Tag: ماحول

  • بڑا مقام پانے کے لیے، بڑا ہدف اور بڑی دشمنی کی ضرورت ہوتی ہے – عبدالعلام زیدی

    بڑا مقام پانے کے لیے، بڑا ہدف اور بڑی دشمنی کی ضرورت ہوتی ہے – عبدالعلام زیدی

    دشمنی کی طاقت وہ کچھ کروا سکتی ہے ، کہ جس پر انسان دنگ رہ جاتا ہے ۔ دشمنی کا ہونا کوئی غلط چیز نہیں ہے …۔ ہاں دشمنی کی بنیاد پر منحصر ہے کہ آیا وہ حق ہے یا باطل دنیا میں انہی قوتوں نے حکمرانی کی ہے کہ جنہوں نے بڑا نظریہ رکھا اور اسی نظریہ کی بنیاد پر انہیں بڑے دشمنوں سے دشمنی کا سامنا کرنا ہوا ۔

    یہ اسلام جو فارس سے لے کر روم تک ، شام سے لے کر کابل تک پھیلا تھا ، یہ اسی بڑے نظریہ کی بنیاد پر تھا کہ یہ زمین خدا کی ہے اور اس پر حکم بھی خدا کا چلے گا ۔ اسی بنیاد پر اس زمین کے سارے جھوٹے خداؤں سے ٹکر لی گئی تھی اور خدا کا نام بلند کیا گیا تھا ۔ کفر سے دشمنی کی اسی طاقت نے ہمیں وقت کی ٹیکنالوجی کا ماہر بنایا ، اور علم ہنر کی امامت سے نوازا ، کہیں ہم صلیبیوں سے ٹکراتے دکھائی دیے اور کہیں ، کسی اور ایمپائر کو زمین بوس کرتے نظر آئے ۔

    آج کا ہندوستان اور اسرائیل ، جو عالم اسلام کے ساتھ پنجہ آزما ہیں ، ان کی طاقت بھی دشمنی کی طاقت ہے ، ان کی قوت ایک ملک اور وطن جیسی چھوٹی سی چیز نہیں ہے ۔یہ گریٹر اسرائیل اور آگے چل کرمسیح ( دجال ) کا انتظار کرتے ہوئے دنیا پر حکمرانی چاہتے ہیں ۔ اسی طرح آج کا بھارت، اکھنڈ ہندوستان کی بات کرتے ہوئےوطنوں کی سرحدیں توڑنے کی باتیں کرتا ہے ۔آج پاکستان کو پھر سے اپنے بانی اور قائد کے پیغام اور مقصدِ جدوجھد کی طرف لوٹنا ہو گا جو ایک بہت بڑا مقصد اور نظریہ دے کر گئے ۔

    پاکستان کا مطلب کیا ؟
    لا الہ الااللہ !

    یہ نعرہ کوئی چکر بازی نہیں تھی ، نہ ہی یہ مسلمانوں سے قربانی لینے کا کوئی بہانہ تھا ۔ یہ واقعی ایک مقصد کو واضح کرتا بیانیہ تھا ۔ نظریہ پاکستان، ایک بہت بڑی جدوجہد کا اعلان ہے ، یہ کفر و شرک سے اعلان جنگ ہے ، یہ دنیا کی ساری طاقتوں کے سامنے اپنی طاقت منوانے کی بنیاد ہے ۔ یہ ساری امت کی محبتوں کو سمیٹنے کی اساس ہے ، یہ کلمہ بتاتا ہے کہ پاکستان کا ہر مسلمان، دنیا بھر کے ہر مسلمان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے ، ان کی مدد کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہے ۔

    حالیہ پاک بھارت جنگ نے ایک بار ہمیں پھر سے موقع دیا ہے کہ ہم اس نظریے کو زندگی دیں ۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ کی گونج سے ہر بت کو پاش پاش کر دیں۔ ٹیکنالوجی کو عبادت سمجھ کر حاصل کرنے کی جانب لپکیں ، غزہ کے مظلوموں کے درد کو اپنا درد سمجھیں ، وطنیت ، قومیت ، صوبائیت کے کنوؤں سے نکل کر لا الہ الااللہ کے پاکیزہ سمندر میں غوطہ زن ہوں ۔

    بتوں کے پجاریوں کی یہ دشمنی بڑی مبارک ہے ، یہ رہے گی تو اتحاد رہے گا ، اسے بھول گئے تو پھر ہم آپس میں دست و گریباں ہوں گے تو کشمیر و فلسطین میں ، گجرات و احمد آباد میں بھارت کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والوں کی نفرت کی یہ آگ بجھ نہ پائے ۔نظریہ پاکستان کو بھلانے کی لبرلز کی اب کوئی کاوش کامیاب نہ ہو سکے ۔عوام اور ملک کے اداروں کے درمیان سیاست کی بنیاد پر نفرتیں، فاصلے بڑھ نہ پائیں ۔ آئیے عزم کریں کہ دشمن پر نگاہ رکھیں گے ۔

    اپنوں کی اصلاح کریں گے ، ملک کو اسلام کا گہوارہ بنائیں گے ، توحید کو مضبوط کریں گے ، شرک کی بیخ کنی کریں گے ، سود ، بدکاری کے راستے روکیں گے اور ساتھ ساتھ اپنے ملک کا دفاع کریں گے اور اسے امت مسلمہ کا بیس کیمپ بنائیں گے جیسا کہ قائد نے کہا تھا کہ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہو گا ۔

    دشمنی کو صحیح رخ دینے اور اس کا صحیح فایدہ اٹھانے کا یہ بہترین وقت ہے ، دعا ہے کہ رب تعالیٰ ہمارے اتفاق و اتحاد کو مضبوط بنائے اور ہمیں دشمن کے مقابلے پر اس سے بڑھ کر تیاری کرنے کی توفیق دے ۔ امت عبد القدیر خان کی راہیں تک رہی ہے اور یقینا پاکستان ایسے ہیروں کو وجود دیتا رہے گا ۔ ان شاءاللہ ۔

    اے خدا اس وطن کی حفاظت فرما ۔ بے شک یہ امت کا ایک بہترین محاذ اور گھر ہے ۔آمین

  • متعلقین تنظیم اساتذہ پاکستان سے توقعات – ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

    متعلقین تنظیم اساتذہ پاکستان سے توقعات – ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

    ایک زمانے میں وفاقی شرعی عدالت کا دوسرا نام جسٹس فدا محمد خان ہوا کرتا تھا۔ ممکن ہی نہیں تھا کہ اس عدالت کا ذکر آئے اور جسٹس صاحب مرحوم کا ذکر نہ ہو۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ لازم و ملزوم تنظیم اساتذہ پاکستان اور ہمارے محترم نصیر الدین ہمایوں سابق سیکریٹری جنرل تنظیم اساتذہ پاکستان ہوا کرتے تھے جب کبھی وہ مسکراتے کمرے میں داخل ہوتے تو حاضرین مجلس کے چہرے پر بشاشت آجاتی:

    “لو جی! تنظیم اساتذہ پاکستان کی آمد آمد ہے.”
    ہمایوں صاحب ہمیں گلے لگاتے اور پھر ہم سب کی باتیں سنتے اور مسکراتے رہتے۔ میں ان دنوں استاد نہیں تھا بلکہ اسلامی یونیورسٹی میں میری پڑھائی کے ایام کی بات ہے۔ کبھی وہ ہوسٹل میں آتے۔ رات گزار کر صبح اگلی کسی منزل کو چل پڑتے۔ عمروں میں کافی فرق کے باوجود ہم طلباء کے ساتھ یوں گھل مل جاتے کہ گویا ہم ہی میں سے ہیں۔

