ہوم << فاطمہ الفہری: دنیا کی پہلی یونیورسٹی کی بانی اور علمی تاریخ کی معمار - رابعہ فاطمہ

فاطمہ الفہری: دنیا کی پہلی یونیورسٹی کی بانی اور علمی تاریخ کی معمار - رابعہ فاطمہ

بین الاقوامی یومِ خواتین محض ایک رسمی دن نہیں بلکہ ان عظیم خواتین کے کردار کو اجاگر کرنے کا موقع ہے جنہوں نے تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا۔ انہی نمایاں شخصیات میں سے ایک ”فاطمہ الفہری“ ہیں، جنہوں نے ”دنیا کی پہلی یونیورسٹی، جامعہ القرویین“ کی بنیاد رکھی۔ ان کا یہ کارنامہ نہ صرف اسلامی تاریخ بلکہ عالمی علمی ورثے میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

فاطمہ الفہری: علمی بصیرت کی حامل شخصیت
فاطمہ الفہری نویں صدی عیسوی میں "قیروان، تونس“ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان بعد میں ”فاس، مراکش“ منتقل ہوا، جو اس وقت اسلامی تہذیب و ثقافت کا ایک بڑا علمی مرکز تھا۔ ایک متمول خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود، فاطمہ نے اپنی دولت کو محض ذاتی آسائش کے لیے استعمال کرنے کے بجائے ”تعلیم کے فروغ“ کے لیے وقف کیا۔ یہ وہ دور تھا جب مسلم دنیا میں علمی ترقی اپنے عروج پر تھی اور بغداد، قرطبہ اور فاس جیسے شہروں میں تحقیق، فلسفہ اور سائنس کی روشنی پھیل رہی تھی۔ فاطمہ الفہری نے اسی علمی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ”859ء میں جامعہ القرویین“کی بنیاد رکھی۔

جامعہ القرویین: ایک منفرد تعلیمی ادارہ
جامعہ القرویین کو دنیا کی پہلی یونیورسٹی کہا جاتا ہے جو نہ صرف ”یونیسکو بلکہ گنیز ورلڈ ریکارڈ“ کے مطابق بھی قدیم ترین تسلسل کے ساتھ فعال تعلیمی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ محض ایک مدرسہ نہیں تھا بلکہ جدید طرز کی اعلیٰ تعلیم گاہ تھا جہاں مختلف علوم کی تدریس ہوتی تھی، جن میں اسلامی علوم(قرآن، حدیث، فقہ)، عربی زبان و ادب، ریاضی اور فلکیات، منطق و فلسفہ، طبیعات اور کیمیا شامل تھے۔ یہاں مختلف تہذیبوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے تعلیم حاصل کی، جس میں مسلم مفکرین کے علاوہ وہ مسیحی اور یہودی اسکالرز بھی شامل تھے جنہوں نے بعد میں یورپی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) میں اہم کردار ادا کیا۔

جامعہ القرویین اور مغربی دنیا پر اثرات:
فاطمہ الفہری کے قائم کردہ اس ادارے نے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ یورپ پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ مشہور یورپی اسکالر ”پوپ سلویسٹر دوم“ (جو بعد میں یورپ میں تعلیمی اصلاحات کے بانیوں میں شامل ہوئے) نے یہاں تعلیم حاصل کی۔ اسی طرح ”ابن خلدون، ابن رشد، اور موسیٰ بن میمون“ جیسے مسلم مفکرین بھی اس ادارے سے وابستہ رہے۔ یہ وہی ادارہ تھا جہاں ”یورپی جامعات کے تعلیمی ماڈل“ کی بنیاد پڑی، اور بعد میں آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی درسگاہیں اسی روایت کو اپناتے ہوئے قائم ہوئیں۔

فاطمہ الفہری: ایک شاندار منتظم اور بصیرت افروز رہنما:
فاطمہ الفہری نہ صرف ایک ”علم دوست شخصیت“ تھیں بلکہ ایک غیر معمولی ”منتظم“بھی ثابت ہوئیں۔ انہوں نے جامعہ القرویین کے نصاب کو جدید خطوط پر استوار کیا، علمی مکالمے کو فروغ دیا، اور ایک ایسا تعلیمی نظام قائم کیا جو آج بھی دنیا کے بہترین اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے یہ عظیم کارنامہ ایک ایسے دور میں سرانجام دیا جب خواتین کے لیے معاشرتی سرگرمیوں میں شمولیت محدود سمجھی جاتی تھی۔ لیکن انہوں نے اپنے وژن اور عزم سے یہ ثابت کیا کہ خواتین نہ صرف تعلیم حاصل کر سکتی ہیں بلکہ ”تعلیم کے فروغ میں کلیدی کردار بھی ادا کر سکتی ہیں۔“

جامعہ القرویین کی علمی خدمات:
جامعہ القرویین نے نہ صرف دینی اور سائنسی علوم کی تدریس کو فروغ دیا بلکہ یہاں کی تعلیمی روایات نے دیگر اسلامی اور مغربی اداروں پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ نے نہ صرف اسلامی دنیا میں بلکہ یورپی نشاۃِ ثانیہ کے دوران بھی اہم کردار ادا کیا۔ قرون وسطیٰ کے یورپ میں تعلیم کی روشنی پھیلانے والے کئی اہم مفکرین نے براہِ راست یا بالواسطہ جامعہ القرویین کے علمی سرمائے سے استفادہ کیا۔

فاطمہ الفہری کی میراث اور آج کا دور:
آج، جامعہ القرویین مراکش میں قائم ایک جدید یونیورسٹی کی حیثیت رکھتی ہے، جہاں دنیا بھر سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ فاطمہ الفہری کا علمی ورثہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہے۔ ان کا یہ کارنامہ مسلم خواتین کے لیے ایک "مثالی نمونہ“ ہے کہ وہ کس طرح اپنی قابلیت، وسائل اور علم کو استعمال کرتے ہوئے تاریخ میں اپنا مقام بنا سکتی ہیں۔

بین الاقوامی یومِ خواتین اور فاطمہ الفہری کی یاد:
بین الاقوامی یومِ خواتین کے موقع پر، فاطمہ الفہری کا ذکر اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ مسلم خواتین ہمیشہ سے تعلیم، تحقیق اور ترقی کے میدان میں نمایاں کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ فاطمہ الفہری کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ”تعلیم کا فروغ ہی وہ سرمایہ ہے جو نہ صرف فرد بلکہ پوری دنیا کے لیے ترقی اور روشن خیالی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔“ اگر آج ہم ان کے نقشِ قدم پر چلیں، تعلیم اور تحقیق کو اولین ترجیح بنائیں، تو ایک ترقی یافتہ اور باشعور معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