کراچی میں بس’’ڈان‘‘ کی تبدیلی کا عمل جاری ہے. پرانے بوڑھے اور اب مکافات عمل کا شکار ہونے کے قریب ’’ڈان‘‘ کی جگہ نیا، توانا، طاقتور اور لمبے عرصہ تک نوکری کے لیے معمولی تنخواہ پر نیا ملازم پالش ہاتھ میں لیے ’’اردلی حاضر ہے‘‘ کی صدائیں لگا رہا ہے.
دیکھیں بھائی الطاف حسین کی ملک کے خلاف تقریر کوئی پہلی تو ہے نہیں اور نہ ہی میڈیا پر کھلے اور چھپے حملے کوئی پہلی بار ایم کیو ایم نے کیے ہیں، پھر یہ اچانک فاروق ستار کو ڈرامہ باز قرار دینے سے لے کر دفاتر سیل کرنا اور گرفتاریاں آج ہی کیوں؟
ذرا یہ نیک و بد ہم کو بھی سمجھا دیجیے کہ ملک میں جو پارٹی چاہے پاکستان نہ کھپے اور پاکستان پر لعنت کہتی ہی نہیں سر عام دیواروں پر لکھتی رہے، اندرون سندھ، کے پی اور بلوچستان میں پاکستان سے نفرت کی آگ بھڑ کانے والے جو چاہے کہتے رہیں، پرچم جلاتے رہیں اور خاموش رہا جائے مگر اگر ڈنڈا سرکار کو ملک کے کسی حصہ میں سے کچھ گالیاں پڑ جائیں تو پھر سارا قانون اور آئین بہہ نکلتا ہے، اچانک خبر ملتی ہے کہ آئین کی توہین ہو گئی ہے، آپ کا آہنی ہاتھ حرکت میں آتا ہے اور لانگ اور شارٹ ٹرم وفادار کھڑے کیے جانے لگتے ہیں، آخر کیوں؟ سوال یہ ہے کہ جب میرا موبائل پانچ بار چھن جائے اور کچھ نہ ہو، پچیس ہزار نوجوان مارے جائیں، ہزاوں گاڑیاں جل جائیں اور سپہ سالار کہہ دیں کہ ان کا شہر ہے جو چاہے کریں، بلکہ مکے لہرا کر اسے عوامی طاقت کہیں مگر آپ کی شان میں گستاخی ہو جائے تو پورا کراچی ہلا مارا جائے؟
دیکھیے ایم کیوایم کو سزا میرے نزدیک اس وقت انصاف ہوتی، جب یہ ٹھیک وقت پر ہوتی، اب تو یہ انصاف نہیں، بدلہ، ضد اور غصہ ہے۔
اور ہاں میرا دین عدل کا حکم دیتا ہے ’’ظلم ظالم کے ساتھ بھی جائز نہیں‘‘.جو لوگ آج ایم کیو ایم کے رونے پر ہنس رہے ہیں، کل ان کے رونے پر ہنسنے والے بھی پیدا ہو چکے ہیں.
ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے جرائم کی فہرست کئی کلومیٹرز طویل ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی جان لیجیے کہ جب تک آپ ملک کو چار صوبوں اور چار قومیتوں میں بانٹتے رہیں گے، پانچویں چھٹی ساتویں اور آٹھویں کا راستہ نہیں روک سکیں گے.
ایم کیو ایم کوئی خلا میں کھڑی قوت نہیں، اس نے لاکھوں انسانوں کو شناخت بھی دی ہے اور شناخت روٹی کے بعد دوسری اہم ترین چیز ہوتی ہے. ایم کیوایم نے ہزاروں گھروں کے چولہے بھی جلائے ہیں، اس کے لوگ اپنوں کے لیے قوت اور حق کی علامت بھی ہیں اور جب تک شہر کی قوتیں اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گی، شہر میں بس ڈان تبدیل ہوتے رہیں گے، ان کی تنخواہیں بدلتی رہیں گی، حقیقی سکون نہیں آئے گا.
اور سچ تو یہ ہے کہ جو نفسیاتی کیفیت شہریوں کی ہو چکی ہے، اور جو تذلیل ملیر کینٹ گیٹ سے لے کر نائن زیرو کی چیک پوسٹوں پر بھگتنے کے وہ عادی ہو چکے ہیں، اس کے بعد ان کی صحت پر آقا بدلنے سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔
(مجھے ایم کیو ایم کا حامی سمجھ کر برا بھلا کہنے والوں کو خوش آمدید)
Leave a Reply