31 جنوری کی شام تھی۔ سڑکوں پر دو فٹ کے فاصلے پر کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ دھند اور کہرے سے موسم شدید سرد تھا۔ زارا اپنے لحاف میں بیٹھی پلے کارڈز تیار کر رہی تھی۔ اس کے ہاتھ سردی سے کپکپا رہے تھے، لیکن اسے یہ کام مکمل کرنا ضروری تھا۔
14 فروری قریب تھا، اور اسے اس دن سے پہلے حیا کے متعلق بہت سا کام کرنا تھا۔ اس کی تمام روم میٹس کینٹین پر کافی پینے گئی ہوئی تھیں۔
“واہ زارا! تم کتنی اچھی ڈیزائننگ کر رہی ہو۔ ان کارڈز پر کیا لکھو گی آخر؟” عنبر نے کارڈز کی ظاہری خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے پوچھا۔
“میں ان پر کائنات کی سب سے معتبر اور عظیم ہستی کی زبان سے نکلے ہوئے حیا کے حسین کلمات لکھوں گی، ان شاء اللہ!” زارا نے پختہ لہجے میں جواب دیا۔
“کیا مطلب؟” عنبر نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
“میں ان کارڈز پر حیا کے متعلق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث لکھوں گی اور انہیں یونیورسٹی کے نوٹس بورڈ پر چسپاں کروں گی۔”
“اچھا جی! تم یونیورسٹی میں ہو، کسی مدرسے میں نہیں!” صائمہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔
زارا نے خاموشی سے تمام کارڈز مکمل کیے۔ ہر کارڈ پر نمایاں طور پر “یومِ حیا” لکھا تھا، اور نیچے کوئی حدیث، آیت یا اقتباس درج کیا گیا تھا۔ ہر کارڈ کے کونے میں “ویلنٹائن ڈے” لکھ کر سرخ روشنائی سے کراس کر دیا گیا تھا۔
عنبر نے تمام کارڈز کو غور سے پڑھا اور پوچھا، “زارا! یہ ‘یومِ حیا’ کیا ہے؟”
زارا نے مسکرا کر عنبر سے الٹا سوال کیا، “تمہارے نزدیک 14 فروری کیا ہے؟”
“یہ ایک خاص دن ہے، ہم اسے ویلنٹائن ڈے کے طور پر مناتے ہیں، دوستوں کو تحفے دیتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں۔ اہلِ عشق کے لیے تو یہ دن عید سے بھی زیادہ اہم ہے!” عنبر نے جوش سے جواب دیا۔
“تمہیں معلوم ہے کہ ویلنٹائن ڈے کی حقیقت کیا ہے؟” زارا نے پوچھا۔
“نہیں، بس دیکھا دیکھی سب کرنا شروع کر دیا۔”
“تو کیا یہ سب کرنا درست ہے؟”
عنبر الجھ گئی، “مگر اس میں حرج کیا ہے؟”
“تم خود ایک بہترین محقق ہو، ایک بار اس کے پس منظر پر تحقیق کرو، پھر مجھے بھی بتانا۔”
عنبر فوراً تحقیق کے لیے روانہ ہوگئی اور کچھ دیر بعد واپس آ کر کہنے لگی، “زارا! یہ سب جان کر مجھے حیرت ہوئی۔ ویلنٹائن ڈے کی اصل تاریخ بہت افسوسناک ہے۔ یہ دن رومن سینٹ ویلنٹائن کی مناسبت سے منایا جاتا ہے، جسے محبت کا دیوتا کہا جاتا تھا۔ اسے مذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں پہلے قید میں رکھا گیا اور پھر سولی پر چڑھا دیا گیا۔ قید کے دوران اس کی جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی۔ مرنے سے پہلے اس نے ایک الوداعی خط لکھا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا، ‘تمہارا ویلنٹائن’۔ اسی کی یاد میں 14 فروری کو یومِ محبت منایا جاتا ہے!”
