانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ لیکن ایوب خان نے اقتدار میں آنے کے بعد اسلام آباد کو دارالخلافہ بنالیا جس کے بعد یہ منصوبہ بھی ادھورا رہ گیا۔ اس کی نشانی اس دو رویہ شاہراہ کی صورت میں باقی رہ گئی ہے۔اب اس سڑک کو سرجانی ٹائون، خدا کی بستی اور لیاری ٹائون تک وسعت دے دی گئی ہے جب کہ 4 کے چورنگی کے دائیں ہاتھ پر ایک سڑک اللہ والی، گلشن معمار سے گزرتی ہوئی سپر ہائی وے جاتی ہے۔ لیکن اس سڑک کے دونوں ٹریکس تباہ حال ہیں اور ان میں بڑے بڑے گڑھے پڑ گئے ہیں۔

    دوسری طرف پاپوش نگر قبرستان اور عبداللہ کالج سے شاہراہ نور جہاں کا آغاز ہوتا ہے۔ جب اس سڑک کی تعمیر ہوئی تھی تو اس پر سفر بہت خوشگوار لگتا تھا۔ سڑک کے ساتھ انٹر میڈیٹ بورڈ کی عمارت، بختیاری یوتھ سینٹر، ڈی سلوا ٹائون میں بنے عالیشان بنگلے،کراچی کا دوسرا بڑا اسٹیڈیم، اصغر علی شاہ اسٹیڈیم واقع ہیں۔ دو عشرے قبل قلندریہ چوک سے عبداللہ کالج تک صبح کے وقت اس شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے یوں لگتا تھا جیسے ہم سوات یا شمالی علاقہ جات کی پہاڑی وادیوں کی سڑک پر محو سفر ہوں ۔ قصبہ بنارس کی پہاڑی بلندیوں کے نشیب میں صاف و شفاف اونچی نیچی چڑھائیوں پر بل کھاتی سڑک، جس کے دونوں اطراف لہلہاتے درخت،حسین منظر پیش کرتے تھے۔

    بنارس کی پہاڑیوں پر جو ماضی میں ” خاصہ ہلز” کہلاتی تھیں، ان کی بلندیوں پر” پہاڑ گنج” نامی بستی ہے جسے 70 سال قبل کوہستان سے آنے والے جفا کش لوگوں نے آباد کیا تھا جو پہاڑی کاٹ کر منگھوپیر میں واقع سیمنٹ فیکٹریوں کو چٹانی پتھر فراہم کرتے تھے۔ اب شہری اداروں کی عدم توجہی کی وجہ سے ماضی کی یہ بل کھاتی خوبصورت سڑک بھی تباہ حالی کا شکار ہے۔سڑک کی بل کھاتی چڑھائیاں آج ابھی باقی ہیں لیکن گڑھوں کی وجہ سے اس پر سفر کرنے والے مسافروں کے گاڑیوں میں لگنے والے دھچکوں کی وجہ سے جسم کے سارے “کس بل ” نکل جاتے ہیں۔ نصرت بھٹو کالونی یا قلندریہ چوک کو کراس کرکے یہی سڑک انڈا موڑ، محمد شاہ قبرستان، خواجہ اجمیر نگری پولیس اسٹیشن کے سامنے بنے پمپنگ اسٹیشن سے ہوتی ہوئی حب ڈیم والے روڈ کی جانب جاتی ہے۔

    قلندریہ چوک پر سخی حسن قبرستان ہے جس کے سامنے سڑک کے دونوں ٹریکس تباہ حال ہیں۔ قبرستان کے سامنے اور قلندری پارک کے سروس روڈ پر ٹینکر مافیا کا قبضہ ہے۔ محمد شاہ قبرستان کے بعد ہم جس علاقے میں داخل ہوتے ہیں، اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہم افریقہ یا تھر کے مفلوک الحال علاقوں پر مشتمل قصبات میں داخل ہوگئے ہیں۔ یہاں پہنچ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہاں انسان نہیں بلکہ کوئی اور مخلوق بستی ہے۔ جدید تہذیب کا اس علاقے سے گزر نہیں ہوا۔ محمد شاہ قبرستان سے آگے، پہاڑی علاقہ ہے جس کے اوپر اور نشیب میں تنگ و تاریک گلیوں کے اندر کچے پکے مکانات بنے ہوئے ہیں جسے پختون آباد کا نام دیا گیا ہے، حالانکہ اس میں پختونوں کے علاؤہ کشمیری، ہزارہ وال، سندھی، بلوچوں اور سرائیکیوں پر مشتمل کچی آبادی ہے۔

    اس علاقے کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ نہ تو یہاں شہری سہولتیں میسر ہیں اور نہ حکومتی رٹ نظر آتی ہے۔ سڑک کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔ پمپنگ اسٹیشن کے بعد تو گاڑیوں کے علاؤہ پیدل چلنا بھی دشوار ہوتا ہے۔ اس علاقے تک پہنچنے کے لئے دوسری سڑک ڈسکو موڑ سے آتی ہے۔ چار کلومیٹر یہ دو رویہ سڑک ڈسکو موڑ سے شروع ہوکر بابا موڑ پر ختم ہوتی ہے۔ لیکن بابا موڑ سے حب ڈیم جانے والی شاہراہ عبور کرکے کراچی کی سب سے بڑی کچرا کنڈی، لینڈ فل سائٹ کی سڑک سے منسلک کیا گیا ہے۔ بابا موڑ سے سڑک پار کرکے سرجانی ٹائون میں داخل ہوتے ہیں۔ یہی سڑک تین کلومیٹر آگے لینڈ فل سائٹ تک جاتی ہے۔ بیس سال قبل اس سڑک کی تعمیر سے پہلے یہاں کیکر کی جھاڑیاں اور ببول کا جنگل تھا۔

    حکومت نے چھوٹی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے لئے کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے تحت جنگل صاف کرکے کاٹیج انڈسٹری کے لئے سستے پلاٹ الاٹ کئے گئے جن پر زیادہ تر پولٹری فارمز ،ڈیری فارمز یا بھینسوں کے باڑے بنائے گئے تھے۔ لیکن 2017 میں پولٹری فارمز اور بارے ختم کرکے کاٹیج انڈسٹری کے قیمتی پلاٹس بلڈرز مافیا کو فروخت کردیے گئے جن پر کمرشیل پلازہ اور بنگلے تعمیر کئے جارہے ہیں۔ لینڈ فل سائٹ سے بابا موڑ تک کا راستہ انتہائی مخدوش ہے۔ دو رویہ سڑک کے درمیان ڈیڑھ فٹ اونچے مٹی کے تودے اور گہرے گڑھے ہیں جن پر گاڑیاں چلانا دشوار ہوتا ہے۔

    بابا موڑ سے جب ڈسکو موڑ تک چلتے ہیں تو آغاز میں ہی ڈسکو موڑ کی طرف جانے والا ٹریک کیچڑ، سیوریج کے پانی، کی وجہ سے تباہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کا سارا دبائو بابا موڑ کی جانب آنے والے ٹریک پر ہوتا ہے۔ لیکن بابا موڑ کے چوراہے پر چنگچی رکشوں کے غیرقانونی اسٹینڈ بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں سے گزرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس ٹریک پر بھی گہرے کھڈ ہیں لیکن گاڑی مالکان اس ٹوٹی پھوٹی سڑک پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ دو عشرے قبل اس سڑک پر کراچی کے تمام علاقوں کی طرف جانے کے لئے یو ٹی ایس کی آرام دہ ائیر کنڈیشنڈ بسیں،4 جے بس، کوچز، منی بسیں چلتی تھیں۔ یہاں سے سلال کوچ، نیاز کوچ، جمال کوچ، W-22 کی منی بس چلتی تھیں ۔ سڑکوں کی تباہی کی وجہ سے ساری بسیں اور کوچز اس راستے پر چلنا بند ہوگئیں۔

    کلفٹن اور لانڈھی کورنگی جانے والی یو ٹی ایس بسیں، ٹاور جانے والی 4 جے بس بند ہوچکی ہیں۔ اس ٹوٹی پھوٹی سڑک پر چنگچی یا سکس سیٹر رکشے کی اجارہ داری ہے۔ علاقہ مکین ڈیڑھ کلومیٹر پیدل یا چنگ چی رکشے میں سفر کرکے دو منٹ چورنگی یا یوپی موڑ جاتے ہیں وہاں سے گرین بس یا خان کوچ کے ذریعے ٹاور اپنے دفاتر پہنچتے ہیں۔ یہ علاقہ تقریباً ڈھائی لاکھ نفوس پر مشتمل ہے لیکن یہاں کوئی شہری سہولت میسر نہیں۔ بابا موڑ سے رحمانیہ موڑ تک سڑک کے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر حصے پر پانچ پانچ فٹ گہرے گڑھے ہیں، سڑک کا ایک ٹریک تین سال قبل سیوریج لائن ڈالنے کے لئے ہونے والی کھدائی کی وجہ سے بالکل بند ہے۔ کیوں کہ لائن ڈالنے کے بعد شہری اداروں نے گڑھوں سے نکلنے والا ملبہ سڑک پر ہی چھوڑ دیا، اسے اٹھوانے کی زحمت نہیں کی۔

    سڑک کی جگہ گند آب کے تالاب بن چکے ہیں جب کہ کئی فٹ گہرے گڑھوں کو بھرا نہیں گیا۔ کچھ مقامات پر یہ گڑھے پانچ سے چھ فٹ گہرے ہیں۔ سڑک کے وسط میں واقع ان گڑھوں میں گر کر اب تک درجنوں موٹر سائیکل سوار زخمی ہوچکے ہیں۔ واٹر بورڈ اہل کار سڑک کی تباہی کے لئے پی ڈبلیو ڈی کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں جبکہ پی ڈبلیو ڈی افسران واٹر بورڈ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ دوسرے ٹریک جس پر آنے اور جانے والی گاڑیاں چلتی ہیں یہ بھی تباہ حال ہے۔ اس میں بھی جگہ جگہ مین ہولز کھلے ہوئے ہیں۔ سڑک پر سیوریج کا پانی جمع رہتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مرتبہ نارتھ کراچی این اے 247 کے ممبر قومی اسمبلی کو فون کرکے ان مسائل کی نشان دہی کی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے صاف جواب دے دیا کہ سڑکیں مرمت کرانا اور فراہمی و نکاسی آب کا مسئلہ حل کرانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔

    متعدد مرتبہ سابقہ مئیر کراچی محترم وسیم اختر اور موجودہ مئیر مرتضیٰ وہاب کو بھی فون کرکے ان مسائل سے آگاہ کیا لیکن ان دونوں شخصیات نے فنڈ نہ ہونے کا عذر پیش کیا۔ پانچ سے چھ فٹ گہرے گندے پانی سے بھرے ان گڑھوں میں واٹر بورڈ کی پانی کی فراہمی کے لئے والوو لگے ہوئے ہیں۔ لوگ پانی سے بھرے گڑھوں میں اتر کر اپنے طور پر والوو آپریٹ کرتے ہیں اور دوسرے علاقوں خاص طور سے سیکٹر تھری کی واٹر سپلائی روک کر پانی کا رخ اپنے علاقے کی طرف موڑ لیتے ہیں۔واٹر بورڈ کے عملے اور افسران کے مطابق یہاں کے الحمید پمپنگ اسٹیشن سے فراہمی آب سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ سیکٹر تھری کا بالائی علاقہ گزشتہ دو ماہ سے پانی سے محروم ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہے۔

    دوسری جانب سیکٹر تھری کے پورے علاقے میں ایک ہی پارک ہے جو 2010 میں تعمیر ہوا تھا۔اب اس کے صرف آثار باقی رہ گئے ہیں۔ پارک کا بیشتر حصہ کچرا گھر بنا ہوا ہے۔ اس میں ٹخنوں تک ریت ہے۔ پارک کی باقیات کی صورت میں پتھروں سے بنی پختہ روش رہ گئی ہے جس پر شام کے وقت کچی آبادی کے بچے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ مالی اور چوکیدار کے لئے جو کمرہ اور اس میں واٹر ٹینک بنایا گیا تھا، وہ جرائم پیشہ افراد کی کمین گاہ بنا ہوا ہے۔ ایک ماہ قبل علاقہ مکینوں نے وہاں سے ایسے شخص کو پکڑا جو کتے کو مارنے کے بعد اس کی کھال اتار رہا تھا۔ مذکورہ شخص کے بیان کے مطابق وہ کتوں، مردہ مرغیوں کا گوشت کٹی پہاڑی اور دیگر پسماندہ علاقے کے ہوٹلوں اور بار بی کیو ریستوران میں فروخت کرتا ہے۔ یہ اسٹوری ایک ماہ قبل روزنامہ محافظ پاکستان میں شائع ہوچکی ہے۔

    سیکٹر تھری میں آغا خان لیب کے عقب میں وسیع و عریض میدان میں ایک سرکاری اسکول ہے۔ پورا میدان اور اسکول کئی سال سے گٹر کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے، اس لئے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ہم اس شہر کے باسی ہیں جو نیو کراچی ٹائون کا نارتھ کراچی یا نئی آبادی کہلاتا ہے۔ یہاں بنکار، صحافی، شاعر، دانش ور ملازمت پیشہ افراد، کاروباری طبقہ رہتا ہے لیکن عوامی نمائندوں، مئیر کراچی، فراہمی و نکاسی آب کے افسران اور وزیر ٹرانسپورٹ کی چشم پوشی و نااہلی کی وجہ سے ازمنہ وسطٰی کے باسیوں جیسی زندگی گزار رہا ہے۔مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب سمیت کمشنر، ڈپٹی کمشنر یا دیگر اعلیٰ افسران اس علاقے کی تباہ حال سڑکوں اور غیر انسانی ماحول کی وجہ سے یہاں سے گزرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔

    عوام کے ووٹوں کی طاقت سے منتخب ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اپنے “ووٹ بینک ” کے مسائل بنیادی حل کرانے کی بجائے ہر سال ترقیاتی بجٹ کی مد میں ملنے والے پچاس کروڑ روپے کے فنڈ کے بیشتر حصے کو بینک بیلنس بڑھانے کے لئے استعمال کرتے رہے۔ سیکٹر تھری میں دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے بارہ گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ لیکن بجلی کا بل مختلف النوع محصولات لگ کر پندرہ سے تیس ہزار روپے ماہانہ تک آتا ہے۔ سوئی گیس شام سات بجے سے صبح سات بجے تک بند رہتی ہے لیکن اس کا بل بھی ہزاروں روپے آتا ہے۔

    پانی سے لوگ مہینوں محروم رہتے ہیں لیکن پانی کا ہزاروں روپے کا بل معینہ تاریخ تک بھرنا لازمی ہے ورنہ آپ کی جائیداد بحق سرکار قرق کرلی جائے گی۔ دور دور تک سرکاری اسپتال کی سہولت موجود نہیں ہے۔ بیس سال قبل صوبائی حکومت کی جانب سے فور جے کے چوک کی مرکزی سڑک پر اسپتال کی عمارت کی تعمیر کے لئے ایک ایکڑ کا پلاٹ مختص کیا گیا تھا۔ اس پر پہلے ایک سیاسی جماعت نے قبضہ کرنے کی کوشش کی، اس کے بعد صوبائی اسمبلی کے ایک رکن نے علاقہ مکینوں کو فراہمی آب کے لئے واٹر بورڈ حکام کی اجازت سے مبینہ طور پر اپنے ذاتی پیسے سے پمپنگ اسٹیشن تعمیر کرا دیا۔ ہمیں انتخابات میں بزور قوت ووٹ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے “کیونکہ ہم نئے کراچی کے باسی ہیں”.

  • للو مکینک – رفیع عباسی

    للو مکینک – رفیع عباسی

    ایک روز دفتر سے گھر آتے ہوئے ہماری موٹر سائیکل چلتے چلتے تین ہٹی کے پل پر بند ہوگئی، کافی دیر تک اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن ککیں لگانے کے باوجود اسٹارٹ نہیں ہوئی۔ ہم اسے کھینچتے ہوئے لالوکھیت سی ایریا لے کر آئے جہاں ایک مکینک کی دکان نظر آئی۔ ہم نے اپنی موٹر سائیکل وہاں لے جا کر کھڑی کردی اور اسے اپنا مسئلہ بتایا۔ مکینک کی دکان پر کافی رش تھا۔ اس نے ہم سے کہا ،’’جناب آپ کو انتظار کرنا پڑے گا، میں ان لوگوں کا کام نمٹا دوں ، پھر آپ کی گاڑی دیکھوں گا۔‘‘ ہم نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی لیکن اس علاقے میں مکینک کی یہ واحد دکان تھی، اس لیے ہم صبر شکر کرکے وہیں ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد ہمارا نمبر آیا۔ مکینک نے پلگ، کھول کر اسے صاف کیا اور گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا انجن نہیں جاگا۔ اس نے بتایا کہ ،’’ صاحب آپ کی بائیک کی ٹیوننگ کرنا پڑے گی، اس کے بغیر کام نہیں چلے گا‘‘۔ ہم نے کہا، ’’بھائی کردیں لیکن ذرا جلدی ،کیوں کہ ہمیں بہت دور جانا ہے‘‘۔

    مکینک نے میگنٹ کور اور سلینڈر کا ہیڈ کھولا ۔ شام کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے اور رات کا اندھیرا غالب آرہا تھا۔ ہمارا گھر یہاں سے تقریباً 18کلومیٹر کے فاصلے پر نارتھ کراچی میں تھا اس لیے ہمیں ایک ایک پل بھاری پڑ رہا تھا۔ ابھی مکینک نے کام شروع ہی کیا تھا کہ ایک بڑے میاں بغیر لائٹ کی موٹر سائیکل دوڑاتے ہوئے وہاں آگئے اور گھبرائے ہوئے انداز میں مکینک سے مخاطب ہوئے، ’’ابے للّو ، جرا جلدی سے میری پھٹ پھٹی دیکھ لے، وس کی لیل ٹین نہیں جل رہی، چمنی بھی کالی پڑ گئی ہے، جرا لیل ٹین جلادے اور چمنی بھی بدل دے۔‘‘مکینک نے ان کے انداز تخاطب پر غصے سے ان کی طرف دیکھا اور کہا:’’بڑے صاحب، پہلے ان بھائی صاحب کی گاڑی ٹھیک کردوں، پھر تمہاری پھٹ پھٹی بھی دیکھ لوں گا‘‘۔ بڑے میاں یہ سن کر خوش آمدانہ انداز میں ہم سے بولے، ’’بٹوا، تم ہی وس سے کہہ دو، میرے لمڈے کی جانگ کی ہڈی کھسک گئی ہے، اسے ڈسپنسری لے کر جانا ہے، ڈاگڈر اس کی پھوٹو کھینچے گا‘‘۔ ان بزرگوار کی بات سن کر ہم شش و پنج میں پڑ گئے کہ، فوٹو کھینچ کے علاج کرنےکا کون سا نیا طریقہ ایجاد ہوا ہے؟۔اپنی معلومات میں اضافے کے لیے ہم نے ان سے پوچھ ہی لیا، ’’بڑے صاحب، کیا اس ڈسپنسری میں فوٹو کھینچ کر علاج کیا جاتا ہے‘‘؟ بڑے صاحب نے ہماری طرف مضحکہ خیز نظروں سے دیکھا اور بولے ، ’’ میاں بھیے، تو بھی نراجاہل ہے، ارے، واں میرے لمڈے کو لمبی سی میز پر لٹائیں گے، بڑی بڑی بتیوں کے نیچے، پھر ’’پھوٹوگراپھر‘‘بھیا بٹن دبا کر پھوٹو کھینچے گا‘‘۔ میں نے مکینک سے کہا کہ ’’بھائی پہلے ان صاحب کی لائٹ ٹھیک کردو، انہیں ایمرجنسی ہے‘‘۔ میری سفارش پر مکینک نے بڑے میاں سے پوچھا، ’’چچا، اگلی بتی صحیح کروں یا پچھلی‘‘؟۔ بڑے میاں نے مکینک کو غصے سے دیکھا پھر بولے’’ اماں للو، تو بھی نرا گنوار نکلا، ابے پیچھے جو لال بتی لگی ہے، وہ ویسی ہی ہوتی ہے جیسی دپھتروں میں بڑے صاب کے کمرے کے باہر لگی ہوتی ہے، وس کا مطبل ہوتا ہے، میں کام کرریا ہوں، پریسان مت کریو‘‘۔’’ پھٹ پھٹی کے پیچھے بھی لال بتی اسی لیےہوتی ہےکہ پیچھے آنے والے ڈریور کو پتہ چل جائے کہ چاچا،پھٹ پھٹی چلا ریا ہے ، وس کو پریسان مت کریو‘‘۔ ’’ابے ہینڈل پرجو لیل ٹین لگی ہے اسے ٹھیک کردے،وس سے سڑک پر اجالا ہوجائے گا‘‘۔ مکینک نے ہیڈ لائٹ کھولی وہاں بلب وغیرہ ٹھیک تھے لیکن کرنٹ نہیں آرہا تھا۔ اس نے بیٹری کا کور کھولا ، وہاں سے تار نکلے ہوئے تھے، اس نے انہیں جوڑا، لائٹ جلنے لگی.