    گرما کی تعطیلات میرے لیے مسئلہ بن جاتی تھیں چھوٹی سی یونیورسٹی، اپنے وسائل محدود، ہوسٹل بند، طعام گاہ مقفل،
    آبائی گھر دوسرے قصبے میں، چھٹیوں کے تین ماہ قیام کروں تو کہاں؟ تنظیم کے صوبائی صدر، مرحوم پروفیسر مقصود پرنسپل گارڈن کالج کو معلوم ہوا تو انہوں نے ہمایوں صاحب سے بات کی۔ ضرورت تو نہیں تھی لیکن تب کے یہ منارہ ہائے نور حفظ مراتب اور روایات کے امین تھے وہ خود فیصلہ کر سکتے تھے کہ انہیں اختیار تھا اور ہمایوں صاحب نے کیا کہنا تھا وہ بھی ہنس کر بولے:
    “اچھا ہے, پنڈی میں میرے قیام کے دوران میں کسی سے گپ شپ تو رہا کرے گی”۔

    یوں میں نے تین سال (جون تا اگست) راولپنڈی کی الاکرام بلڈنگ کی چوتھی منزل میں وہاں گزارے جو تنظیم اساتذہ کا دفتر تھا،کمرہ کیا تھا، دو الماریوں کی لائبریری، لکھنے پڑھنے کی میز کرسی، تین چار اضافی کرسیاں یہ کائنات ایک موٹے قالین کے اوپر تھی۔ رات کو “لائبریری” کے اوپر سے گدا اتار کر میں اسے فرش پر بستر بنا لیتا۔ کبھی ہمایوں صاحب کا قیام ہوتا تو گدا عمودی کی بجائے افقی رخ اختیار کر لیتا۔ یوں ہم دونوں کی ٹانگیں گدے سے بے نیاز قالین پر جھولتی رہتیں۔ حدیث محرم راز خالق کائنات کے بموجب ایک کھانا دو مومنوں کے لئے کافی ہے۔ یوں مجھے فقہ اسلامی پڑھتے پڑھتے قیاس کا عملی تجربہ حاصل ہوا۔

    ایک کھانا دو کے لیے کافی ہے تو قیاس کا تقاضا ہے کہ ایک بستر بھی دو مومنین کے لئے کافی ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ عہد حاضر کے جملہ مجتہدین میرے اس قیاسی اجتہاد کو قبول کرکے اسے اجماع کی سند جواز بخشیں گے۔ تنظیم اساتذہ کے اولین سیکرٹری جنرل پروفیسر عطاء اللہ چوہدری تب منصورہ میں افغان مجاہدین کے افغان سرجیکل اسپتال کے منتظم تھے۔ میرا لاہور جانا ہوتا تو قیام وہیں ہوتا۔ اب مخمصہ یہ ہے کہ چوہدری صاحب کو تنظیم اساتذہ کے زمرے میں ڈالوں یا انہیں جماعت اسلامی کا کارکن گنوں اقربا پروری کا تقاضا ہے کہ میں انہیں تنظیم اساتذہ کا فرد شمار کروں کہ میں خود استاد ہوں۔

    وہ پنڈی آتے تو ہر دلعزیز اتنے کہ انہیں رات کو کہیں قیام کرنے کا سوچنا ہی نہیں پڑا ہوگا۔ لیکن پھر بھی کبھی ٹٹولنے کی خاطر اور کا ہے ربط و ضبط ملت بیضا کے مصداق وہ دو ایک دفعہ میری اس قیام گاہ میں ٹھہرے۔ ان کی آمد میرے لیے جمع بین الصلاتین کی طرح جمع بین العیدین ہو جاتی کہ بہت سے دیگر احباب جمع ہو جاتے تھے۔ پروفیسر صاحب کا نامہ اعمال اللہ کریم نے اگر میدان محشر میں عام کر دیا تو لوگ رشک کریں گے۔ صرف صدقہ کی ایک مد میں وہ بہت سے کھرب پتی صدقہ داروں سے بھی آگے ہوں گے۔ محرم راز خالق کائنات نے مسکراہٹ کو بھی تو صدقہ قرار دیا تھا۔

    پڑھائی کے چار سال پورے ہوئے تو مرحوم پروفیسر مقصود صاحب ایک دفعہ پھر میدان عمل میں تھے: “شہزاد! بیگم کل درس قرآن میں گئیں تو فلاں لڑکی کو انہوں نے آپ کے لیے پسند کر لیا. کیا خیال ہے”؟ پروفیسر مقصود صاحب دراصل ہمارے قصبے کے کالج میں پروفیسر تھے۔ جب کبھی راولپنڈی اپنے آبائی گھر جاتے تو گھر کی رکھوالی ہم پانچ چھ دوستوں کے ذمہ ہوتی تھی جہاں ہم چپل کباب کی محفل جماتے یوں مقصود صاحب سے ان کے تادمِ رحلت تعلق رہا، ان کی بیگم کی پہلی کوشش کامیاب نہ ہوئی تو انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اللہ کریم کی پھیلائی اس کارگاہ حیات کے تانے بانے میں ان کی بنت نہ چل سکی لیکن دونوں جنتی ارواح نے نیت اور عمل کا ثواب تو کما ہی لیا۔

    مشتاق یوسفی نے کہیں لکھا ہے نا کہ جب کوئی ماضی سے آسودگی حاصل کرنا شروع کر دے تو سمجھ لو، بوڑھا ہوگیا ہے۔چلیے یوں ہی سہی یوسفی لکھنے سے پہلے مجھ سے مل لیتے تو یقیناً عبارت بدل دیتے، ماضی کے اس تذکرے کا مقصد آسودگی کا حصول نہیں بلکہ میں لاشعوری طور پر تنظیم اساتذہ کے آج کے افراد کو بھی شاید ویسا ہی دیکھنا چاہتا ہوں۔ تنظیم اساتذہ کے یہ تین معززین وہ ہیں جن سے میرا تعلق مقابلتاً زیادہ رہا، ورنہ اس عہد کا ہر فرد لگتا تھا کہ ایک ہی سانچے سے نکلا ہوا ہے، اور اسی سانچے سے روز دھل کر نکلتا ہے چند الفاظ میں ان لازوال کرداروں کو سمونا چاہوں تو انسان دوست، مثل باپ، ہمدرد، غمگسار، طلباء کے مسائل کے کھوجی، تربیتی سراغرساں اور ان جیسی متعدد دیگر کیفیات ذہن میں جھلملانے لگتی ہیں۔

    میرے ذہن میں تنظیم اساتذہ کا ایک تاثر ہے کہ اس کا کام چند جامعات کو چھوڑ کر بہت سی اہم جامعات میں نہیں پھیل سکا۔ اس کا زیادہ تر کام کالجوں اور اسکولوں میں رہا ہے۔ میں تنظیم اساتذہ کے آج کے افراد اور عہدے داروں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا۔ خوش گمانی تو یہ ہے کہ اس سانچے میں ڈھلے آج کے افراد کو میں ویسا ہی سمجھوں۔ میں یہی کرتا ہوں اور گمان کرتا ہوں کہ تنظیم اساتذہ پاکستان میں پروفیسر عطاء اللہ چوہدری، پروفیسر مقصود احمد مرحوم اور پروفیسر نصیر الدین ہمایوں کے نت نئے اور مزید خوبیوں سے مزین ایڈیشن بھی متعارف ہوتے رہے ہوں گے، اب بھی موجود ہوں گے اور آئندہ بھی قحط الرجال نہیں ہوگا۔

    اگر میری یہ خوش گمانی بجانب بحق ہے تو الحمدللہ! اس کا سراغ لگانے کو کسی تحقیقاتی کمیشن کی حاجت نہیں ہے. یہ لکھ کر دراصل میں اپنا جائزہ لے رہا ہوں کہ تنظیم اساتذہ نے جو مجھے دیا ہے، کیا میں نے اپنے طلبا کو لوٹایا۔ یہ امید بھی ہے کہ میری پیروی نہ سہی لیکن یہ توقع تو کر سکتا ہوں کہ آج کی تنظیم اساتذہ کے جملہ متعلقین میرے ان تین ممدوحین میں سے کم از کم کسی ایک جیسے تو ہوں۔

