یہ زمان و مکاں کی وسعتوں سے ورا ایک ایسی انوکھی داستان ہے کہ جہاں آ کر وقت ٹھہر جاتا ہے، عقل حیران ہے، الفاظ میں اتنی وقعت نہیں کہ وہ اس کو بیان کر سکیں، قلم میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اس کو صفحہ ِقرطاس پہ اُتار سکے اور وہ جو کہتے تھے کہ اے خدا انسان کو پیدا نا کر، سوچ رہے ہیں کہ یہ انسانیت کی کیسی معراج ہے؟ میرا کوئی اور موضوع نہیں فقط کربلا سے وابستہ یاد ہے۔
تمام طرح کے آلاتِ حرب و ضرب سے لیس ہزاروں کے لشکر کے سامنے ۷۲ لوگوں کا ڈٹ جانا عقل والوں کی سمجھ میں نہیں آتا، جو بھی حسین سے فیض لینے آتا ہے، وہ سوچ کے پیمانے دہلیز پہ توڑ کے آتا ہے ۔ آپ ؓ کا تن تنہا حق مخالف قوتوں کے سامنے پختہ عزم و یقین کے ساتھ کھڑے رہنا حق کے لیے لڑنے والوں کو درس دیتا ہے کہ لوگو! یاد رکھنا تم جب بھی سچائی کی جنگ لڑنے نکلوگے تو تمہارے ساتھ صرف چند ساتھی ہی نکلیں گے، باقی سب تمہارے سامنے صف آرا ہوں گے مگر تم ہمت نہ ہارنا، میری زندگی سے رہنمائی طلب کرنا اور میرے انکار کی طرح ڈٹے رہنا، جیت تمہارا مقدر ہوگی۔ تمہیں مٹانے والے مٹ جائیں گے مگر تمہارا نام، کردار اور کام دنیا کے لیے باقی رہے گا۔
جب اہلِ بیت کو رُلایا گیا تھا، تپتی ریت پہ تڑپایا گیا تھا، جب عباس علمدار ؓ کو خون میں نہلایا گیا تھا، جب گھر جلے تھے، جب خیموں کو آگ لگی تھی، جب سہاگ اُجڑے تھے، جب معصوم یتیم ہوئے تھے، جب بہنوں سے ویر جدا ہوئے تھے، جب جوانیاں کربلا کی ریت پہ ٹھنڈی ہو گئیں، جب ننھے علی اصغر کی حلق میں تیر اُتارا گیا اور جب سرِحسین ؓ کو تنِ حسینؓ سے جدا کیا گیا۔
”اے آسمان! اہلِ بیت کے خون کی لالی کو بادلوں پہ لیے خاموش کیوں رہا؟ تو نے یہ المیہ برداشت کیسے کیا؟ تو رقتِ جذبات سے پھٹ کیوں نہ گیا؟“
”اے دردِ زوال سے غروب ہوتے سورج تو افق پہ سرخی پھیلائے یہ سب دیکھتا رہا۔ لشکرِ یزید تیری حدت کا نشانہ کیوں نہ بنا؟“
”حسینؓ کے ہونٹوں کو ترستے فرات! تیرے پہلو میں ظلم و بربریت کی انتہا کر دی گئی اور توُ جوں کا توں بہتا رہا۔ تیری موجوں میں اضطراب کیوں نہ پیدا ہوا؟ تیرا رخ کیوں نہ بدل گیا؟“
”اپنا آپ اسلام کے لیے قربان کرنے والے اس کائنات کے تابناک چہرے ۴۰ دن تک تیرے سینے پر بےگور وکفن پڑے رہے۔ اے زمین! تو کرب سے پھٹ کیوں نہ گئی؟“
آپؓ کا مشن کتنا عظیم تھا، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آج ان گنت حسینؓ کے نام لیوا دنیا میں موجود ہیں جو آپ کی تعلیمات سے روشنی پا رہے ہیں۔ یزید مٹ گیا، اُس کا نام لیوا تو دور کی بات، کسی کو یہ تک معلوم نہیں کہ اُس کی قبر کہاں ہے اور نہ ہی کوئی جاننا چاہتا ہے۔ وہ جو حاکم بنا پھرتا تھا، اُسے اُس کے اپنے ہی گھوڑے نے پائوں تلے روند ڈالا۔ برائی کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو اُس کا انجام مٹنے کے سوا کچھ نہیں۔
ہر روز ہزراوں لوگ حسینؓ ابن علیؓ کے درِ اقدس پہ فیض طلب کرنے جاتے ہیں اور اُن کی تعلیمات سے اپنے من روشن کرتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی جو حق کے لیے صف آرا ہے، اُس کے لیے رہنمائی ہے آپؓ کی زندگی میں۔ تاریخ کے اوراق کھلتے ہیں تو پتا ملتا ہے آپؓ کے ارشادات کا:
”اگر دنیا میں انقلاب لانا چاہتے ہو تو تہذیبِ نفس کا آغاز خود سے کرو دُنیا خود بدل جائے گی۔“
”شان کے ساتھ مرنا ذلت سے جینے سے بہتر ہے۔“
حفیظ جالندھری مرحوم نے امامِ حسینؓ کوجو نذرانہِ عقیدت پیش کیا ہے، وہ میدان کربلا کے لمحات کا منظر نامہ ہے، جسے میں یہاں نقل کر رہا ہوں۔
لباس ہے پھٹا ہوا ، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسم ِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حسینؓ ہے ، نبیﷺ کا نورِ عین ہے
یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نا پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حسینؓ ہے، نبیﷺ کا نورِ عین ہے
یہ جسکی ایک ضرب سے،کمالِ فنِ حرب سے
کئی شقی گرے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماںزبانِ شرق و غرب سے
یہ بالیقیں حسینؓ ہے، نبی ﷺ کا نورِ عین ہے
عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگارہے
زمین بھی تپی ہوئی فلک بھی شعلہ بار ہے
مگریہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کار زار ہے
یہ بالیقیں حسینؓ ہے، نبی ﷺ کانورِ عین ہے
دلاوری میں فر د ہے، بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جس کے دبدبے سے رنگ دشمنوں کا زرد ہے
حبیبِ مصطفیﷺ ہے یہ، مجاہدِ خدا ہے یہ
جبھی تو اس کے سامنے، یہ فوج گرد گرد ہے
یہ بالیقیں حسینؓ ہے، نبیﷺ کا نورِ عین ہے
اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط امام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حسینؓ ہے نبی کا نورِ عین ہے
تبصرہ لکھیے