    بڑے میاں نے خالی بیٹھا دیکھ کر ہماری طرف دس روپے کا نوٹ بڑھاتے ہوئے کہا، ’’ابے منوا، جرا دوڑ کے جائیو اور نکڑ کی دکان سے ڈبل پتی ، ساہ جادی کا پان تو لے آئیو‘‘۔ والدین نے ہمیں’’ بچپن‘‘ سے ہی بزرگوں کا احترام کرنا سکھایا تھا جو ہمیں’’پچپن سال کی عمر ‘‘ گزر جانے کے بعد بھی یاد تھا، اس لیے بزرگوار کا حکم بجا لانے کے لیے دوڑے دوڑے پان کی دکان پر گئے اور ان کا فرمائشی پان لا کر ان کی خدمت میں پیش کیا۔ پان کا بیڑا چباتے ہوئے بڑے صاحب مکینک سے مخاطب ہوئے، ’’ابے للّو، پھٹ پھٹی کے کواڑ کو جرا جور سے بند کردیجیو، کہیں رستے میں کھل جائے‘‘۔ کواڑ سے ان کی مراد سائیڈ کور تھا۔ مکینک نے سائیڈ کور لگا کر ہیڈ لائٹ کا شیشہ تبدیل کیا اور بڑے صاحب سے اس سارے کام کی اجرت، 200روپے طلب کیے۔ 200روپے کا نام سن کر وہ تاؤ کھاتے ہوئے بولے، ابے للّو، تو کہیں گھاس تو نہیں چر گیا، اتّے سے کام کے 200روپیہ، میں تجھے 100 روپے سے ایک دمڑی بھی جیادہ نہیں دوں گا‘‘۔ انہوں نے بائیک اسٹارٹ کی اور مکینک سے بولے، ابے وس کا تو بھونپو بھی نہیں بج ریا ہے، چل ابھی میں لیٹ ہوریا ہوں، کل آکر ٹھیک کراؤں گا وسے بھی۔ انہوں نے مکینک کی طرف 100 روپے کا نوٹ پھینکا اور اپنی پھٹ پھٹی کی لیل ٹین کے اجالے میں ، پھٹ پھٹ کرتے چلے گئے۔اتنے میں دکان پر کام کرنے والا لڑکا چائے لے آیا اور مکینک غصے میں تاؤ کھاتے ہوئےچائے پینے لگا۔

    بڑے میاں مکینک کو بار بار للو کے نام سے مخاطب کررہے تھے، اس لیے ہم بھی اسے للو ہی سمجھے تھے ۔ کیوں کہ ہمیں پہلے ہی کافی دیر ہوگئی تھی، اس لیے ڈرتے ڈرتے مکینک سے خوش آمدانہ انداز میں کہا، ’’للو بھائی، میری گاڑی جلدی سے ٹھیک کردیں، مجھے بہت دور جانا ہے‘‘۔ ہماری درد بھری فریاد سن کر مکینک نے بجائے رحم کھانے کے، ہمیں پھاڑ کھانے والی نظروں سے دیکھا اور بولا،’ اب تم بھی للو کہو گے، وہ بڈھا تو سٹھیایا ہوا تھا جو بار بارمجھے للو کہہ رہا تھا، یہ کہہ کر اس نے سلینڈر اور میگنٹ کور اٹھا کر ہمارے ہاتھ میں پکڑائے اور غصے سے بولا، ،’’منوا، اب تو اپنی گاڑی کہیں اور لے جاکے ٹھیک کرالے‘‘۔ ہم نے مکینک کی بہت خوش آمد کی لیکن اس نے ہماری ایک نہ سنی۔ اس کی دکان پر دوسرے گاہک بھی انتظار میں بیٹھے تھے، وہ ان کے کام میں جت گیا۔

    ہم بائیک کھینچتے ہوئے ڈاک خانے تک آئے جہاں نایاب مسجد کے ساتھ مین روڈ پر کئی میکنکوں کی دکانیں تھیں۔ وہیں ہمارے ایک پینٹر دوست عابد کی بھی دکان تھی۔ ایک دکان پر مکینک کو اپنا مسئلہ بتا کر دونوں کور، اس کے حوالے کیے اور ہم اپنے دوست کی دکان پر آکر بیٹھ گئے۔ ہم نے عابد کو سارا ماجرا سنایا، ہماری بپتا سن کر وہ بہت ہنسا۔ اس نے کہا، ’’بھائی منوا اب تم فکر مت کرو، آج کے بعد سی ایریا کا مکینک ’’للو مکینک ‘‘ کے نام سے مشہور ہوجائے گا، میں اسے تمہاری بے عزتی کا سبق سکھاؤں گا‘‘۔ جتنی دیر میں میری بائیک کی ٹیوننگ ہوئی، اتنی دیر میں اس نے ’’للو مکینک ‘‘کے نام کا بڑا سا بورڈ تیار کرلیا۔ اس کی دکان میں بینر کا کپڑا بھی رکھا تھا، اس نےللو مکینک کے نام کے دو بینر بنائے۔ رات کافی ہوگئی تھی، دکانیں بند ہونے لگی تھیں، عابد نے بھی دکان بند کی اور مجھے لے کر مسجد کی دیوار کے ساتھ بنے کیفے ایمبسی میں آگیا ۔ وہاں کافی دیر تک بیٹھنے کے بعد میں نے اس سے اجازت چاہی لیکن اس نے کہا، ’’ارے منوا، ابھی کہاں جارہے ہو، ابھی تو للو مکینک کی کہانی شروع ہوئی ہے، اسے انجام تک نہیں پہنچاؤگے؟‘‘۔ ’’بیٹھو ابھی ‘‘۔ یہ ہوٹل ساری رات کھلا رہتا تھا، ہم دونوں وہاں ساڑھے بارہ بجے تک بیٹھے رہے۔ جب ہر طرف سناٹا چھا گیا تو عابد مجھے ، اپنا بنایا ہوا بورڈ اور انہیں لگانے کا سامان لے کر سی ایریا آیا ۔ وہاں ساری دکانیں بند ہوچکی تھیں، لوگ بھی وہاں سے اکا دکا ہی گزر رہے تھے۔ اس نے جیب سے بڑی سی ٹارچ نکالی اور موٹر سائیکل کی سیٹ پر کھڑے ہوکر اس نےبڑی بڑی کیلوں اور ہتھوڑی کی مدد سے انتہائی ماہرانہ انداز میں دکان پر ’’للو مکینک‘‘ کے نام کا بورڈ لگا دیا۔ یہ کام اس نے پیشہ وارانہ مہارت سے کیا تھا ، اس لیے بورڈ اکھاڑے جانے کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ سڑک کے دونوں طرف کے چوراہوں پر اس نے بینر لگائے۔ کام مکمل کرکے اس نے مجھے گھر جانے کی اجازت دےدی لیکن ساتھ ہی ہدایت کی کہ کل دن میں آکر مکینک کی دکان پر تماشہ دیکھنا۔ دوسرے روز میں دفتر جاتے ہوئے دوپہر کے وقت جب لیاقت آباد سے گزرا تو سی ایریا میں مکینک کی دکان کے قریب بھی گیا اور اس کے سامنے چائے کے ہوٹل میں بیٹھ کر دکان کا جائزہ لیا۔ وہاں مکینک صاحب کو حیران و پریشان پایا۔علاقے میں رہنے والے لوگ دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے نئے نام کا بورڈ لگا دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ ہم چائے کا بل ادا کرکے دکان کے ساتھ اس طرح کھڑے ہوگئے کہ مکینک کی نظر ہم پر نہ پڑے۔ دکان پر جو شخص بھی اپنی موٹر سائیکل ٹھیک کرانے آرہا تھا، وہ اسے للو بھائی کہہ کر مخاطب کررہا تھا۔ جس مکینک نے صرف ’’للو بھائی ‘‘کہنے پر ہمیں جواب میں ’’بھائی منوا ‘‘ کہہ کر بائیک ٹھیک کیے بغیر ، بے آبرو کرکے بھگایا تھا، آج وہ پورے لالو کھیت میں ’’للو مکینک ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

  • شے – روبینہ یاسمین

    شے – روبینہ یاسمین

    مصطفی عامر ، ارمغان اور ساحر حسن کے نام تو آ پکو ان دنوں سوشل میڈیا سکرول کرتے ہوئے نظر آ ہی گئے ہوں گے۔
    پوری کہانی جسے نہیں پتہ وہ سرچ بار پر یہ نام لکھ لے پتہ چل جائے گی۔ پیرنٹنگ کے چیلنجز پر پھر بات کر لوں گی۔ اس وقت ایک اور بات کرنی ہے۔

    یہ معاملہ حساس ہے۔ جس “شے ” کی خریدوفروخت میں یہ لوگ ملوث تھے وہ کروڑوں کا کھیل ہے۔ جب کروڑوں کا کھیل ہے تو رائے عامہ ہر اثر انداز ہونے کے لئے بھی کروڑوں لگائے جا سکتے ہیں۔ ایسے معاملات میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیس خراب کرنے کی اور مدعی کو منظر عام سے ہٹانے کی کوشش کرنا عام سی بات ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ خاص قسم کے بیانئے پھیلائے جا رہے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ساجد حسن تو سید ہیں تو سید کا احترام ہے انکے بیٹے کیسے یہ کام کر سکتے ہیں۔

    اس کا جواب یہ ہے کہ ساجد حسن اس لڑکے ساحر حسن کے بائیولوجیکل فادر نہیں ہیں ۔ یہ انکی اہلیہ کا بیٹا ہے۔ ویسے بھی جرم کوئی بھی کسی بھی پس منظر اور نیک سے نیک والد کی اولاد بھی کر سکتی ہے۔ دوسری بات بڑی شدو مد سے پھیلائی جا رہی ہے کہ مصطفٰی عامر کی ماں تو غمگین لگ ہی نہیں رہی ۔ ہو نہ ہو یہ خود اسی بزنس میں ملوث ہے۔
    ہمیں نہیں پتہ کیا حقائق ہیں۔ ہم ماہر تفتیشی افسر نہیں ہیں۔ ہم باڈی لینگویج ایکسپرٹ نہیں ہیں۔ ہم کرمنل سائیکالوجی کے ماہر نہیں ہیں۔ ایک عورت جو کمپوزڈ نظر آ رہی ہے۔ یہ کہہ رہی ہے کہ میں اپنے بیٹے کے لئے کھڑی ہوں تو ہم کہیں اپنی بے جا مہارتوں کے اظہار کر کے اس عورت کو نہ بٹھا نہ دیں ۔