  • ماحولیاتی تبدیلیاں، ہم کیا کریں – علیشبہ فاروق

    ماحولیاتی تبدیلیاں، ہم کیا کریں – علیشبہ فاروق

    دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اور سائنس دانوں نے ایسا کہا ہے کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے اقدامات اٹھانے لازم ہو چکے ہیں۔ ماحولیاتی آگاہی سے مراد وہ شعور ہے جو افراد اور معاشرے کو ماحول کی حفاظت اور اس کے استحکام کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی دراصل ہوتی کیا ہے ؟
    کسی ایک علاقے کی اب و ہوا اس کے کئی سالوں کے موسم کا اوسط ہوتی ہے ماحولیاتی تبدیلی اس اوسط میں تبدیلی کو کہتے ہیں ۔

    انسان اپنی ضروریات پوری کرتے ہوۓ فطرت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہماری زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور عالمی درجہ حرارت بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ آب و ہوا میں تو ہمیشہ سے قدرتی تغیرات ہی ہوتے ہیں لیکن انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے اب عالمی درجہ حرارت بھر رہا ہے ،اور ہماری زمین بہت بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے۔ ماضی میں تو لوگ تیل ،گیس اور کوئلے کا استعمال کرتے تھے۔ تب سے دنیا میں تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرمی ہوئی ہے ۔ان سب کا استعمال بجلی کے کار خانوں، ٹرانسپورٹ اور گھروں کو گرم کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ فضا میں ایک گرین ہاؤس گیس جو کاربن ڈائی اکسائیڈ ہے اس کی مقدار 19سویں صدی کے بعد سے تقریباً 50 فیصد اور گزشتہ دو دہائیوں سے اس میں 12 فیصد مزید اضافہ ہو چکا ہے ۔گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کی وجہ جنگلات کی کٹائی، درختوں کا نہ اگانا، درختوں کو جلایا جانا یہ سب تو عام ہو چکا ہے۔ ان میں کاربن کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ اور جب درخت نہیں ہوں گے تو اس کا اخراج تو ممکن ہو گا ہی۔

    ہر سال 3 مارچ کو جنگلی حیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اس دن کا مقصد دنیا بھر میں جنگلی جانوروں اور پودوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا اور ان کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ یہ دن 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے طے کیا گیا تھا اور اس کا مقصد جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کرنا ہے۔ بد قسمتی سے جنگلی حیات کو اج بہت سے خطرات کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے جلسوں ،جلوسوں ،مذاکروں، مظاہروں اور کانفرنسوں سے زیادہ مستقل بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلی کی تعلیم دینا بہت ضروری ہے ۔تاکہ تمام شعبہ جات میں کام کرنے والے اپنے ہنر اور تجربے کو حاصل کر تعلیم سے ہم آہنگ کر کے ہر سرگرمی کو موسمیاتی تقاضوں کے مطابق بنا سکیں۔ ہم سب جنگلی حیات کے تحفظ میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے گھروں کے اس پاس کے ماحول کو صاف رکھیں، جنگلات کی کٹائی کو روک کر اور غیر قانونی شکار کی حوصلہ شکنی کر کے جنگلی حیات کی مدد کریں۔

    اگر ہم مستقبل کی بات کریں تو سیاسی دانوں نے درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے کو گلو بل وارمنگ کے لیے محفوظ حد مقرر کیا ہے۔ اگر درجہ حرارت زیادہ ہو جائے تو قدرتی ماحول میں نقصان دہ تبدیلیاں انسانوں کی طرز زندگی کو تبدیل کریں گی۔ بہت سے سائنس دانوں کا یہ خیال ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو صدی کے اختتام تک 3 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ کہ اضافے کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے ۔دنیا کے مختلف ممالک سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ایسے اہداف اپنائیں جو ان کے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو اس صدی کے وسط تک سفر تک لے جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی اخراج مساوی مقدار جذب کر کے متوازن ہو جاۓ گا۔ مثال کے طور پر درخت لگانے کے ذرائع زیادہ کیے جائیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ یا سائیکل کا استعمال کر کے گاڑیوں پر انحصار کو کم کریں ،اپنے گھروں کو انسولیٹ کریں، ہوائی سفر کم کریں، پلاسٹک کے کم سے کم استعمال کو یقینی بنائیں۔

    ماحولیاتی تبدیلی اور بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بھی سخت ماحولیاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس اپنی پاک عرض سرزمین کو ماحولیاتی تحفظ فراہم کریں اور اس کے استحکام کے لیے جنگلات کا تحفظ بھی کریں۔ صحت مند اور قدرتی ماحول برقرار رکھنے کے لیے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہو گا۔ فضائی آلودگی کے علاوہ صاف پانی کی عدم دستیابی شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ عوام کو صاف پانی فراہم کیا جاۓ جس کی وجہ سے وہ بیماریوں سے بھی بچ سکیں۔

    ایک صحت مند ماحول ہماری صحت اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے درخت لگانے کی مہم کو جاری و ساری رکھنا چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں ہم اس ماحولیاتی آلودگی اور ماحولیاتی مشکلات کو ختم کر سکیں۔ ماحولیاتی آگاہی آج کے دور میں ناگزیر ہے، کیونکہ یہ نہ صرف ہمارے حال بلکہ مستقبل کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اگر ہم ابھی سے مؤثر اقدامات نہیں کریں گے تو ہماری آئندہ نسلوں کو ایک بگڑا ہوا ماحول ملے گا۔ ہم اپنی اگلی نسلوں کے لیے ایک صحت مند اور پائدار سیارہ چھوڑنے کے ذمہ دار ہیں۔ ماحولیاتی آگاہی ہمیں ایسے اقدامات کرنے کی ترغیب دیتی ہے جو ہمارے سیارے کے مستقبل کو محفوظ بنائیں ۔ اس لیے ہر فرد، معاشرہ، حکومت اور بین الاقو امی تنظیموں کو ماحول کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ زمین کو ایک محفوظ اور بہتر جگہ بنایا جا سکے۔

  • بچوں میں بڑھتا ہوا جارحانہ رویہ –  علیشبہ فاروق

    بچوں میں بڑھتا ہوا جارحانہ رویہ – علیشبہ فاروق

    اولاد اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے اور اس کی بہترین پرورش کرنا والدین کا اولین فرض ہے۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد نہ صرف ایک کامیاب انسان بنے ،بلکہ معاشرے کے لیے بھی ایک کرامت انسان ثابت ہو۔

    بعض اوقات بچوں کی تربیت کے دوران والدین بچوں کے کچھ روئیوں سے نالاں نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں جارحانہ رویہ جنم لیتا ہے ۔جس کی وجہ نے بد مزاجی، زبانی اور جسمانی جارحیت کا مظاہرہ ،چڑچڑا پن اور اپنے اوپر قابو نہ پانا اور بے چینی جیسی کیفیت شامل ہوتی ہیں۔ ان پیچیدہ روئیوں کی وجہ سے بچوں کے اندر پریشانی اور ڈپریشن بھی پایا جاتا ہے ۔ایسے بچے کسی بھی سرگرمی میں خوش نظر نہیں آتے۔ ان میں عزت نفس کی کمی ہو جاتی ہے کچھ بچوں میں بھوک اور نیند بھی متاثر نظر آتی ہے۔ اگر پیچیدہ رویے زیادہ شدت اختیار کر لیں تو بچوں کے ذہن میں خود کشی جیسے خیالات بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔

