دوسرے لڑکے جس کا نام شاید واصف تھا، کے ہاتھ سے موٹرسائیکل چُھوٹ گئی اور وہ سڑک کے دوسری جانب نصب آہنی جنگلے سے ٹکرا کر سڑک پر گر گیا. حادثے کی جگہ پر بہت سے لوگ جمع ہو گئے اور اس کے پاس بیٹھ کر آپس میں باتیں شروع کر دیں. کوئی کہہ رہا تھا:
"سانسیں چل رہی ہیں، سر اور کانوں سے خون بہہ رہا ہے، کندھے کے پاس سوجن ہوگئی ہے، فریکچر ہے شاید، ایمبولینس کو فون کرو، جتنا زخمی ہے، شاید ہی بچ پائے وغیرہ وغیرہ.
اسی اثنا میں ایک لڑکا تیزی سے ہجوم کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور اس لڑکے کا سر اپنی گود میں رکھتے پکارنے لگا:
"واصف! آنکھیں کھولو، میری آواز سن رہے ہو؟ مَیں ہوں تمہارا بھائی معاذ...!"
لڑکے کے ہاتھ میں تھوڑی جنبش ہوئی پھر اس کا سر ایک جانب ڈھلک گیا. ایمبولینس کے آتے ہی لڑکے کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا.
سفید کفن میں لپٹی 17سالہ واصف کی لاش جب اس کے گھر پہنچی تو غمزدہ ماں باپ کے کرب کی کوئی انتہا نہ تھی. اپنوں کی تسلیاں بھی ایسے مواقع پر کم ہی اثرانداز ہوتی ہیں اور صبر جمیل جیسے الفاظ کا مفہوم بھی اکثر سمجھ سے بالاتر ہو جاتا ہے. اس لڑکے کے ماں باپ کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا. کیا، کب، کیوں اور کیسے؟ جیسے سوالات دونوں میاں بیوی کے ذہن میں مسلسل گردش کر رہے تھے. واصف کا باپ قیصر اس منحوس گھڑی کو کوس رہا تھا جب اس نے اکلوتے بیٹے کی موٹرسائیکل لے کر دینے کی ضد پوری کرنے کے چکر میں اپنا ہی نقصان کروا لیا تھا.
والدین بیٹوں کی خواہش کرتے ہیں تاکہ وہ پڑھ لکھ کر کسی اچھے مقام پر فائز ہوں اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکیں، بڑھاپے میں ان کا سہارا بن سکیں، دنیا سے رخصت ہونے پر ان کی لاش کو کندھا دیں، انہیں اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتاریں اور ان کے ایصال ثواب کےلیے نیک اعمال کریں لیکن نوجوان نسل ایڈونچر اور تھرل کے چکروں میں پڑ کر یہ سمجھ ہی نہیں پاتی اور انہیں ایسے غم سے دوچار کر دیتی ہے جس کا مداوا ناممکن ہوتا ہے.
آئے روز اخبارات و سوشل میڈیا ذرائع سے ون ویلنگ کے دوران نوعمر لڑکوں کے حادثات کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں. سوشل میڈیا پر ایک بڑی تعداد نوعمر بچوں کی ہے جو ایسے حادثات کے بارے میں آگاہ ہونے کے باوجود پرواہ نہیں کرتے اور زخمی ہونے کے علاوہ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں. کچھ صاحبِ علم و دانش حضرات حکومت پر تنقید کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں مگر اس کے نقصانات سے ان بچوں اور والدین کو کم ہی قائل کر پاتے ہیں. حکومتی سطح پر اس حوالے سے وقتاً فوقتاً قانون سازی بھی ہوتی رہی ہے جبکہ اس بار پنجاب حکومت کی طرف سے ون ویلنگ پر پابندی اور سزا کے قانون کو یقینی طور پر قابلِ عمل بنایا گیا ہے، جو کہ یقیناً قابلِ تحسین اقدام ہے- اللہ ان ناسمجھ والدین کو ہدایت دے جو شوق پورے کرنے کے چکر میں اپنے ہی جگر گوشوں کے لیے جانے انجانے میں موت کا سامان کر رہے ہوتے ہیں، اور ان بچوںکو سمجھ دے جو یوں اپنے والدین کو اکیلا چھوڑ جاتے ہیں. (آمین)
(محمد بن کامران ہے آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور ایک انٹرنیشنل کمپنی میں بطور سیکیورٹی ایڈوائزر کام کر رہے ہیں)
ون ویلنگ، لمحوں کی خطا - محمد بن کامران

تبصرہ لکھیے