    مدعی ہی نہیں ہو گا تو کیس تو کلوز ہو گا ہی۔ ہمارے ہاں ریاست خود مجرم کے خلاف کیس نہیں لڑتی۔ مدعی کو ہی بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے۔اگر آپ کے باڈی لینگویج کے مفروضات درست بھی ہیں تو انہیں سوشل میڈیا پر پورے اعتماد سے سرکولیٹ نہ کریں۔ تفتیشی اداروں کو کام کرنے دیں۔ کسی سازش کا حصہ نہ بنیں۔مدعی اور ملزم فیملی میں سے کسی کے بارے میں بھی مفروضات ڈسکس نہ کریں۔ پہلے رائے عامہ بنتی ہے ، مدعی کو ہی ملزم مشہور کیا جاتا ہے اور فائدہ ملزم کو مل جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آ پکے مفروضات میں وزن ہو لیکن خیال کریں اگر بے گناہ کی ریپوٹیشن خراب کر دی تو اس کا وبال بھی ہو گا۔

    مجھے نہیں پتہ یہاں کون سچا ہے کون جھوٹا ہے۔ میں یہ کہہ رہی ہوں یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ محض اس بناء پر کہ مصطفٰی عامر کی ماں پر اعتماد ہے ، لڑکھڑا نہیں رہی، اس کی آ نکھیں خشک ہیں ، وہ انگریزی بول رہی ہے یہ رائے بنائیں کہ ہو نہ ہو یہ خود اسی ریکٹ کا حصہ ہے۔جس کا کام اسی کو ساجھے۔

  • سر منڈاتے ہی اولے پڑے – رفیع عباسی

    سر منڈاتے ہی اولے پڑے – رفیع عباسی

    ” سر منڈاتے ہی اولے پڑے” یہ محاورہ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں اور اب تو پچپن سال کی عمر کی حدود سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ سوا مہینے کی عمر میں ہمارا سر مونڈا گیا ہو تو کہہ نہیں سکتے لیکن لڑکپن اور جوانی میں ہم نے ہمیشہ اپنی زلفوں کو دلیپ کمار مرحوم کے انداز میں سنوارنے کی کوشش کی، ہمیں نہیں معلوم کہ ہم اس میں کتنے کامیاب ہوئے کیوں کہ دوستی کے باوجود کسی بھی فلم ڈائریکٹر نے ہمیں گھاس نہیں ڈالی۔ باران رحمت تو کراچی میں کبھی کبھار ہوہی جاتی ہے لیکن ژالہ باری سے کبھی واسطہ نہیں پڑا۔

    اس سال مارچ کے مہینے میں نہ صرف ہمیں سر منڈوانا پڑا بلکہ کراچی میں اولے پڑنے کی خبر بھی سنی لیکن اپنے سر سے دور ۔ ہم ” سر منڈاتے ہی اولے پڑے” والے محاورے کو اپنے سر پر عملی صورت میں دیکھنے سے اس لئے محروم رہے کیونکہ اس وقت کراچی سے ہزاروں میل دور ہم عمرے کے فریضے کی ادائیگی کے لئے مکہ معظمہ میں تھے۔ اپنے بیٹے اور نواسے کے ساتھ خانہ کعبہ میں عمرے کی ادائیگی کے بعد کبوتر چوک کی ایک دکان سے اجتماعی طور پر “حلق” کرا کر ہم تینوں جیسے ہی دکان سے نکلے، ویسے ہی ہمیں فون پر کراچی میں اولے پڑنے کی اطلاع ملی۔ ہم نے اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہم نے سر مذہبی فریضہ پورا کرنے کے لئے منڈوایا ورنہ اپنے شہر میں اگر “ٹنڈ” کراتے تو اتنی چپتیں پڑتیں کہ کھوپڑی پلپلی ہوجاتی کیوں کہ اپنے گنجے دوستوں کو دیکھ کر ہماری ہتھیلی میں بھی کھجلی ہونے لگتی تھی۔

    یہ بات ہماری فہم سے بالاتر ہے کہ ” سر منڈانے کے بعد اولے پڑنے کا محاورہ کیوں رائج العام ہوا، کیوں کہ ہم نے بے شمار لوگوں کو سر منڈوانے کے بعد سر پر چپت کھاتے دیکھا ہے، اولے پڑتے کہیں نظر نہیں آئے ۔ شکر کریں کہ ہماری سر منڈائی کی رسم بچپن میں اس عمر میں ہوئی جب ماں باپ کے علاؤہ لوگ ہمارے سر پر ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ پچپن کی عمر میں اس مقدس مقام پر ہر جانب “حلق” کروائے ہوئے لوگ دکھائی دے رہے تھے۔ بیت اللہ شریف کے قریب پاکستانی، بنگالی اور بھارتی باشندوں نے اسی منفعت بخش پیشے کو اپنایا ہے۔ بہرحال ہمارا سر مبارک منڈنے کے بعد “اولے” اور “چپت” کی ضربات سے محفوظ رہا۔

    “بال کی کھال نکالنا” اس محاورے کے مفہوم سے بھی ہم نابلد ہیں۔ شیونگ کرتے ہوئے بلیڈ کی دھار سے کھال میں سے تو بال نکلتے ہیں لیکن بال میں سے کھال نکلتے شاید ہی کسی نے دیکھے ہوں کیوں کہ بال اتنا باریک ہوتا ہے کہ اس میں سے جوں یا دھک تو نکل سکتی ہے لیکن کھال رکھنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہوسکتا ہے قدیم دور کے دانش وروں کا کھال سے مراد شاید جوں کی کھال ہو۔ اب تو ہم خود بال کی کھال نکالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بال میں سے زیادہ تر کھالیں جوں کی صورت میں صرف خواتین کے سروں سے ہی نکلتے دیکھی ہیں اس لئے بال کی کھال نکالنے کا محاورہ صرف خواتین پر ہی صادق آتا ہے اس لئے مردوں کو سر منڈوانے کے بعد اولوں پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔

  • مصطفی قتل کیس کے قابل افسوس پہلو – حافظ یوسف سراج

    مصطفی قتل کیس کے قابل افسوس پہلو – حافظ یوسف سراج

    تئیس سالہ مصطفی ۔۔۔ جسے دوست نے درندگی کے ایسے طریقے سے قتل کیا کہ روح بھی تھرا اٹھے، اب اس کی والدہ کا انٹرویو سامنے آ گیا ہے. مصطفی کو اس کے دوست نے خوفناک ترین تشدد کر کے قتل کیا. یہ تشدد کئی گھنٹوں پر محیط تھا. اس تشدد میں کسی ہارر مووی کی طرح کے ہولناک انداز اپنائے گئے. راڈ سے اس کے سر کو توڑ پھوڑ ڈالا گیا. تشدد کے دوران سکے سے ٹاس بھی کی جاتی رہی کہ اگر ہیڈ اور ٹیل میں سے فلاں آیا تو تشدد ہوگا، اور فلاں آیا تو تشدد نہیں ہوگا، اس تشدد کو تفریح بنایا گیا، اس سے لطف لیا گیا۔ کسی چلتی ہوئی قسط کی طرح منصوبہ بندی سے تشدد جاری رہا. جب اس کے دوست ارمغان کا جی بھر گیا اور مصطفی ادھ موا ہوگیا تو اسے گاڑی میں ڈال کے بلوچستان میں حب کے کسی علاقے میں لے جا کر اس جوان کو زندہ جلا دیا گیا۔ وہ اتنا بے بس لاشہ ہو چکا تھا کہ مزاحمت بھی نہ کر سکا۔

    یہ سب اس کے گہرے دوست نے کیا، جو منشیات کا عادی تھا. معلوم نہیں یہاں معاملہ منشیات کا تھا، اس لڑکی کا تھا،جو ملک سے فرار ہوچکی، یا منشیات فروشی کے کسی لین دین کا تھا. تفتیش لیکن آگے بڑھی تو پتہ چلا یہ دوست کے ہاتھوں دوست کے سفاکانہ قتل سے کہیں بڑا معاملہ ہے. پتہ چلا اس میں ایک تیسرا کردار بھی ہے،اداکار ساجد حسن کا بیٹا ساحر حسن ، جو اتنا بڑا ڈرگ ڈیلر یا منشیات فروش ہے کہ پناہ بخدا ، کوئی پچاس کروڑ وہ ڈرگ سے کما چکا، امریکی ریاست کیلیفورنیا سے وہ ایک قسم کی منشیات سمگل کرتا تھا، سنیپ چیٹ ،واٹس ایپ اور دوسرے سوشل میڈیا کے ذریعے وہ منشیات مختلف تعلیمی اداروں یا دوسرے بچوں کو بیچتا تھا. دو کورئیر کمپنیاں اس کا مال بڑی آسانی سے طلب گاروں تک پہنچاتی تھیں. اداکار ساجد حسن کا منیجر روپے وصول کرتا تھا اور بڑے آرام سے یہ گھناؤنا دھندہ پوری آزادی سے جاری تھا۔

    یہاں ایک کردار ارمغان کے والد کا ہے، وہ کبھی اپنے منشیات فروش اور درندہ صفت قاتل بیٹے کو ہیرو بناتا ہے، کبھی وہ بتاتا ہے کہ اسلام میں نشہ حرام نہیں،بس بہکنا حرام ہے. اس کا بیٹا ، ایک لمحے کو بھی اپنے کیے پر شرمندہ نہیں ہوتا ، اس کا باپ بھی نہیں ہوتا، وہ ایسے سفاکانہ قتل پر گرفتار ہوکر بھی یوں پوز بناتا اور ایسے تیور دکھاتا ہے، گویا نیلسن منڈیلا سے کوئی بڑا کارنامہ کر چکا ہے۔