    بچوں میں جارحانہ رویے کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ جن میں ذہنی صحت کے مسائل نمایاں ہیں۔ اگر بچہ مستقل طور پر غصہ کرتا ہے ،چیزیں توڑتا ہے ،مار پیٹ کرتا ہے یا بد زبانی کرتا ہے تو اس کے پیچھے بھی عوامل ہو سکتے ہیں۔ تعلیمی دباؤ ،گھریلو مسائل، یا والدین کی لڑائی جھگڑے بچوں میں ذہنی تناؤ پیدا کرتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اگر بچے کو پیار، توجہ یا تسلی نہ ملے تو وہ اپنے جذبات کو جارحیت کے ذریعے ظاہر کرتا ہے ۔اگر بچہ ایک ایسے ماحول میں پرورش پا رہا ہے جہاں تشدد عام ہے تو وہ بھی اس کو اپنانے لگتا ہے ،اور اس کو اپنے مسائل کا حل صرف اور صرف تشدد کے ذریعے حل کرنا ہی نظر آتا ہے ۔اس کی وجہ سے ڈپریشن، انیگزائٹی اور دیگر ذہنی بیماریاں بھی بچوں میں شامل ہو سکتی ہیں۔

    ان سب کے ساتھ ساتھ والدین اپنے بہت سے معاشی مسائل میں گھرے ہوتے ہیں ۔بچوں میں ایسے رویہ اختیار کرنے کی ایک وجہ ان کے سماجی مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔ جب بچے دوسرے بچوں کو اپنی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرتے دیکھتے ہیں تو وہ بھی اپنے والدین سے تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی خواہشات کو پورا کیا جائے ۔لیکن جب والدین اپنی معاشی تنگی کی وجہ سے ان کی خواہشات کو پورا نہیں کر پاتے تو بچہ بد مزاجی، غصے اور چڑ چڑے پن کا شکار ہو جاتا ہے۔والدین کی پریشانی بچوں میں بھی منتقل ہوتی ہے، اور وہ ذہنی و جسمانی دباؤ میں آ جاتے ہیں ۔والدین اور بچوں کے درمیان تعلقات بھی خراب ہو سکتے ہیں کیونکہ حد سے زیادہ فکر بچوں کو باغی بنا دیتی ہے۔

    والدین اکثر اپنے بچوں کے مستقبل کی وجہ سے فکر مند رہتے ہیں، لیکن اگر ان کی یہ فکر حد سے زیادہ بڑھ جائے تو ان کو بھی ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے، جو ان کی زندگی پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو سمجھیں اور ان سے کھل کر بات کرنے کی کوشش کریں، تاکہ بچوں میں سے جارحیت جیسے رویے کا خاتمہ کر سکیں۔ بچوں میں جذباتی توازن پیدا کرنے کے لیے ان کی مثبت سرگرمیوں میں شمولیت ضروری ہوتی ہے۔ والدین کو اپنے ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایسی سرگرمیاں اختیار کرنی چاہیے جن کی وجہ سے ان کا ذہنی دباؤ ختم ہو جائے ۔جیسے ان کو ورزش ،عبادت وغیرہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ بچوں کے اس رویے کو قابو میں رکھنے کے لیے انہیں پیار اور سمجھداری سے سمجھانا چاہیے نہ کہ ان کے ساتھ سختی سے پیش آنا چاہیے، کیوں کہ سختی کرنے سے اکثر اوقات بچوں میں مختلف اور چیزیں جنم لے لیتی ہیں ۔

    اگر والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ سنجیدگی سے پیش آنے کے باوجود اور ان کو ایک پرسکون ماحول فراہم کرنے کے باوجود ،ان کے بچے میں سے جارحیت جیسی عادت کا خاتمہ نہیں ہو رہا تو والدین کو چاہیے کہ وہ بہترین ماہر نفسیات سے مدد لیں ،تاکہ ان کا بچہ ان کی اولاد اور وہ خود بھی ایک پرسکون زندگی جی سکیں۔

  • دوسروں کی رائے کا احترام کرنا سیکھیں –  عاصمہ حسن

    دوسروں کی رائے کا احترام کرنا سیکھیں – عاصمہ حسن

    ہم روزانہ کی بنیاد پر بہت سارے لوگوں سے ملتے ہیں. دوسرے لفظوں میں ہمارا ان سے کام کے سلسلے میں واسطہ پڑتا ہے. ان میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی کہی بات پر اٹل رہتے ہیں اور کسی دوسرے کی صحیح بات کو بھی سننے کو تیار نہیں ہوتے، پھر چاہے ان کو کتنے ہی دلائل کیوں نہ دیے جائیں. ان کو قائل کرنے کے لیے زمین و آسمان ایک کیوں نہ کر دیا جائے لیکن ان کی رائے نہیں بدلتی، اور اپنی اسی سوچ اور رویے کی بدولت نہ صرف ایسے لوگ اپنی زندگی میں نقصان اٹھاتے ہیں بلکہ اپنے پیارے رشتوں سے بھی دور ہوتے چلے جاتے ہیں.

    ہمیں خود میں اتنی ہمت پیدا کرنی چاہیے کہ ہم دوسروں کی بات کو مکمل طور پر سن سکیں، ان کی رائے کا احترام کر سکیں، ان کے تجربات کو تسلیم کر سکیں، اکثر ہم سے کئی لوگ بات سمجھنے کے لیے سنتے ہی نہیں ہیں، بلکہ بس اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں اور فوراً حکم صادر کر دیتے ہیں. اختلاف رائے ہونا کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن اس کو بنیاد بنا کر تعلقات خراب کرنا، لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ کرنا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے. چونکہ سب کی سوچ مختلف ہوتی ہے، پھر تعلیم و تربیت، تجربات، ماحول سب منفرد ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے سب ایک دوسرے سے مختلف کہلاتے ہیں، لہذا ہمیں دوسروں کو موقع فراہم کرنا چاہیے کہ وہ آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکیں.

    وقت ایک ماہر استاد ہے. قدرت ہمیں واضح طور پر لچک، بدلاؤ اور توازن سکھاتی ہے. ہمیں اس سے سیکھنا چاہیے اور جب تک اس سیکھے ہوئے پر عمل نہ کیا جائے، اس وقت تک سیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا. ہم بحیثیت والدین اکثر یہی غلطی کرتے ہیں کہ بچوں کی بات یا رائے کو اہمیت نہیں دیتے . ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے غلط اور ہم صحیح ہیں، کیونکہ وہ بچے ہیں اور ہم ان کے والدین، لہذا ہم غلط ہو ہی نہیں سکتے. اسی طرح ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا کہ جتنی ہماری عمر ہے اس سے کہیں زیادہ ان کا تجربہ ہے. یہ بات سو فیصد درست ہے لیکن کوئی بھی انسان مکمل طور پر کامل نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی ہر معاملے میں درست ہو سکتا ہے. ہر شخص چاہے وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو، یا کیسی بھی حیثیت رکھتا ہو ، کچھ نہ کچھ ہمیں سکھاتا ہے. صرف خود میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے سوچنے کا انداز بدل سکے.

    کئی بار ہم اپنی سوچ، حالات اور ماحول کی وجہ سے ایک رائے قائم کر لیتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وقت اور حالات ویسے ہی رہیں جیسا کہ پہلے تھے، لہذا رائے بدلنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے. اپنی سوچ اور تجربات کی وجہ سے ہمیں اپنے فیصلے دوسروں پر زبردستی نہیں تھوپنےچاہییں. کئی بار ہم صرف اس لیے کسی دوسرے کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ ہم خود کو لوگوں کے سامنے چھوٹا ثابت نہیں کرنا چاہتے. یہ رویہ درست نہیں، اگر کسی کی بات یا عمل اچھا لگے تو اس کی دل کھول کر تعریف کریں. اس کا مشورہ پسند آیا تو اپنی رائے تبدیل کرنے میں دیر نہ لگائیں، بلکہ دوسروں کی تعریف کریں، اس سے تعلقات بھی بہتر ہوں گے اور آپ بھی خوشی محسوس کریں گے. اپنی غلط بات پر صرف اس لیے نہ اڑیں کہ آپ بڑے ہیں اور حیثیت میں زیادہ ہیں یا اس سے آپ کی عزت میں کوئی فرق آجائے گا. خود میں لچک پیدا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ جب پھل کسی درخت پر لگتا ہے تو وہ جھک جاتا ہے. جب اللہ تعالٰی آپ کو نواز دیں تو بانٹنا شروع کر دیں.