زارا نے دکھ سے سر ہلایا، “اور کیا معلوم ہوا؟”عنبربولی
“پاکستان میں کچھ سال پہلے تک یہ دن عام نہیں تھا، لیکن اب سوشل میڈیا کی وجہ سے نوجوان اسے جوش و خروش سے منانے لگے ہیں۔ اس کے جواب میں کچھ مذہبی رجحان رکھنے والے افراد نے ‘یومِ حیا’ منانے کا آغاز کیا۔”
زارا مسکرا کر بولی، “بالکل عنبر! ہمارا دین ہمیں حیا کا درس دیتا ہے، جب کہ غیر مسلم بے حیائی کا پرچار کرتے ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
[arabic]المرء مع من أحب[/arabic](آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے)
اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم قیامت کے دن کس کے ساتھ اٹھنا چاہتے ہیں؟”
عنبر نے پشیمانی سے سر جھکا لیا، “ہم نے کبھی اس پہلو سے سوچا ہی نہیں تھا۔ واقعی، جس چیز پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات موجود ہیں، ہمیں اسی کو اپنانا چاہیے۔”
زارا خوش ہو کر بولی، “اب تمہیں سمجھ آیا کہ میں نے یہ کارڈز کیوں بنائے ہیں؟”
“ہاں، لیکن تمہیں معلوم ہے نا کہ ہماری پرنسپل ان کارڈز کو نوٹس بورڈ پر لگانے کی اجازت نہیں دے گی؟”
“تو کیا ہوا؟” عنبر پرجوش لہجے میں بولی، “ہم خود کمروں میں جا کر ان پیغامات کو پھیلائیں گے۔ یونیورسٹی کے 65 کمرے ہیں، اگر ہم روزانہ 5 کمروں میں جائیں تو 13 دنوں میں تمام کمروں تک پیغام پہنچ سکتا ہے!”
زارا نے خوش ہو کر حساب لگایا، “واقعی! یہ بہترین منصوبہ ہے۔ ہمیں ابھی سے کام شروع کر دینا چاہیے!”
عنبر نے مسکرا کر کہا، “بس اب ہم رکنے والے نہیں!”
زارا نے گھڑی دیکھی، “اف! صبح کے پونے 5 بج رہے ہیں، ہم رات 7 بجے سے بیٹھے ہیں۔ تم سونے جا رہی ہو؟”
عنبر نے لحاف درست کیا اور بولی، “ہاں، تم بھی آ جاؤ۔”
زارا مسکراتے ہوئے اٹھی، “نہیں! یہ وقت سونے کا نہیں، بلکہ اللہ کے پیارے بندوں کا وقت ہے۔ مجھے وضو کرنا ہے اور نماز پڑھنی ہے۔”
عنبر نے فوراً جوتے پہنے اور زارا کے ساتھ چل دی، “مجھے بھی تمہارے ساتھ نماز پڑھنی ہے۔”
یوم حیاکےقریبی دنوں میں انھوں نےحیاکوعام کرنےاورحیاکومتعارف کروانےکی ہرممکنہ کوشش کی ۔
چند دن بعد، زارا اور عنبر دوبارہ ملی تو خوشی سے چہک اٹھیں۔
“الحمدللہ! ماشااللہ! کتنی طالبات نے ہماری بات کو سراہا اور کتنی مزید ہمارے ساتھ شامل ہو گئیں!” عنبر کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔
زارا نے گہری سانس لی، “لیکن کچھ طالبات نے ہماری بات نہیں سنی، مجھے ان کی فکر ہو رہی ہے۔”
عنبر نے مسکرا کر کہا، “زارا! ایک ہی بارش سے پورا باغ سرسبز نہیں ہوتا، مسلسل بارشیں ہی چمن کو شاداب کرتی ہیں۔ ہمیں اپنا کام جاری رکھنا ہوگا اور ان طالبات کے لیے دعا اور محنت کرنی ہوگی۔”
زارا نے سر ہلایا، “بالکل! یہ حیا کا کارواں کبھی نہیں رکے گا!” دونوں نے شکریے کے طور پر اللہ کے حضور سجدہ شکر ادا کیا۔






ہرصبح اس امید کے ساتھ اخبارات دیکھتا ہوں کہ شاید آج پولیس کے ہاتھوں کوئی ظلم کا شکارنہ ہوا ہوگا، آج اشرافیہ کی سرپرستی میں حواکی بیٹی کی عصمت نہ لٹی ہوگی، جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے مزدور اور مزارعے کے ہاتھ اورکان نہ کاٹے گئے ہوں. عابداقبال! آپ پازیٹو پاکستان کے سفیر ہو لیکن کیا کروں کہاں سے لاؤں وہ امید کہ جو مسجد جیسی پاک دھرتی پر پھول بکھیر دے. معصوم زین کے قتل کی فریاد کروں، حافظ آباد کے ابوبکرکے لیے انصاف کی بھیک مانگوں یا لاہورکی 15 سالہ طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے بااثرحکومتی درندوں کو کیفر کردار تک پہچانے کی بات کروں. 69 برسوں سے پاکستان کے باسی اس اسلامی فلاحی ریاست کا انتظار کر رہے ہیں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جس کو تعبیر محمدعلی جناح نے دی تھی.