    اب مقتول مصطفی کی والدہ کا انٹرویو سامنے آتا ہے، وہ ایسی روانی سے بیٹے کے متعلق بتاتی ہیں، جیسے وہ کارگل کا ہیرو ہو، ہمیں ایک ایسی ماں کے ساتھ ہمدردی ہونی چاہیے ، جس کا جوان بیٹا ایسی اندھی موت کا شکار ہوگیا، مگر یہاں ماں ہمیں بیٹے کی ان تمام سرگرمیوں کو ڈیفینڈ کرتے ملتی ہے، جس نے بیٹے کو ایسے دلدوز انجام سے دوچار کیا. وہ اس کی ہمدردی اور انسان دوستی کی بات کرتی ہیں،تاہم بغیر نمبر پلیٹ کے گاڑی چلانے، ہر عمر کے لوگوں کے ساتھ لا محدود دوستیاں لگانے ، بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑی کو موت کے تعاقب میں اندھا دھند دوڑانے، منشیات کی پارٹیوں میں شریک ہونے پر بھی افسردہ یا نادم نہیں ہوتیں۔ وہ اسے جوانی کی مستی قرار دیتی ہیں۔

    یہاں ہمیں کوئی بھی نادم نہیں ملتا، کوئی بھی افسردہ نہیں ملتا، سوائے ان عام لوگوں کے جو یہ کہانی سن رہے ہیں،وہ ان بچوں کے ایسے بے سمت راستوں اور عبرت انجام سرگرمیوں پر پریشان ہیں،وہ ان کی لاقانونیت والی زندگی پر پریشان ہیں،وہ اتنے بڑے منشیات فروشی کے مافیا کے اس آسانی سے فعال رہنے پر پریشان ہیں، وہ ایلیٹ کلاس اور اشرافیہ کی ایسی بے سمت اور بے ثمر زندگی اور زندگی کے ایسے انجام اور ایسی بے حسی پر پریشان ہیں۔

    میرے نزدیک اس حادثے کا اصل قابل توجہ اور قابل افسوس پہلو ان تمام کرداروں کے لفظ لفظ اور انگ انگ سے پھوٹتی بے حسی اور بے شرمی ہے۔ جو ہمیں بتاتی ہے کہ ان کے ہاں اپنی جانوروں کی طرح کی آزاد زندگی کے لیے بچوں کا سفاکانہ قاتل اور مقتول بننا، منشیات میں ڈوب کر جوانی کی خرمستیاں کرنا، ملکی اور اخلاقی قوانین کی دھجیاں بکھیر دینا اور نئی نسل کی رگوں میں منشیات کا زہر انڈیل دینا، یہ سب نارمل ہے۔

    یہ بہت افسوسناک بلکہ بہت الارمنگ ہے، سوال یہ بھی ہے کہ یہ بچے صرف اشرافیہ کے نہیں، یہ اس ملک اور قوم کے بھی بچے ہیں،لیکن یہ بچے اب کہیں نور مقدم کی شکل میں،کہیں شاہ رخ جتوئی کی شکل میں، کہیں ساحر حسن ، ارمغان اور طاہر مصطفی کی شکل میں ایک نئی دنیا تشکیل دے رہے ہیں۔ سفاکی ،لاقانونیت ،منشیات اور بے رحم حیوانی آزادی کی دنیا، جہاں نہ کوئی قانون ہے اور نہ کوئی اخلاق۔ جہاں افسر والدین کی طاقت کا غیر انسانی اظہار ہے، جہاں حرام کے پیسے کی حرامخور جبلت ہے اور جہاں یا تو نشے میں ڈوبے زندہ لاشے ہیں یا پھر زندہ جلائے جاتے تڑپتے لاشے اور جہاں اس سب پر قانع بلکہ فخر کرتے مطمئن کردار ہیں۔
    اس سب پر قوم اور ملک نے کیا سوچنا ہے؟
    اس پر اشرافیہ نے کیا سوچنا ہے؟
    اس پر معاشرے نے کیا سوچنا ہے؟
    اس پر قانون اور اخلاق نے کیا سوچناہے؟
    یہ مجھے معلوم نہیں، ہوسکتاہے آپ کو کچھ معلوم ہو!
    آپ کو کچھ معلوم ہو تو مجھے بھی ضرور بتائیے گا۔
    میں ایسی خبریں پڑھنے اور سننے سے رکنا چاہتا ہوں
    کیونکہ ان سے میرا دل رکتا ہے اور اس سے دراصل کسی بھی معاشرے اور قانون کا دل رکتا ہے۔

  • عزت کا حصول کیسے؟ راحیلہ خان ایڈووکیٹ

    عزت کا حصول کیسے؟ راحیلہ خان ایڈووکیٹ

    عزت کمانی پڑتی ہے ، خود بخود نہیں ملتی . جب ہم ایک بار عزت کما لیں تو نسلیں اس عزت کی کمائی کھاتی ہیں۔ جیسے کراچی شہر میں خان بھائی یا پٹھان بھائی بڑی تعداد میں بستے ہیں۔ یہاں خواتین جس کو خان بھائی بول دیں، اس کا مطلب ہے نہایت عزت دار آدمی، غیرت مند، عزتوں کا رکھوالا. وہ آدمی جو کسی خاتون کی طرف میلی نظر سے نہیں دیکھتا، جس کی سواری میں خواتین آرام سے سفر کرسکتی ہیں۔ جس سے خرید و فروخت کرتے ہوئے بحث ہوجائے تو پتہ ہوتا ہے کہ خان خاتون کے سامنے تہذیب کا مظاہر ہ کرے گا۔ خان کوئی امیر ہو یا غریب اس کو گھر بلا کر ڈر نہیں لگتا، گھر کی عزت ہمیشہ محفوظ رہتی ہے۔ یقینا یہ وہ عزت ہے جو کمائی گئی ہے۔

    اسی طرح کراچی میں اقلیتی بوہری برادری کے افراد امن پسند ہیں چاہے شہر میں کیسا ہی تنازعہ کیوں نہ ہو، اس برادری کے افراد اپنے کاموں میں مگن رہتے ہیں، آج تک کسی بھی معاملے یا تنازعہ میں ان کا نام نہیں آیا۔ اگر ان سے لین دین ہو جائے یا ان کی دکان سے کچھ خریدتے ہوئے کوئی بحث ہوجائےتو معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ خراب نہیں ہوگا۔ کراچی کی بات پورے ثبوت کے ساتھ کرسکتی ہوں اس لیے ابھی صرف ایک شہر کا نام لیا ہے. مزید یہ بھی ہے کہ یہ منی پاکستان ہے اس لیےاس شہر کا تاثر پورے پاکستان پر ہوتا ہے۔

    یقینا یہ وہ عزت ہے جو انہوں نے کمائی ہے۔ ایک اور بڑی مثال کراچی کی جماعتی بہنیں جنھوں نے درس و تدریس کو اپنا مشن بنالیا ہے۔ یہ مختلف گھروں میں درس دیتی ہیں، اور اپنا قیمتی وقت شہر کی دیگر خواتین کی دنیا و آخرت کو سنوارنے میں لگا دیتی ہیں۔ ان خواتین میں سے کئی کا تعلق جماعت اسلامی اور دیگر کا تعلق مدنی اور دیگر فورمز سے ہے، مگر مقصد دین کی خدمت ہے۔ ان خواتین کی کتنی عزت کی جاتی ہے، اس کا اندازہ شاید کوئی نہیں لگا سکتا۔ یہ وہ عزت ہے جو انھوں نے کمائی ہے۔ اسی طرح کراچی کی میمن برادری نے انسانی خدمت خلق میں جو خدمات انجام دی ہیں، وہ ایک تاریخ بن چکی ہیں، ایدھی ہو یا چھیپا، یا اس جیسا کوئی دوسرا نام نہایت قابل رشک بن چکا ہے ۔یہ وہ عزت ہے جو انھوں نے کمائی ہے۔

    اس کے علاوہ کراچی کی باجیاں، یہ وہ مہاجر خواتین ہیں جو محلے میں ہر کسی کے کام آتی ہیں۔ جن سے آپ ہر مسئلہ بیان کرسکتی ہیں۔اس سے بات کرکے ڈر نہیں لگتا کہ معاملہ خراب ہوجائے گا۔ یہ اگر کسی خاتون کو دوپٹہ بدل بہن بنالیں تو یہ سگی بہن سے زیادہ پر خلوص ثابت ہوتی ہیں۔ بلاشبہ یہ وہ عزت ہے جو انھوں نے کمائی ہے۔ مزید یہ کہ کراچی میں جب بھی کوئی تعمیرات کا کام ہو، اس وقت جنوبی پنجاب کے سرائیکی بھائی ہی کام آتے ہیں، شہری ان پر بھروسہ کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ اب کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ شہر میں زیادہ تر مزدور اسی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

    یہ وہ عزت ہے جو ان طبقات نے کمائی ہے اور یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ یہ کمائی نسلوں تک فائدہ پہنچا رہی ہے، اور کبھی ختم نہیں ہوگی۔ ہاں اگر ان کے جانشیں بدنصیب ہوئے اور اپنے ہاتھوں اس کمائی کو برباد کردیا، تو الگ بات ہے۔

  • ریل گاڑی کا سفر -فرح ناز

    ریل گاڑی کا سفر -فرح ناز

    کسی نے خوب کہا ہے کہ “سفر وسیلہ ظفر ہے” . آج آپ کی خدمت میں ایک سفرنامہ لے کر حاضر ہوں۔

    ہمارا سفر شروع ہوتاہے (اپریل کے مہینے) میں، کزن (ماموں کی بیٹی) کی شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی دھڑا دھڑ فون آنے شروع ہوگۓ تھے، ماموں، مامی، کے اصرار پر بھائی نے ریل گاڑی کی ٹکٹیں منگوائیں، اور ہم سب جوش و خروش کے ساتھ شادی کی تیاریوں میں مگن ہوگئے تھے۔
    اللہ! اللہ! وہ لمحہ آہی گیا جس کا بے صبری سے انتظار تھا،(ریل گاڑی کا سفر ہمیں بچپن سے ہی بہت زیادہ پسند ہے)
    رات کو تمام پیکنگ مکمل کیں، اور صبح اٹھتے ہی کھانا پکایا، گیارہ بجے کے قریب بھائی سوزوکی لینے گئے، اتنے میں بارش شروع ہوگئی، اور موسم خوشگوار ہوگیا، گاڑی میں سب بیٹھے اور ہم اسٹیشن کی طرف چل پڑے، راستے میں بارش کی وجہ سے کیچڑ ہی کیچڑ تھا، دوخت اور پتے، دھل کر سر سبز و شاداب ہوگئے تھے، اور ٹھنڈی ہوائیں دل کو فرحت بخش رہی تھیں، راستے میں ہم نے دعا کی اللہ کرے گاڑی لیٹ ہو جاے۔

