ہوم << متعلقین تنظیم اساتذہ پاکستان سے توقعات - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

متعلقین تنظیم اساتذہ پاکستان سے توقعات - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

ایک زمانے میں وفاقی شرعی عدالت کا دوسرا نام جسٹس فدا محمد خان ہوا کرتا تھا۔ ممکن ہی نہیں تھا کہ اس عدالت کا ذکر آئے اور جسٹس صاحب مرحوم کا ذکر نہ ہو۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ لازم و ملزوم تنظیم اساتذہ پاکستان اور ہمارے محترم نصیر الدین ہمایوں سابق سیکریٹری جنرل تنظیم اساتذہ پاکستان ہوا کرتے تھے جب کبھی وہ مسکراتے کمرے میں داخل ہوتے تو حاضرین مجلس کے چہرے پر بشاشت آجاتی:

"لو جی! تنظیم اساتذہ پاکستان کی آمد آمد ہے."
ہمایوں صاحب ہمیں گلے لگاتے اور پھر ہم سب کی باتیں سنتے اور مسکراتے رہتے۔ میں ان دنوں استاد نہیں تھا بلکہ اسلامی یونیورسٹی میں میری پڑھائی کے ایام کی بات ہے۔ کبھی وہ ہوسٹل میں آتے۔ رات گزار کر صبح اگلی کسی منزل کو چل پڑتے۔ عمروں میں کافی فرق کے باوجود ہم طلباء کے ساتھ یوں گھل مل جاتے کہ گویا ہم ہی میں سے ہیں۔

گرما کی تعطیلات میرے لیے مسئلہ بن جاتی تھیں چھوٹی سی یونیورسٹی، اپنے وسائل محدود، ہوسٹل بند، طعام گاہ مقفل،
آبائی گھر دوسرے قصبے میں، چھٹیوں کے تین ماہ قیام کروں تو کہاں؟ تنظیم کے صوبائی صدر، مرحوم پروفیسر مقصود پرنسپل گارڈن کالج کو معلوم ہوا تو انہوں نے ہمایوں صاحب سے بات کی۔ ضرورت تو نہیں تھی لیکن تب کے یہ منارہ ہائے نور حفظ مراتب اور روایات کے امین تھے وہ خود فیصلہ کر سکتے تھے کہ انہیں اختیار تھا اور ہمایوں صاحب نے کیا کہنا تھا وہ بھی ہنس کر بولے:
"اچھا ہے, پنڈی میں میرے قیام کے دوران میں کسی سے گپ شپ تو رہا کرے گی"۔

یوں میں نے تین سال (جون تا اگست) راولپنڈی کی الاکرام بلڈنگ کی چوتھی منزل میں وہاں گزارے جو تنظیم اساتذہ کا دفتر تھا،کمرہ کیا تھا، دو الماریوں کی لائبریری، لکھنے پڑھنے کی میز کرسی، تین چار اضافی کرسیاں یہ کائنات ایک موٹے قالین کے اوپر تھی۔ رات کو "لائبریری" کے اوپر سے گدا اتار کر میں اسے فرش پر بستر بنا لیتا۔ کبھی ہمایوں صاحب کا قیام ہوتا تو گدا عمودی کی بجائے افقی رخ اختیار کر لیتا۔ یوں ہم دونوں کی ٹانگیں گدے سے بے نیاز قالین پر جھولتی رہتیں۔ حدیث محرم راز خالق کائنات کے بموجب ایک کھانا دو مومنوں کے لئے کافی ہے۔ یوں مجھے فقہ اسلامی پڑھتے پڑھتے قیاس کا عملی تجربہ حاصل ہوا۔

ایک کھانا دو کے لیے کافی ہے تو قیاس کا تقاضا ہے کہ ایک بستر بھی دو مومنین کے لئے کافی ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ عہد حاضر کے جملہ مجتہدین میرے اس قیاسی اجتہاد کو قبول کرکے اسے اجماع کی سند جواز بخشیں گے۔ تنظیم اساتذہ کے اولین سیکرٹری جنرل پروفیسر عطاء اللہ چوہدری تب منصورہ میں افغان مجاہدین کے افغان سرجیکل اسپتال کے منتظم تھے۔ میرا لاہور جانا ہوتا تو قیام وہیں ہوتا۔ اب مخمصہ یہ ہے کہ چوہدری صاحب کو تنظیم اساتذہ کے زمرے میں ڈالوں یا انہیں جماعت اسلامی کا کارکن گنوں اقربا پروری کا تقاضا ہے کہ میں انہیں تنظیم اساتذہ کا فرد شمار کروں کہ میں خود استاد ہوں۔

