ہوم << ہندوستانی سرجیکل سٹرائیک اور پاکستانی لطیفے - سید اسرار علی

ہندوستانی سرجیکل سٹرائیک اور پاکستانی لطیفے - سید اسرار علی

سید اسرارعلی سرجیکل سٹرائیک کو ہندوستانی پینتیس پنچر قرار دے کر تحریک انصاف کو رگڑا جا رہا ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف بھی اس سٹرائیک کو نوازشریف کی اوپن ہارٹ سرجری سے تشبیہ دے کر برابر کی چوٹ لگا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر جابجا آپ کو لکھا ہوا نظر آئے گا ، ’’انڈیا کی سرجیکل سٹرائیک اور نوازشریف کی اوپن ہارٹ سرجری میں کوئی فرق نہیں۔ کب ہوئی؟ کہاں ہوئی؟ کیسے ہوئی؟ کچھ پتہ نہیں‘‘۔ ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سارے لوگ انگشت بدنداں ہیں کہ یہ کیسی سٹرائیک تھی کہ جس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ اور تو اور اب دلی سرکار، اروند کیجروال نے بھی مودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سرجیکل سٹرائیک کے ثبوت میڈیا کو فراہم کرے تاکہ پاکستانی پروپیگنڈے کا جواب دیا جاسکے۔ یہ اور بات ہے کہ ثبوت ہوں گے تو مودی سرکار پیش کریں گی نا۔ ثبوتوں کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور ہندوستانی بھانڈوں اور مراثیوں کی طرف سے پاکستانی جگت باز مزاحیہ ٹویٹس کرکے بھرپور مزاح کا سامان کر رہے ہیں۔ ایک ٹویٹ میں کہا گیا کہ ’’اگر سرجیکل سٹرائیک نہیں کی گئی تو ہم سے زبردستی ٹویٹس کیوں کروائے گئے۔ بالی ووڈ ستاروں کا احتجاج‘‘۔
ثبوت فراہم کرنے کے مطالبے پر بھی پاکستانی جگت بازوں نے زبردست لطیفے بنائے۔ سوشل میڈیا اور خاص کر فیس بکی کھوپچے (انباکس) کو عشقیہ مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ اکثر لڑکیوں کی طرف سے تصویروں کے مطالبے پر جواب میں وعدہ لیا جاتا ہے کہ دیکھ کر ڈیلیٹ کریں گے۔ خان بابا کی ریسرچ کے مطابق غالب اکثریت ڈیلیٹ نہیں کرتی۔ خیر ایک مزاحیہ ٹویٹ کے مطابق پاکستان نے بھی ہندوستان سے ثبوت دکھانے کا مطالبہ کیا تو مودی سرکار نے جواب دیا۔ ’’پہلے وعدہ کرو کہ دیکھ کر ڈیلیٹ کر دو گے‘‘۔ کچھ مزاح نگاروں نے ہندوستانی سرکار کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا ’’اگر ہماری سرجیکل سٹرائیک کا یقین نہ کیا گیا تو ہم رو دیں گے۔ بھارت کی اقوام عالم کو دھمکی‘‘۔ ہندوستانی میڈیا بھی اب مسلسل سوالات سے اپنے نیتاوؤں کو پریشان کر رہا ہے۔ نئی دہلی میں سمارٹ ٹوائیلٹ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر جب وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ سے صحافیوں نے سوال کیا کہ بھارت نے سرجیکل سٹرائیک کے حوالے سے ابھی تک ویڈیو فوٹیج کیوں نہیں جاری کی حالانکہ اس کارروائی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے تو راج ناتھ سنگھ لاجواب ہوگئے اور میڈیا کو انتظار کرو اور دیکھو کا مشورہ دے ڈالا۔ ایک پاکستانی مزاح نگار نے اس پر کیا خوب پھبتی کسی، لکھا کہ ’’ہم سے تو ایسی ہی سرجیکل سٹرائیک ہوتی ہے۔ پاکستان کو اعتراض ہے تو کسی اور سے کروالے‘‘۔