    (سفر کی دعا جلدی قبول ہوتی ہے) اور ریل گاڑی پورے تین گھنٹے لیٹ تھی، گاڑی کا انتظار کرنے کے لیے “ویٹینگ ایریا” میں بیٹھے پھر جلدہی اکتاکر(بھائی اور بہنو) کے ساتھ سٹیشن کا معائنہ کرنے چل پڑے، کراچی کینٹ پر خوب رونق لگی ہوئی تھی، مسافر آرہےتھے، اور کچھ اپنے گھروں کو جارہےتھے، سامان بیچنے والے جگہ جگہ سٹال لگائے بیٹھےتھے، سموسے، پکوڑے، سینڈوچ، کولڈرنک، کی دکانوں پر رش لگا ہوا تھا۔
    پھر ساڑھے تین بجے اعلان ہوا کہ
    ” پاکستان گاڑی پلیٹ فارم پر آرہی ہے”
    اور ہم سب جلدی جلدی سامان اکٹھا کرنے لگے، گاڑی کے آتے ہیں سب اس میں چڑھے، اور کھڑکی والی سائیڈ پر جھگڑا شروع، میں بیٹھوں گی یہاں پر، بہنو کی پکار! میں بیٹھوں گا یہاں پر بھائیوں کی پکار!
    امی نے کہا! سب تھوڑی تھوڑی دیر بیٹھو، یوں جھگڑا ختم ہوگیا۔

    ٹرین میں بیٹھتے ہی ساتھ بھوک نے ہم سب کو ستاناشروع کردیا (صبح سےسب پنجاب جانے کی خوشی میں بھوکےتھے)
    پھر ہم نے گرما گرم بیف پلاؤ، قیمہ، اور بیف تکے، سب کو سرو کیے، کچھ لوگ کھانا کھانے کے بعد سوگۓ اور کچھ باتوں میں مصروف ہوگۓ، ہم نے کھڑکی والی جگہ سنبھالی اور قدرت کے حسین نظارے دیکھنے میں مگن ہوگئے، گاڑی اپنی مکمل رفتار سے آگے بڑھتی جارہی تھی، ہلکی ہلکی بارش کی بوندیں، ہوا کے ساتھ ساتھ اندر آنےلگی، باہر سے جنگل، بیاباں، ویران علاقے، اور کہی کہی کھیت کھلیان، اور کہی پر بارش میں بچوں کے جھنڈ، اور کہی ندی پر نہاتی بھینس، اور بکریوں کےریوڑ، اور ندیاں آنے لگی.
    گاڑی میں کبھی چاۓلےلو، گرما گرم چاۓ، کبھی ٹھنڈا جوس، اور بریانی، نان چنے، پکوڑے، روٹی، غرض بھانت بھانت کے لوگوں کا آنا جانا جاری تھا۔

    ٹرین میں بھوک بھی زیادہ لگتی ہے، ہم کبھی بہنو کی چیزیں کھائیں، اور کبھی بھانجےکی، (تیاری کے چکر ہم اپنے کھانے پینے کی چیزیں منگوانا ہی بھول گۓ)اور ٹرین میں ہر چیز مہنگی،حیدرآباد کا دریا آتے ہی ہم نے زور وشور سے نعرہ لگایا (حیدرآباد کا دریا آگیاہے سونے والو! اٹھو جلدی سے) سب نے دریا دیکھا، اور پھر مووی بنائی دریاکی(بھئی سٹیٹس بھی تو لگاناتھانا) اب رات تک یہی مشاغل جاری رہے، ہنسنا، باتیں کرنا، پلاننگ بنانا،پھر رات کے کھانے سے فارغ ہوکر سب سوگئے، (ہم نے چھ سیٹوں والا پورا کیبن بک کروایا تھابھائی نے پردہ لگادیاتھا،) اور ہم اطمینان کے ساتھ سفر میں مشغول تھے، اور سفر کو خوب انجوائے کررہےتھے، آہستہ آہستہ بہت سے سٹیشن آۓ اور چلے گئے، صبح سات بجے گاڑی خانیوال سٹیشن پر رکی، سب نے منہ ہاتھ دھوۓ، اور ناشتہ کے لیۓ نان چنے، چاۓ، کیک، بسکٹ، منگواۓ۔ ناشتے کے بعد پھر سےہم باہر کے نظارے دیکھنے لگے، اور دوپہر بارہ بجے ہم فیصل آباد کے سٹیشن پر پہنچے،اور ریل گاڑی سے سامان اتروایاگیا، قلیوں کے ذریعے سے، سٹیشن پر لوگوں کاایک اژدھام تھا، ایسا لگ رہا تھا گویا کہ “آج ہی سب کو سفر سے آناہے، یا سفر پر جاناہے.”

    اتنا رش کہ ہم تو بیہوش ہوتے ہوتے ہی بچے، پھر بھائی اور کزن (ماموں کا بیٹا ہمیں سٹیشن پر آیاتھالینے). انہوں نے لوڈر رکشہ میں سامان لوڈ کیا، اور دوسرے رکشہ میں ہم سب کو بیٹھایا، اور پھر رکشہ سڑک پر رواں دواں ہوگیا، فیصل آباد کی صاف ستھری سڑکیں، وہاں پر ہلکی پھلکی سی دھوپ نکلی ہوئی تھی، مامو کے گھر پہنچتے ہی سب سے دعا وسلام کی، اور فریش ہونے کے بعد” دلہن” سے ملاقات کی، (دلہن مہندی لگوانے میں مشغول تھی). ماموں اور ممانی بچے سب ہمیں دیکھ کر خوش ہوۓ، ہماری ملاقات چھ سال بعد ہوئی تھی۔ یہ تھا ہمارا کراچی سے فیصل آباد کا سفر ہم نے تو خوب انجوائے کیاتھا، کیا آپ سب نے بھی انجوائے کیا؟

  • مصطفی عامر قتل کی لرزہ خیز داستان – نیاز احمد کھوسہ

    مصطفی عامر قتل کی لرزہ خیز داستان – نیاز احمد کھوسہ

    مصطفے کی جلی ہوئی گاڑی اور اُس کی جلی ہوئی لاش بلوچستان کے علاقے دریجی سے مل گئی ہے. 12 فروری کو ملزم ارمغان کے جیل کسٹدی اور ایس ایس پی Avcc انیل حیدر کی مصطفے قتل کیس میں نااہلی کے بعد آئی سندھ جناب غلام نبی میمن صاھب نے ڈائریکٹر آئی بی سندھ جناب آزاد خان کو کہا کہ وہ اس کیس میں مدد کریں. جیساکہ جناب غلام نبی میمن صاحب خود ڈائریکٹر آئی بی سندھ رہ چکے ہیں، ان کو آئی بی افسران، خصوصی طور پر جمالی صاحب والوں کی Worth & Dedication کا پتہ ہے. جناب غُلام نبی میمن صاحب نے سندھ پولیس سے مایوسی کے عالم اور کراچی کی اشرافیہ کی بے چینی اور عدم تحفظ کے اثر کو زائل کرنے اور مصطفے کیس میں فوری پیش رفت حاصل کرنے کےلیے یہ فیصلہ کیا کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ان کے Pockect میں کیا ہے ؟

    مصطفے کیس اتنا پیچیدہ کیس نہیں تھا مگر اس کو پیچیدہ اور مشکل ایس ایس پی Avcc انیل حیدر کی نااہلی اور کرپشن نے بنادیا. اب آپ کے سامنے ہے کہ آئی بی نے صرف دو گھنٹوں میں ارمغان کے دو ملازمین غلام مصطفی اور زوہیب کو Break کرلیا، اور 24 گھنٹوں کے اندر اندر غلام مصطفے اور زوہیب کی مدد سے اس کیس میں ارمغان کے اہم ساتھی شیراز کو اٹھا لیا، اور لاپتہ مصطفےامیر کی کار اور لاش تک پہنچ گئے- افسوس ہے کہ یہی ملزم مصطفٰے اور زوہیب پچھلےہفتہ یعنی 8 فروری سے انیل حیدر کے پاس VIP پروٹوکول میں KFC کھاتے رہے، اور تفتیشی افسر کے ذاتی کمرے میں سوتے رہے. حیرت انگیز طور اس کیس کا اہم ملزم ارمغان 48 گھنٹوں تک ایس ایس پی انیل حیدر کے پاس اپنی گرفتاری کو Enjoy کرتا رہا .

    جج نے ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہیں دیا اور مبینہ طور کیس کے اہمیت اور سنگینی کو سمجھ نہ پایا ، غلط کیا. مگر دوسری طرف دیکھیں کہ وہی ملزم ارمغان 48 گھنٹوں تک اور زوہیب 5 دن تک Avcc کے پاس تھے تو Avcc نے کیا کرلیا ؟ اب اپنی نااہلی چھپانے کےلیے واویلا کررہے ہیں کہ ریمانڈ نہیں ملا. انھی ملزمان سے آئی بی نے دو گھنٹوں میں آگے چلنے کے لیے راستہ نکال لیا. یہ کام انیل حیدر بھی کرسکتا تھا، ایسا ہوتا تو اس کی کراچی پولیس میں کتنی عزت بن جاتی، مگر گٹکہ اور پان پڑی، اور منشیات کے بھتے انیل حیدر جیسی نئی نسل کے افسران کو اس حد تک لے آئے ہیں کہ ان کے آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کراچی کو ہزیمت اُٹھانی پڑ رہی ہے، اور اپنی عزت بچانے کےلیے انھیں مدد کی خاطر دوسرے محکموں کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے.

