ہوم << دوسروں کی رائے کا احترام کرنا سیکھیں - عاصمہ حسن

دوسروں کی رائے کا احترام کرنا سیکھیں - عاصمہ حسن

ہم روزانہ کی بنیاد پر بہت سارے لوگوں سے ملتے ہیں. دوسرے لفظوں میں ہمارا ان سے کام کے سلسلے میں واسطہ پڑتا ہے. ان میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی کہی بات پر اٹل رہتے ہیں اور کسی دوسرے کی صحیح بات کو بھی سننے کو تیار نہیں ہوتے، پھر چاہے ان کو کتنے ہی دلائل کیوں نہ دیے جائیں. ان کو قائل کرنے کے لیے زمین و آسمان ایک کیوں نہ کر دیا جائے لیکن ان کی رائے نہیں بدلتی، اور اپنی اسی سوچ اور رویے کی بدولت نہ صرف ایسے لوگ اپنی زندگی میں نقصان اٹھاتے ہیں بلکہ اپنے پیارے رشتوں سے بھی دور ہوتے چلے جاتے ہیں.

ہمیں خود میں اتنی ہمت پیدا کرنی چاہیے کہ ہم دوسروں کی بات کو مکمل طور پر سن سکیں، ان کی رائے کا احترام کر سکیں، ان کے تجربات کو تسلیم کر سکیں، اکثر ہم سے کئی لوگ بات سمجھنے کے لیے سنتے ہی نہیں ہیں، بلکہ بس اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں اور فوراً حکم صادر کر دیتے ہیں. اختلاف رائے ہونا کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن اس کو بنیاد بنا کر تعلقات خراب کرنا، لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ کرنا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے. چونکہ سب کی سوچ مختلف ہوتی ہے، پھر تعلیم و تربیت، تجربات، ماحول سب منفرد ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے سب ایک دوسرے سے مختلف کہلاتے ہیں، لہذا ہمیں دوسروں کو موقع فراہم کرنا چاہیے کہ وہ آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکیں.

وقت ایک ماہر استاد ہے. قدرت ہمیں واضح طور پر لچک، بدلاؤ اور توازن سکھاتی ہے. ہمیں اس سے سیکھنا چاہیے اور جب تک اس سیکھے ہوئے پر عمل نہ کیا جائے، اس وقت تک سیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا. ہم بحیثیت والدین اکثر یہی غلطی کرتے ہیں کہ بچوں کی بات یا رائے کو اہمیت نہیں دیتے . ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے غلط اور ہم صحیح ہیں، کیونکہ وہ بچے ہیں اور ہم ان کے والدین، لہذا ہم غلط ہو ہی نہیں سکتے. اسی طرح ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا کہ جتنی ہماری عمر ہے اس سے کہیں زیادہ ان کا تجربہ ہے. یہ بات سو فیصد درست ہے لیکن کوئی بھی انسان مکمل طور پر کامل نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی ہر معاملے میں درست ہو سکتا ہے. ہر شخص چاہے وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو، یا کیسی بھی حیثیت رکھتا ہو ، کچھ نہ کچھ ہمیں سکھاتا ہے. صرف خود میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے سوچنے کا انداز بدل سکے.

کئی بار ہم اپنی سوچ، حالات اور ماحول کی وجہ سے ایک رائے قائم کر لیتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وقت اور حالات ویسے ہی رہیں جیسا کہ پہلے تھے، لہذا رائے بدلنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے. اپنی سوچ اور تجربات کی وجہ سے ہمیں اپنے فیصلے دوسروں پر زبردستی نہیں تھوپنےچاہییں. کئی بار ہم صرف اس لیے کسی دوسرے کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ ہم خود کو لوگوں کے سامنے چھوٹا ثابت نہیں کرنا چاہتے. یہ رویہ درست نہیں، اگر کسی کی بات یا عمل اچھا لگے تو اس کی دل کھول کر تعریف کریں. اس کا مشورہ پسند آیا تو اپنی رائے تبدیل کرنے میں دیر نہ لگائیں، بلکہ دوسروں کی تعریف کریں، اس سے تعلقات بھی بہتر ہوں گے اور آپ بھی خوشی محسوس کریں گے. اپنی غلط بات پر صرف اس لیے نہ اڑیں کہ آپ بڑے ہیں اور حیثیت میں زیادہ ہیں یا اس سے آپ کی عزت میں کوئی فرق آجائے گا. خود میں لچک پیدا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ جب پھل کسی درخت پر لگتا ہے تو وہ جھک جاتا ہے. جب اللہ تعالٰی آپ کو نواز دیں تو بانٹنا شروع کر دیں.

زندگی تجربات کا دوسرا نام ہے. ہم اپنے تجربات و مشاہدات سے سیکھتے ہیں لیکن ہر دفعہ حالات و واقعات ایک جیسے نہیں رہتے . وقت بدل جاتا ہے اس کے تقاضے بدل جاتے ہیں حتٰی کہ انسان بھی بدل جاتا ہے. اسی میں ہماری بہتری اور کامیابی چھپی ہے کہ ہم وقت کے ساتھ قدم ملا کر چلیں. خود میں اور اپنی سوچ میں تبدیلی لے کر آئیں . ہر دم نیا سیکھنے کے لیے خود کو تیار رکھیں اور ماضی میں کی گئی غلطیوں کو نہ دہرائیں.

