Tag: تبدیلی

  • حیا کا کارواں –  حمادیہ صفدر

    حیا کا کارواں – حمادیہ صفدر

    31 جنوری کی شام تھی۔ سڑکوں پر دو فٹ کے فاصلے پر کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ دھند اور کہرے سے موسم شدید سرد تھا۔ زارا اپنے لحاف میں بیٹھی پلے کارڈز تیار کر رہی تھی۔ اس کے ہاتھ سردی سے کپکپا رہے تھے، لیکن اسے یہ کام مکمل کرنا ضروری تھا۔

    14 فروری قریب تھا، اور اسے اس دن سے پہلے حیا کے متعلق بہت سا کام کرنا تھا۔ اس کی تمام روم میٹس کینٹین پر کافی پینے گئی ہوئی تھیں۔
    “واہ زارا! تم کتنی اچھی ڈیزائننگ کر رہی ہو۔ ان کارڈز پر کیا لکھو گی آخر؟” عنبر نے کارڈز کی ظاہری خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے پوچھا۔
    “میں ان پر کائنات کی سب سے معتبر اور عظیم ہستی کی زبان سے نکلے ہوئے حیا کے حسین کلمات لکھوں گی، ان شاء اللہ!” زارا نے پختہ لہجے میں جواب دیا۔
    “کیا مطلب؟” عنبر نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

    “میں ان کارڈز پر حیا کے متعلق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث لکھوں گی اور انہیں یونیورسٹی کے نوٹس بورڈ پر چسپاں کروں گی۔”
    “اچھا جی! تم یونیورسٹی میں ہو، کسی مدرسے میں نہیں!” صائمہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔
    زارا نے خاموشی سے تمام کارڈز مکمل کیے۔ ہر کارڈ پر نمایاں طور پر “یومِ حیا” لکھا تھا، اور نیچے کوئی حدیث، آیت یا اقتباس درج کیا گیا تھا۔ ہر کارڈ کے کونے میں “ویلنٹائن ڈے” لکھ کر سرخ روشنائی سے کراس کر دیا گیا تھا۔
    عنبر نے تمام کارڈز کو غور سے پڑھا اور پوچھا، “زارا! یہ ‘یومِ حیا’ کیا ہے؟”
    زارا نے مسکرا کر عنبر سے الٹا سوال کیا، “تمہارے نزدیک 14 فروری کیا ہے؟”

    “یہ ایک خاص دن ہے، ہم اسے ویلنٹائن ڈے کے طور پر مناتے ہیں، دوستوں کو تحفے دیتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں۔ اہلِ عشق کے لیے تو یہ دن عید سے بھی زیادہ اہم ہے!” عنبر نے جوش سے جواب دیا۔
    “تمہیں معلوم ہے کہ ویلنٹائن ڈے کی حقیقت کیا ہے؟” زارا نے پوچھا۔
    “نہیں، بس دیکھا دیکھی سب کرنا شروع کر دیا۔”
    “تو کیا یہ سب کرنا درست ہے؟”
    عنبر الجھ گئی، “مگر اس میں حرج کیا ہے؟”

    “تم خود ایک بہترین محقق ہو، ایک بار اس کے پس منظر پر تحقیق کرو، پھر مجھے بھی بتانا۔”
    عنبر فوراً تحقیق کے لیے روانہ ہوگئی اور کچھ دیر بعد واپس آ کر کہنے لگی، “زارا! یہ سب جان کر مجھے حیرت ہوئی۔ ویلنٹائن ڈے کی اصل تاریخ بہت افسوسناک ہے۔ یہ دن رومن سینٹ ویلنٹائن کی مناسبت سے منایا جاتا ہے، جسے محبت کا دیوتا کہا جاتا تھا۔ اسے مذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں پہلے قید میں رکھا گیا اور پھر سولی پر چڑھا دیا گیا۔ قید کے دوران اس کی جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی۔ مرنے سے پہلے اس نے ایک الوداعی خط لکھا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا، ‘تمہارا ویلنٹائن’۔ اسی کی یاد میں 14 فروری کو یومِ محبت منایا جاتا ہے!”

    زارا نے دکھ سے سر ہلایا، “اور کیا معلوم ہوا؟”عنبربولی
    “پاکستان میں کچھ سال پہلے تک یہ دن عام نہیں تھا، لیکن اب سوشل میڈیا کی وجہ سے نوجوان اسے جوش و خروش سے منانے لگے ہیں۔ اس کے جواب میں کچھ مذہبی رجحان رکھنے والے افراد نے ‘یومِ حیا’ منانے کا آغاز کیا۔”
    زارا مسکرا کر بولی، “بالکل عنبر! ہمارا دین ہمیں حیا کا درس دیتا ہے، جب کہ غیر مسلم بے حیائی کا پرچار کرتے ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
    [arabic]المرء مع من أحب[/arabic](آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے)

    اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم قیامت کے دن کس کے ساتھ اٹھنا چاہتے ہیں؟”
    عنبر نے پشیمانی سے سر جھکا لیا، “ہم نے کبھی اس پہلو سے سوچا ہی نہیں تھا۔ واقعی، جس چیز پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات موجود ہیں، ہمیں اسی کو اپنانا چاہیے۔”
    زارا خوش ہو کر بولی، “اب تمہیں سمجھ آیا کہ میں نے یہ کارڈز کیوں بنائے ہیں؟”
    “ہاں، لیکن تمہیں معلوم ہے نا کہ ہماری پرنسپل ان کارڈز کو نوٹس بورڈ پر لگانے کی اجازت نہیں دے گی؟”
    “تو کیا ہوا؟” عنبر پرجوش لہجے میں بولی، “ہم خود کمروں میں جا کر ان پیغامات کو پھیلائیں گے۔ یونیورسٹی کے 65 کمرے ہیں، اگر ہم روزانہ 5 کمروں میں جائیں تو 13 دنوں میں تمام کمروں تک پیغام پہنچ سکتا ہے!”

    زارا نے خوش ہو کر حساب لگایا، “واقعی! یہ بہترین منصوبہ ہے۔ ہمیں ابھی سے کام شروع کر دینا چاہیے!”
    عنبر نے مسکرا کر کہا، “بس اب ہم رکنے والے نہیں!”
    زارا نے گھڑی دیکھی، “اف! صبح کے پونے 5 بج رہے ہیں، ہم رات 7 بجے سے بیٹھے ہیں۔ تم سونے جا رہی ہو؟”
    عنبر نے لحاف درست کیا اور بولی، “ہاں، تم بھی آ جاؤ۔”
    زارا مسکراتے ہوئے اٹھی، “نہیں! یہ وقت سونے کا نہیں، بلکہ اللہ کے پیارے بندوں کا وقت ہے۔ مجھے وضو کرنا ہے اور نماز پڑھنی ہے۔”

    عنبر نے فوراً جوتے پہنے اور زارا کے ساتھ چل دی، “مجھے بھی تمہارے ساتھ نماز پڑھنی ہے۔”
    یوم حیاکےقریبی دنوں میں انھوں نےحیاکوعام کرنےاورحیاکومتعارف کروانےکی ہرممکنہ کوشش کی ۔
    چند دن بعد، زارا اور عنبر دوبارہ ملی تو خوشی سے چہک اٹھیں۔
    “الحمدللہ! ماشااللہ! کتنی طالبات نے ہماری بات کو سراہا اور کتنی مزید ہمارے ساتھ شامل ہو گئیں!” عنبر کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔
    زارا نے گہری سانس لی، “لیکن کچھ طالبات نے ہماری بات نہیں سنی، مجھے ان کی فکر ہو رہی ہے۔”
    عنبر نے مسکرا کر کہا، “زارا! ایک ہی بارش سے پورا باغ سرسبز نہیں ہوتا، مسلسل بارشیں ہی چمن کو شاداب کرتی ہیں۔ ہمیں اپنا کام جاری رکھنا ہوگا اور ان طالبات کے لیے دعا اور محنت کرنی ہوگی۔”

    زارا نے سر ہلایا، “بالکل! یہ حیا کا کارواں کبھی نہیں رکے گا!” دونوں نے شکریے کے طور پر اللہ کے حضور سجدہ شکر ادا کیا۔

  • انسان، ثقافت اور تبدیلی  – صہیب زمان

    انسان، ثقافت اور تبدیلی – صہیب زمان

    انسان بنیادی طور پر غلام نہیں، لیکن انسانی معاشرہ ایسی بہت سی چیزوں سے متاثر ہوتا ہے جو اس کی زندگی پر گہرے اثرات ڈالتی ہیں، مثالً جینیاتی خصوصیات، خاندان کے معاملات، تربیت، تعلیم، جسمانی اور ذہنی صحت، مالی صورتحال، ثقافت اور مذہب وغیرہ۔ ان میں سے کچھ چیزیں معمولی اثرات ڈالتی ہیں، جب کہ مذہب جیسا عنصر انسان سے اس کی سب سے قیمتی چیز، یعنی زندگی بھی مانگ لے تو وہ اسے اپنی سعادت سمجھ کر قربان کر دیتا ہے۔ اسلام میں شہادت کا تصور اس کی بہترین مثال ہے۔ مذہب نہ صرف مذہبی بلکہ زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے۔

    مذہب کے بعد ثقافت کسی قوم یا معاشرے کی زندگی میں سب سے اہم حیثیت رکھتی ہے۔ ثقافت کسی قوم کی مجموعی طرزِ زندگی کی نمائندگی کرتی ہے، جس میں مذہبی عقائد، زبان، لباس، قانون، فنون، رسم و رواج، ادب، معاشرتی اقدار، معماری اور خوراک سب شامل ہیں۔ یہ تمام عناصر مل کر ایک قوم کی شناخت بناتے ہیں۔

    ثقافت نہ صرف انسان کو جینے کا طریقہ سکھاتی ہے بلکہ زندگی کے ہر پہلو پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ دوسروں کے ساتھ کیسے تعلقات استوار کرنے ہیں، کس طرح سوچ اور نظریات بنانے ہیں، کیسے علم حاصل کرنا ہے، اور یہاں تک کہ کس قسم کا کھانا کھانا ہے۔ عقائد چونکہ ثقافت کا حصہ ہوتے ہیں، اس لیے ہماری عبادات اور مذہبی رسومات بھی ثقافتی رجحانات سے متاثر ہوتی ہیں۔

    ثقافت انسانی زندگی کے لیے اہم ہے، لیکن اس کے منفی اثرات بھی ہیں۔ پاکستان کی ثقافت میں بعض روایات اور رجحانات سیاست کے لیے نقصان دہ ہیں۔ مثال کے طور پر، خاندانی سیاست کا رجحان جہاں ایک خاندان کے تمام افراد ایک ہی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوتے ہیں، اور اس کے نوجوان کسی دوسری جماعت سے تعلق کا اظہار نہیں کر سکتے۔ دوسرا نقصان دہ رجحان یہ ہے کہ لوگ اپنی سیاسی جماعت کی ہر بات کو درست مانتے ہیں، چاہے وہ عوام یا ریاست کے لیے نقصان دہ کیوں نہ ہو۔

    اسی طرح معیشت پر بھی ثقافت کے اثرات غور طلب ہیں۔ پاکستان میں روایتی سوچ کی وجہ سے اکثر لوگ تبدیلی کو قبول نہیں کرتے، حالانکہ سائنسی اور تکنیکی ترقی زندگی میں آسانی پیدا کرتی ہے اور معیشت کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ ہماری ثقافت کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ یہ عورتوں کو معاشی سرگرمیوں میں شرکت سے روکتی ہے، حالانکہ عورتیں ملک کی نصف آبادی ہیں۔