    موجودہ ڈائریکٹر آئی بی آزاد خان جب 2008 میں ایس پی لانڈھی تھے، ایک اطلاع پر رات کو 4 بجے ایک کار روکنے کی کوشش کے دوران کار سواروں کی فائرنگ سےانھیں تین گولیاں لگیں، وہ زخمی ہوئے، پولیس کی جوابی فائرنگ سے جنداللہ کا قاسم طوری اپنے دو ساتھیوں سمیت مارا گیا. ایک طرف تو آزاد خان والی کل کی پولیس تھی، جس کا ایس پی اتنا Responsible تھا کہ جنوری کی ٹھنڈی رات میں 4 بجے اپنے گرم بستر میں سونے کے بجائے سڑک پر گولیاں کھا رہا تھا، اور دوسری طرف آج کی نااہل اور کاہل انیل حیدر والی پولیس ہے کہ شام کو 4 بجے بستر میں سویا ہوا ہے، اور اس کا ڈی ایس پی ڈیفنس میں زخمی ہورہا ہے. آپ خود موازنہ کرلیں کہ آج آپ اور ہم لوگ کن لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں؟

    آئی بی کے افسران نے جب غلام مصطفے اور زوہیب کو انٹروگیٹ کیا تو انھوں نے ارمغان کے ایک قریبی دوست شیراز کا نام لیا اور بتایا کہ جس وقت کمرے میں فائر ہوئے تو شیراز، ارمغان اور مقتول مصطفے کمرے میں ایک ساتھ بیٹھے تھے. آئی بی اور CPLC نے غلام مصطفے اور زوہیب کی نشاندہی پر پہلے شیراز کے بھائی کو اٹھایا، اور پھر بھائی کی نشاندہی پر شیراز کو گلستان جوہر سے 13 فروری کو اٹھایا. دلچسپی اور شوق سے اگر کام کیا جائے تو اللہ پاک کی غیبی مدد بھی شامل ہوتی ہے. شیراز نے دوران انٹروگیشن آئی بی اور CPLC کو بتایا کہ واقعے والی رات بات کرتے کرتے ارمغان طیش میں آگیا اور ایک راڈ مصطفےا کو دے مارا. راڈ لگنے سے مصطفے زخمی ہوگیا، دیکھتے دیکھتے ارمغان نے پاس پڑی ہوئی رائفل اُٹھائی اور مصطفے پر چار فائر کردیے. اس کے بعد ارمغان اور شیراز نے مصطفے کے ہاتھ، پیر اور منہ پر ٹیپ لگائی اور اسے اٹھاکر اسی کی کار کی ڈگی میں ڈال دیا. مصطفے اس وقت زندہ تھا. ارمغان اور شیراز نے مصطفے کی کار بنگلے سے نکالی. کار میں بیٹھنے سے پہلے ارمغان نے اپنے گھر کے جنریٹر سے، جو پٹرول پر چلتا ہے، پٹرول سے بھرا ہوا ایک کین بھی کار کی پچھلی سیٹ پر رکھ دیا. ارمغان کار ڈرائیو کرنے لگا. یہ لوگ ماڑی پور سے ہوتے ہوئے حب پہنچے. حب سے آرسی ڈی ہائی وے سے ہوتے ہوئے جب یہ لوگ دریجی پہنچے تو سامنے روڈ کے ساتھ دریجی تھانہ، اور کچھ پولیس والے سڑک پر کھڑے نظر آئے، ارمغان نے کار واپس لے لی اور کچھ آگے جاکر کار کو روڈ سے نیچے اتار لیا. ارمغان اور شیراز کو خوف تھا کہ کار سے ہمارے فنگر پرنٹ وغیرہ نہ مل جائیں. انھوں نے کین سے کار کے اندر, بانٹ کھول کر انجن پر اور باہر ٹائروں پر پٹرول ڈالا اور کار کو آگ لگادی. مصطفے کار کی ڈگی میں اس وقت زندہ تھا.

    کراچی سے بلوچستان کا شہر دریجی 130 کلومیٹر دور ہے. یہ دونوں پیدل واپس کراچی کی طرف چل پڑے. رات کو اس سڑک پر کوئی ٹریفک نہیں چلتا. یہ لوگ تین گھنٹے تک پیدل چلتے رہے. انھیں پٹرول پمپ پر ایک ہوٹل نظر آیا، دونوں نے ہوٹل سے کھانا کھایا. ہوٹل والوں نے انھیں بتایا کہ صبح 8 بجے ایک بس کراچی جاتی ہے. یہ دونوں ہوٹل کے ساتھ بنی ہوئی مسجد میں سوگئے. صبح بس نہیں آئی تو ان لوگوں نے ایک سوزوکی والے کو دوہزار دیے، جس نے ان کو 4K چورنگی پر اتارا، بعد انھوں نے رکشہ اور Uber استعمال کی. دوسرے دن ارمغان فلائٹ لے کر اسلام آباد ، اور وہاں سے اسکردو چلا گیا. پروگرام کے مطابق شیراز پہلے لاہور پہنچا، وہاں سے اسلام آباد، اور پھر وہ بھی اسکردو پہنچ گیا. یہ دونوں اسکردو میں رہتے رہے اور کراچی سے خبریں لیتے رہے کہ وہاں ان پر کوئی شک نہیں کررہا اور نہ پولیس ان کے گھروں پر آئی. دونوں نے مطمئن ہوکر واپسی کا پروگرام بنایا. 28 جنوری کو شیراز کراچی پہنچا اور مصطفے کی گمشدگی کے متعلق سن گن لیتا رہا. پھر اس نے واٹس ایپ پر ارمغان کو گرین سگنل دیا کہ وہ بھی واپس آجائے. ان پر کسی کو شک نہیں. اس طرح ارمغان بھی 5 فروری کو واپس کراچی پہنچ گیا. ارمغان، شیراز کو اپنے ساتھ اس لیے رکھتا تھا کہ ارمغان کے لیے کرمنل ریکارڈ کی وجہ ہوٹل میں رہنا مشکل تھا، اس لیے وہ شیراز کو اپنے ساتھ رکھتا، اور ہر ہوٹل میں شیراز کے نام پر کمرہ لیتا رہا. اگر ڈیفنس پولیس کوشش کرتی تو ارمغان اور شیراز 7 جنوری کو ہی گرفتار ہوسکتے تھے، مگر المیہ یہ ہے کہ تفتیش نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں ہے .

    وفاقی حکومت نے FWO سے سندھ پولیس کو (ANPR) سمارٹ کیمرا سسٹم لگا کر دیا ہے، جو CPO میں ایک خاتون تبسم عباسی صاحبہ کے ہاتھوں ہے. تبسم صاحبہ CPO میں ڈائریکٹر IT ہیں. مصطفے کی والدہ 6 جنوری سے روتی پھر رہی تھیں. ڈیفنس پولیس نے صرف CPO جانا تھا، اور کار کا نمبر ANPR سسٹم میں ڈالنا تھا, ANPR سسٹم اتنا سمارٹ اور AIسے Integrated ہے کہ وہ چند سیکنڈز میں کار نمبر (AQP-165) کا پورا 6 ماہ کا Log اسکرین پر لے آتا. اب آپ صرف 6 جنوری سے کار کا Log چیک کریں تو ڈیفنس سے حب ٹول پلازہ تک آپ کو پتہ چل جاتا کہ کار کون ڈرائیو کررہا تھا ؟ کار کی کہاں کہاں کیا اسپیڈ رہی؟ ڈرائیور نے Seat Belt باندھا ہوا ہے یا نہیں؟ ڈرائیور نے کہاں کہاں ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون استعمال کیا ؟ مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایک تو پولیس CPO تک گئی نہیں، اور دوسرا اگر جاتی بھی تو تبسم عباسی صاحبہ نے کون سا ان کو ڈیٹا نکال کر دینا تھا. آئی جی صاحب کو چاہیے کہ فی الفور سندھ کے سارے تھانوں/ ڈی ایس پیز/ ایس ایس پیز / سارے Units / CPLC کو ANPR سسٹم کا Excess دلوائیں تاکہ اس جدید سسٹم سے فائدہ ٹھایا جاسکے، ملزمان کو گرفتار بھی کیا جاسکے اور ان کے خلاف ANPR کی وڈیوز عدالت میں شہادت کے طور پر استعمال بھی کی جاسکیں. یہ کالم لکھنے سے پہلے میری متعلقہ ایس ایس پی جناب علی حسن صاحب سے بات ہوئی کہ جب ANPR سسٹم فعال ہے تو آپ نے مصطفے کی والدہ کے درد کا مداوا کیوں نہیں کیا ؟؟؟؟ علی حسن صاحب نے بتایا کہ ہم نے پہلے ہی دن ANPR والوں کو خط لکھ دیا تھا، مگر میڈم تبسم عباسی نے آج تک خط کا جواب نہیں دیا.

    اب عدالت کےلیے ایک مضبوط کیس بنانے کا مرحلہ ہے. میرے آرٹیکل کے بعد پولیس حکام نے مصطفے کیس کی تفیش SIU میں ٹرانسفر کردی ہے- تفتیش کا پہلا مراحلہ جو Avcc کے ایس ایس پی سے حل نہ ہوسکا، اب تفتیش کا دوسرا مرحلہ SIU کے ایس ایس پی شعب میمن سے بھی حل نہیں ہوگا. جناب عثمان غنی صدیقی صاحب ڈی آئی جی ایسٹ ہیں، جب اے ایس پی تھے تو اس وقت Avcc اور بعد میں دوبار ایس ایس پی Avcc رہے ہیں.ان کے ہوتے ہوئی کسی اور افسر یا ادارے کو کیس دینے کی ضرورت ہی نہیں. عثمان غنی صدیقی صاحب نے شاہ رُخ جتوئی کیس میں شاہ رُخ کے علاوہ سارے ملزمان گرفتار کیے تھے. وہ کیس کا دوسرا مرحلہ بڑی خوش اسلوبی سے حل کرلیں گے. باقی موجودہ ڈی آئی جی CIA مقدس حیدر صاحب پراس کیس میں اعتبار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ “ انتظار احمد قتل کیس “ میں مقدس حیدر صاحب کا اپنا ذاتی سرکاری پسٹل استعمال ہوا تھا، اور انتظار احمد قتل کیس کے تانے بانے آخر میں جاکر ملزم ارمغان سے ملتے ہیں. کیا کیا لکھا جائے ، کبھی کبھی دماغ پھٹنے لگتا ہے. دوسرا آپشن ڈی آئی جی ناصر آفتاب صاحب، ایس ایس پی عرفان سموں صاحب، امجد شیخ صاحب، تنویر تنیو صاحب، سنگھار ملک صاحب، زبیر شیخ صاحب ہیں .

