ہوم << صورتوں میں بگاڑ، مگر کیوں - مدیحی عدن

صورتوں میں بگاڑ، مگر کیوں - مدیحی عدن

مدیحی عدن مختلف معاشروں سے لی گئیں یہ تصاویر یقینا پریشان کن ہیں، یہ چیز نہ صرف ہمارے معاشرے میں بلکہ مغربی معاشرے میں بھی انوکھی اور عجیب سمجھی جاتی ہے۔گزشتہ کچھ سالوں سے ان چیزوں میں کافی اضافہ ہوا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو کیا ایسی ضرورت آن پڑی کہ انھیں اپنے ظاہر میں اتنا کچھ انوکھا کرنا پڑ گیا؟۔
%d8%b5%d9%88%d8%b1%d8%aa%db%8c%da%ba آپ کو یہ بات یقینا حیران کُن یا قابل یقین نہیں لگ رہی ہوگی کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے، تو ایسا ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ اگر آپ کو تھوڑا بہت انسانی دماغ کا علم ہو تو معلوم ہوگا کہ انسان جب بھی کچھ نیا یا بڑا کرنے کا سوچتا ہے تو اس کے ذہن میں اس کے بارے میں ایک تصویر یا خاکے کا بننا انتہائی ضروری ہے۔ اگر کسی نے اونچی اڑان کا سوچا تو جہاز کا خاکہ پرندوں سے لیا گیا، ویسے پر اور شکل دی گئی۔ نہ صرف یہ بلکہ پرندوں کی آسمانوں پر اُڑان، ان کے پروں کو پھلانے اور سکڑنے تک کو دیکھا گیا کہ جب پرندہ زمین پر یا نیچے آتا ہے تو پروں کو سُیکڑ لیتا ہے۔ یہی ڈیزائن جہاز کا بھی رکھا گیا۔ مطلب انسان کا دماغ خاکہ اپنی آس پاس کی چیزوں سے بُنتا ہے اور ایک نئی چیز بناتا ہے۔
ممکن ہے کہ ان انسانوں نے بھی اپنے ذہن میں ایک خاکہ بنالیا ہو شیطان/جنوں کے بارے میں کہ وہ دیکھنے میں ایسے لگتے ہوں گے تو انہوں نے اپنی صورتوں میں تبدیلیاں کیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آج کے دور میں دوسرے لوگوں کے مقابلے میں یہ لوگ منفرد دکھائی دینا چاہتے ہیں، کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جس سے وہ بہت حیرت انگیز، قابل نفرت یا خوفناک لگیں۔ ان میں سے کافی خود کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں، اور اُسی کی خاطر اپنی صورتوں میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ لیڈی گاگا بڑی مشہور گُلوکارہ ہے اور اپنے آپ کو شیطان کی پجارن کہتی ہے۔ بعض کی فطرت اتنی مسخ ہو چکی ہے کہ وہ بس صوت پر نت نئےتجربات کر کےخوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے تفریح کا ذریعہ ہی صورتوں کو بگاڑنے میں ہے۔ حتی کہ خوش رہنے کے لیے ان کے معاشرے میں ہر چیز ہے، سوائے سُکون کے۔ حال ہی میں برطانیہ کہ ٹیڈ رچرڈ نامی ایک بندے نے اپنے دونوں کان کاٹ دیے اور وجہ یہ بتائی کہ وہ اپنے طوطے سے اتنا پیار کرتا ہے کہ اس جیسا لگنا چاہتا ہے۔ اُسی طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جن میں انسانوں نے اپنی تخلیق کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔
اسلام آنے سے پہلے، زمانہ جہالیت میں اکثر لوگ جانوروں کے کان کاٹ دیا کرتے تھے یا سوراخ دار کر کے اُسے اپنے من گھڑت معبودوں کے نام کر دیا کرتے تھے۔ ان کی تخلیق میں تغیر و تبدل کرنے کی وجہ یہ ہوتی کہ ایک پہچان پیدا ہو جائے، جیسے کان کٹی بکری دور سے پہچانی جا سکتی تھی کہ یہ فلاں بُت کے نام وقف ہے لہٰذا اس سے کوئی کام نہ لیا جائے۔ ان کی تخلیق میں تغیر کی بڑی وجہ باطل معبودوں کی محبت اور پوجا تھی۔ کچھ خاص کر کے وہ لوگ اپنے جذبات بتانا چاہتے تھے کہ ان کی محبت کتنی زیادہ ہے اپنے بنائے ہوئے خداؤں کے لیے۔
”اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا اور یہ سکھاتا رہوں گا کہ جانوروں کے کان چیرتے رہیں اور (یہ بھی) کہتا رہوں گا کہ وہ خدا کی بنائی ہوئی صورتوں کو بدلتے رہیں. ۴:۱۱۹“
یہاں پر خیالی امیدیں دلانے والا، جانوروں کہ کان چیرنے اور خدائی صورتوں میں بگاڑ سکھانے والا شیطان ہے جو دعوی کر رہا ہے کہ وہ یہ سب سکھائے گا، انسانوں کو۔ عصر حاضر کا انسان اس پر مہر تصدیق ثبت کرتا دکھائی دیتا ہے.