    پاکستانی ثقافت میں ایک اور اہم مسئلہ انتہا پسندی ہے، جو معمولی سیاسی، خاندانی یا دیگر وجوہات کی بنا پر لوگوں کو آپس میں لڑائی جھگڑوں پر اکساتا ہے۔

    وقت کے ساتھ انسان کی زندگی میں تبدیلیاں آتی رہنی چاہییں۔ ہمیں بطور پاکستانی اپنی ثقافت کے منفی اثرات کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ثقافت کو مثبت طور پر استعمال کرتے ہوئے سماجی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے تعلیمی نظام، میڈیا اور دیگر ذرائع کا فعال استعمال کرنا چاہیے۔ تعلیمی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھال کر، اور میڈیا کو عوامی آگاہی کے لیے مؤثر پلیٹ فارم بنا کر ہم انتہا پسندی، فرقہ واریت، خاندانی سیاست اور دیگر مسائل کا بہتر حل تلاش کر سکتے ہیں۔

  • ہم دنیا کو بھی قائل کر لیں گے – محمد عرفان ندیم

    ہم دنیا کو بھی قائل کر لیں گے – محمد عرفان ندیم

    شیخ سعدی نے گلستان میں ایک واقعہ نقل کیا ہے میں اس واقعے کی طرف نہیں جانا چاہتا ، اس واقعے کے آخر میں شیخ سعدی نے پر سیپشن کا تصور دیا ہے ،ہم اپنی زندگی میں مختلف چیزوں اور افراد کے بارے میں مختلف پرسیپشنز بنا لیتے ہیں اور پھر ہر چیز کو اسی پرسیپشن کے تناظر میں دیکھتے ہیں ۔

    یہ پرسیپشن بنانے میں میڈیا ، دوست ، ماحول اور معاشرہ بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔افراد ،اقوام اور ملکوں کے بارے میں بھی ایک خاص پرسیپشن بن جاتی ہے اور ہم چاہ کر بھی اس سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر جو پرسیپشن بن چکی ہے اس میں اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود اس پرسیپشن کو بدلنا نہیں چاہتے۔دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے اس کو ایک لمحے کے لیے سائڈ پے رکھ دیں اور سوچیں کہ کیا ہم خود اس ملک کو ٹھیک کرنا چاتے ہیں اور کیا ہم خود اس ملک کے بارے میں پرسیپشن کو بدلنا چاہتے ہیں؟

    تبدیلی اور اصلاح ہمیشہ اندر سے جنم لیتی ہے ، دنیا میں جب بھی تبدیلی کا سفر شروع ہوا اس کا آغاز ہمیشہ اندر سے ہوا۔ آپ دیکھ لیں دنیا میں جتنے بھی انبیا آئے سب نے پہلے اپنے خاندان اور فیملی والوں کی اصلاح کی کوشش کی ،محسن انسانیت کو بھی سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرانے کا حکم دیا گیا تھا۔اسی لیے جب تک ہم خود اس ملک کے بارے میں اپنی پرسیپشن کو نہیں بدلیںگے، اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کریں گے ہم کسی اور کو قائل نہیں کر سکیں گے۔

    اس کے ساتھ ہمیں اس حقیقت کو بھی سمجھنا چاہئے کہ ہر عروج سے پہلے زوال اور ہر زوال کے بعد عروج ہوتا ہے ، یہ کائنات کاایک مسلمہ اصول ہے،آپ دیکھ لیں جدید دور کا آغاز سولہویں صدی سے ہوتا ہے ،برطانیہ یورپ کا پہلا ملک تھا جس نے ترقی کی طرف قدم بڑھائے تھے لیکن اس سے پہلے کا برطانیہ آج کا پاکستان تھا ۔شاید آپ کے لیے یہ مماثلت حیران کن ہو لیکن مجھے آج کے پاکستان او ر پندرھویں صدی کے برطانیہ میں تمام چیزیں مشترک دکھائی دیتی ہیں۔ پندرھویں صدی کا برطانیہ جہالت اور تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔امیر اور غریب کا فرق واضح تھا ،معاشرے میں فقیروں ،گداگروں اور دھوکے بازوں کی لمبی قطاریں ہوا کرتی تھیں ،غریب افراد کو معاشرے میں کوئی قانونی حق حاصل نہیں تھا۔

    دیہاتی جب غربت اور بھوک کے ہاتھوں تنگ ہوتے تو بھیک مانگنے شہروں کی طرف نکل پڑتے تھے۔شہر گندے ہوتے تھے ، جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر تھے ،گلیاں تنگ اور دکانیں گندی ہوتی تھیں ، قصائی دکان کے سامنے ہی جانور ذبح کر کے انہیں لٹکادیتے تھے۔لوگ اون کا لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے جلد کی بیماریاں پیدا ہو جاتی تھیں ،کپڑے دھونے کا رواج بہت کم تھا ،نہانے کو عیب سمجھا جاتا تھا۔ عوام تنگ نظراور کم ظرف تھے ، اکھڑ مزاج اور درشت،ماحول میں تشدد غالب تھا ،کوئی کسی کو برداشت کرنے کے لیئے تیار نہیں تھا.

    لوگ ایک دوسرے کو آنکھیں نکالتے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ،معمولی باتوں پر لڑپڑنا اور گھتم گھتا ہوجانا معمول تھا ، تفریح کے لیئے انسانوں اور جانوروں کی لڑائیاں اور مقابلے ہوا کرتے تھے ، لوگوں کی عمریں ذیادہ نہیں ہو ا کرتی تھیں ، بیماریں عام تھیں لیکن معالج اور ڈاکٹر ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملتے تھے۔بیماریوں اور فسادات میں لوگ بڑی تعداد میں مر جاتے تھے ، اکثر عورتیں زچگی کے دوران مر جاتی تھیں۔ عوام میں توہمات کی بھرمار تھی ، روحوں ،جنات اور شیاطین پر اعتقاد تھا، لوگ ڈاکٹروں سے ذیادہ جادو ٹونے پر یقین رکھتے تھے۔بیماریوں کے ساتھ لوگوں کو قحط ،خشک سالی اور وباؤں کا سامنا تھا ۔

    اب آپ پاکستان کو دیکھیں ، پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی سو سالہ جد وجہد کا نتیجہ تھا ،ایک ایسا پاکستان جس کے پاس وسائل تھے نہ افراد،مشینری تھی نہ ساز وسامان ،ڈاکٹر تھے، انجینئر تھے نہ سائنسدان ،فیکٹریاں تھیں ،ملیں اور نہ کارخانے ،سڑکیں تھیں نہ ریلوے ،دفاتر تھے نہ سرکاری ملازمین ، جہاز تھے ، ایئر پورٹ اورنہ بندرگاہیں اور حد تو یہ تھی کہ ا س کے پاس اپنا کوئی آئین اور دستور بھی نہیں تھا۔اس کے باوجود اللہ کا کرم تھا کہ پچاس سال بعد وہی پاکستان ایٹمی طاقتوں کی صف میں کھڑا تھا۔آج وہی پاکستان جنوبی ایشیا کا اہم ترین ملک ہے جس کی مرضی کے بغیر عالمی طاقتیں کو ئی پالیسی ترتیب دے سکتی ہیں.

    اور نہ اس پر عمل پیرا ہو سکتی ہیں۔آج اس کا شمار دنیا کے اہم ترین ممالک میں ہوتا ہے اور آج اس پاکستان کو ساتھ لے کے چلنا عالمی طاقتوں کی مجبوری بن چکاہے۔آج وہ پاکستان دنیا کا بہترین اسلحہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے ،آج اس پاکستان کے پاس دو سو سے زائد ایٹم بم بنانے کی صلاحیت موجود ہے ، آج امریکہ ،روس اور چین جیسی سپر رپاورز اسے اپنے بلاک میں شامل کرنے کے لیئے بے چین ہیں اور ذیادہ سے ذیادہ سرمایہ کارے کر رہی ہیں۔ پچھترسال کی عمر میں انتی بڑی کامیابیاں حاصل کر لینا واقعی ایک کمال ہے اور یہ کمال صرف پاکستان جیسا ملک ہی کر سکتا ہے۔

    آپ کہہ سکتے ہیں کہ ناروے ، ڈنمارک، سوئرزلینڈ،آئر لینڈ ،بیلجئم، سنگا پور، بحرین ، مسقط، عمان، کویت، عرب امارات، اردن اور برونائی سب ایسے ممالک ہیں جنہوں نے بہت کم عرصے میں ترقی کی ہے اور آج یہ ممالک ترقی یافتہ ممالک میں سر فہرست ہیں۔لیکن سر ان ممالک کی ترقی کی حقیقت جا ننے سے پہلے آپ ان ممالک کا جغرافیہ ، ان کی آبادی ، ان کے ہمسائے ممالک اور ان کی معیشت کا جائزہ لیں۔

    ناروے کی آبادی صرف 51لاکھ ہے ، فن لینڈ 55لاکھ ، سنگا پور 55 لاکھ ، آئر لینڈ 46لاکھ ، سویڈن 98لاکھ ، ڈنمارک 57لاکھ اور اسی طرح عرب ریاستوں کی آبادی بھی لاکھوں کے ہندسے سے تجاوز نہیں کر تی ، اب یہ چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں ، ان کی آبادی ساتویں ہندسے سے آگے نہیں بڑھتی ، ان کی ہمسائے ممالک کے ساتھ کو ئی جنگ نہیں ، انہیں ایٹم بم، فوج اور اسلحے کی پرواہ نہیں ،ان کی جغرافیائی حیثیت نے انہیں ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رکھا ہوا ہے اور شرح خواندگی ان ممالک میں سو فیصد ہے لہٰذا ان ممالک کی ترقی ایک لازمی امر ہے۔

    جبکہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت، ہمسایہ ممالک ، آبادی ، شرح خواندگی اور انرجی کے مسائل یکسر مختلف ہیں۔پاکستان کی آبادی تقریبا بائیس کروڑ کی حدوں کو چھو رہی ہے ،صرف کراچی شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ، لاہور شہر بھی ڈیڑھ کروڑ افراد کو اپنے دامن میںپناہ دیے بیٹھا ہے لہٰذا 50لاکھ آبادی والے ملک اور ڈیڑھ کروڑ آبادی والے شہر کا موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ظاہر ہے جس شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہو گی اس کے مسائل بھی اسی لحاظ سے ہوں گے ، جس ملک پر بائیس کروڑ عوام کا بوجھ ہو گا اس کے مسائل بھی اسی لحاظ سے ہو ں گے ، اس ملک میں ٹرانسپورٹ ، سڑکیں ، بازار، ریلوے ، ایئر پورٹس، شاپنگ مالز، گھر، فلیٹ ، سیوریج سسٹم ،صاف پانی، غذائی اجناس اور ضروریات زندگی کے مسائل بھی اسی حساب سے ہوں گے۔

    یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا ملک جس کی آبادی بائیس کروڑ، جس کی فوج دس لاکھ، جس کے ہمسائے انتہائی فسادی، جس کی شرح خواندگی ساٹھ فیصداور جس کو اپنا دفاعی سسٹم اپ گریڈ رکھنا ہو اس ملک کے مسائل اور ایک ایسا ملک جس کی آبادی صرف پچاس لاکھ ، فوج صرف دس ہزار ، ہمسائے بے ضرر اور اس کی شرح خواندگی سو فیصد ہو ان دونوں کے مسائل ایک جیسے ہوں ؟ اس لیے سب سے پہلے ہمیں خودپاکستان کے بارے میں پرسیپشن کی بدلنے کی ضرورت ہے جس دن ہم نے اپنی پرسیپشن بدل لی ہم دنیا کو بھی پاکستان کے بارے پرسیپشن بدلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔

  • کیا تبدیلی ممکن ہے – ڈاکٹر  احمد چشتی

    کیا تبدیلی ممکن ہے – ڈاکٹر احمد چشتی

    ایک بادشاہ کے دربار میں ایک گانا گانے والا آیا،اس نے بہت اچھا گانا گایا اور اپنی آواز کے سحر سے بادشاہ اور اسکے وزراء و امراء کو مسحور کر دیا۔ بادشاہ نے خوش ہو کر کہا کہ اسے ھیرے دے دو، اس نے مزید اچھا گایا تو بادشاہ نے کہا اسے سونا دے دو، اسی طرح وہ مزید اچھا گاتا گیا اور بادشاہ خوش ہو کر انعامات کا اعلان کرتا گیا۔

    گلوکار اپنے گھر گیا اور اپنی بیگم کو کہنے لگا کہ ”اب ہمارے حالات بدلنے والے ہیں، بادشاہ سلامت بہت جلد مجھے انعام و اکرام سے نوازنے والے ہیں”۔ کچھ عرصہ گزر گیا مگر گلوکار کو انعامات نہ مل سکے۔ وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور آداب بجا لانے کے بعد کہنے لگا کہ حضور والا آپ کی طرف سے انعامات کے اعلان کو کافی دن گزر چکے مگر انعامات مجھے نہیں ملے۔ بادشاہ نے کہا بابا یہ لینے دینی کی بات کہاں سے آ گئی، تو نے میرے کان کو خوش کیا اور میں نے تیرے کان کو خوش کیا۔

    تمام سیاسی جماعتیں بھی اقتدار سے پہلے عوام کیساتھ بے پناہ وعدے کر کے عوام کے کانوں کو خوش کرتی ہیں مگر جب حکومت مل جاتی ہے اور عوام کام کی ڈیمانڈ کرتے ہیں تو حکومت اپنی مجبوریاں بیان کرنے لگتی ہے۔جب سے پاکستان بنا ہے تب سے سیاستدان عوام کیساتھ مذاق کرتے آئے ہیں۔ جب یہ سیاستدان جیت کر اسمبلیوں میں پہنچ کر حکومت بناتے ہیں تو سارے کئیے ہوئے وعدے بھول جاتے ہیں۔دنیا اتنی ترقی کر چکی مگر قدرتی خزانوں سے مالا مال ملک پاکستان ابھی تک کوئی خاص ترقی نہیں کر سکا۔ یہاں کے مسائل ویسے ہی ھیں جو پاکستان بننے سے پہلے تھے۔

    سیاستدانوں کی ناکامی کی بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کی بے جا مداخلت بھی ہے۔ تبدیلی نہ آنے کی ایک اور بڑی وجہ یہ ھے کہ سیاست دان کوئی بھی بن جاتا ہے، اس کیلئے باقاعدہ ٹریننگ نہیں ہے۔ تبدیلی نہ آنے کی دیگر وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ عوام کی بے شعوری بھی ہے۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک جن میں بہت جلد تبدیلی آئی جیسے چین، جاپان وغیرہ، انکی عوام بہت با شعور ہے، یہ راستے پر کچرا نہیں ڈالتے، اپنی گلیاں اور سڑکیں صاف رکھتے ہیں اور ناجائز قبضہ نہیں کرتے۔

    پاکستان کے عوام یہی چاہتے ہیں کہ ان کے منہ میں روٹی تک حکومت ڈال کر دے۔ آپ ایک چھوٹی سی مثال لیں اگر پاکستان کی آبادی میں سے سات کروڑ لوگ بھی روزانہ باھر نکلتے ہیں اور ان میں سے ہر کوئی صرف ایک کاغذ اٹھا کر صاف کر دیتا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ سات کروڑ کاغذ جو کچرے کی وجہ بنتے وہ صاف ہو گئے۔پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ حکومت کے وزراء بہت فضول خرچ ہیں۔ وہ ایک پروگرام پر لاکھوں روپے خرچ کر ڈالتے ہیں جسکی وجہ سے ملکی خزانے کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔ حکومت کو اپنے اخراجات گھٹانے چاھئیں۔ تمام وزراء اپنے گھر سے کھانا کھائیں، اپنی ذاتی گاڑیاں استعمال کریں، کوئی بھی میٹنگ یا پروگرام سادگی سے منعقد کریں۔

    جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو شور مچایا جاتا ہے لیکن جب اقتدار ملتا ہے تو وہ پارٹی تبدیلی کے بارے میں اپنی مجبوریاں اور بے دلیل تاویلیں پیش کرتی ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کسی بھی معاشرے میں بہتری کے لیے ” آئیڈیل لیڈرشپ” کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ایک اکیلا کچھ نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کے ساتھ ہم خیال لوگوں کی ایک بڑی تعداد نہ ہو۔دوسرے نمبر پر اس معاشرے میں قانون کی موجودگی بہت اہم ہے وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جن کو اہمیت نہیں دی جاتی ان سے متعلق ضروری قانون سازی ہونی چاہیئے۔

    جیسے نالوں میں، سڑکوں پہ کچراپھینکنے، پان کی پیک تھوکنے، غلط سمت ڈرائیونگ کرنے، نوپارکنگ پہ گاڑی کھڑی کرنے، عوام کے تفریحی مقامات پر کچرا ڈالنے پہ سخت سزائیں ہونی چاہیں۔ تیسرے نمبرپہ ان قوانین کے بننے کے بعد ان پر عملدرآمد یقینی ہونا چاہیئے۔ یعنی قانون توڑنے والے کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے بلکہ قانون کے مطابق سزادی جائے۔پس ثابت ہوا کہ ” قانون کی حکمرانی” بہت سے مسائل کاحل ہے۔

    اب ذرا پاکستانی معاشرے پہ نظرڈالیے حکمرانوں سے لیکرعوام تک، امیر سے لیکر غریب تک، قانون سب کے ہاتھ میں کھلونا بناہواہے۔ سب کومعلوم ہے کہ قانون کیسے توڑناہے اور اگر کبھی ” گرفت” میں آجائیں تو اس سے کیسے نکلنا ہے۔ یہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایسے میں قانون پر عملدرآمد کیسے؟دوسراطریقہ تبدیلی لانے کا یہ ہے کہ جس میں معاشرے خاص طور پر عوام میں شعور بیدار کیا جائے۔ انہیں یہ بتایاجائے کہ انفرادی فوائد کے بجائے اجتماعی فوائد پرانحصار کیا جائے۔ ہر ذمہ داری حکومت کے کھاتے میں ڈال کر اپنی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اپنے ملک، شہر، گلی کوچوں کو اپنا سمجھنا چاہیئے۔

    یعنی ان کو”Own”کیاجائے۔ جب تک ہم اپنے گھر کے علاوہ اپنے علاقے شہر، ملک کو نہیں اپنائیں گے۔ ان کے خراب حالات، اور مشکلات کو اپنی حالت اور مشکل نہیں سمجھیں گے۔ تبدیلی کے امکانات بہت کم ہیں۔ ملکی ترقی،معاشرتی اصلاحات تب ہی ممکن ہے جب لوگوں میں شعور موجود ہوکہ اگر ملک اور معاشرے میں کچھ غلط ہوگا تو ہمارے ساتھ بھی غلط ہوگا۔ جب تک مسائل کو اپنا نہیں سمجھا جائے گا۔ اس کے حل کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب نہ کیا جاسکے گا۔ اور حل کو جاننے بغیر مسائل کو خاتمہ ممکن نہیں۔ یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ حکومت ناکارہ ہے۔ حکومت عوام سے لاتعلق ہیں، سوال یہ ہے کہ عوام اپنے آپ سے کتنے مخلص ہیں؟

    اگر سیاستدان نفرت،عدم برداشت،خلوص اور بردباری کی سیاست کرتے تو آج حالات یوں نہ ہوتے۔ بد قسمتی سے سیاست میں ایسے لوگوں کی اجارہ داری ہے جو اپنے مخالف کو کرپٹ، اور گھٹیا جبکہ خود کو صادق و امین تصور کرتے ہیں۔ اگر واقعی ہی تبدیلی لانی تھی تو یہ رویوں کی تبدیلی لا?یں، نفرت کی جگہ محبت سے تبدیل کریں، تعصب کی جگہ فراخ دلی سے تبدیل کریں۔ الزام تراشی کی سیاست کی بجائے کام کی سیاست کو ترقی دی جائے تو ھی تبدیلی ممکن ہے۔

    تبدیلی اس وقت ممکن ہے جب شفاف احتساب ممکن ہو گا،جب حکومتیں فضول اخراجات ختم کریں گی، جب تمام سیاستدانوں سمیت ملک کے تمام ادارے باہمی رضامندی و محبت سے صرف پاکستان کیلئے کام کریں گے، اور تبدیلی تبھی ممکن ہے جب عوام بھی باشعور ہو کر اپنے فرائض پورے کریں گے اور صرف حکومت پر انحصار نہیں کریں گے۔ اگر حکومت سمیت عوام نے بھی الزام تراشی، گالم گلوچ، اور منفی رویوں کو پروان چڑھایا تو تبدیلی کا سورج پاکستان میں کبھی طلوع نہیں ہو سکے گا۔

  • اب تبدیلی آئی تو پھر-  اوریا مقبول جان

    اب تبدیلی آئی تو پھر- اوریا مقبول جان

    پاکستان کے پہلے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کا سورج بامِ عروج پر تھا اور ملک میں عقل و ہوش اور تحمل و بردباری کی خو میں پروان چڑھی ہوئی سیاسی قیادت آئے دن کے حکومتی مظالم اور بے رحمانہ ہتھکنڈوں کی وجہ سے مایوسی کے اتھاہ سمندر میں غرق ہوتی جا رہی تھی۔

    ہر کوئی سمجھتا تھا کہ بھٹو نے چونکہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے، اس لئے اب وہ اس ملک میں اپنے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو قوت کے ساتھ کچل کر رکھ دے گا اور کوئی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکے گا۔ فوج 1971ء کے سانحے کی وجہ سے عوامی ردّعمل کا سامنا نہیں کر پا رہی تھی، اسی لئے وہ بسروچشم ہر جائز و ناجائز واقعے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے تھی۔ ویسے بھی آئی ایس آئی کا سیاسی رنگ تو خود ’’آنجناب‘‘ بھٹو کی اختراع اور ایجاد ہے، جو اس کی حکومت کے آخری ایّام میں محدود قسم کی سیاسی انجینئرنگ کے لئے بنایا گیا تھا۔اس سے پہلے نہ ایسے آئی ایس پی آر تھا نہ کوئی اور واضح گفتگو۔ بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو اس کا پہلا نشانہ بالکل آج کے دَور کی طرح صحافی ہی بنے۔

    اس نے ہر اُس آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کی جو جاندار اور توانا تھی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے مہینے کے اندر ہی روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے ایڈیٹر الطاف گوہر کو 5 فروری 1972ء کو گرفتار کر لیا گیا اور 13 فروری کو رسول بخش تالپور نے مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے کہا کہ ’’اخبارات کا روّیہ قابل ِ گرفت ہے اور بعض کو قومی تحویل میں لیا جا سکتا ہے‘‘۔ بیوروکریسی کو خوفزدہ کرنے اور انہیں ناجائز حکم ماننے پر مجبور کرنے کے لئے بھٹو نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات استعمال کئے اور 12 مارچ 1972ء کو چودہ سو اعلیٰ سول آفیسران کو فوری طور پر ملازمت سے برطرف کر دیا۔ اس برطرفی میں ذاتی نفرت کا عمل دخل اس قدر تھا کہ پیپلز پارٹی والوں کو چونکہ کراچی یونیورسٹی شعبہ تصنیف و تالیف کے سربراہ آفتاب حسن اور آئی جی اے کے چیئرمین ڈاکٹر مختار جیسے بے ضرر افراد کے نظریات پسند نہ تھے، اس لئے انہیں بھی نکال دیا گیا۔