دفتر سے تھکا ہارا گھر پہنچا تو بیگم کا پریشان چہرہ بتا رہا تھا کہ کچھ تو گڑ بڑ ہے. اس نے دریافت کیا تو بیگم گویا ہوئیں کہ سوئی گیس مکمل بند اور چولہا نہیں جل رہا، چائے کیسے بناؤں؟ وہ حیران تھا کہ مضافاتی علاقوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کا سنا تھا لیکن اس کے گھر کی گیس بند ہونے کی خبر نے اسے پریشانی میں ڈال دیاتھا۔ وہ سیدھا باورچی خانے گیا، گیس کی لائن چیک کی، کبھی چابی کبھی لائن کی لیکجیج ڈھونڈتا رہا لیکن پھر تھک ہار کر بیٹھ گیا۔
آجکل جو موضوع عام ہے اور جس پر سب کا اتفاق ہے وہ یہی کہ پاکستان کے اس فرسوہ ولایتی نظام اور کرپٹ حکمرانوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے- ولایتی اس لیے کہ گزشتہ ستر سالوں سے ہم پر روس، برطانیہ، امریکہ اور اس کے حواریوں کے پتلے حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں- یہ سیاستدان لوگ نہایت چالاک، شاطر اور مکار ہیں! ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اگلے الیکشن میں کس پارٹی کی حکومت ہوگی اور اسی پارٹی میں اپنے سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے اور لوٹ مار و کرپشن کیلئے شامل ہوتے ہیں، اپنے حربے آزماتے ہیں اور پھر حکمران بن جاتے ہیں- عوام ان سے تبدیلی کی امیدیں لگائے بیٹھتے ہیں اور تبدیلی آتی ہے لیکن ان حکمرانوں کے محلوں، ان کے اکاونٹس، اور ان کے فرعونی کبر میں اضافے کی صورت میں آتی ہے- غریب عوام کے روز ذلیل ہونے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی-
دیانت داری ایک عمل ہے جو فی الحقیقت تربیتِ کردار کے مراحل میں سب سے مشکل بلکہ قریب قریب ناممکن الحصول ہے۔ اس کے مشکل ہونے میں سب سے بڑا معاون فرد کا ذاتی ماحول ہے۔ اگر میں نے شادی کرلی ہے تو اب میرے دو خاندان ہیں۔ پہلے ایک تھا۔ اب میرا سُسرال بھی میرا خاندان ہوگیا ہے۔ میرے اپنے شہر میں مراسم کے ساتھ ساتھ میرے سُسرالی شہر میں بھی میرے مراسم پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر میرے بچے ہوگئے ہیں تو اب مجھے دودھ بیچنے والے سے لے کر ڈاکٹر تک اور ڈاکٹر سے لے کر پرنسپل تک معاشرے کے اُن تمام کرداروں سے ناگزیر واسطہ پڑچکاہے جو اگر میں کنوارا ہوتا تو کبھی میرے تعلقات کی فہرست میں نہ ہوتے۔ اگر میں بزنس کرتاہوں تو بے شمار کلائیٹس میرے لیے ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ میں اُن کے گھر تحفے بھیجنے سے بھی باز نہیں آتا کیونکہ میں نہیں چاہتا وہ مجھے چھوڑ کر میرے کسی مدمقابل کے پاس جائیں۔ اگر میں ملازم ہوں تو میرے جُونیئرز سے لے کر افسران تک سب کے ساتھ میری کوئی نہ کوئی غرض وابستہ ہوگئی ہے۔