ہمیں نئی ایجادات اور تبدیلیوں کو اپنانا چاہیے اور اپنا رویہ مثبت رکھنا چاہیے. اگر ہم وقت کے ساتھ تبدیلیاں نہ لائے ہوتے تو آج بھی ہم اسی پتھروں کے زمانے میں جی رہے ہوتے. انسان نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے اور زندگی کو آسان بنانے کے لیے تجربات اور ایجادات کیں تاکہ مشکلات کو سہل بنایا جا سکے.
تھامس ایڈسن نے کہا کہ میں ناکام نہیں ہوا، میں نے صرف دس ہزار طریقے تلاش کیے ہیں جو کام نہیں کرتے تھے .

انسان کو قدرت نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے. کئی بار وہ بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ تنہا کر جاتا ہے اور ایسے ایسے کمالات اور جواہر دکھاتا ہے کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے، لیکن وہیں ایک معمولی سی تبدیلی کو اپنانے پر منجمد ہو جاتا ہے، کچھ سننے سمجھنے اور اپنانے کو تیار نہیں ہوتا . جس کی وجہ سے ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی اپنی رائے میں تبدیلی کرتا ہے. ایسے میں ہماری سوچ ایک جگہ رک جاتی ہے، ہم ضدی بن جاتے ہیں ، ہمیں دوسرا غلط ہی نظر آتا ہے کیونکہ ہمارے دیکھنے کا زاویہ ہی منفی ہوتا ہے، جس کا ہمیں ادراک نہیں ہو پاتا.

ٹیکنالوجی کی مثال لیتے ہیں جس نے دنیا کی شکل ہی بدل دی ہے، لیکن ہم میں سے بیشتر لوگ اس کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر پا رہے. وہ سوشل میڈیا کو برا یا منفی ہی سمجھتے ہیں لیکن اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ ہر چیز کے منفی اور مثبت پہلو ہوتے ہیں اور پھر فائدہ اور نقصان ہمارے اپنے استعمال پر منحصر ہے. کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کا زائد استعمال نقصان دہ ہوتا ہے ، اسی طرح ٹیکنالوجی یا سوشل میڈیا کا بہتر استعمال بھی کیا جا سکتا ہے اور لوگ کر بھی رہے ہیں . بالکل اسی طرح آج کل کے بچوں کا سب سے اہم مسئلہ گیجٹس یعنی برقی آلات کا بے تحاشہ استعمال ہے . اگر برقی آلات کا استعمال اعتدال میں رہ کر کیا جائے تو نقصان دہ نہیں ہوتا اور ہمیں اس ضمن میں ان پر سختی کرنے کے بجائے یا ان کو ان آلات سے دور رکھنے کے بجائے بچوں کی رہنمائی کرنی چاہیے کہ کون سا مواد دیکھنا ہے اور کون سا نہیں ـ کئی بچے ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل گئے ہیں اور اس کا بہترین استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کو سکھایا اور سمجھایا گیا ہے ، رہنمائی فراہم کی گئی ہے.

ہمیں ہر تبدیلی کو کھلے دماغ کے ساتھ قبول کرنا چاہیے ـ اپنے کمفرٹ زون سے باہر آنا چاہیے ـ اپنی سوچ کو بدلنا چاہیے اور وقت کے ساتھ سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنا چاہیے. اگر ہم اپنے ہاتھ کی طرف دیکھیں تو تمام انگلیاں برابر نہیں ہوتیں لیکن جب ان کی مٹھی بنتی ہے تو سب ایک ہی سطح پر آ جاتی ہیں، چھوٹی یا بڑی نہیں رہتیں . اسی طرح جب ہم زندگی میں جھکتے ہیں اور حالات کے مطابق خود کو ڈھالتے ہیں، تب زندگی آسان ہو جاتی ہے. اس سے نہ صرف ہمارے لیے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ ہم دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کر دیتے ہیں .

جب ہم کسی کی بات سنتے ہیں، سمجھتے ہیں اور اپنی رائے قائم کیے بغیر دوسروں کی بات مانتے ہیں، خود میں لچک ظاہر کرتے ہیں اور تبدیلی کو قبول کرتے ہیں، تو اس عمل سے ہم صرف دوسروں کے لیے آسانیاں نہیں پیدا کرتے بلکہ اپنے سکون کا بھی اہتمام کرتے ہیں، لہذا خود میں لچک پیدا کریں تاکہ خود کو وقت کے ساتھ چلنے کے قابل بنا سکیں اور لوگ آپ سے بات کرتے ہوئے گھبرائیں نہیں بلکہ خوشی محسوس کریں.اسی میں کامیابی چھپی ہے .