    زندگی تجربات کا دوسرا نام ہے. ہم اپنے تجربات و مشاہدات سے سیکھتے ہیں لیکن ہر دفعہ حالات و واقعات ایک جیسے نہیں رہتے . وقت بدل جاتا ہے اس کے تقاضے بدل جاتے ہیں حتٰی کہ انسان بھی بدل جاتا ہے. اسی میں ہماری بہتری اور کامیابی چھپی ہے کہ ہم وقت کے ساتھ قدم ملا کر چلیں. خود میں اور اپنی سوچ میں تبدیلی لے کر آئیں . ہر دم نیا سیکھنے کے لیے خود کو تیار رکھیں اور ماضی میں کی گئی غلطیوں کو نہ دہرائیں.

    ہمیں نئی ایجادات اور تبدیلیوں کو اپنانا چاہیے اور اپنا رویہ مثبت رکھنا چاہیے. اگر ہم وقت کے ساتھ تبدیلیاں نہ لائے ہوتے تو آج بھی ہم اسی پتھروں کے زمانے میں جی رہے ہوتے. انسان نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے اور زندگی کو آسان بنانے کے لیے تجربات اور ایجادات کیں تاکہ مشکلات کو سہل بنایا جا سکے.
    تھامس ایڈسن نے کہا کہ میں ناکام نہیں ہوا، میں نے صرف دس ہزار طریقے تلاش کیے ہیں جو کام نہیں کرتے تھے .

    انسان کو قدرت نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے. کئی بار وہ بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ تنہا کر جاتا ہے اور ایسے ایسے کمالات اور جواہر دکھاتا ہے کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے، لیکن وہیں ایک معمولی سی تبدیلی کو اپنانے پر منجمد ہو جاتا ہے، کچھ سننے سمجھنے اور اپنانے کو تیار نہیں ہوتا . جس کی وجہ سے ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی اپنی رائے میں تبدیلی کرتا ہے. ایسے میں ہماری سوچ ایک جگہ رک جاتی ہے، ہم ضدی بن جاتے ہیں ، ہمیں دوسرا غلط ہی نظر آتا ہے کیونکہ ہمارے دیکھنے کا زاویہ ہی منفی ہوتا ہے، جس کا ہمیں ادراک نہیں ہو پاتا.

    ٹیکنالوجی کی مثال لیتے ہیں جس نے دنیا کی شکل ہی بدل دی ہے، لیکن ہم میں سے بیشتر لوگ اس کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر پا رہے. وہ سوشل میڈیا کو برا یا منفی ہی سمجھتے ہیں لیکن اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ ہر چیز کے منفی اور مثبت پہلو ہوتے ہیں اور پھر فائدہ اور نقصان ہمارے اپنے استعمال پر منحصر ہے. کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کا زائد استعمال نقصان دہ ہوتا ہے ، اسی طرح ٹیکنالوجی یا سوشل میڈیا کا بہتر استعمال بھی کیا جا سکتا ہے اور لوگ کر بھی رہے ہیں . بالکل اسی طرح آج کل کے بچوں کا سب سے اہم مسئلہ گیجٹس یعنی برقی آلات کا بے تحاشہ استعمال ہے . اگر برقی آلات کا استعمال اعتدال میں رہ کر کیا جائے تو نقصان دہ نہیں ہوتا اور ہمیں اس ضمن میں ان پر سختی کرنے کے بجائے یا ان کو ان آلات سے دور رکھنے کے بجائے بچوں کی رہنمائی کرنی چاہیے کہ کون سا مواد دیکھنا ہے اور کون سا نہیں ـ کئی بچے ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل گئے ہیں اور اس کا بہترین استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کو سکھایا اور سمجھایا گیا ہے ، رہنمائی فراہم کی گئی ہے.

    ہمیں ہر تبدیلی کو کھلے دماغ کے ساتھ قبول کرنا چاہیے ـ اپنے کمفرٹ زون سے باہر آنا چاہیے ـ اپنی سوچ کو بدلنا چاہیے اور وقت کے ساتھ سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنا چاہیے. اگر ہم اپنے ہاتھ کی طرف دیکھیں تو تمام انگلیاں برابر نہیں ہوتیں لیکن جب ان کی مٹھی بنتی ہے تو سب ایک ہی سطح پر آ جاتی ہیں، چھوٹی یا بڑی نہیں رہتیں . اسی طرح جب ہم زندگی میں جھکتے ہیں اور حالات کے مطابق خود کو ڈھالتے ہیں، تب زندگی آسان ہو جاتی ہے. اس سے نہ صرف ہمارے لیے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ ہم دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کر دیتے ہیں .

    جب ہم کسی کی بات سنتے ہیں، سمجھتے ہیں اور اپنی رائے قائم کیے بغیر دوسروں کی بات مانتے ہیں، خود میں لچک ظاہر کرتے ہیں اور تبدیلی کو قبول کرتے ہیں، تو اس عمل سے ہم صرف دوسروں کے لیے آسانیاں نہیں پیدا کرتے بلکہ اپنے سکون کا بھی اہتمام کرتے ہیں، لہذا خود میں لچک پیدا کریں تاکہ خود کو وقت کے ساتھ چلنے کے قابل بنا سکیں اور لوگ آپ سے بات کرتے ہوئے گھبرائیں نہیں بلکہ خوشی محسوس کریں.اسی میں کامیابی چھپی ہے .

  • ماحول کا کچھ کر  یں – محمد عرفان ندیم

    ماحول کا کچھ کر یں – محمد عرفان ندیم

    بادشاہ جنگی مہم پر روانہ ہونے کے لیے تیار تھا،نکلنے سے پہلے والدہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دعاؤں کی درخواست کی ۔ ماں نے پیار سے ماتھا چوما ، ڈھیر ساری دعائیں دی اور چند نصیحتیں پوٹلی میں باندھ کر ساتھ روانہ کر دیں ۔

    جاتے ہوئے تلقین کی بیٹا نمازوں کاا ہتمام کرنا اورخصوصا فجر کی نمازقضا نہ ہونے دینا۔ بادشاہ نے سینے پرہاتھ رکھااور ماں کے سامنے سرجھکا دیا ۔ دشمن کے علاقے میں پہنچ کر بادشاہ نے شہر کا محاصرہ کرنے کا حکم دے دیااورفوج نے شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ۔ رات ہوئی ، بادشاہ کا خیمہ ایک کھلے میدان میں لگا دیا گیا ۔ بادشاہ آرام کے لیے خیمے میں داخل ہوا مگر صبح فجر کی نماز کے لیے نہ اٹھ سکا۔ نماز قضا ہو گئی ، بادشاہ بہت غمگین اور پریشان ہوا کہ والدہ کی نصیحت پر عمل نہیں ہو سکا ۔ ایسا کئی روز مسلسل ہوتا رہا ، اس نے سوچا ضرور اس ملک کی مٹی میں کوئی تاثیر ہے جس کہ وجہ سے نما ز قضا ہو جاتی ہے ۔