    چند ہفتے بعد 5 اپریل 1972ء کو دائیں بازو کے ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘ اور بائیں بازو کے ’’پنجاب پنچ‘‘ پر پابندی لگا کر ان کے مدیروں اور ناشران الطاف حسن قریشی، اعجاز قریشی، مجیب الرحمن شامی اور حسین نقی کو گرفتار کر لیا گیا اور فوجی عدالت سے ہر ایک کو ایک سال قید بامشقت اور دو لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی گئی۔ بھٹو کے مارشل لاء کا اقتدار جاری تھا، مگر ساتھ ہی قومی اسمبلی کے اجلاس بھی منعقد ہوتے، جن میں مخالف گفتگو پر بھٹو کا آمرانہ ذہن سیخ پا ہوتا رہتا۔ سب سے بلند آہنگ آواز جماعت اسلامی کے درویش صفت رکن اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد کی تھی جو ڈیرہ غازی خان کے سرداروں اور تمن داروں کو شکست دے کر اسمبلی میں پہنچے تھے۔

    انہیں بھٹو کے اقتدار کے آنے کے چھ ماہ کے اندر 8 جون 1972ء کو شہید کر دیا گیا۔ اسمبلی کا رکن قتل ہوا، لیکن بھٹو نے نہ خود رسمی تعزیتی الفاظ ادا کئے اور نہ ہی اسمبلی میں ایسا کرنے دیا گیا۔ جیسے ہی بھٹو کے مارشل لاء کا ایک سال، 20 دسمبر 1972ء کو مکمل ہوا تو اپوزیشن نے اسے یومِ سیاہ کے طور پر منایا۔ لاہور میں ایئر مارشل اصغر خان کی قیادت میں نکلنے والے جلوس پر ’’نامعلوم افراد‘‘ نے فائرنگ کی جس کی زد میں آ کر خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ محمد رفیق شہید ہو گئے۔ اپوزیشن کے متحدہ جمہوری محاذ نے 23 مارچ 1973ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ منعقد کیا۔ اس پر ویسے ہی ’’نامعلوم افراد‘‘ کے ذریعے اندھا دھند فائرنگ کروائی گئی۔ فائرنگ کے وقت سٹیج پر مفتی محمود، ولی خان، بزنجو، نوابزادہ نصر اللہ و دیگر موجود تھے۔ اس بہیمانہ واقعے میں نو بے گناہ افراد شہید اور 75 زخمی ہوئے۔ طاقتور بھٹو اب غدّار غدّار کھیلنے لگا۔

    سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومتیں تھیں جو بھٹو کے آمرانہ ذہن کے لئے ناقابل ِ برداشت تھیں۔ لندن ٹائمز میں ایک خوفناک منصوبے کا انکشاف ’’کروایا‘‘ گیا۔ منصوبہ یہ بتایا گیا کہ پاکستان سے عبدالولی خان، سردار عطاء اللہ مینگل، محمود ہارون، احمد نواز بگٹی، نبی بخش زہری اور ملک غلام جیلانی علاج کا بہانہ بنا کر لندن گئے ہیں اور ایک ایسی سازش کا پلان تیار ہوا ہے جس کے تحت چاروں صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں چلائی جائیں جس کے نتیجے میں ملنے والی آزادی کے بعد ایک ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن بنائی جائے گی۔ دس سال تک پاکستان کا نام ہی بحال رکھا جائے اور پھر شیخ مجیب الرحمن سے مل کر اسے اپنا لیڈر تسلیم کر لیا جائے۔ خبر کی اشاعت پر تمام لیڈر فوراً سیخ پا ہوئے اور انہوں نے اس کی تردید کر دی۔ لیکن غدّار بنا کر اقتدار سے محروم کرنے کا کھیل تو روکا نہیں جا سکتا تھا۔

    ایک اور کردار، نواب اکبر بگٹی نے 31 جنوری 1973ء کو لاہور کے موچی دروازے میں پنجابیوں کا خون گرمانے کے لئے ایک تقریر کی کہ عطاء اللہ مینگل، بزنجو اور خیر بخش مری نے سوویت یونین کے ساتھ مل کر ایک سازش تیار کی جس کے نتیجے میں بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کیا جائے گا۔ اس الزام کا بہانہ بنا کر بلوچستان میں قائم عطاء اللہ مینگل کی حکومت ختم کر دی گئی اور احتجاجاً صوبہ سرحد میں مولانا مفتی محمود کی حکومت نے استعفیٰ دے دیا۔ اب تاریخی غدّاری والا حیدر آباد کیس شروع ہوا جس میں حبیب جالب بھی غدّارِ وطن کہلایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا سارا دَور بالکل ایسا ہی تھا کہ ہر حریت فکر اور آزادیٔ اظہار رکھنے والے شخص کو اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی تھی۔ جاوید ہاشمی پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا صدر اور بھٹو مخالف طلبہ کے ہراوّل دستے کا قائد تھا۔

    اس کے بارے میں بھٹو کا تاریخی فقرہ آج بھی فضا میں گونجتا “Who is Hashmi, give him Kala Bagh Treatment” ’’یہ ہاشمی کون ہے، اس کے ساتھ کالا باغ والا سلوک کرو‘‘۔ پھر شاہی قلعے میں لے جا کر اس پر بدترین تشدد کیا گیا۔ میں نے خود اس سے وہ پوری روئیداد سنی ہے جو رونگٹے کھڑے کرنے والی تھی۔ ملک محمد قاسم کنونشن مسلم لیگ سربراہ تھے۔ انہیں جیل لے جایا گیا اور ان کے ساتھ ایسا ہی غلیظ سلوک کیا گیا، جس طرح کے سلوک کا الزام آج شہباز گل لگا رہا ہے۔ ان کا جو بیان اخبارات میں شائع ہوا، اس میں شرم و حیاء کی وجہ سے وہ صرف اتنا کہہ پائے کہ ’’پوری رات چند اوباش غنڈے میری پشت پر اُچھل کود کرتے رہے‘‘۔ جماعت اسلامی کے سربراہ میاں طفیل محمد انتہائی شریف الفنس انسان تھے۔ انہیں گرفتار کیا اور پھر ان کے ساتھ جیل میں ایسی تذلیل کی گئی کہ ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران وہ اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے زار و قطار رو پڑے۔

    یہ ایسا منظر تھا، جس نے ججوں کی آنکھیں بھی آبدیدہ کر دیں۔ بھٹو کی آمریت کی خوفناکیت کا عالم یہ تھا کہ 4 جون 1975ء کو جب بھٹو نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے قوم کو ایک متفقہ آئین دیا ہے۔ تو اس پر احمد رضا قصوری نے طنزاً کہا ’’رتو ڈیرو سے منتخب ہونے والے یہ رکن اسمبلی غلط کہہ رہے ہیں، میں نے آئین پر دستخط نہیں کئے‘‘۔ بھٹو طیش میں آ گیا اور اس نے قصوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: I had enough of this man, He is absolute poison, I will not tolerate him any mane.” ’’میں اس شخص سے تنگ آ چکا ہوں۔ یہ ایک مجسم زہر ہے۔

    میں اب اسے ہرگز برداشت نہیں کروں گا‘‘۔ اس کے بعد احمد رضا قصوری پر پانچ قاتلانہ حملے ہوئے۔ اور اسمبلی کی اس دھمکی کے صرف پانچ ماہ کے اندر، 11 نومبر 1974ء کو فائرنگ کے دوران احمد رضا قصوری خود تو محفوظ رہا لیکن ان کے والد نواب محمد احمد خان لقمۂ اجل بن گئے۔ (جاری ہے)