وہ پنڈی آتے تو ہر دلعزیز اتنے کہ انہیں رات کو کہیں قیام کرنے کا سوچنا ہی نہیں پڑا ہوگا۔ لیکن پھر بھی کبھی ٹٹولنے کی خاطر اور کا ہے ربط و ضبط ملت بیضا کے مصداق وہ دو ایک دفعہ میری اس قیام گاہ میں ٹھہرے۔ ان کی آمد میرے لیے جمع بین الصلاتین کی طرح جمع بین العیدین ہو جاتی کہ بہت سے دیگر احباب جمع ہو جاتے تھے۔ پروفیسر صاحب کا نامہ اعمال اللہ کریم نے اگر میدان محشر میں عام کر دیا تو لوگ رشک کریں گے۔ صرف صدقہ کی ایک مد میں وہ بہت سے کھرب پتی صدقہ داروں سے بھی آگے ہوں گے۔ محرم راز خالق کائنات نے مسکراہٹ کو بھی تو صدقہ قرار دیا تھا۔

پڑھائی کے چار سال پورے ہوئے تو مرحوم پروفیسر مقصود صاحب ایک دفعہ پھر میدان عمل میں تھے: "شہزاد! بیگم کل درس قرآن میں گئیں تو فلاں لڑکی کو انہوں نے آپ کے لیے پسند کر لیا. کیا خیال ہے"؟ پروفیسر مقصود صاحب دراصل ہمارے قصبے کے کالج میں پروفیسر تھے۔ جب کبھی راولپنڈی اپنے آبائی گھر جاتے تو گھر کی رکھوالی ہم پانچ چھ دوستوں کے ذمہ ہوتی تھی جہاں ہم چپل کباب کی محفل جماتے یوں مقصود صاحب سے ان کے تادمِ رحلت تعلق رہا، ان کی بیگم کی پہلی کوشش کامیاب نہ ہوئی تو انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اللہ کریم کی پھیلائی اس کارگاہ حیات کے تانے بانے میں ان کی بنت نہ چل سکی لیکن دونوں جنتی ارواح نے نیت اور عمل کا ثواب تو کما ہی لیا۔

مشتاق یوسفی نے کہیں لکھا ہے نا کہ جب کوئی ماضی سے آسودگی حاصل کرنا شروع کر دے تو سمجھ لو، بوڑھا ہوگیا ہے۔چلیے یوں ہی سہی یوسفی لکھنے سے پہلے مجھ سے مل لیتے تو یقیناً عبارت بدل دیتے، ماضی کے اس تذکرے کا مقصد آسودگی کا حصول نہیں بلکہ میں لاشعوری طور پر تنظیم اساتذہ کے آج کے افراد کو بھی شاید ویسا ہی دیکھنا چاہتا ہوں۔ تنظیم اساتذہ کے یہ تین معززین وہ ہیں جن سے میرا تعلق مقابلتاً زیادہ رہا، ورنہ اس عہد کا ہر فرد لگتا تھا کہ ایک ہی سانچے سے نکلا ہوا ہے، اور اسی سانچے سے روز دھل کر نکلتا ہے چند الفاظ میں ان لازوال کرداروں کو سمونا چاہوں تو انسان دوست، مثل باپ، ہمدرد، غمگسار، طلباء کے مسائل کے کھوجی، تربیتی سراغرساں اور ان جیسی متعدد دیگر کیفیات ذہن میں جھلملانے لگتی ہیں۔

میرے ذہن میں تنظیم اساتذہ کا ایک تاثر ہے کہ اس کا کام چند جامعات کو چھوڑ کر بہت سی اہم جامعات میں نہیں پھیل سکا۔ اس کا زیادہ تر کام کالجوں اور اسکولوں میں رہا ہے۔ میں تنظیم اساتذہ کے آج کے افراد اور عہدے داروں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا۔ خوش گمانی تو یہ ہے کہ اس سانچے میں ڈھلے آج کے افراد کو میں ویسا ہی سمجھوں۔ میں یہی کرتا ہوں اور گمان کرتا ہوں کہ تنظیم اساتذہ پاکستان میں پروفیسر عطاء اللہ چوہدری، پروفیسر مقصود احمد مرحوم اور پروفیسر نصیر الدین ہمایوں کے نت نئے اور مزید خوبیوں سے مزین ایڈیشن بھی متعارف ہوتے رہے ہوں گے، اب بھی موجود ہوں گے اور آئندہ بھی قحط الرجال نہیں ہوگا۔

اگر میری یہ خوش گمانی بجانب بحق ہے تو الحمدللہ! اس کا سراغ لگانے کو کسی تحقیقاتی کمیشن کی حاجت نہیں ہے. یہ لکھ کر دراصل میں اپنا جائزہ لے رہا ہوں کہ تنظیم اساتذہ نے جو مجھے دیا ہے، کیا میں نے اپنے طلبا کو لوٹایا۔ یہ امید بھی ہے کہ میری پیروی نہ سہی لیکن یہ توقع تو کر سکتا ہوں کہ آج کی تنظیم اساتذہ کے جملہ متعلقین میرے ان تین ممدوحین میں سے کم از کم کسی ایک جیسے تو ہوں۔