    کچھ دن بعد اس نے ملک فتح کرلیا، اپنے ایک نائب کو والی بنایا اور خود واپسی کا قصد کیا ۔ جاتے ہوئے اس ملک کی کچھ مٹی بھی ساتھ رکھ لی ۔گھر پہنچ کر ماں کوجنگ اور فتح کی کارگزاری سنائی اور آخرمیں بتایا کہ آپ کی فجر کی نماز والی نصیحت پر عمل نہیں کر سکا ۔ ماں نے اضطراب اورپریشانی کاا ظہار کیا اور آئندہ نماز قضا نہ کرنے کی تاکید کی ۔ رات کو جب ماں سونے کے لیے گئی تو بادشاہ نے وہ مٹی ماں کے تکیے کے نیچے رکھ دی ، صبح ہوئی تو ماں کی فجر کی نماز بھی قضا ہو چکی تھی ۔ ماں بیٹا اکٹھے ہوئے تو ماں نے بتایا آج میری بھی نماز قضا ہو گئی، بادشاہ نے بتایا میں نے وہ مٹی آپ کے تکیے کے نیچے رکھ دی شاید اس مٹی کی تاثیر ہی ایسی تھی اور اس میں میرا اور آپ کا کوئی قصور نہیں تھا۔

    اس واقعے کی صحت و عدم صحت سے قطع نظر آپ کے لیے یہ بات حیران کن ہو گی کہ مختلف علاقوں اور خطوں کی اپنی تاثیر اوراپنا مزاج ہوتا ہے اور اس خطے میں رہنے والے لوگوں میں بھی وہ تاثیر اور مزاج ڈویلپ ہو جاتا ہے ۔ مثلا شہری،میدانی اور ہمورا علاقوں میں رہنے والے انسانوں کے مزاج معتدل اور نرم ہوتے ہیں۔ ان کے اندر ضد، ہٹ دھرمی ، انا ، سختی ،دشمنی اور گنوار پن کے اثرات کم ہوتے ہیں۔اس کے برعکس جو لوگوںدیہاتوں، پہاڑوں،نا ہموار اور جنگلی علاقوں میں رہتے ہیں ان کے مزاج میں شدت ،سختی اور ناہمواری زیادہ ہوتی ہے۔ یہ لوگ ذہنی اور فکری اعتدال سے عموماًمحروم ہوتے ہیں۔

    اس حقیقت کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ آپ نے فرمایا دیہاتی آدمی سخت مزاج اور ضدی ہوتے ہیں۔سورہ توبہ کی ایک آیت کا مفہوم بھی کچھ اس طرح ہے کہ دیہاتی لوگ کفر و نفاق میں شدید اور لاعلمی وگنوار پن میں حد سے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔شاید یہی وجہ تھی کہ شروع میں جو بدوی صحابی آپ سے ملنے آتے تھے ان کی گفتگو اور ان کا انداز تکلم سخت ہوتا تھالیکن بعد میں آپ کی صحبت کی وجہ سے ان کی زندگی دوسروں کے لیے نمونہ بن جاتی تھی۔

    خطوں اور علاقوں کی تاثیر کے ساتھ انسانی شخصیت پر ماحول کا بھی اثر ہوتا ہے اور آج سائنس و مذہب دونوں اس تاثر کے قائل ہو چکے ہیں ۔مذہب تو پہلے دن سے اس تاثر کا قائل ہے اور رسول اللہ نے اس تاثر کو اس مثال کے ذریعے سمجھایا تھا کہ اچھے دوست اور ہمنشین کی مثال مشک والے کی طرح ہے ، وہ یا تو آپ کو مشک تحفے میں دے گا ، یا آپ اس سے مشک خریدلیں گے ا ور نہیں تو کم از کم اس کے پاس بیٹھنے سے آپ سے مشک کی خوشبو ضرور آئے گی۔اس کے برعکس بھٹی والے کے پاس بیٹھنے سے آپ کے کپڑے جلیں گے اور نہیں تو کم از کم بدبو ضرور آئے گی۔ یہ ماحول اور برے ہمنشین ہی ہوتے ہیں جو انسان کو فاسق اور فاجر بنادیتے ہیں ورنہ حقیقت میں انسان نیک اور اچھی فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔

    انسان کی فطرت میں ہمیشہ نیکی اورخیر ہی غالب رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر انسان سچائی ،عدل وانصاف ،دیانت داری ،مروت اور شرم و حیا کو اچھا سمجھتا ہے اور انہیں اپنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اوروہ جھوٹ، ظلم، خیانت، بے حیائی،بے مروتی، بخل اور بد اخلاقی کو ناپسند کرتااور اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔مثلااگر سیدھے سادھے انسان کو جھوٹا کہہ دیا جائے تو اسے تکلیف ہوگی ، کسی راہ چلتے کو بے حیا کہہ دیا جائے تو وہ پریشان ہو جائے گا، کسی نیوٹرل انسان کو خائن یا چور کہہ دیا جائے تو وہ مضطرب اور بے چین ہو جائے گا، ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی فطرت ان الزامات کو پسند نہیں کرتی اوراگر کسی انسان سے یہ افعال سر زد ہو جائیں تو وہ انہیں چھپانے اور ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔

    ماحول کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ ہجرت کے وقت مکہ اور اطراف کے علاقوں کے تمام مسلمان ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے جا چکے تھے مگر فتح مکہ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمان دوبارہ اپنے علاقوں میں چلے جاتے مگر ایسا نہیں ہوا ، کیوں ؟ اس لیے کہ نبی اکرم چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو ریاست مدینہ کی صورت میںجو ایک معیاری اسلامی سماج مل چکا ہے وہ اسی دینی و ایمانی ماحول میں رہ کر پاکیزہ طریقے سے زندگی بسر کر یں۔

    آج ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم اور ہماری نسل ایک ایسے ماحول میں رہ رہے ہیں جس کی بنت میں گناہوں کی تاثیر شامل ہے ۔کہنے کو ہم پاکستان میں رہ رہے ہیں لیکن انٹر نیٹ ، سوشل میڈیااور موبائل نے ساری دنیا کو ایک ماحول میں بدل دیا ہے، اب ساری دنیا کا ماحول ایک ہی بن چکا ہے اور اس ماحول میں گناہوں کی تاثیر اس قدر رچ بس چکی ہے کہ اس میں اپنا ایمان بچانا انتہائی مشکل ہو گیا ہے ۔ عالمگیریت ، ملٹی نیشنل کمپنیوں ، سرمایہ داری کی دوڑ ، پرائیوٹ ٹی وی چینلز ، یونیورسٹیوںاور مخلوط ماحول نے اہل ایمان کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ یا تو گناہوں سے بھرے اس ماحول کو قبول کر لیں یا اپنے گھروں میں محدود ہو کر بیٹھ جائیں ۔

    ظاہر ہے گھر وں میں محدود ہو کر بیٹھنا ممکن نہیں اورآج کل تو گھروں میں محدود ہو کر بیٹھنے سے بھی ماحول کا تاثر ختم نہیں ہو تا۔ ہر دوسرے گھر میں ٹی وی موجود ہے اور ٹی وی چینلز پر جس طرح کے ڈرامے ، فیشن اور ذہن سازی کی جا رہی ہے وہ نئی نسل میں ہیجان پیدا کر رہی ہے اور انہیں خواہشات کا اسیر بنا رہی ہے ۔ جہاں ٹی وی نہیں وہاں انٹر نیٹ ، سوشل میڈیا اور موبائل نے کسر پوری کر دی ہے ۔ٹک ٹاک ، فیس بک اور یوٹیوب نے نئی نسل کے ہیروز کی ایک نئی فہرست مرتب کی ہے اور اب ہر کوئی ان جیسا بننا چاہتا ہے ۔تعلیمی اداروں اور خصوصا یونیورسٹیوں نے بھی یہ ماحول پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ یونیورسٹیاں تعلیمی ادارے کم تفریح گاہیںاور فیشن انڈسٹریاں زیادہ معلوم ہوتی ہیں ۔