جب یہ بات واضح ہوچکی کہ ہندوستانی سرکار کے پاس دکھانے کو کچھ نہیں تو پاکستانی جگت بازوں نے اپنے طرف سے مزاحیہ جوابات دینے شروع کردیے جو فن مزاح کا ایک بہترین شاہکار کہلائے جاسکتے ہیں۔ ایک صاحب نے لکھا کہ ’’سرجیکل سٹرائیک ہوئی ہیں۔ سٹرائیک پاک فوج نے کی اور سرجیکل انڈین ہسپتالوں میں بھارتی فوجیوں کا ہو رہا ہے‘‘۔ ایک صاحب ذوق نے سرجیکل سٹرائیک کے لفظ کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ہندوستانی دعوے کو پارہ پارہ بلکہ مزاح کا فن پارہ کر دیا۔ پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’’منتری جی! ہم تو یہی کہہ رہے تھے کہ ’’سر جی! کل سٹرائیک ہوچکی ہے‘‘ لیکن ان کم بختوں نے اسے’’سر جی کل سٹرائیک‘‘ کی جگہ سرجیکل سٹرائیک رپورٹ کروا دیا۔ بھارتی فوج کا اپنے میڈیا پر الزام‘‘۔ ویسے اس منطق کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سرحد پار سے گولیاں برسا کر بھاگ جانا بھی سٹرائیک کی ایک قسم ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس بزرگ سے ہم بچپن میں بہت تنگ ہوا کرتے تھے، اس کے گھر کی گھنٹی بجا کر بھاگ جایا کرتے تھے۔ اس حوالے سے بھی ایک صاحب نے کیا خوب لکھا ہے ’’بچپن میں ہم گھروں کی گھنٹیاں بجاکر بھاگ جاتے تھے۔ آج پتہ چلا کہ وہ سرجیکل سٹرائیکس تھے‘‘۔
چونکہ عدم ثبوتوں کی بنیاد پر سرجیکل سٹرائیکس اب فرضیکل یعنی فرضی سٹرائیکس ثابت ہوچکے ہیں لہذا ایک رائے یہ بھی ہے کہ بھارتی ہٹ دھرمی کو مان کر اس باب کو بند کیا جائے۔ مشہور سوشل میڈیائی پیج ’’مشعل‘‘ نے اس بارے میں ایک بہت ہی خوبصورت پوسٹ بنائی ہے۔ تصویری پوسٹ میں لکھا گیا ہے،’’سیکورٹی کی نازک صورتِ حال کے پیش نظر پاک بھارت بارڈر پر ہماری فائرنگ کو ہی سرجیکل سٹرائیک سمجھا اور لکھا جائے۔ منجانب:نریندرموذی‘‘۔ ویسے بھی پاکستانی اور ہندوستانی عوام کنٹرول لائن پر آئے روز اشتعال انگیز فائرنگ کا سنتے سنتے بور ہوگئے تھے۔ اس لیے انڈیا والوں نے اسے نیا نام دے دیا، ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘، تھوڑا ماڈرن ہے بٹ گڈ۔
حل کوئی بھی نکلے لیکن سرجیکل سٹرائیک کا ہندوستانی ڈرامہ اب مودی سرکار کے لیے نالی میں پڑی ہوئی گیند کی طرح ہوگیا ہے۔ اگر گیند اٹھائی جاتی ہے تو ہاتھ گندے ہونے ہیں اور اگر نہیں تو گیم نے بند ہوجانا ہے۔ ایسے میں عزت اسی میں ہے کہ اس معاملے پر چپ سادھ لی جائے۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ سرحد کے دونوں طرف کافی دیر تک شور بلند ہوتا رہے گا۔ بھارتی عوام ثبوت (سرجیکل سٹرائیک) مانگ رہی ہوگی اور پاکستانی عوام رسیدیں۔ اس لیے کسی نئے مسئلے اور نئی بحرانی کیفیت تک، سرحدوں کے دونوں طرف کے حکمران طبقے کو برداشت سے کام لینا پڑے گا اور اپنی عوام کو کسی نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا ہوگا۔

Comments

Click here to post a comment