  • بلٹ نہیں بیلٹ سے انقلاب – انعا م الحق اعوان

    بلٹ نہیں بیلٹ سے انقلاب – انعا م الحق اعوان

    انعام الحق اعوان ہرصبح اس امید کے ساتھ اخبارات دیکھتا ہوں کہ شاید آج پولیس کے ہاتھوں کوئی ظلم کا شکارنہ ہوا ہوگا، آج اشرافیہ کی سرپرستی میں حواکی بیٹی کی عصمت نہ لٹی ہوگی، جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے مزدور اور مزارعے کے ہاتھ اورکان نہ کاٹے گئے ہوں. عابداقبال! آپ پازیٹو پاکستان کے سفیر ہو لیکن کیا کروں کہاں سے لاؤں وہ امید کہ جو مسجد جیسی پاک دھرتی پر پھول بکھیر دے. معصوم زین کے قتل کی فریاد کروں، حافظ آباد کے ابوبکرکے لیے انصاف کی بھیک مانگوں یا لاہورکی 15 سالہ طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے بااثرحکومتی درندوں کو کیفر کردار تک پہچانے کی بات کروں. 69 برسوں سے پاکستان کے باسی اس اسلامی فلاحی ریاست کا انتظار کر رہے ہیں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جس کو تعبیر محمدعلی جناح نے دی تھی.
    لیکن درندوں کی طرح چیر پھاڑ کرنے والے کھوٹے سکے آج بھی یہاں بڑے سے بڑا جرم کر کے سکھ چین کی زندگی گزارتے ہیں اور جرم نہ کرکے بھی ایک 6 سالہ بچہ ’’بیگم صاحبہ‘‘ کے ہاتھوں اذیت سہتا ہے. کبھی خبرملتی ہے کہ اس معصوم کوگرم استری سے جلا دیا گیا اور کبھی یہ صدا دماغی توازن کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے کہ اس معصوم کو ہنٹر سے مار مار کر اس لیے لہولہان کر دیا گیا کہ اس نے ’’چھوٹے بابا‘‘ کے کھلونوں کو ہاتھ لگا کر اپنا بچپن محسوس کرنا چاہا تھا۔ لیکن شاید وہ بھول گیا تھا کہ غریب تو کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں، ان کا بچپن ہوتا ہے نہ جوانی اور نہ ہی بڑھاپا، ان کی زندگی کا ہر لمحہ موت سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔
    انھیں اس سے کیا غرض جن کے کندھوں پر اس اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، ان کے بلاول، حمزہ، سلیمان وقاسم اور حسن و حسین تو شہزادوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں، ان کے گھوڑوں اور کتوں کو وی آئی پی رومز اور مربع میسر ہیں، غریب کا کیا ہے؟ یہ تو گندگی کے ڈھیر سے اپنے پیٹ کا جہنم بھر ہی لے گا، اسے کپڑوں کیاضرورت ہے؟ اس نے کون سا فارن وزٹ پرجانا ہے؟ انہی گلی محلوں میں ہی تو رہنا ہے۔
    مایوسی ہی مایوسی ہے، لیکن، ہاں ایک راستہ ہے جس سے غریب ہاری اور محنت کش کے حالا ت بدل سکتے ہیں کہ وہ بلٹ اور استحصال کے مقابلے میں اپنے بیلٹ کی طاقت ان کے حق میں استعمال کر دے جو کرپٹ اور بددیانت نہیں ہیں اور جن کا دامن صاف ہے. وہ جب سٹی ناظم کراچی کی حیثیت سے اقتدار کی مسند سنبھالتے ہیں تو اپنی دیانتداری اور قابلیت کے باعث 4 ارب کے بجٹ کو 42 ارب تک پہنچا دیتے ہیں، وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود عوامی خدمت کی ایسی مثال قائم کرتے ہیں کہ بدترین جانی دشمن بھی ان کی کارکردگی کو سلیوٹ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نعمت اللہ خان جیسا حکمران آج تک کراچی کونصیب نہیں ہوا، جو اقتدارکی مدت مکمل ہوتے ہی مدت اقتدار کے دوران لی گئی تنخواہ کا چیک کاٹ کر صدقہ کرتا اور دامن جھاڑ کر خالی ہاتھ گھر روانہ ہوجاتا ہے۔ جب انھیں خیبرپختونخوا کے خزانے سونپے جاتے ہیں تو بھی ان کے رہن سہن میں فرق نہیں آتا، گھر کے دروازے پر لٹکا اور کپڑے کی بوری سے بنا ایک پردہ ہی سراج الحق کی بلٹ پروف سیکورٹی کا کام کرتا ہے. سرکاری فارن وزٹ کے دوران عالیشان ہوٹلز میں عوام کے کروڑوں روپے پھونکنے کے بجائے یہ جامع مسجد میں قیام کرتے ہوئے اپنے عوام کی امانتوں کا پاس کرتے ہیں، یہ بظاہر فقیراور درویش نظرآتے ہیں لیکن جب وہ ایک صوبے کے بدحال مالی حالات کواس کی صحیح ڈگر پر لاتے ہیں تو ورلڈ بنک اور عالمی ادارے ان کی کارکردگی پر خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔۔۔اور۔۔۔ پھرجب ان کے ایک پارٹی رکن عنایت اللہ خان کو خیبرپختونخوا میں بلدیات کی منسٹری ملتی ہے تو وہ اسے چیلنج سمجھ کر قبول کرتا ہے، اپنی قابلیت اور بے لوث پارٹی ایڈوائزرز کے ساتھ مل کر دنیا بھر کے
    تجربات کا نچوڑ نکال کر ایسے لوکل گورنمنٹ انتخابات کرواتا ہے کہ فائلوں میں نہیں بلکہ حقیقت میں ویلج کونسل کی صورت عوام کے حقوق ان کی دہلیز پر پہنچا دیتا ہے. وزارت سنبھالتے وقت پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا جو محکمہ 26 کروڑ خسارے میں ہوتا ہے، دوسالوں میں ہی اسے 7ارب کے منافع پر لاکھڑا کرتا ہے۔
    عوام کواپنی تقدیر بدلنی ہے تو ان درویشوں کا دامن تھامنا ہوگا جو یہ کہتے ہیں کہ ہم پارٹی قائد نہیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ کوماننے والوں کو اللہ کی ماننے کی دعوت دیتے ہیں، دن رات اسی کےلیے قائل کرنے میں مصروف ہیں ۔۔۔اور۔۔۔ جس دن اللہ کی ماننے والوں کی تعداد قابل ذکر ہوئی، یہ تمام مسائل از خود حل ہوجائیں گے. اب فیصلہ عوام کے پاس ہے کہ وہ 69 برسوں سے اپنا خون چوسنے والے کرپٹ اور بددیانت سیاستدانوں کو خود پر مسلط رکھتی ہے یا اللہ کا خوف رکھنے والی قیادت پر اعتماد کرتی ہے.

  • تبدیلی کی لہر کی واپسی اور جوان خون – نورین تبسم

    تبدیلی کی لہر کی واپسی اور جوان خون – نورین تبسم

    ایک نیا پاکستان بنانے کا شور و غوغا ہے، مگر ”تبدیلی“ کی لہر جتنی تیزی سے آئی تھی اُتنی ہی سُرعت سے واپس جا چکی ہے۔ سونامی کے آنے کا پتہ چلا نہ ہی جانے کی راہ دکھتی ہے۔ جہاں بلند و بانگ دعوؤں کی طغیانیوں کے سمندر میں ڈوبنے والے ”جوان خون“ کی تعداد بڑھتی جاتی ہے وہیں لالچ، بےحسی اور ہوس اقتدار کا یہ کھارا پانی پلٹتے ہوئے سانس لیتے مردہ جسموں کو اُگلتا جاتا ہے۔ ہم عام عوام زندگی کے انتظار میں سراپا انتظار، ان سڑانڈ زدہ پٹے ہوئے مہروں کو اپنے مقدر کا ستارہ جان کر ایک بار پھر جوا کھیلنے کو تیار بیٹھے ہیں، ایک نیا پاکستان بنانے کی لاحاصل امید میں پرانے پاکستان کو مدفن بناتے ہوئے بےخبرلوگ نہیں جانتے کہ قبر پر نہ تو گھر بن سکتا ہے اور نہ ہی خوشی ملتی ہے۔ کہ ”قبریں نوحہ گر تو پیدا کر سکتی ہیں ثنا خوان نہیں.“
    قیمتی چیز اگر پرانی ہو جائے تو اُسے توڑ کو کبھی نیا نہیں بنایا جا سکتا۔ اُسے اُسی حالت میں احتیاط سے سنبھال کر سجایا سنوارا جاتا ہے۔ اس کا احترام کیا جائے تو ہی اس سے فیض اٹھایا جا سکتا ہے۔ غریب ماں ہو یا دھرتی ماں اُس سے فرار کسی صورت ممکن ہی نہیں۔ ترقی کی منازل طے کرنے کے بعد آگے سے آگے بڑھنا ہر فرد، معاشرے اور قوم کا بنیادی حق ہے. لیکن ! راستہ وہیں بنایا جاتا ہے جہاں پہلے سے راستہ بنا ہوا نہ ہو۔ پکی سڑک کو توڑ کر دوبارہ اسی جگہ پر سڑک بنانے کے دعوے کرنا سمجھ میں نہ آنے والی حماقت ہے اور ان نعروں پر یقین کر لینا اس سے بھی بڑی جہالت کے سوا کچھ نہیں۔
    تبدیلی بنے بنائے خیالات اور جمےجمائے فرسودہ نظریات سے بغاوت کا نام ہے۔ اس بغاوت کا حوصلہ اُن طبقات میں زیادہ ہوتا ہے جن کے پاس لٹانے کو بےقیمت جان کے سوا کچھ نہ ہو۔ عزت کی اُڑتی دھجیاں زندگی کو بےننگ و نام بنا دیں۔ جن کے پاس واپسی کا زادِ راہ موجود نہ ہو، وہی کشتیاں جلانے کا عزم لے کر میدانِ کار زارمیں اُترتے ہیں۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ بےہنگم عزم اور بےترتیب جوش و جذبے کے یہ طوفان جہالت اور اندھی عقیدت کے ساحلوں سے ٹکرا کر ہار مان لیتے ہیں۔ زمین میں رہنے والے زمین کی خاک ہی رہتے ہیں۔ غربت، بےکسی کے یہ سنگِ راہ قابل رحم سے زیادہ باعث عبرت بن جایا کرتے ہیں۔
    وقت کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنا، اپنے رویوں، اپنے اصولوں پر نظرثانی کرنا، عمر کے بڑھتے ماہ و سال میں اپنے آپ کو بہتر سے بہتر تراشنا تبدیلی ہے۔ تخلیقِ انسانی پر نظر ڈالی جائے تو انسان اپنی زندگی کے ہر پل نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ معاشرے میں تبدیلی ہمیشہ اوپر سے آتی ہے۔ تبدیلی علم سے آتی ہے، تعلیم سے آتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ علم اور تعلیم انسان کو محتاط کر دیتے ہیں۔ تبدیلی کا اصل طوفان اس وقت رونما ہوتا ہے جب اہلِ علم و عقل بےحسی اور لاتعلقی کی چادر اتار کر عام انسان کی سطح پرآ کر نہ صرف حقوق کی بات کرتے ہیں بلکہ اس کے لیے عملی قدم بھی اُٹھاتے ہیں۔ حق حلال سے کمانے والا مراعات یافتہ طبقہ اپنے ”حال“ کی آسائش میں رہتے ہوئے جب دوسروں کے حال کی فکر کرتا ہے چاہے اس میں اس کا ذاتی مفاد ہی کیوں نہ شامل ہو۔ سب سے بڑھ کر جب ناانصافی کا عفریت اُن کے اپنے دروازے پر دستک دیتا ہے تو اس لمحے جاگنا ہی پڑتا ہے، سنبھلنا ہی پڑتا ہےاور وقت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے کر بدمست ہاتھیوں کو سبق سکھانا ہی پڑتا ہے۔
    اس لمحے تبدیلی آ ہی جاتی ہے لیکن تماش بین بن کر نہیں، بلکہ تماشا بنا کر۔ قابلِ رحم اور قابلِ تضحیک بن کر نہیں بلکہ باعث عزت و تکریم بن کر، نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے ساتھیوں کے لیے۔ جوش خطابت اور شورِجنون دکھلا کر نہیں بلکہ دلائل سے اپنے حق پر ڈٹے رہ کر۔
    تبدیلی کا علم لے کر ضرور اٹھو! اپنے اپنے محاذ پر تبدیلی کا آغاز کرو لیکن، اپنے ”نظام“ میں رہ کر اس کی بحالی اور اپنے ”ماحول“ میں خود کو ایڈ جسٹ کرتے رہنے کی آخری کوشش کے بعد۔ پے در پے عجلت میں کیے گئے غلط فیصلوں اور سیاسی شعور کی ناپختگی سے قطع نظر مستقبل کا مؤرخ جب پاکستان میں تبدیلی کی لہر کے آغاز کے بارے میں لکھےگا تو عمران خان کا نام اس میں سرفہرست ہوگا۔ لیکن اس لہر کو مثبت سونامی میں بدلنے کے لیے عمران خان کو اپنے دوست نما دشمنوں کو پہچاننے کی دعا ہی دی جا سکتی ہے۔ ہر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا جن کا خاصا اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار ہونا اُن کا ایمان ہے۔ جو چڑھتےسورج کو داد و تحسین کا گرہن لگا کر اس کو بےفیض بنا دیتے ہیں۔
    آخری بات!
    ہر انسان ایک مداری ہے۔ کیا جانیے کب اُس کے تھیلے سے کیا نکل آئے؟ ہمیں اُس کے کرتب کو دیکھنا چاہیے، اُس کے حلیے کو نہیں۔ اپنے کرتب کی قیمت مانگنے پر چپکے سے کھسک جانے کا اختیار بہرحال ہمارے پاس ہے۔ بحیثیت قوم ہم سادہ لوح ہیں۔ نعروں اور بڑھکوں کے فریب میں آ جاتے ہیں۔ بڑے بڑے ”جھٹکوں“ نے ہمیں میچورٹی عطا نہیں کی۔ سنہرے وعدوں کی زنجیریں ہمیشہ بیڑیاں ہی ثابت ہوئی ہیں۔ تبدیلی کا حصہ ضرور بنیں لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ بھیڑ بھیڑیے کی کھال پہن کر بھی شکاریوں سے نہیں بچ سکتی اور گیدڑ شیر کا لباس پہن کر بھی بادشاہ نہیں کہلا سکتا۔