    مذہبی گھرانوں کے بچے اور بچیاں بھی اس ماحول میں خود کو سنبھال نہیں پاتے اور اس ماحول میں رنگے جاتے ہیں ۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مذہبی گھرانوں کے والدین نے بیٹیوں کی اعلیٰ تعلیم کا خواب دیکھ کر انہیں یونیورسٹیوں میں داخل کروایا مگر یونیورسٹیوں کے ماحول نے انہیں مایوس کیا ۔ اس میں بچیوں کا بھی قصور نہیںکہ جب ان کے دائیں بائیں اور ان کی کلاس کا ماحول ہی ایسا ہوتا ہے جس میں کسی غیر محرم کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے ، گھومنے پھرنے اور آخر میں مرضی سے شادی کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تو آخر وہ بھی انسان ہیں اور انسان ماحول سے تاثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

    یہی سب کچھ ٹی وی ڈراموں میں سکھایا جا رہا ہے حتیٰ کہ اب تو ٹی وی پر چلنے والے کمرشلز میں بھی یہ چیزیں شامل ہو گئی ہیں ۔ ماحول کا تاثراس قدر شدید ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث بھی اس تاثر کو بیان کیے بغیر نہیں رہ سکے اور ایک ہم ہیں کہ ہم نے ماحول کے بارے کبھی سوچا ہی نہیں۔ حکومتی سطح پر اس کا ادراک ہے نہ ہی مذہبی فکر اس حوالے سے حساس دکھائی دیتی ہے ۔

    اگر ہمارا رویہ یہی رہا تو یہ ماحول ہماری اگلی نسل کے ایمان کو ہتھیا لے گے پھر ہمارے پاس ایک ہی راستے بچے گا جو محسن انسانیت نے بتایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب صرف وہی انسان بچے گا جو اپنے بکریوں کو لے کر دنیا سے الگ تھلگ کسی پہاڑ کی چوٹی پر سکونت اختیار کر لے گا۔

  • کابل کہانی : ماحول، ثقافت ،عام زندگی -محمد عامر خاکوانی

    کابل کہانی : ماحول، ثقافت ،عام زندگی -محمد عامر خاکوانی

    کابل مجموعی طور پر ایک خوبصورت شہر ہے، پہاڑوں میں بسا تاریخی، کلچرل۔، صدیوں کے ورثے اور روایتوں کا امین۔ کابل اگرچہ زیادہ بلند نہیں ، مگر یہاں موسم نسبتاً بہتر ہے،موسم گرما میں تپش رہتی ہے، مگر شام خنک ہوجاتی ، سردیوں میں برف باری عام ہے۔

    کابل کے آس پاس کے پہاڑ خشک اور سنگلاخ ہیں، شہر سے باہر نکلیں توخالص دیہاتی علاقہ کا نقشہ نظر آتا ہے، میلوں دور تک کشادگی ۔ کابل سحر خیز شہر ہے، لوگ صبح جلدی اٹھ جاتے ہیں اور آٹھ نو بجے دفاتروغیرہ میں میٹنگز، سمینار بھی شروع ہوجاتے ہیں۔ ہم نے غرجستان یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں شرکت کی، غرجستان سنٹرل افغانستان کا تاریخی نام ہے۔وہاں نو بجے پہنچے تو ہال طلبہ اور ٹیچرز وغیرہ سے مکمل طور پر بھرا تھا۔ جس ہوٹل میں رہتے تھے، وہاں ہم جس وقت ناشتہ نوش فرمانے تشریف لے جاتے، تب ہوٹل کے مختلف بورڈ رومز میں کسی پروگرام کے شرکا پوری طرح تیار ہوئے لابی میں پہنچے ہوتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ جلد سو جاتے ہیں۔ کابل میں نو، دس بجے شہر آنکھیں موند لیتا ہے۔

    ’’شہرنو‘‘وہاں کا جدید علاقہ ہے، جہاں رونق بھی زیادہ ہے، جدید طرز کے ریستوران کھلے ہیں، کافی ہائوس جہاں شیشہ بھی پیا جاتا ہے وغیرہ ۔شہر نو میں بھی دس بجے لگتا ہے کہانی ختم ہوگئی۔ ایک دن ہم تاخیر سے فارغ ہوئے، رات کے کھانے کے لئے نکلتے دیر ہوگئی، ساڑھے نو ، پونے دس بجے مختلف ہوٹلوں کا پتہ کرتے رہے، مشکل سے ایک ترکمان ہوٹل میں کھانا مل پایا۔ بعد میں ہوٹل والے باربار معذرت کرتے رہے کہ آپ لوگ دس بجے آئے ، اس لئے خاطر خواہ خاطر نہیں کر پائے وغیرہ۔ اپنے کسی پچھلے کالم میں اشارہ کیا تھا کہ افغان گوشت خور ہیں، بڑے ذوق شوق سے مٹن، دنبے کا گوشت وغیرہ کھاتے ہیں۔

    ہر دعوت میں کابلی یا قابلی پلائو کے ساتھ روش،دم پخت، تکے کباب، دنبہ کڑھائی وغیرہ لازمی ہوتے، ایک اور افغان ڈش جو اکثر ملتی رہی، وہ مونتو ہے۔ یہ چین سٹائل کی ڈمپلنگز یا ہمارے ہاں ملنے والے موموز ٹائپ ڈش ہے، نرم سموسہ نما چیز جس میں قیمہ یا پیاز ٹماٹر بھرا ہوتا، میرا خیال ہے یہ میدے سے بنتی ہے، افغان اس میں لوبیہ کے کچھ دانے بھی ڈال دیتے۔ میں کابلی پلائوسمجھتا رہا ، مگر پچھلے کالم کے بعد ایک دوست نے بتایا کہ یہ قابلی پلائو ہے اور روایت کے مطابق قابل خان نامی ایک مشہور باورچی ارگ (افغان صدارتی محل)میں ملازم تھا، وہاں اس نے یہ پلائو ایجاد کیا ۔ بعد میں نوکری سے نکال دیا تو اس نے کابل شہر میں پلائو کا کام شروع کر دیا اور یوں یہ قابلی پلائو نہ صرف افغانستان بلکہ آس پاس کے ممالک تک مشہور ہوگیا۔

    واللہ اعلم بالصواب۔ کابل میں اندازہ ہوا کہ لوگ دال بالکل پسند نہیں کرتے، اس کے بجائے سرخ لوبیہ دعوتوں اور ہوٹلوں میں مل جاتا ہے۔ سبزی میں البتہ بھنڈی وغیرہ عام ہے، دیگر سبزیاں بھی عام نہیں۔مقامی افغان بتاتے تھے کہ جلال آباد وغیرہ میں صورتحال نسبتاً مختلف ہے، وہاں شائد پاکستانی اثرات کے پیش نظر دال ، سبزی ہوٹلوں میں مل جاتی ہیں۔ میں نے کئی لوگوں سے پوچھا کہ چلیں گوشت، کباب وغیرہ کچھ سستے مل جاتے ہوں گے، مگر بہرحال غریب افغان کے لئے گوشت مہنگی ڈش ہے، تو وہ کیا کرتا ہے۔ میرا یہ سوال شائد مقامی دوست سمجھ نہیں سکے یا ان کے نزدیک غریب افغان کی تعریف مختلف ہے، بہرحال وہ یہی کہہ دیتے کہ ہر جگہ گوشت مل جاتا ہے۔

