ہوم << خواتین، انسانی حقوق اور معاشرہ - مدیحہ روبی

خواتین، انسانی حقوق اور معاشرہ - مدیحہ روبی

عورت کو معاشرے میں وہ مقام اور عزت دینا جس کی وہ حقدار ہے، کسی خاص دن یا مہم تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ عالمی یومِ خواتین منانے کا مقصد یہی ہے کہ معاشرے میں خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، لیکن یہ شعور ایک دن کی تقریبات سے بڑھ کر مستقل سوچ اور طرزِ عمل کا متقاضی ہے۔

عورت کا احساسِ تحفظ ایک ایسا بنیادی حق ہے جسے صرف قوانین اور ضوابط سے نہیں بلکہ سماجی رویوں میں تبدیلی لا کر ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں عورت کو قدم قدم پر خوف، ہراسگی یا امتیازی سلوک کا سامنا ہو، وہاں ترقی کا تصور محض ایک فریب رہ جاتا ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی کا دار و مدار اس کے تمام افراد کی مساوی شرکت پر ہوتا ہے، اور جب آدھی آبادی کو عدم تحفظ کا سامنا ہو، تو وہ ملک یا معاشرہ حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کر سکتا۔

مرد کو اکثر اپنے گھر کی عورتوں—ماں، بہن، بیوی اور بیٹی—کا محافظ اور ان کا خیال رکھنے والا سمجھا جاتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے خاندان سے باہر کسی عورت کو بھی وہی عزت دینے کے لیے تیار ہے؟ اگر نہیں، تو اسے اپنی سوچ پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ کیونکہ عورت کی عزت صرف اس کے رشتے کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے، بلکہ بحیثیت انسان اسے احترام دیا جانا چاہیے۔

ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے مرد اور عورت کے حقوق کے حوالے سے دوہرا معیار پایا جاتا ہے۔ ایک طرف، مرد اپنی ماں، بہن اور بیوی کے حقوق کے بارے میں حساس ہوتے ہیں، مگر دوسری طرف وہی مرد جب کسی دوسری عورت سے معاملہ کرتا ہے، تو اس کا رویہ بدل جاتا ہے۔ بازار، دفاتر، تعلیمی ادارے اور عوامی مقامات پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور ہراسانی عام ہے، اور اس کا سبب یہی ذہنیت ہے کہ مرد صرف اپنی قریبی خواتین کو عزت دینے کا پابند سمجھتا ہے، جبکہ باقی خواتین کو مختلف زاویے سے دیکھتا ہے۔

یہ سوچ دراصل ہمارے اجتماعی رویوں کا عکاس ہے، جہاں عورت کو برابر کا انسان نہیں سمجھا جاتا۔ اسے صنفِ نازک کہہ کر اس کی آزادی پر قدغن لگا دی جاتی ہے، اسے لباس، چال ڈھال، تعلیم، نوکری، یہاں تک کہ گھر سے باہر نکلنے کے حوالے سے بھی لاتعداد بندشوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ اگر وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرے تو اسے بدتمیز، باغی، یا مغربی سوچ رکھنے والی قرار دیا جاتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مرد اور عورت دونوں کو برابر کے حقوق دینے کی بات کریں اور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں جہاں عورت کو عزت، تحفظ اور مساوی مواقع حاصل ہوں۔ مرد کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی عورت کی عزت کرنا صرف اس کے رشتے کی بنا پر نہیں بلکہ اس کی انسانیت کے ناطے ضروری ہے۔ اگر ایک مرد یہ سوچ رکھے کہ جو عزت وہ اپنی بہن، بیوی یا ماں کے لیے چاہتا ہے، وہی عزت وہ کسی بھی عورت کو دے گا، تو معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

تعلیم اور تربیت وہ بنیادی عوامل ہیں جو سوچ کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر بچوں کو شروع سے یہ سکھایا جائے کہ عورت کمزور نہیں بلکہ برابر کی شریک ہے، اور اسے بھی وہی عزت، آزادی اور حقوق حاصل ہیں جو مرد کو ملتے ہیں، تو آنے والی نسلوں میں یہ مسئلہ کم ہو سکتا ہے۔

اسی طرح، قوانین کا سختی سے نفاذ بھی ضروری ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ایسے مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں تاکہ ایک مثال قائم ہو۔ خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے حقوق سے مکمل طور پر آگاہ ہوں، کسی بھی قسم کی ہراسگی یا زیادتی کا سامنا ہونے پر خاموش نہ رہیں، اور قانونی مدد حاصل کریں۔

مردوں کو چاہیے کہ وہ خواتین کے حقوق کے حامی بنیں، نہ کہ ان کے راستے کی رکاوٹ۔ اگر ہر مرد اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لے آئے، تو ہم ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں جہاں عورت کو اپنی حفاظت کے لیے کسی دوسرے پر انحصار نہ کرنا پڑے، بلکہ وہ خود محفوظ اور بااختیار ہو۔

احساسِ تحفظ، عزت، اور برابری صرف باتوں یا تقریروں سے نہیں بلکہ عمل سے ممکن ہے۔ ہر شخص کو اپنے دائرہ کار میں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ خواتین کو عزت دے، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے، اور ان کے مسائل کو سمجھے۔ تبھی ہم حقیقی معنوں میں ایک ترقی یافتہ اور مہذب معاشرہ تشکیل دے سکیں گے۔