  • اور چولہا بجھ گیا – سید جواد شعیب

    اور چولہا بجھ گیا – سید جواد شعیب

    سید جواد شعیب دفتر سے تھکا ہارا گھر پہنچا تو بیگم کا پریشان چہرہ بتا رہا تھا کہ کچھ تو گڑ بڑ ہے. اس نے دریافت کیا تو بیگم گویا ہوئیں کہ سوئی گیس مکمل بند اور چولہا نہیں جل رہا، چائے کیسے بناؤں؟ وہ حیران تھا کہ مضافاتی علاقوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کا سنا تھا لیکن اس کے گھر کی گیس بند ہونے کی خبر نے اسے پریشانی میں ڈال دیاتھا۔ وہ سیدھا باورچی خانے گیا، گیس کی لائن چیک کی، کبھی چابی کبھی لائن کی لیکجیج ڈھونڈتا رہا لیکن پھر تھک ہار کر بیٹھ گیا۔
    رات کے کھانےکا وقت ہوا تو ہوٹل سے کھانا منگوایا اور اس طرح رات گزاری اور صبح ہوگئی۔ صبح اس کی اہلیہ نے اٹھتے ہی پھر چولہا جلانے کی کوشش کی تو چولہا ٹھنڈا ہوچکا تھا، گیس آتی تو جلتا نہ، اس روز صبح کا ناشتہ بھی نہ بن سکا، اور بچوں کو لیے وہ گھر سے نکلا، راستے میں بچوں کے لنچ کا انتظام کیا اور اسکول چھوڑتا ہوا اپنے دفتر کے لیے نکل گیا۔ وہ شدید مضطرب اپنی گاڑی میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ گھر جائے گا تو کیا کرے گا، وہ گہری سوچ میں ایسا ڈوبا کہ ڈوبتا چلاگیا، چند لمحوں میں وہ اپنے ماضی میں پہنچ چکا تھا، اسے یاد آ رہا تھا کہ جب وہ پیدا ہوا تو خود کو کراچی کے قدیم علاقے لیاری کی نسبتا پوش اور پڑھی لکھی بستی بہار کالونی میں پایا۔ اس علاقے کو قیام پاکستان کے بعد مشترکہ ہندوستان کے صوبہ بہار سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ اسی لیے اس بستی کا نام بہارکالونی رکھ دیاگیا تھا۔
    اس کا ماضی ایک فلم کی طرح اس کے سامنے آگیا تھا۔ وہ اپنے بچپن میں خود کو بہار کالونی کی کشادہ گلیوں میں کھیلتے کودتے اور اچھے ماحول میں تربیت پاتا دیکھ رہا تھا،
    کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی اور اس کی سوچ کا تسلسل قائم نہ رہ سکا۔ اسے ماضی سے حال میں آنا پڑا، دفتر سے فون آرہا تھا، اس نے تسلی سے اسائنمنٹ ڈیسک کی ہدایات سنیں اور پھر دوبارہ سوچنے لگا کہ کتنی تیزی کے ساتھ تکمیل تعلیم، شعبہ صحافت سے وابستگی، ملازمت اور ازدواجی زندگی شروع ہوئی اور وہ اپنے والد کےبڑے خاندان کے اندر ہی ایک اور چھوٹے سے خاندان کا کفیل بن گیا۔ اسے یاد تھا کہ ابا بولا کرتے تھے کہ جب برصغیر کے مسلمانوں نے دوقومی نظریے کے تحت پاکستا ن کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کا نعرہ لگاتے پاکستان کے قیام کی جدوجہد کی تھی تو دادا، ابا اور تایا بھی پیش پیش تھے۔ 14 اگست 1947ء کو مملکت خداداد پاکستان وجود میں آیا تو دادا مرحوم اپنے دونوں بیٹوں اور سارے کنبے کو لیا اور ہندوستان کے صوبے بہار کے علاقے گیا سے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ ابتداء میں ابا بتاتے تھے کہ ایک سو بیس گز کے دوپلاٹوں پر دیوار گھیرنے کے بھی پیسے نہیں تھے، جیسے تیسے جھگی نما گھر بنایا اور پاکستان میں قیام کو چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ والد اور تایا یتیم ہوگئے، دادا حالات کی سختی برداشت نہ کرسکے اور خالق حقیقی سے جاملے۔ ابا اور تایا نے یتیمی کے ساتھ ہی زندگی کا کٹھن سفرشروع کیا۔ محنت مزدوری سے کبھی نہ گھبرائے۔ کارخانے میں بیٹریاں بناتے، رنگ و روغن کا کام کرتے، پرچون کی دکان ہو یا اسٹیشنری کی دکان، کبھی کسی کام سے نہ گھبرائے اور اپنے خاندان کی کفالت کرتے رہے۔ چھوٹے بڑے سیلاب دیکھے، لسانی فسادات دیکھے، پینسٹھ اور 71ء کی جنگیں دیکھیں لیکن ہمت نہ ہاری اور مشکل وقت اپنی ہمت سے کاٹتے رہے اور اپنی اولاد کے لیے حتی الامکان آسانیاں، سہولت اور آسائشیں فراہم کرتے رہے۔
    اسے یاد تھا کہ صرف ابا ہی نے نہیں اس کی اماں نے بھی معاشی تنگی، غربت ہو یا گھرداری، ہر میدان میں ابا کا بھرپور ساتھ دیا، اور زندگی کا سفر آگے بڑھتا رہا، جھگی کی جگہ مکان نے لے لی۔ اور پھر مکان گھر میں تبدیل ہوگیا۔ کچے گھر پکے ہوگئے۔ کچھ مناظر تو یہ تھے جو والد والدہ کی آنکھوں سے وہ دیکھتا رہا لیکن کچھ ایسے منظر اسے یاد آ رہے تھے جو اس کی آنکھوں نے دیکھے تھے، جب وہ اپنے بھائی بہنوں کو دور دور سے پینے کا میٹھا پانی کنستر میں بھر بھر کر لاتے دیکھتا تھا، اور پھر خود بھی گیلن کے ذریعے اڑوس پڑوس سے پانی بھر کرلانا اسے یاد آرہاتھا، وہ وقت بھلا نہ سکا تھا۔ جب گھر پر پانی کی لائن لگی تو ہینڈ پمپ سے پانی کھینچا جاتا تھا، ایک بھائی پمپ چلاتا تھا تو دوسرا اس کے نیچے بیٹھ کر نہاتا تھا اور وہ بھی ایک سو ایک یا لائف بوائے صابن سے۔ اس وقت بجلی کی اس طرح لوڈ شیڈنگ نہیں ہوا کرتی تھی، کسی خرابی کی صورت ہی بجلی غائب ہوتی، تو بچوں کو بھی تفریح کا موقع مل جاتا تھا اور وہ گھرکے برآمدے، چھت یا گلی میں خوب کھیلا کرتے تھے۔
    وہ وقت تھا جب گھر کا تعمیراتی کام ہوتا تو سب بھائی بہن مزدور بن جاتے اور خود اینٹ اور بجری کا وزن اٹھاتے تو ابا مستری ہوتے، اس طرح چار پیسے بچائے جاتے تھے۔ تہواروں خصوصا عید پر اسے یاد تھا کہ گھر اور کمروں کی دیواروں پر سفیدی کی جاتی، چونا بھگو کر اس میں نیل ڈالتے اور بھائی بہن خود ہی کوچی سے دیوار پر سفیدی کرتے۔
    چربی کے گرم گرم پراٹھے بھی اس کی نظروں کے سامنے گھورم رہےتھے اور ہاں آج کا پیسہ کیسے بھلایا جاسکتا تھا۔ اسے یاد تھا کہ بچپن سے لڑکپن تک جیب خرچ کے عوض ابا روز بالترتیب پانچ پائی، دس پائی، چار آنہ پھر آٹھ آنہ دیا کرتے تھے اور میٹرک میں جا کر اس کا جیب خرچ ایک روپے مقرر ہوا۔ آج کے پیسے سے کبھی علی بھائی کی دکان سے کٹ کٹی، چاول کا چورا کھاتے تو کبھی رضا بھائی کی دکان سے پائی پائی کے بسکٹ گوبٹ، پاپڑ یا فانٹا کھایا کرتے تھے۔ جب گھر میں انڈے کا سالن بنتا تو مہر الہی کی دکان سے چٹکے اور ٹوٹے ہوئے انڈے سستے داموں لانا اسے یاد آ رہا تھا۔
    اسی اثنا میں وہ شاہین گورنمنٹ اسکول کی پرائمری کلاسز دیکھنے لگا، خود کو کبھی ٹاٹ تو کبھی دری اور ٹوٹے ہوئے ڈیسک پر کسی پریشانی کے بغیر پڑھتے دیکھ رہاتھا، پھر سیکنڈری کلاسز میں گیا تو غازی محمد بن قاسم گورنمنٹ اسکول کا حال بھی کچھ یہی تھا، لیکن اسکول کی حالت زار سے اس کا کوئی لینا دینا نہ تھا۔ اسے یاد آیا کہ کالج جانے کے لیے اسےپانچ روپے ملتے، تین روپے دوطرفہ کرایے کی مد میں اور دو روپے سے اکثر وہ ایس ایم سائنس کالج کے باہر آلو چھولے کی پلیٹ یا پھر ٹھنڈا شربت پیا کرتا تھا. اس زمانے میں فرد کا افراد سے اور افراد کا معاشرے سے رشتہ مضبوط تھا، بہارکالونی کی ترقی کا سفر بھی اس کی آنکھوں سے اوجھل نہ تھا، اس نے گندے بہتے نالوں کو سیوریج کے بہترین نظام میں بدلتے دیکھا تھا، اسے یاد تھا اس کا بچپن پانی کی لائنوں کی تنصیب اور کچی گلیاں اور سڑکیں پختگی کی جانب بڑھتے دیکھتے گزرا تھا.
    یادداشت پر زور ڈالنے پر بہار کالونی کی سنگل اسٹوری مکانات پر مشتمل آبادی میں گلیاں صاف کرتے پچھتر جمعدار بھی اسے یاد آگئے تھے لیکن پھر اس نے بچپن سے لڑکپن کی جانب بڑھتے بڑھتے ترقی کرتے، علاقے کا نقشہ بدلتے بھی دیکھا، جب سنگل اسٹوری مکانات کی جگہ بلند بالا پانچ چھ منزلہ عمارتوں نے لے لیں اور کھلے کھلے برآمدوں والے مکانات فلیٹوں میں تبدیل ہوگئے، جہاں آٹھ دس افراد رہتے تھے سو سے ڈیڑھ سو بسنے لگے، وہ خود اب ایک تین کمرے کے ایک فلیٹ میں مقیم تھا جہاں نہ دھوپ میسر تھی، بارش کا مزا،
    پانی، بجلی، گیس ،سیوریج کی سہولت آبادی کے تناسب سے اپ گریڈ کرنے والا کوئی نہ تھا، وقت گزرا سب کچھ بکھرنے لگا اب کچھ بچا نہ تھا کیوں کہ فرد فرد سے دور اور معاشرہ انتشار کا شکار ہو چکا تھا.
    وہ انھی حالات میں لڑکپن سے جوانی میں تک پہنچا تھا، اور پھر ازدواجی زندگی شروع ہوئی، اور اب تین بچوں کا باپ ہے، ایک اچھے ادارے میں برسر روزگار اور معاشرے کا اہم حصہ بن چکا ہے، لیکن پھر آج ایک واقعے نے اسے برسوں پیچھے دھکیل دیا. وہ اپنے قابل فخر ماضی سے مطمئن اور حال سے خوش تھا لیکن بچوں کے مستقبل کے لیے مضطرب اور بےچین تھا کہ گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟ کیونکہ آج اسے 2016ء کے پاکستان میں گھر کا چولھا جلانے کے لیے سلنڈر خرید کر گیس بھروانی پڑ رہی تھی۔
    ماضی کی ساری یادوں میں آج وہ برسوں پیچھے گیا لیکن اسے اپنے گھر پر گیس کا سلنڈر نظر نہ آیا۔ اماں ضرور بتاتی تھیں کہ وہ کس طرح مٹی کے چولھے میں گوبر سکھا کر کھانے بناتی تھیں، پھر مٹی کے تیل کا چولہا آیا، اور پھر وقت کے ساتھ گیس کے چولہے سے گھر پر کھانا پکنے لگا۔ آج جب دنیا ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے اور اس کا ماضی بھی ترقی کی جانب مسلسل بڑھتے قدموں کی عکاسی کر رہا تھا لیکن اب وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پریشانی کا شکار تھا، اور کیوں نہ ہوتا بجلی کے لیے اب اسے گھر پر جنریٹرلانا پڑا، جنریٹر کے لیے پٹرول مہنگا لگا تو گیس کا سہارا لیکن اب تو گیس بھی غائب تھی۔ بجلی،گیس، ٹیلی فون اور نکاسی آب و پانی کی سہولت سے محروم بھی تھا لیکن ایک پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اسے تمام یوٹیلٹی بلز ٹیکسو ں کے ساتھ لازمی ادا کرنے پڑتے تھے۔ تنخواہ بنک میں آنے سے پہلے ہی اس سے انکم ٹیکس بھی وصول کیا جا رہا تھا۔
    وہ سوچ ہی رہا تھا کہ یک دم اس کے وجود سے ایک آواز آئی، میاں کیا سوچتے ہو، جو بویا ہے وہی تو کاٹو گے، وہ جیسے ہل کر رہ گیا جیسے اس کی الجھن سلجھتی نظر آرہی تھی. اسے خیال آیا کہ جب لوگ اپنے گھروں کو معاشرے سے الگ تھلگ رکھ کر کامیاب زندگی گزارنے کی کوشش کریں گے، جب معاشرے کی ترقی کے لیے کردار ادا نہیں کریں گے تو معاشرہ اسی طرح انحطاط پذیری، تنزلی اور پسماندگی کا شکار ہوتا چلاجائے گا۔ اس کا وجود ہی اس کا محتسب بن کر سامنے آگیا تھا۔
    کوئی تھا جو جھنجوڑ رہا تھا، چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا،
    عقل کے اندھو! فرد سے افراد، افراد سے خاندان اور خاندانوں معاشرہ بنتا ہے۔ جب تم اپنے گھراور بچوں کی ترقی کے لیے ساری زندگی لگاتے تو اس معاشرے کی ترقی کے لیے تم نے کیا کردار ادا کیا۔ اس کا وجود ایک مثال دے رہا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے جب خریدار بازار سے کچھ خریدنے جاتا ہے تو چھان پھٹک، ٹھوک بجا کر اور مول تول کے بعد ہی کچھ خریدا کرتا ہے، اپنے بچوں کی بہتر سے بہتر تعلیم و تربیت کے لیے، گھر کی تعمیر اور صفائی کے لیے معیار کچھ اور ہوتا ہے لیکن جب بات گلی محلے علاقے شہر اور ملک کی آتی ہے تو ہمارا کردار کیا ہوتا ہے؟
    اسے کوئی جھنجوڑے جارہا تھا کہ چولہا ایسے ہی نہیں بجھ گیا، اس کے بجھنے کے ذمہ دار تم خود ہو، تمہارے والدین نے اپنی ذمہ داری پوری کی لیکن تم نے اسے آگے نہ بڑھایا،
    کیا تم خود اس معاشرتی تباہی، بنیادی سہولتوں سے محرومی کے ذمہ دار نہیں، اپنے بچوں اور گھر کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہو لیکن، لیکن جب علاقائی، شہری اور ملکی ترقی کے لیے انتخاب ہوتا ہے تو ذات برادری، رنگ نسل، مسلک، فرقے اور زبان کی آڑ میں نااہل قیادت چنتے ہو، اور پھر کہتے ہو، بجلی بند، پانی کم،گٹر بند، کچرا گند، اور اب پریشان ہو کہ گیس بھی بند، تم ہو ذمے دار اپنے بچوں کے مستقبل کی تباہی کے، تم ہو کوئی اور نہیں.
    ضمیر کی آواز اسے جھنجوڑے جا رہی تھی، اسے سمجھ آگیا تھا کہ اس کے گھر کا چولہا کیسے بجھ گیا؟ اگر وہ محلے شہر اور ملک کے لیے بھی چھان پٹک کر اہل، دیانتدار اور ایماندار لوگوں کو چنتا تو اس کے گھر کی طرح اور ہر ایک فرد کی طرح معاشرہ بھی ترقی کرتا، وہ طے کرچکا تھا، ارادہ باندھ چکا تھا، اس کے سامنے اس کا ماضی اور حال موجود ہے، اب اسے اپنے مستقبل کو خود سنوارنا ہے.
    کیسے؟ اب وہ خوب جان چکا ہے، لیکن یہ اسے اس وقت ہی سمجھ آیا، جب گھر کا چولہا بجھ گیا لیکن ابھی دیر نہیں ہوئی تھی، وہ گھر کا چولہا پھر سے جلا سکتا تھا۔ کاش کہ ملک کے ہر شہری کو چولہا بجھنے سے پہلے احساس ہوجائے اور کہیں دیر نہ ہوجائے کہ گھر اور معاشرہ ہر ایک فرد کی یکسر توجہ کا متقاضی ہے.