    ویسے لوگوں میں سادگی ہے، خاص کر طالبان کے حوالے سے تو ایک زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ تنور سے نان لے کر آرام سے قہوہ کے ساتھ کھا لیتے ہیں۔ یہ کلچر شائد آج بھی ہو۔ دلچسپ بات ہے کہ ہر جگہ نان یاافغانی روٹی ہمیں ٹھنڈی ہی ملی۔ شائد رواج ہی اسی کا ہے۔ ہر قوم میں مہمان نوازی کا کلچر کچھ نہ کچھ ہوتا ہے،بعض لوگ بہت کشادہ دل اور کھلے ہاتھ کے ہوتے ہیں، کچھ نہیں۔ پاکستان میں پختون مہمان نواز کلچر کے لئے مشہور ہیں، میں نے بلوچستان میں دیکھا کہ مہمان نوازی ان پر ختم ہے۔ افغان روایتی طور پر بہت مہمان نواز ہیں۔ ہم نے جگہ جگہ اس کا مظاہرہ دیکھا۔ لوگ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً اپنا سب کچھ مہمان پر لٹانے کو تیار ہوجاتے۔ کئی بار ہمیں کسی پارک وغیرہ میں گھومتے کوئی نوجوان ملا جو اپنے حلیہ اور باتوں سے لوئر مڈل کلاس کا نظر آ رہا تھا، اس نے مگر نہایت تپاک اور پرجوش انداز میں اپنا مہمان بننے کی دعوت کی اور اس پر اصرار کیا۔

    ہمارے دورہ افغانستان میں مقامی افغانوں میں زیادہ تر تاجک ملتے رہے ، جو پشتو نہایت روانی سے بولتے تھے، انہوںنے بڑی محبت اور تپاک سے ہمارا خیال رکھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ پشتون نہیں بلکہ تاجک ہیں۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہر تاجک پاکستان مخالف ہے۔ کابل جانا ہو تو پشتو یا فارسی آنا لازمی ہے، ورنہ یہ زبانیں جاننے والا کوئی دوست ساتھ لیں، یا پھر کسی مقامی کی خدمات حاصل کی جائیں۔ دکانوں کے بورڈز وغیرہ سب دری(افغان فارسی )میں ہیں، وہ کچھ نہ کچھ سمجھ آ جاتے ، مگرلوگوں کی اکثریت کو انگریزی نہیں آتی۔ اردو بھی پرانی نسل کے لوگ جانتے سمجھتے ہیں، مگر نئی نسل نہیں۔اس لئے ابلاغ فارسی، پشتو میں ہوگا۔ ایک ڈاکٹر صاحب نے کابل کے نواح میں واقعہ اپنے فارم ہائوس میں دعوت دی۔ کابل سے باہر نکلے تو ایک وقت آیا کہ لگا جیسے کسی صحرا میں ہیں ، مٹی کی دیواروں سے بنے قلعہ نما مکان اور کچی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں۔

    دعوت شاندار تھی، کئی قسم کے پکوان ۔ خاص بات یہ لگی کہ ملازموں کی فوج ظفر موج کے ہوتے ہوئے بھی میزبانوں نے اپنے ہاتھ سے سب کچھ سرو کیا۔ ڈاکٹر صاحب خود قہوہ کا تھرماس لے کر آئے اور ہر ایک کی پیالی میں قہوہ ڈالا، پھر نظر رکھی اور دوسری تیسری بار بھی آ کر بھردی۔یاد رہے کہ افغانستان میں چائے سے مراد قہوہ لیا جاتا ہے۔ آپ سے چائے کا پوچھا جاتا ہے ، اقرار میں جواب دینے کے بعد آپ دودھ پتی ٹائپ کسی چائے کے منتظر ہوتے ہیں، ذہن میں لاہور، کراچی، اسلام آباد کے کوئٹہ ہوٹلوں کی گلابی تیکھی چائے کی بھاپ اڑاتی پیالی ہوتی ہے۔اس چائے کے بجائے مگر قہوہ ہی آتا ہے، گو مزے دار اور ہاضم۔کہتے ہیں کہ کابل کا پانی اس سبز چائے کے لئے نہایت موزوں ہے۔

    بات درست لگتی ہے۔ ایک دو بار صبح جلد اٹھ کر باہر جانے کا موقعہ ملا تو اکثر بلکہ بیشتر دکانوں پر دکانداروں کو ہاتھ میں تسبیح پکڑے ذکر کرتے پایا۔ اس میں عمر کی قید نہیں تھی، بزرگ لوگ تو تسبیح ہاتھ میں پکڑے عام نظر آجاتے، مگر نوجوان دکاندار بھی مخصوص مقامی کشیدہ کاری والی قمیص پہنے آرام سے تسبیح پھرول رہے ہوتے۔ میں نے ساتھ بیٹھے دوست سے کہا کہ دیکھو یہ کلچر کا حصہ ہے، بظاہر سیکولر نظر آنے والے نوجوان بھی تسبیح پڑھ رہے ہیں۔ ان کا سیکولراز م انہیں مذہب سے بیزار نہیں کرتا، پاکستان میں البتہ الٹ حساب ہے۔لوگوں کا عام پہناوا شلوار قمیص ہی ہے، مجھے تو بہت ہی کم لوگ جینز شرٹ میں نظر آئے، البتہ بعض جگہوں پر ان کی جاب کے حساب سے سوٹ وغیرہ میں ملبوس لوگ تھے۔

    بازاروں میں اکثر ریڑھیوں پر فلافل ملتی، یہ ایک مزے کی چیز ہے، اب تو ہمارے ہاں بھی بننے لگی ہے۔ مجھے کابل میں ان کی مشہور روایتی آئس کریم’’ شیریخ‘‘ بہت پسند آئی، اسے ملائی کے ساتھ دیتے ہیں، اس کا لطف اخیر قسم کا ہے۔ سنا ہے کوئٹہ میں یہ ملتی ہے۔ کابل کی سب سے بڑی خامی اس کی خوفناک بلکہ دہشتناک ٹریفک اور کسی بھی قسم کے اصول وضوابط سے عاری ڈرائیونگ ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنی بری اورہوش اڑا دینے والی ڈرائیونگ کہیں نہیں دیکھی۔سٹرک پر کوئی شخص کسی بھی قسم کا اصول نبھانے کو تیار نہیں تھا۔ جس کا جہاں جی چاہتا، وہاں سے گاڑی موڑ لیتا اور ایک دوسرے کے آگے زگ زیگ انداز میں یوں گاڑی دوڑا کر نکلتے کہ ہم جیسوں کا خون خشک ہوجائے۔

    اوپر سے ڈرائیونگ امریکی انداز میں لیفٹ ہینڈ ، جو ہمیں ویسے ہی سمجھ نہیں آتی۔ پاکستان میں ایسی بری ڈرائیونگ ملتان میں دیکھی ہے۔ ملتانی بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ جس نے ملتان میں گاڑی چلا لی، وہ دنیا میں کہیں مار نہیں کھا سکتا۔ ملتانیوں کوخبر ہو کہ کابلی ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ میں نے تو کابل میں اکا دکا ہی سگنل دیکھے، ان میں سے کوئی کوئی ہی فنکشنل تھا۔ شہر میں ٹریفک جام عام ہے اور گھنٹوں راستے میں لگ جاتے ہیں۔ امریکیوں نے اپنے بیس سالہ دور میں کابل کو کچھ نہیں دیا۔ انفراسٹرکچر کے نام پر تو کچھ بھی نہیں کیا گیا۔

    شہر میں بے پناہ ٹریفک اور ہجوم کے باوجود کہیں پر اوورہیڈ برج یا انڈر پاس نہیں۔ شہر میں کوئی ہسپتال امریکیوں نے نہیں بنایا، نہ ہی ان کی بنائی کوئی ایسی یونیورسٹیاں ہیں جنہیں افغان یاد رکھیں۔ افغانستان میں وہ انڈسٹری چھوڑ گئے نہ ہی زراعت میں مقامی کسانوں کو ٹرینڈ کیا گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نہایت خود غرض مالکوں کی طرح انہوں نے صرف اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی اور سینکڑوں ارب ڈالر سکیورٹی پر اڑا ڈالے۔ افغان عوام اور ملک کی ترقی ان کا ہدف تھا ہی نہیں۔ (جاری ہے)