    مرحوم مصفطےامیر کی جلی ہوئی لاش کی تصویریں اور ویڈیوز دیکھنی کی مجھے ہمت نہیں ہورہی. اگر والدہ دیکھیں توان کا کلیجہ پھٹ جائے گا. وہ بیچاری پہلی ہی سے بُہت رنجیدہ ہیں، ان پر آخر کیا گزرے گی؟

    (نیاز احمد کھوسہ سابق ڈی آئی جی پولیس ہیں)

  • کراچی میں ڈمپر گردی کے واقعات کیوں؟ سعیداللہ

    کراچی میں ڈمپر گردی کے واقعات کیوں؟ سعیداللہ

    پاکستان مرکزی مسلم لیگ کو قومی سیاست میں داخل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن اپنے فلاحی منصوبوں اور حال ہی میں دریائے سندھ کے بندر بانٹ سمیت صوبہ سندھ میں جاری لا قانونیت کے خلاف حقوق سندھ مارچ کرنے کے بعد وہ تیزی سے عوامی توجہ حاصل کر رہی ہے. پارٹی کی گذشتہ کچھ عرصے سے جاری سر گرمیوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ ایک طرف حالات کے جبر کے سامنے بے بس اور مایوس نوجوانوں کو مختلف منصوبوں کے ذریعے امید دلا کر نہ صرف انھیں کار آمد شہری بنا کر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی ہے بلکہ اس کام کے ذریعے وہ حکومت کا ہاتھ بھی بٹھا رہی ہے۔ مرکزی مسلم لیگ مختلف عوامی ایشوز پر اپنا موقف مختلف شکلوں میں سامنے لاتی رہتی ہے۔

    کراچی میں پے در پے ٹریفک حادثات بالخصوص ڈمپرز کی ٹکر سے بڑھتے ہوئے انسانی جانوں کی ضیاع پر پارٹی نے گذشتہ روز کراچی پریس کلب پر احتجاج ریکارڈ کرایا جسے ڈمپر مافیا کو لگام دو کا نام دیا گیا۔ یہ احتجاج اگرچہ وقت کی ضرورت ہے کہ انسانی جانوں کو یونہی بے لگام ڈمپرز کے سامنے ضائع ہونے کے لیے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ میں مگر اس احتجاج میں نوٹ کیے گئے کچھ نکات پر بات کرنا چاہتا ہوں۔

    *مرکزی مسلم لیگ نے اس احتجاج کے لیے جو نعرہ دیا وہ تھا۔۔۔وہ تھا ڈمپر مافیا کو لگام دو۔
    مافیا کی اگر ہم مختصرا تعریف کریں تو وہ کچھ یوں بنتا ہے۔
    وہ گروہ جو منظم طور پر کسی غیر قانونی و غیر اخلاقی کام میں ملوث ہو۔۔۔ اپنے غیر قانونی دھندے کو تحفظ اور عروج دینے کے لیے وہ قانون کو خاطر میں نا لاتا ہو بلکہ سسٹم میں موجود کالی بھیڑیوں کے ذریعے اسے خریدنے کی کوشش کر رہا ہو۔۔۔۔عام عوام کو خاطر میں نا لانا اور ان کو مالی و جانی نقصان پہنچانے پر فخر کرنا کسی بھی مافیا کے لیے قابل فخر ہوتا ہے۔

    ڈمپر والے مافیا کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں میرے خیال میں اس پر ابھی مزید بحث ہونی چاہیے. کوئی اگر یہاں پر یہ پوائنٹ اٹھاتا ہے کہ کراچی کے زمین اور پہاڑیوں سے بعض دفعہ جو ریتی، بجری چوری چھپے نکالا جاتا ہے تو وہ انہی ڈمپروں کے ذریعے سپلائی ہوتی ہے تو پھر کیوں نا ان کو ڈمپر مافیا کہا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے کے بھی مختلف پہلو ہیں۔ مثلا: ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آیا ریتی بجری نکالنے کا کام وہ خود کر رہے ہیں یا وہ محض سپلائر یا بڑے سپلائرز کے ساتھ محض کام کرنے والے ہیں؟ اگر تو وہ اس کام میں خود ملوث ہیں تو پھر بے شک آپ انہیں مافیا کا نام دیجیے لیکن یہ نام دینے سے پہلے یہ بھی دیکھیے کہ اس کام میں سسٹم ان کا کس حد تک مدد گار ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہر شہر کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں مثلا: پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے ماحول کے لیے نقصان دہ تصور کیے جائیں گے لیکن کہیں پر اس کے برعکس یہ ترقی کے ضامن بن جاتے ہیں۔

    کراچی چونکہ ایک صنعتی شہر ہے اس لیے یہاں پر تعمیراتی صنعت کا پھلنا پھولنا شہر کی ترقی کے لیے اہم تصور کیا جائے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان تعمیرات میں استعمال ہونے والی اشیاء میں ریتی بجری دو اہم اور لازم جز ہیں۔ اس کو آپ روک نہیں سکتے کیونکہ اس کو روکنے کا مطلب ہوگا شہر کی ترقی کو روکنا۔ ترقی کی دنیا میں چین ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور بی بی سی کے ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ریت کی کل طلب کا بیس فیصد حصہ چین کو جاتا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک چلتے ہوئے کان سے ریتی بجری نکالنے پر اچانک کیوں ایک محدود مدت تک کے لیے پابندی لگائی جاتی ہے اور اس دوران وہاں پر ہر قسم کی ایکٹیویٹی غیر قانونی تصور کی جاتی ہے؟ جواب اگر ماحولیات کا تحفظ یقینی بنانا ہے تو کیا متعلقہ لوگ ماحولیات سے جڑے دیگر پہلوو کو درست کرچکے ہیں یا یہ بھی کہیں پیسہ بنانے کا نیا طریقہ تو نہیں۔

    جہاں تک بات ہے ڈمپرز کی وجہ سے حادثات کا بڑھ جانا تو یہ ایک افسوس ناک صورت حال ہے جو کہ فوری توجہ کا متقاضی ہے لیکن ان کے حادثات کے بعد پوری کمیونٹی کو نشانے پر لینا اور انہیں اسی تناظر میں مافیا کہنا میرے خیال میں مناسب نہیں اور اس کی چند وجوہات ہیں مثلا:

    *جب کوئی ڈرائیور ڈمپر یا کسی بھی گاڑی کے مالک کے پاس نوکری کرنے کی غرض سے جاتا ہے تو نا صرف ان کا ڈرائیونگ لائسنس چیک کیا جاتا ہے بلکہ ان سے ٹرائی بھی لیا جاتا ہے۔ اگر کار آمد لائسنس کے ساتھ وہ ڈرائونگ ٹیسٹ پاس کر لیتا ہے تو ہی انہیں کام دیا جاتا ہے۔ کسی بھی گاڑی کا مالک کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ ڈرائیور ٹریفک رولز کو نظر انداز کرکے گاڑی سڑکوں پر بے مہار دوڑائے کیونکہ کسی بھی حادثے کی صورت میں ان کی گاڑی کا نظر آتش ہوجانا یقینی ہے۔۔۔بالفرض ان کی گاڑی کو کسی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر تھانے منتقل کر بھی دیا جاتا ہے تو بھی لاکھوں کا ٹیکہ گاڑی کے مالک کو لگنا یقینی ہے۔ ایسے میں وہ کیوں چاہے گا کہ ان کا ڈرائیور ٹریفک وائلیشن کرکے ان کی روزی روٹی کو لات مارے۔ اسی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ ڈمپر چلانے کے کاروبار سے وابستہ افراد کو مافیا یا دہشت گرد کہنا مناسب نہیں۔

    اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ آخر اتنے بڑے پیمانے پر شہری بڑی گاڑیوں کا نشانہ بن کر زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں؟
    بنیادی طور پر اس کی کئی وجوہات ہیں مثلا:
    *ٹریفک قوانین کا علم نا ہونا
    *وقت کی قلت یا جلد بازی
    *رشوت ستانی

    پاکستان بھر لیکن کراچی میں بالخصوص ہم دیکھتے کہ بیشتر ڈرائیورز اور موٹر سائیکل سواروں کو ٹریفک قوانین کا علم نہیں ہوتا اور جن کو علم ہوتا بھی ہے۔۔۔دوسروں کی دیکھا دیکھی میں وہ بھی رولز کو فالو کرنا لازمی نہیں سمجھتے۔ مثال کے طور پر شہر قائد میں بیشتر افراد کو یہ نہیں معلوم کہ سڑک پر مختلف لائنیں بنانے کا مقصد کیا ہے اور کس کو کب اور کونسا لائن استعمال کرنا چاہیے۔ موٹر سائیکل سواروں کی اکثریت سائڈ ویوو مرر کا استعمال نہیں کرتی، ہیلمٹ کو پہننا ضروری نہیں سمجھتے بیک لائٹ اکثریت کی خراب ہوتی اور لائن کی بار بار تبدیلی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔۔۔لائن کی بار بار تبدیلی LTV اور Htv والے بھی دھڑلے سے کرتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ موٹر سائیکل سواروں اور کار سواروں کو یہ درپیش ہیں کہ وہ بلائنڈ اسپاٹ ایریا کا خیال نہیں رکھتے بلکہ بیشتر کو اس حوالے سے معلوم بھی نہیں کہ آخر یہ بلائنڈ اسپاٹ ہے کیا؟

    جلد بازی: شہر قائد میں چونکہ زندگی کا دوڑ بہت تیز ہیں۔۔۔مصروفیات بے تحاشہ اور ملازمت کرنے کی جگہوں پر اوقات کار زیادہ ہیں۔۔۔اس لیے ہر بندے کی یہی خواہش و کوشش ہوتی ہے وہ جلد از جلد منزل مقصود پر پہنچ جائے۔۔۔جلد بازی میں بعض دفعہ کی جانے والی غلطیاں حادثات کا سبب بن جاتی ہیں۔
    رشوت خوری: کراچی میں رشوت خوری کا بازار کس قدر گرم ہیں۔۔۔یہ اس شہر کا ہر بندہ جانتا ہے۔ بالخصوص گاڑی چلانے والے ڈرائیورز اور بائیک چلانے والے رائیڈرز کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرتے وقت پکڑے جانے کی صورت میں معمولی عوض کے بدلے ان کی جاں خلاصی ہو سکتی ہے۔

    بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کا ایک ممکنہ وجہ بعض ڈرائیورز کی جانب سے منشیات کا استعمال اور اوقات کار کی زیادتی بھی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب مسائل کا تدارک کس کی ذمہ داری ہے؟ تو اس بات کا جواب بھلا اس کے سواء اور کیا ہوسکتا ہے کہ یہ ذمہ داری ان محکموں کی ہے جو اسی بات کی بھاری تنخواہیں لے رہے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مرکزی مسلم لیگ کا سندھ حکومت کو اس صورتِ حال کا ذمہ دار قرار دینا تو بنتا ہے اور ان کی جانب سے حکومتی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش قابل ستائش ہیں لیکن ڈمپرز کے کاروبار سے وابستہ افراد کو مافیا اور دہشت گرد قرار دینا درست نہیں۔ یہ اس لیے بھی کہ کراچی کا ایک مخصوص سیاسی پس منظر ہیں۔ لسانی جماعتوں کو اپنے مخصوص سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے بزور طاقت و قوت والے بیانات دینے کی ضرورت تو پیش آ سکتی ہے کہ انتشار ہی میں ان کی بقاء مضمر ہے لیکن ان جماعتوں کو محتاط رویہ اپنانا چاہیے جو اپنے فلاحی منصوبوں اور خدمت خلق کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