  • وہ کیا تبدیلی ہے جس کی پاکستان کو ضرورت ہے؟ نعمان بخاری

    وہ کیا تبدیلی ہے جس کی پاکستان کو ضرورت ہے؟ نعمان بخاری

    نعمان بخاری آجکل جو موضوع عام ہے اور جس پر سب کا اتفاق ہے وہ یہی کہ پاکستان کے اس فرسوہ ولایتی نظام اور کرپٹ حکمرانوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے- ولایتی اس لیے کہ گزشتہ ستر سالوں سے ہم پر روس، برطانیہ، امریکہ اور اس کے حواریوں کے پتلے حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں- یہ سیاستدان لوگ نہایت چالاک، شاطر اور مکار ہیں! ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اگلے الیکشن میں کس پارٹی کی حکومت ہوگی اور اسی پارٹی میں اپنے سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے اور لوٹ مار و کرپشن کیلئے شامل ہوتے ہیں، اپنے حربے آزماتے ہیں اور پھر حکمران بن جاتے ہیں- عوام ان سے تبدیلی کی امیدیں لگائے بیٹھتے ہیں اور تبدیلی آتی ہے لیکن ان حکمرانوں کے محلوں، ان کے اکاونٹس، اور ان کے فرعونی کبر میں اضافے کی صورت میں آتی ہے- غریب عوام کے روز ذلیل ہونے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی-
    یہ پاکستان جس مقصد کیلئے بنا ہے اس کو دہراتے ہوئے تین نسلیں گزر گئی لیکن کسی کو اس مقصد کے پورا کرنے کا خیال نہ گزرا، اور جنہوں نے کچھ کام کیا ان کو نہایت بے شرمی اور ظلم سے پھانسیاں دی گئیں- آج تک وہی انگریزوں کے غلاموں کی نسلیں ہیں، انگریزوں کی وفاداری پر ان کو ملی ہوئی جاگیریں ہیں اور ان کی ہمارے اوپر حکمرانی ہے- قیام پاکستان، بلکہ دو سو سال زائد عرصے سے یہی خاندان ہمارے اوپر حکمران ہیں، ان کی حکمرانی تبدیل نہ ہوئی نہ اس سسٹم کو تبدیل کرنے کی راہ آپ کو کوئی دکھائے گا- تبدیلی کیا ہے؟ میں سادہ الفاظ میں عام آدمی کا لیونگ سٹینڈرڈ اوپر جانے کو تبدیلی کہونگا، میں اک عام سوشل ورکر کو اسمبلی کا ممبر بننے کو تبدیلی کہونگا جس کے پاس مہنگے الیکشن کیلئے روپے نہیں ہوتے- میں اک عام آدمی اور اسمبلی کے ممبر کو یکساں انصاف ملنے کو تبدیلی کہتا ہوں- آج اگر کوئی لاکھ دعوے کریں سسٹم کو اچھا کرنے کی لیکن سٹیٹس کو وہی ہے، وہی ہٹو بچو کا شور ہے، سائرن ہیں اور عوام کو اپنی اوقات یاد دلانے کیلئے سڑکوں پر پروٹوکول کے قافلے اور سپشل گارڈز ہیں-
    پاکستان کے کلچر اور جسٹ ‘انکل نواز’ کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان منجھے ہوئے مکّار لوٹے جاگیرداروں، کرپٹ آفسروں، بی اے پاس کی جعلی ڈگریوں کے وزراء، اور جھوٹے وعدوں کے کلچر کی تبدیلی کی ضرورت ہے- اور یہ صرف ایک ہی نسخے سے آ سکتی ہے جو وہی مقصد ہے جس کیلئے یہ ملک بنا تھا- اس ملک کو ولایت و امریکہ کے غلاموں کی نہیں بلکہ محمدؐ کے غلاموں کی ضرورت ہے کونکہ جب دنیاوی عدالت کے خوف کے بجائے خوفِ خدا حکومتی زمےداری پورا کرنے کی بنیاد ہو، جب حکومت کو امانت سمجھا جائے تو کرپشن کہاں باقی رہیگی؟ پھر اس ملک و قوم اور اس کے وسائل کے ساتھ انصاف کا معامہ ہوگا- عزیز قارئین، اس بات کو کھلے دماغ سے سمجھا اور سمجھایا جائے کہ اگر اس ملک کو عوام دوست اور فلاحی بنانا ہے تو اسے صرف نام سے اسلامی جمہوریہ نہیں بلکہ شفاف الیکشن کے ذریعے حقیقی معنوں میں اسلامی ملک میں تبدیل ہونے کی ضرورت ہے-

  • جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز – ادریس آزاد

    جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز – ادریس آزاد

    ادریس آزاد دیانت داری ایک عمل ہے جو فی الحقیقت تربیتِ کردار کے مراحل میں سب سے مشکل بلکہ قریب قریب ناممکن الحصول ہے۔ اس کے مشکل ہونے میں سب سے بڑا معاون فرد کا ذاتی ماحول ہے۔ اگر میں نے شادی کرلی ہے تو اب میرے دو خاندان ہیں۔ پہلے ایک تھا۔ اب میرا سُسرال بھی میرا خاندان ہوگیا ہے۔ میرے اپنے شہر میں مراسم کے ساتھ ساتھ میرے سُسرالی شہر میں بھی میرے مراسم پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر میرے بچے ہوگئے ہیں تو اب مجھے دودھ بیچنے والے سے لے کر ڈاکٹر تک اور ڈاکٹر سے لے کر پرنسپل تک معاشرے کے اُن تمام کرداروں سے ناگزیر واسطہ پڑچکاہے جو اگر میں کنوارا ہوتا تو کبھی میرے تعلقات کی فہرست میں نہ ہوتے۔ اگر میں بزنس کرتاہوں تو بے شمار کلائیٹس میرے لیے ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ میں اُن کے گھر تحفے بھیجنے سے بھی باز نہیں آتا کیونکہ میں نہیں چاہتا وہ مجھے چھوڑ کر میرے کسی مدمقابل کے پاس جائیں۔ اگر میں ملازم ہوں تو میرے جُونیئرز سے لے کر افسران تک سب کے ساتھ میری کوئی نہ کوئی غرض وابستہ ہوگئی ہے۔
    جُوں جُوں میں معاشرے کے گہرے تانے بانے میں خود کو ایک دھاگے کی طرح بُنتا چلا جاؤنگا میرے لیے دیانتداری مشکل سے مشکل ترین ہوتی چلی جائے گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جس پر میں نے احسان کیا ہے، اگر سامنے سے آرہا ہو تو میں یہ توقع نہ کروں کہ وہ مجھے انکساری کے ساتھ ملے گا؟
    وہ معاشرے جن کے سکولوں میں بچوں کو اساتذہ کی طرف سے جسمانی تشدد کا سامنا رہتاہے وہاں کی نسلیں جھوٹ کی عادت کے ساتھ بڑی ہوتی ہیں۔ اگر دوچار نسلیں ایسی بڑی ہوجائیں تو اگلی نسلوں میں یہ عادت خودبخود منتقل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ سکول میں مار کے خوف سے بچہ ہمیشہ جھوٹ کا سہارا لیتا اور رحم کی اپیل کی جیسی لجاجت کا مظاہرہ کرتاہے۔ چونکہ سکول روزانہ جانا ہوتاہے چنانچہ یہ جھوٹ فطرتِ ثانیہ بننے کے مقام تک ہمارے بچپن سے ہی پہنچ جاتاہے۔ اس پر مستزاد والدین کی سختی اور انکے سامنے بولے گئے جھوٹ ہیں۔ ایسے میں جب جھوٹ جو بددیانتی کی سب سے بری شکل ہے، میری تربیت کا حصہ ہو میں کیونکر توقع کرسکتاہوں کہ میں کبھی دیانتداری کو مستقل بنیادوں پر اختیار کرپاؤں گا؟ اب اس کا حل کیا ہے؟
    ایک حل تو یہ ہے کہ اِن تمام آلائش ِ دنیا کے نزدیک بھی نہ جایا جائے۔ شادی نہ کی جائے۔ مکمل تجرد اختیار کیا جائے۔ اپنی ضروریات محدود کی جائیں اور سُکڑ ، سمٹ کررہتے ہوئے زندگی گزاری جائے۔ خاص طورپر اگر آپ علمی دنیا سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہیں یا محقق ہیں تو یہ اور بھی ضروری ہوجاتاہے۔
    دوسرا حل یہ ہے کہ آپ اپنا علاج کریں اور قدم قدم پر خوداحتسابی کے عمل سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ دیانتدار انسان بنانے کی تھراپی جاری رکھیں۔
    دونوں طریقے مشکل ہیں لیکن دوسرا ہرلحاظ سے زیادہ بہتر ہے۔ بہت سے لوگ جانتے ہیں ڈیل کارنیگی ( مارکیٹ مصنف) ۔۔۔ شخصیت کو باوقار بنانے کے گُر بتایا کرتا تھا۔ اس نے کئی کتابیں لکھیں۔ ایک کتاب میں اُس نے جھوٹ چھوڑنے کا بڑا ہی قابل ِ عمل طریقہ لکھا، وہ یہ کہ، کسی کو بتائے بغیر ایک ٹائم مقرر کرلیں۔ مثلاً شام نو بجے سے دس بجے تک کا وقت مقرر کرلیں اور خود سے وعدہ کرلیں کہ آئندہ اس دوارنیے میں ، مَیں جھوٹ بالکل نہیں بولونگا۔ اگر اس گھنٹے میں آپ کا کوئی دوست آپ سے ایسا سوال کردیتاہے جس کا جواب سچ میں دیتے ہوئے آپ ہچکچاتے ہیں تو خاموش رہیں لیکن اپنی قسم نہ توڑیں اور گھنٹہ پورا ہونے پر جھوٹ بول دیں۔ لیکن اُس گھنٹے میں نہ بولیں۔ کچھ عرصہ بعد ایک ایک منٹ کرکے اُس دورانیے کو ہرروز بڑھانا شروع کردیں۔ ایک منٹ بہت معمولی وقت ہے ، اس لیے آپ کو محسوس بھی نہ ہوگا اور آپ ایک وقت آئے گا کہ یکسر بدل چکے ہونگے۔ آپ کبھی جھوٹ نہ بولتے ہوں گے۔
    لیکن ان تمام طریقوں سے بدرجہابہتر ہے خود کو سچ اور دیانتداری کے فوائد کا اِس درجہ قائل کرنا کہ یقینِ قلبی پیدا ہوجائے۔ مثال کے طور پر ایک گوالا بالکل ملاوٹ نہیں کرتا تو وہ بظاہر دوسرے گوالوں کی نسبت گھاٹے کا سودا کررہا ہے لیکن اگر وہ صبر کے ساتھ ایسا ہی کرتا رہتاہے تو آہستہ آہستہ اُس کے دُودھ کی شہرت دُور دُور تک پھیلنے لگ جاتی ہے۔ اسے زیادہ دُودھ لانا پڑیگا اور اب وہ زیادہ بڑا کاروباری بن جائیگا۔ یعنی بالکل اِس حد تک یعنی خالصتاً دنیاوی فوائد ہوتے ہیں بشرطیکہ سچ کو فی والواقعہ سچ ہی کے طور پر بولا جائے ۔ مولاعلیؓ کا قول کتنا صادق ہے کہ ’بدترین ہے وہ جھوٹ جس میں تھوڑا سا سچ شامل ہو‘۔ یعنی عام جھوٹ تو بدتر ہیں لیکن ایسا جھوٹ جس میں تھوڑا سا سچ شامل ہو بدترین ہے۔ اور ہم یہ بدترین جھوٹ زندگی کے ہر معاملے میں بولتے ہیں۔ کاروبار سے لے کر تعلیم تک، ہرجگہ، ہروقت ہم یہی ایسے ہی جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں جن میں تھوڑا سا سچ شامل ہوتاہے۔ ’’جناب بالکل بالکل، میں آپ کو پہچان گیاہوں۔ آپ شکیل صاحب کے گاؤں کے ہیں نا؟ شکیل صاحب! اپنے مہربان ہیں۔ جب بھی ہمارے شہر آنا ہو تو ہمارے ہاں ہی قیام کرتے ہیں۔ آپ سے یہ کام تھا‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں سچ صرف اتنا ہوسکتاہے کہ ممکن ہے شکیل صاحب زندگی میں ایک آدھ رات کسی اور کے ساتھ اس شخص کے گھر ایک رات چند گھنٹے رکے ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور باقی سارا جھوٹ ہوسکتاہے۔ اور بدترین اس لیے ہوتاہے ایسا جھوٹ کہ ہمیشہ اِس کے نتائج میں مخلوق ِ خدا کا لازمی طور پر نقصان ہوتاہے۔ اس کے برعکس دوسرا یعنی عام جھوٹ بعض اوقات بے ضرر بھی ہوسکتاہے اور بعض اوقات مفید بھی جسے دروغ ِ مصلحت آمیز کہا جاتاہے لیکن وہ جھوٹ جس میں تھوڑا سا سچ شامل ہے اور جو ہماری روز مرہ زندگی کا خاصہ ہے زیادہ نقصان دہ اور خطرناک بھی ہوتاہے اور ہم خود کو جھوٹا بھی نہیں سمجھتے کیونکہ ہم نے ’’کب جھوٹ بولا۔ سچ ہی تو بتایا‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے اپنے پاس عذر اور جواز ہونے کی وجہ سے وہ ہمیں گلٹی جیسے احساس سے بھی محفوظ رکھتاہے اور تربیت ِ باطنی کے بچے کچھے چانسز بھی جاتے رہتے ہیں۔ اِسی جھوٹ کو بددیانتی کہتے ہیں۔
    حسن ِ عمل کا تعلق تقریر اور تحریر سے قطعاً نہیں ہے۔ کل ایک دوست میری اس بات پر پریشان ہورہے تھے کہ میں نے یوں کیوں کہہ دیا کہ ’’عمل کبھی فلسفہ کا موضوع نہیں رہا‘‘۔ میں اصل میں ان کو اپنا مدعا سمجھا ہی نہیں پایا۔ غلطی میری اپنی ہے۔ عمل ضرور فلسفہ کا موضوع رہا ہے۔ لیکن جو میں نے کہنا چاہتاہوں وہ بالکل اور بات ہے۔ میں مثال سے سمجھاتاہوں۔ اب انقلاب تو فرانس میں بھی آیاہے اور روس میں بھی۔ ان انقلابوں کے پیچھے فلسفی ہیں۔ مثلاً روس کے انقلاب کے پیچھے مارکس جیسا فلسفی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مارکس کے نظریات و افکار کی وجہ سے روس میں انقلاب آیا۔ رائٹ؟
    اس کے برعکس سارے تاریخ دان انقلاب، تو ’’فتح مکہ‘‘ کو بھی کہتے ہیں۔ کیا وہ انقلاب بھی ایسا ہی تھا؟ یعنی جیسا مارکس کے نظریات کی وجہ سے روس میں آیا؟
    ویسا ہی انقلاب تھا وہ جو رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے مکہ میں آیا؟
    کیا فتح مکہ والا انقلاب رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے فقط نظریات و عقائد اور خیالات و افکار کی ترویج و تبلیغ کی وجہ سے آیا؟
    ذرا غور کریں گے تو محسوس ہوگا کہ وہ انقلاب اس وقت آیا جب پوری کی پوری شخصیتیں بدلتیں چکی تھیں۔ ایک شخص جو دس سال پہلے کوئی قاتل، چور، اچکا، بددیانت تھا۔ اب وہ امن کا علمبردار، محافظ، مددگار اور امانت دار بن چکا تھا۔ اس عملی تبدیلی نے اس کی شخصیت کو اندر سے ہی بدل دیا تھا۔ وہ محض انقلابی تقریریں سن کر منقلب نہیں ہوا تھا۔ وہ ایک پراسیس سے گزرا تھا۔ اور اس پراسیس کا تعلق چونکہ یقین ِ قلبی کے ساتھ ہے دماغ کے ساتھ ہے ہی نہیں سو یہ فلسفے کا موضوع اُصولاً بن ہی نہیں سکتا۔ اور یہ تھا میرا مدعا کہ عمل فلسفے کا موضوع نہیں بن سکتا۔
    میرا تو یہ بھی ماننا ہے کہ فلسفہ کا وجود عمل سے اخذ ہوا ہے۔ نیکی پہلے آئی ہے اور فلسفہ بعد میں۔ اور ایک چیز جو خود منبع و ماخذ ہے وہ اپنے بطن سے نمودار ہونے والے دریا کا مشاہدہ کربھی کیسے سکتی ہے؟ ایک زمانہ جانتاہے کہ نیکی اور برائی دونوں کے اثرات چہرے پر دکھائی دیتے ہیں۔ سالہاسال کی حرکتیں شکلوں کو بھی ویسا ہی بنا دیتی ہیں۔ نیکی سے چہرے پر ایک خاص قسم وقار کیوں پیدا ہوجاتا ہے؟ صاحب ِ کردار لوگوں کی آنکھوں میں ایک الگ قسم کی کشش کیوں پیدا ہوجاتی ہے۔ دِل ان کی طرف کیوں کھنچتاہے۔ ظاہر ہے یہ سوال تو آسان ہیں اور ان کے جوابات بھی آسان ہیں۔ لیکن یہ تبدیلی جتنے عرصہ میں نمودار ہوئی اس عرصہ میں کیا ایسا ہوتا رہا کہ جسم بدل گیا۔ آنکھیں بدل گئیں۔ ہارمونز بدل گئے؟ سچ کا اور ہارمونز کا کیا تعلق ہے آپس میں؟
    اسی لیے اقبال نے کہا ہے کہ
    راز ہے راز ہے تقدیر جہان تگ و تاز
    جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز